Getty Imagesفائل فوٹو
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع بلال ٹاؤن کی رہائشی خاتون پروین (فرضی نام) نصف شب کو پولیس سٹیشن پر یہ درخواست لیے موجود تھیں کہ اُن کے پہلو میں سوئی نومولود بیٹی کو نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا ہے۔
اس کیس کی ایف آئی آر کے مطابق والدہ نے پولیس کو بتایا کہ ’17 اگست کی علی الصبح اُن کی ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی تھی۔ 17 اور 18 اگست کی درمیانی شب رات دو بجے میں نے بچی کو دودھ پلایا، جس کے بعد وہ سو گئی۔‘
’میں نے بچی پر کمبل ڈال دیا اور اس کے بعد میں بھی سو گئی۔ مگر 15 منٹ بعد جب میری آنکھ کُھلی تو بچی بستر پر موجود نہیں تھی۔‘
ایف آئی آر کے مطابق والدہ نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے گھر میں اپنے شوہر اور شوہر کے دو بھائیوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔
مقامی پولیس کے مطابق خاتون نے مزید بتایا کہ بچی کی گمشدگی کے فوری بعد انھوں نے ’شور شرابہ کیا اور گھر والوں کو آگاہ کیا‘ جس پر اُن کے ’شوہر اور دیوروں نے بچی کی تلاش شروع کی مگر نومولود کا کوئی سراغ نہ ملا۔‘
خاتون نے پولیس سے استدعا کی کہ بچی ڈھونڈنے میں اُن کی مدد کی جائے، جس پر پولیس نے اغوا کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا اور تفتیش کا آغاز کر دیا۔
یہ واقعہ بلال ٹاؤن میں پیش آیا جو اسلام آباد کے تھانہ کھنہ کی حدود میں ہے۔
’شبہ تھا گھر میں موجود کوئی فرد جرم میں شامل ہے‘
پولیس سٹیشن کھنہ کے انچارج عامر حیات نے بی بی سی کو بتایا کہ تفتیش کے پہلے مرحلے میں انھوں نے جائے وقوعہ کے نزدیکی علاقوں سے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ '
’چونکہ یہ ایک پسماندہ علاقہ ہے اس لیے بڑی تعداد میں سی سی ٹی وی کیمرے موجود نہیں تھے۔ تاہم اس علاقے میں موجود بلال مارکیٹ میں لگے ہوئے کیمروں کی فوٹیج حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ وقوعے کی رات لگ بھگ ڈھائی بجے نومولود بچی کے والد اور دو چچا بچی کو تلاش کرنے کی غرض سے اِدھر اُدھر بھاگتے اور کوشش کرتے نظر آئے۔‘
انھوں نے بتایا کہ پولیس نے اُس گھر کا جائزہ بھی لیا جہاں سے بچی غائب ہوئی تھی اور مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی کہ ’گھر کا دروازہ اندر سے بند ہوتا ہے اور کوئی باہر سے آ کر دروازہ نہیں کھول سکتا، اس لیے پولیس نے اس نقطے سے اپنی تفتیش کا آغاز کیا۔‘
پولیس حکام کے مطابق جائے وقوعہ کے جائزے اور گھر والوں کے بیانات کے باعث یہ شبہ تھا کہ ’گھر ہی میں موجود کوئی فرد اس جرم میں شامل ہے۔‘
Getty Imagesپولیس حکام کے مطابق جائے وقوعہ کے جائزے اور گھر والوں کے بیانات کے باعث یہ شبہ تھا کہ ’گھر ہی میں موجود کوئی فرد اس جرم میں شامل ہے‘’ڈیلیٹ شدہ میسج‘
عامر حیات کے مطابق اسی لیے اگلی ہی صبح یعنی 19 اگست کو نومولود بچی کے والد اور گھر میں اُن کے ساتھ رہنے والے ان کے دو بھائیوں کے موبائل قبضے میں لیے گئے اور ان کے انٹرویوز بھی کیے گئے۔
