BBCکیپٹن مریم میر کا کہنا ہے کہ فضائی حادثے کے بعد ہر پائلٹ کو شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جانے لگتا ہے
’جب میں نئی نئی پائلٹ بنی تو میری ماں نے مجھے کہا بیٹا جہاز نیچے نیچے اڑانا تاکہ اسے اتارنے میں آسانی ہو۔‘
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والی کمرشل پائلٹ سیدہ مریم میر کی والدہ کی یہ معصومانہ درخواست شاید اس خوف کی جانب اشارہ ہے جو پائلٹس اور ان کے خاندان کو اپنی گرفت میں لیے رکھتا ہے۔
تاہم جب بھی کوئی فضائی حادثہ ہوتا ہے تو جہاں ممکنہ وجوہات اور تحقیقات کی بات ہوتی ہے وہیں فضائی سفر کے محفوظ اور غیر محفوظ ہونے کی بحث شروع ہو جاتی ہے۔
تین ماہ قبل 12 جون کو بھی کچھ ایسا ہی ہوا جب ایئر انڈیا کی پرواز 171 ٹیک آف کے لگ بھگ 40 سیکنڈ تک فضا میں رہنے کے بعد احمد آباد کے ایک گنجان آباد علاقے میں گر کر تباہ ہو گئی تھی۔ اس حادثے میں 260 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
حادثے کے بعد تحقیقاتی کمیشن کی ابتدائی رپورٹ میں پائلٹس کے درمیان پُراسرار مکالمہ سامنا آیا جس میں انھیں موردِ الزام نہیں ٹھہرایا گیا لیکن سوشل میڈیا پر اس بارے میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔
تو کیا یہ فضائی حادثہ دیگر کمرشل پائلٹس کی زندگیوں پر بھی اثر انداز ہوا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب حادثوں کے بعد عموماً تحقیقیات سے قبل پائلٹس کی پیشہ ورانہ مہارت پر سوالات اٹھنے لگتے ہیں؟
ہم نے کمرشل پائلٹس، سابق پائلٹس اور فلائٹ سیمولیٹر انسٹرکٹر سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ جب دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی فضائی حادثہ ہوتا ہے تو اس کا ایک پائلٹ کی زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے؟
فضائی حادثے کے فوری بعد الزام پائلٹ پر کیوں عائد کیا جاتا ہے؟
کمرشل پائلٹ سیدہ مریم میر کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے ایئر انڈیا کو پیش آنے والے حادثے کی خبر سنی تو وہ ابوظہبی کی فلائٹ کے لیے ٹیک آف کر رہی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے بہت دُکھ ہوا کہ ایک حادثے میں اتنی جانیں ضائع ہو گئیں۔‘ لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ’بہت دکھ کے ساتھ بتا رہی ہوں کہ جب کوئی فضائی حادثہ ہوتا ہے تو ایک دم سارا الزام پائلٹ پر ڈال دیا جاتا ہے جبکہ ایک پائلٹ تو تربیتی مراحل سے گزر کر اس مقام تک پہنچتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تحقیقاتی رپورٹ آنے سے پہلے پائلٹس کو مجرم قرار دینا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ وہ پائلٹس زندہ نہیں ہیں۔ وہ دنیا میں نہیں رہے تو ان کے بارے میں کچھ بھی کہہ دینا اور آخر میں انھیں موردِ الزام ٹھہرانا بہت آسان ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو تمام ایئر لائنز کی ٹریننگ زیادہ سخت کر دی جاتی ہے، جتنے ہمارے سیمولیٹرز ہیں، وہ مزید مشکل بنا دیے جاتے ہیں۔‘
’فلائٹ چیکس ہوتے ہیں، روٹ چیکس کیے جاتے ہیں تاکہ خدانخواستہ دوبارہ کسی اور کے ساتھ ایسا حادثہ نہ ہو سکے۔‘
BBCکسی بھی کمرشل فلائٹ کے لیے ٹیک آف اور لینڈنگ مشکل مراحل ہوتے ہیں
