بنوں فوجی مرکز پر حملے میں ہلاک ہونے والے ’ایڈونچر پسند‘ میجر عدنان اسلم کون تھے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 10, 2025

دو ستمبر کو صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں ایک فوجی مرکز پر حملے کے دوران ہلاکہونے والے پاکستان فوج کے سپیشل سروس گروپ (ایس ایس جی) کے میجر عدنان اسلم کی آخری رسومات ادا کرنے کے بعد انھیںسپرد خاک کردیا گیا ہے۔

گذشتہ روز میجر عدنان کی نماز جنازہ میں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کے علاوہ فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے بھی شرکت کی تھی۔

اس موقع پر وزیرِ اعظم شبہاز شریف نے میجر عدنان اسلم کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی بہادری کو ہمشیہ یاد رکھا جائے گا۔

میجر عدنان اسلم20 جولائی 1994 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ وہ برطانیہ کی رائل ملٹری اکیڈمی سینڈرسٹ کے گریجویٹ تھے، جو دنیا کے معروف ترین فوجی اداروں میں سے ایک ہے۔

میجر عدنان پاکستان آرمی کی اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) سے وابستہ تھے۔

میجر عدنان اسلمکی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ بنوں میں ہونے والے حملے کے دوران اپنے جسم کو ڈھال بنا کر اپنے ساتھی کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی میجر عدنان کی بہادری کو سراہا جا رہا ہے اور کئی افراد یہ بھی کہتے ہوئے نظر آئے کہ دو فوجی اہلکار ایک دوسرےکو بچانے کے لیے ایک لڑائی لڑ رہے ہیں۔

ان کی شخصیت کے بارے میں جاننے کے لیے بی بی سی اردو نے ان کے رشتے داروں سے بات کی ہے۔

میجر عدنان اسلم کے قریبی رشتہ دار یوسف خان ایڈووکیٹ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ہم تک وائرل ہونے والی ویڈیو سے متعلق جو معلومات مصدقہ زرائع سے پہنچی ہیں اس کے مطابق اس ویڈیو میں نظر آنے والے واقعے سے پہلے میجر عدنان اسلمدو دہشت گردوں کا خاتمہ کرکے آئے تھے، جس کے بعد ایک اور دہشت گرد کی گولی میجر عدنان کی ٹانگ میں لگی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گرد دیوار کی طرف سے فائرنگ کر رہا تھا، گولی لگنےکے بعدجب میجر عدنان نے دیکھا کہ ان کے ساتھی بھی خطرے کا شکار ہیں تو انھوں نے فوراً ان کو محفوظ کرنے کے اقدامات شروع کردیے۔ انھوں نے اپنے ساتھی کی ڈھال بننے کی کوشش کی۔ اس موقع پر اس دہشت گرد کی فائرنگ سے ایک اور گولی میجر عدنان اسلم کو لگی۔‘

یوسف خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’میجر عدنان کے ساتھی انھیں محفوظ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس دوران کبھی میجر عدنان اوپر ہو کر ڈھال بنتے اور کبھی ان کے ساتھی ان کی ڈھال بن جاتے۔‘

’دونوں کی ایک دوسرے کو بچانے کی لڑائی میں میجر عدنان حاوی رہےٹ وہ ایک تربیت یافتہ کمانڈو، اونچے لمبے قد کے مالک تھے۔‘

یوسف خان ایڈووکیٹ نے مزید بتایا کہ ’اس دوران دہشت گرد نے دونوں پر فائرنگ کی اور میجر عدنان نے بھی اپنی تربیت کو بروئے کار لاتےہوئے دہشت گرد پر فائرنگ کی، جس کے بعد دہشت گردتھوڑا پیچھے ہٹا اور اس نے اپنے پاس موجود ایک ہینڈ گرینڈ نکالا۔‘

یوسف خان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ’اس دوران دہشت گرد پیچھے ہٹا تو وہ بکتر بند گاڑی کے پیچھے موجود میجر عدنان اسلمکے ساتھیوں کے نشانے پر آ گیا۔ انھوں نے اس پر فائرنگ کی تو اس کے جسم کے پاس ہینڈ گرینڈ کے ساتھ ساتھ خودکش جیکٹ بھی پھٹ گئی۔‘