عامر کے مطابق نومولود بچی کے دونوں چچا واٹر ٹینکر کے ذریعے پانی سپلائی کا کام کرتے ہیں۔
اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایک پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ بچی کے والد کو پوچھ گچھ کرنے کے لیے تھانے بلایا گیا تھا، مگر ’ان کا بیان پہلے بیان سے مل نہیں رہا تھا۔ اور چاروں مرتبہ ان کا بیان پولیس کو دیے گئے پہلے بیانسے میل نہیں کھاتا تھا۔‘
ایس ایچ او تھانہ کھنہ کے مطابق والد کے بدلتے ہوئے بیانات کو دیکھتے ہوئے ملزم کے زیر استعمال موبائل فون کا ریکارڈ حاصل کیا گیا تو معلوم ہوا کہ انھوں نے وقوعہ کی رات اپنے بہت سے میسجز ڈیلیٹ کیے تھے جنھیں ریکور کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ’جس نمبر پر کیے گئے میسجز ڈیلیٹ کیے گئے تھے وہ نمبر بھی فون میں محفوظ نہیں تھا۔‘ ان کے مطابق اسی نامعلوم نمبر سے آخری میسج میں لکھا تھا ’اللہ حافظ، بائے۔‘
ایس ایچ او کے مطابق آخری ڈیلیٹ شدہ میسج کا وقت لگ بھگ وہی تھا جب بچی کی والدہ کے مطابق نومولود بچی کے اغوا کا واقعہ رونما ہوا تھا۔ ’اُس نمبر پر کال کی گئی تو کسی خاتون نے کال ریسیو کی اور اپنا نام بتایا۔‘
گلگت سے ’اغوا‘ ہونے والی کم عمر بچی کی مانسہرہ میں شادی: ’میری بیٹی نے صرف چھ جماعتیں پاس کی ہیں‘منڈی بہاؤالدین: پانچ سالہ بچے کا اغوا اور بازیابی، ’کوئی جانتا تھا کہ باغ بکنے کے بعد گھر میں رقم ہے‘پنجاب میں بچوں کے اغوا کے بڑھتے واقعات میں کتنی صداقت ہے؟اغوا کے بعد قتل ہونے والی آٹھ سالہ بچی کی آخری رسومات ادا کرنے والے شخص کا 48 سال بعد اعتراف جرم
سب انسپکٹر عامر حیات کا کہنا تھا کہ جب اس خاتون کے بارے میں ملزم سے پوچھا گیا تو ’پہلے تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا لیکن جب پولیس نے روایتی تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ والد ہی بچی کے اغوا میں ملوث تھا۔‘
عامر حیات کے مطابق یہی وہ موقع تھا جس اس کہانی سے جڑے تین مزید کردار سامنے آئے۔
پولیس کے مطابق نومولود بچی کے والد واٹر ٹینکر چلاتے ہیں اور دو سال قبل اُن کی شناسائی انھی کی گلی میں رہنے والی ایک خاتون سے ہوئی، جن کی بیٹی کی شادی چار سال پہلے ہوئی تھی مگر ان کے ہاں اولاد نہیں ہو رہی تھی۔
پولیس کے مطابق ’ملزمپہلے سے ہی تین بچوں کا باپ ہے اور انھوں نے خاتون سے وعدہ کیا تھا کہ اب ان کے ہاں کوئی بیٹا یا بیٹی پیدا ہوئی تو وہ اسے خاتون کی بیٹی کے حوالے کر دے گا۔‘
تفتیشی افسر نے دعویٰ کیا کہ اس دوران جب ملزم کی اہلیہ حاملہ ہوئیں تو انھوں نے اس کی اطلاع خاتون کو دی۔ ’خاتون نے اس بابت اپنی بیٹی کو بتایا جس نے اپنے سسرال والوں کو اپنے حاملہ ہونے کے بارے میں بتایا۔‘
پولیس افسر کے مطابق نو ماہ تک یہ معاملہ ایسے ہی چلتا رہا۔
ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ ’جس بے اولاد لڑکی کو بچی دی جانی تھی اس کا شوہر اس معاملے سے آگاہ تھا مگر لڑکی سسرال والوں کے سامنے پیٹ پر کپڑا باندھ کر گھومتی رہی تاکہ وہ حاملہ ہی نظر آئے۔‘