اسی طرح ایک اور تجربہ کار کمرشل پائلٹ کیپٹن محمد نوشاد انجم نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو پائلٹ ہر وقت چوکنا ہوتا ہے، چاہیے وہ ٹیک آف ہو یا لینڈنگ۔ لیکن کوئی حادثہ ہونے کے بعد فطری طور پر پائلٹ ’زیادہ محتاط اور الرٹ ہو جاتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ذہن میں بہت سارے سوال جنم لیتے ہیں کہ اب میں کیا کروں گا، اگر کچھ غلطی ہو جائے تو کیا میرے اوپر بغیر کسی تحقیق الزام عائد کیا جائے گا۔‘
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جب ہم یہ دیکھتے ہیں تو ذہن میں ایک ریل چلتی ہے کہ اگر یہ میرے ساتھ کچھ ہوا تو کیا ایسا ہی ہو گا، کیا تحقیق پوری ہوئے بغیر میرے اوپر لیبل لگ جائے گا اور یہ کافی پریشان کن بات ہے۔‘
کیپٹن مریم میر نے ایک اور جانب توجہ دلواتے ہوئے کہا کہ کسی بھی فضائی حادثے کے بعد پائلٹس کے خاندان کے ساتھ میڈیا کا سلوک بھی دوسرے پائلٹس کو پریشانی میں مبتلا کرتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کسی بھی فضائی حادثے میں، یہی چیز دیکھی گئی ہے کہ ٹی وی پر یا نیوز میں سب سے پہلے پائلٹس کی فیملیز سے رابطہ کیا جاتا ہے۔‘
’میڈیا ان کے گھر جاتا ہے اور ان سے عجیب و غریب قسم کے سوالات شروع کر دیتے ہیں جبکہ وہ لوگ پہلے ہی بہت مشکل صورتحال میں ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے۔‘
طیاروں کو پرندوں کی ٹکر سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟ایئر انڈیا کے طیارے کی ٹیک آف کے 30 سیکنڈز میں گِر کر تباہ ہونے کی ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟ایئر انڈیا طیارہ حادثہ: ’بوئنگ کے فیول کنٹرول سوئچ استعمال کے لیے محفوظ ہیں،‘ ایف اے اےایئر انڈیا کے طیارے میں ہلاک ہونے والا خاندان جو برسوں بعد ایک ساتھ رہنے کا خواب لیے لندن جا رہا تھادورانِ پرواز پائلٹ کس کیفیت سے گزرتے ہیں؟
بی بی سی نے یہ جاننے کی بھی کوشش کی کہ ایک پائلٹ کن مراحل سے گزر کے کمرشل فلائٹ اڑانے کے اہل قرار دیے جاتے ہیں۔
کیپٹن زاہد قدیر ملک تقریباً 31 سال پاکستان ایئر فورس سے وابستہ رہے اور پھر 15 سال کمرشل ایوی ایشن میں اپنی خدمات انجام دینے کے بعد اب ایک ایئر لائن کے لیے سیمولیٹر ٹرینر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کمرشل فلائنگ میں دو کریٹیکل فیزز ہوتے ہیں، ایک ٹیک آف اور ایک لینڈنگ۔ ان دونوں مراحل میں ہر پائلٹ اپنے ذہن میں پوری ایمرجنسی دہراتا ہے کہ اگر اس دوران کوئی ناگہانی صورتحال پیش آتی ہے تو میں کیا کروں گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سب سیمولیٹر میں پائلٹس ٹریننگ کے دوران سکھایا جاتا ہے۔ کمرشل جہاز اڑانا ایک پروسیجرل کام ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے پیچھے 200 سے 300 مسافر بیٹھے ہیں جنھیں آپ نے بحفاظت ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ہے اور اس کے لیے آپ کو اتنی ٹریننگز اور اتنا سارا کچھ کروایا جاتا ہے تاکہ پائلٹ کے ذہن میں ہو کہ مختلف صورتحال میں کیا کرنا ہے۔‘
کیپٹن نوشاد نے فلائٹ کے دوران ایک پائلٹ کے جذبات کے بارے میں تفصیل سے بات کی ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کمرشل فلائنگ میں غیر متوقع معاملات اور حالات پائلٹس کے لیے پریشان کن ہوتے ہی۔