’زندگی سے بھرپور جوان مرد کی ٹانگ کاٹنے کے معاملے پر سب چُپ تھے‘

یوسف خان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ’زخمی میجر عدنان اسلمکو پہلے پشاور اور پھر راولپنڈی کے ہسپتال میں پہنچایا گیا۔ ان کا بلڈ گروپ اے نیگٹو تھا۔ ان کے دوستوں، رشتہ داروں، ساتھیوں نے چالیس پوائنٹ خون کا انتظام کیا تھا۔‘

’وہ کبھی ہوش میں آجاتے اور کبھی بے ہوش ہو جاتے تھے۔ ان سات دنوں کے دوران ان کا کوئی رشتہ دار، دوست، ساتھی نہیں سویا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس دوران ایک بہت ہی مشکل فیصلہ بھی ہوا جب ڈاکٹروں نے بتایا کہ میجر عدنان کے جسم میں انفیکشن پھیل چکا ہے، زندگی بچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی ٹانگ کاٹ دی جائے۔ اب زندگی سے بھرپور جوان مرد کی ٹانگ کاٹنے کی اجازت دینے کے معاملے پر سب چپ تھے۔‘

ہندو ماں اور مسلمان باپ کا بیٹا کیپٹن حنیف جس کی لاش اُٹھانے کے لیے انڈین فوج کو پاکستان کے خلاف آپریشن کرنا پڑامچھ آپریشن: ’تھانے کی چھت پر کھڑے حملہ آور پولیس کو ہتھیار ڈالنے کے لیے کہتے رہے‘جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیاپاکستانی فوج دوران سروس ہلاک ہونے والے اہلکاروں کے اہلخانہ کو کیا مراعات دیتی ہے؟

یوسف خان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ’مگر اس موقع پر ان کے ایک بردار نسبتی نے ہمت کی اور کہا کہ وہ لکھ کر دیں گے کہ ٹانگ کاٹ دیں اور میجر عدنان کی زندگی کو بچا لیں۔ وہ بعد میں میجر عدنان کو سمجھا دیں گے۔‘

یوسف خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اس ہی کشمکش میں میجر عدنان زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

ان کے مطابق میجر عدنان چھٹی پر تھے اور راولپنڈی واپس آنے سے قبل ان کا پڑاؤ بنوں میں تھا۔

’جب بنوں میں حملہ ہوا اور آپریشن کے لیے ایس ایس جی کمانڈوز کی ضرورت پڑی تو میجر عدنان اور ان کے ساتھیوں نے اپنی خدمت پیش کر دیں۔‘

’میجر عدنان چھ ماہ کی بیٹی کو گود میں اٹھانے کو بے چین تھے‘

یوسف خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ میجر عدنان نے سوگواروں میں دو بچےاور بیوہ چھوڑی ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا اڑھائی سال کا ہے جبکہ ان کی چھوٹی بیٹی صرفچھ ماہ کی ہے۔

یوسف خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’میجر عدنان اپنی بیٹی کی پیدائش کے وقت اپنے فرائض پر تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹی کو اپنی گود میں نہیں اٹھایا تھا۔ بس اس کو کبھی کھبار ویڈیو کال اور تصاویر ہی پر دیکھا تھا۔‘

’میجر عدنان چھ ماہ کی بیٹی کو گود میں اٹھانے کو بے چین تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ’جب میجر عدنان کو چھٹی مل گئی تو انھوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ فیصلہ کیا تھا کہ وہ کچھ دن راولپنڈی میں اپنے گھر پر رہنے کے بعد کچھ دن تفریح کرئیں گے۔ اس کے لیے وہ اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ ایبٹ آباد میں رہائش رکھیں گے اور پھر وہاں ہی سے آگے تفریح کے لیے جائیں گے۔ جس کے تمام انتظامات بھی مکمل تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میجر عدنان کی والدہ اور ان کے والد بھی ان کا انتظار کررہے تھے۔ مگر انھوں نے اپنے بیٹے کے جنازے کا استقبال بہت بہادری سے کیا ہے۔‘