Getty Images
پولیس کے مطابق ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ جب اس کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی تو اس نے ’اس کی اطلاع سب سے پہلے اس خاتون کو کی اور بتایا کہ وہ اپنا وعدہ نبھائے گا اور اپنی بیٹی خاتون کی بے اولاد بیٹی کو دے دے گا۔‘
پولیس کا کہنا تھا اس دوران خاتون کی بیٹی ڈیلیوری کے بہانے اپنی والدہ کے گھر منتقل ہو گئی۔
ایس ایچ او کے مطابق ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ اس نے 18 اگست کی رات کو خاتون کے حوالے اپنی نومولود بیٹی کر دی جس کے بعد خاتون نے بچی کی ولادت کی اطلاع اپنی بیٹی کےسسرال والوں کو دیجہاں پر پولیس کے بقولپہلے بچے کی پیدائش کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق ملزم کے اعتراف جرم کے بعد بچی کی بازیابی کے لیے جب پولیس خاتون کے گھر پہنچی تو انھوں نے بچی دینے سے انکار کیا اور بتایا کہ یہ ان کی بیٹی ہے جس کی پیدائش پاکستان انسٹیٹیوٹ اف میڈیکل سائنسز یعنی پمز میں ہوئی ہے۔
ایس ایچ او عامر حیات کا کہنا تھا کہ پولیس نے پمز کے گائنی وارڈ کا ریکارڈ چیک کیا تو وہاں پر خاتون کے نام کا اندراج نہیں تھا۔
اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل پولیس اہلکار کے مطابق جس ملزمہ کو بچی دی گئی تھی اس نے بعد ازاں دوران تفتیش بتایا کہ جب ملزم نے اپنی نومولود بچی کو اُن کے حوالے کیا تو وہ اپنی والدہ اور شوہر کے ساتھ پمز ہسپتال کے گائینی وارڈ میں گئیں، اور اس موقع پر نومولود بچی کے ساتھ ویڈیو بنا کر اپنے سسرال والوں کو بھی بھیجی تھی۔
ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ پولیس نے نومولود بچی کو بازیاب کروانے کے بعد اس کی والدہ کے حوالے کر دیا ہے جبکہ ملزمان بشمول بچی کے والد اور اس خاتون اور ان کی بیٹی اور بیٹی کے شوہر کو گرفتار کیا گیا ہے جن کے حوالے یہ بچی کی گئی تھی۔
بدھ کے روز ان چاروں ملزمان کو اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کیا جس پر انھیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
اس مقدمے کے تفتیشی افسر نے عدالت سے ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جس پر متعلقہ عدالت کے جج کا کہنا تھا کہ جب اس مقدمے میں نومود بچی کی برآمدگی ہو چکی ہے تو پھر جسمانی ریمانڈ کا کوئی جواز نہیں ہے۔
عدالت نے پولیس افسر کی استدعا کو مسترد کرتے ہوئے ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
پنجاب میں بچوں کے اغوا کے بڑھتے واقعات میں کتنی صداقت ہے؟لاہور میں اغوا برائے تاوان کی واردات: ’بینکوں سے ادھار لیں یا بچے بیچیں، دس کروڑ چاہییں‘گلگت سے ’اغوا‘ ہونے والی کم عمر بچی کی مانسہرہ میں شادی: ’میری بیٹی نے صرف چھ جماعتیں پاس کی ہیں‘منڈی بہاؤالدین: پانچ سالہ بچے کا اغوا اور بازیابی، ’کوئی جانتا تھا کہ باغ بکنے کے بعد گھر میں رقم ہے‘اغوا کے بعد قتل ہونے والی آٹھ سالہ بچی کی آخری رسومات ادا کرنے والے شخص کا 48 سال بعد اعتراف جرم