کیپٹن نوشاد کے مطابق پائلٹ کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ جہاز کی تکنیکی صورتحال کیسی ہے؟
’مثال کے طور پر دو تین دن قبل میری رات کی فلائٹ تھی اور برڈ سٹرائک ہو گئی۔ رات میں فلائنگ کے دوران برڈ سٹرائکس بہت کم ہوتی ہے۔ وہ فلائٹ لے کر مجھے واپس آنا تھا لیکن مجھے اپنی تمام چیزوں کو سائیڈ پر کر کے یہ دیکھنا تھا کہ اس جہاز کے ساتھ کیا کرنا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں تین گھنٹے تک انتظار کرنا پڑا اور تمام انتظامی آپریشنل پیپر ورک مکمل کرنے اور انسپیکشن کے بعد ہمیں ٹیک آف کی اجازت ملی۔‘
کیپٹن نوشاد کے مطابق ایسی صورتحال میں پائلٹ کو جہاز کو ٹھیک کروانے کے ساتھ مسافروں کو بھی مطمئن کرنا ہوتا ہے۔
https://youtu.be/h3cP1Z5rdMw?si=r-UF2keEHD4VCUIQ
’پائلٹ کی پوری زندگی تناؤ میں گزرتی ہے‘
بی بی سی نے مختلف پائلٹس سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی کہ فلائنگ کے دوران پائلٹس کن اوقات میں زیادہ چوکنا رہتے ہیں اور اس دوران کیا وہ کوئی دباؤ محسوس کرتے ہیں۔
کیپٹن نوشاد کا کہنا ہے کہ جب طیارہ رن وے پر بھاگ رہا ہوتا ہے تو پائلٹس بیک وقت تین چار چیزوں کو مسلسل مانیٹر کر رہا ہوتا ہے اور وہ اس چیز کے لیے تیار ہوتا ہے کہ اگر ابھی کچھ ہو گا تو اُس نے کیا کرنا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ٹیک آف کے پہلے ہزار، دو ہزار فٹ، جس میں پرندے بھی موجود ہیں اور دوسرے جہاز بھی موجود ہیں۔ ایئر ٹریفک کنٹرول سے بھی بات چیت ہو رہی ہوتی ہے۔ اس دوران سٹریس زیادہ ہوتا ہے اور پائلٹ کے لیے یہ بہت مصروف وقت ہوتا ہے۔‘
کیپٹن نوشاد کے مطابق جب جہاز 32 ہزار فٹ کے کروز لیول پر جاتا ہے تو پھر کہیں جا کر بلڈ پریشر نارمل ہوتا ہے لیکن پھر دوسرے چیکس شروع ہو جاتے ہیں، جیسے جہاز کس ایئر پورٹ کے قریب ہے۔
اس بارے میں کیپٹن مریم کہتی ہیں کہ جب کیپٹن جہاز میں داخل ہوتا ہے تو ’چیک شروع ہو جاتے ہیں۔ جہاز کا انجن اور تمام پیرامیٹرز چیک کیے جاتے ہیں اور پھر فلائٹ آپریٹ کی جاتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارے فلائنگ آورز ہوتے ہیں اور اگر میں سمجھتی ہوں کہ میں فلائٹ آپریٹ کرنے کے لیے فٹ نہیں ہوں تو میں فلائٹ پر جانے سے انکار کر دیتی ہوں۔
اس بار میں زاہد قدیر ملک کہتے ہیں کہ ’پائلٹ کی نوکری چھ مہینے پہ لٹکی ہوتی ہے ہر چھ مہینے بعد اس کا فلائنگ ٹیسٹ اور میڈیکل ہوتا ہے جو کلئیر کرنا بہت ضروری ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس پیشے میں تنخواہ اور مراعات زیادہ ہیں لیکن اوقات کار مختلف ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق اس میں ایک پائلٹ کی پوری زندگی ٹینشن اور تناؤ میں گزارتی ہے۔ ’اسی لیے میں نہیں چاہتا ہے کہ میرا بیٹا اس پروفیشن میں آئے۔‘
ایئر انڈیا حادثے میں ہلاک ہونے والی خاتون کے تابوت میں کسی اور کی لاش: ’کیا معلوم اس میں اور کتنے لوگوں کی باقیات ہیں؟‘ایئر انڈیا کی پرواز کے واحد زندہ مسافر: ’مجھے خود بھی یقین نہیں ہوتا کہ میں طیارے سے باہر کیسے نکلا‘پی کے 8303 کی تباہی: ’کپتان چیخا مے ڈے، مے ڈے، طیارہ مڑا مگر پائلٹس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ رن وے تک پہنچنا ممکن نہیں‘’لوگوں نے شور مچایا کہ جہاز آ رہا ہے، اس میں سے دھواں نکل رہا ہے‘