یوسف خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’میجر عدنان اسلم کے خاندان نے دہائیوں قبل سوات سے راولپنڈی میں رہائش اختیار کرلی تھی۔ ان کے والد پوسٹ مین کی خدمات انجام دیتے رہے تھے۔وہ بچپن ہی سے ایکتربیت یافتہ ایتھلیٹ اور کھلاڑی تھے۔ ان کے ماموں فرمان مشہور زمانہ ایتھیلیٹ تھے جو کہ مارشل آرٹ، پیرا گلائیڈنگ کی تربیت دیتے تھے اور میجر عدنان اسلم کو ان سب معاملات میں بچپن ہی سے تربیتدے دی تھی۔‘

’عدنان بچپن ہی ایڈونچر پسند تھے‘

میجر عدنان اسلم کے ماموں عمران احمد نےبتایا کہ وہ اور میجر عدنان اسلم ایک ہی گھر میں رہائش پزیر تھے ’ہم دونوں میں بہت دوستی تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ میں ان کا استاد بھی ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میجر عدنان اسلم بچپن ہی سے ایڈونچر کے شوقین تھے۔ بچپن ہی میں وہ تیراکی، پیرگلائیڈنگ، کراٹے، مارشل آرٹ، باکسنگ وغیرہ کے ماہر بن چکے تھے۔‘

’ان کی تربیت میرے بڑے بھائی فرمان احمد (جن کو ایڈوچر سپورٹس اور دیگر خدمات پر تمغہ امتیاز ملا ہے) نے کی تھی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’میجر عدنان فوج میں جانے سے پہلے اپنے ماموں کی اکیڈمی میں جاتے تھے۔‘

عمران احمد کہتے ہیں ’میجر عدنان اسلم کی والدہ اور میری بڑی بہن نے کئی سال پہلے اپنے ایک گیارہ سالہ بیٹے رضوان کو کھو دیا تھا۔ مگر اس وقت بھی انھوں نے اس سانحہ کا جرات اور بہادری کیا تھا اور اب بھی جب عدنان کے بارے میں ا طلاع دی تو انھوں نے بہت بہادری اور جرات کا مظاہرہ کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عدنان کی اہلیہ ان کے ماموں کی بیٹی ہیں اور انھوں نے بھی بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔‘

بنوں میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے مرکز کے سربراہ ذوالفقار خان نے اس حملے کے حوالے سے یوٹیوبرز سے بات چیت کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پورا مقابلہ کیا ہے اور اپنے ساتھ عام شہریوں کو بھی بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘

ذوالفقار خان کا کہنا تھا کہ ’آپ لوگ 24 گھنٹے تیار رہیں ۔اس مناسبت سے ہم نے اپنی نفری کو تیار کیا ہوا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس حملے کے دوران جو پانچ اہلکار گارڈ کوارٹرز میں تھے وہ ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد جب ایک حملہ آور مسجد کی طرف جا رہا تھا تو اسےہمارے ایک ساتھی نے نشانہ بنایا، وہ جیسے ہی گرا باقی حملہ آور واپس دفتر کی طرف گئے، جس کے بعد ہم نے انھیں دفتر کے اندر چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا تھا۔‘

ذوالفقار خان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے جتنے بھی جوان مورچوں میں بیٹھے تھے، انھوں نے افسران کی ہدایات کے مطابق کارروائی کی ہے۔‘

پاکستانی فوج دوران سروس ہلاک ہونے والے اہلکاروں کے اہلخانہ کو کیا مراعات دیتی ہے؟جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیاباجوڑ دھماکے میں اسسٹنٹ کمشنر سمیت پانچ افراد ہلاک، 11 زخمی’ہم بچوں سمیت بس کو اڑا دیں گے‘: پشاور سکول بس کی ہائی جیکنگ، جس کا اختتام اسلام آباد میں چھ گولیوں پر ہواہندو ماں اور مسلمان باپ کا بیٹا کیپٹن حنیف جس کی لاش اُٹھانے کے لیے انڈین فوج کو پاکستان کے خلاف آپریشن کرنا پڑامچھ آپریشن: ’تھانے کی چھت پر کھڑے حملہ آور پولیس کو ہتھیار ڈالنے کے لیے کہتے رہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More