Getty Imagesقطر پر اسرائیلی حملے کے بعد پیر کو دوحہ میں اسلامی ممالک کے رہنما شریک ہو رہے ہیں
دوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیلی حملے کے تقریباً ایک ہفتے بعد پیر کو قطر کا دارالحکومت ایک ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔
سربراہی اجلاس کی تیاری کے لیے وزرائے خارجہ کا اجلاس اتوار کو ہوگا، پیر کو سربراہان سر جوڑ کر بیٹھیں گے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ دوحہ سمٹ اسرائیلی اقدامات کے خلاف محض مذمت سے ہٹ کر ایک مشترکہ بیانیہ تشکیل دینے کا تاریخی موقع ہو سکتا ہے۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ہر کوئی قطر اور دیگر علاقائی ممالک کی جانب دیکھ رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف کون کون سے آپشنز سامنے لاتے ہیں۔
قطری اخبار ’الشرق‘ کے چیف ایڈیٹر جابر الحرمی کہتے ہیں کہ اس اجلاس سے بہت سی اُمیدیں وابستہ ہیں اگر اس میں اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ اجلاس بے معنی ہو گا۔
بی بی سی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ کانفرنس صرف مذمت تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ دنیا کو دکھانا ہو گا کہ اسرائیل کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے خطے میں ایک نئی سوچ بیدار ہو رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اسرائیلی حملے کے بعد عرب قوم پرستی کا جذبہ اُبھر کر سامنے آیا ہے اسے نہ صرف قطر بلکہ تمام عرب ممالک پر حملہ تصور کیا جا ر ہا ہے۔
جابر الحرمی کہتے ہیں کہ اسلامی کونسل میں اسرائیل کے حلیف ممالک نے بھی اس کی مذمت سے گریز نہیں کیا۔ لہذا یہ عرب سمٹ عالمی سطح پر اسرائیل مخالف بیانیے کو مضبوط کرنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔
Getty Imagesقطر نے اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے اس کی سالمیت اور خود مختاری پر حملہ قرار دیا ہے’عرب ممالک تاریخی موقع سے فائدہ اُٹھائیں‘
الحرمی کا کہنا تھا کہ عرب اور اسلامی ممالک اس ’تاریخی موقع‘ سے فائدہ اُٹھائیں ورنہ دوبارہ شاید اُنھیں یہ موقع نہ مل سکے۔
اس سربراہی اجلاس میں گذشتہ منگل کو اسرائیلی حملے کے حوالے سے ایک مسودہ قرارداد پر بات چیت کی جائے گی، جسے اتوار کو ہونے والے عرب اور اسلامی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں حتمی شکل دی جائے گی۔
قطری وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے ایک بیان میں زور دیا کہ اس وقت عرب اسلامی سربراہی اجلاس بلانے کے کئی معنی اور مضمرات ہیں، کیونکہ یہ اجلاس قطر کے ساتھ عرب اور اسلامی یکجہتی کی عکاسی کرتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ اجلاس ’اسرائیل کے بزدلانہ اور جارحیت پر مبنی اقدامات‘ کے خلاف ایک مشترکہ آواز ہو گا۔
ترکی، سعودی عرب یا مصر: قطر پر حملے کے بعد اسرائیل کے ’اگلے ہدف‘ کے بارے میں قیاس آرائیاںقطر میں اسرائیلی حملے کے غزہ میں جنگ بندی کے امکانات اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اتحاد پر کیا اثرات پڑیں گے؟دوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیلی حملہ جس نے ’سفارتکاری کے دروازے بند کر دیے‘کیا امریکی قانون صدر ٹرمپ کو قطر کی جانب سے 40 کروڑ ڈالر کے لگژری جہاز کا تحفہ قبول کرنے کی اجازت دیتا ہے؟
لبنانی مصنف اور سیاسی محقق محمود علوش کا خیال ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد سے اسرائیل علاقائی امن اور سلامتی کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن گیا ہے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت عرب ممالک کے سامنے بھی ہے۔ لہذِا انھیں اجتماعی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو انھیں اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے قابل بنائے۔
انھوں نے توقع ظاہر کی کہ سربراہی اجلاس ایک مضبوط سیاسی موقف کے ساتھ سامنے آئے گا جس میں قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جائے گا اور اسرائیل کی مذمت کی جائے گی۔ تاہم، انہوں نے زور دے کر کہا کہ اجتماعی بیانیہ بھی اسرائیل کی طرف سے درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیےکافی نہیں ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ بہت سے اقدامات ہیں جو عرب اور اسلامی دنیا کے ممالک اُٹھا سکتے ہیں اور یہ اسرائیل کو ’سخت پیغام‘ دے سکتے ہیں۔
اُن کے بقول جن ممالک نے اسرائیل کے ساتھسفارتی اور اقتصادی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ یہ ممالک ان تعلقات پر دوبارہ نظرثانی کا عندیہ دے سکتے ہیں۔
محمود علوش کے بقول خطہ ایک اہم تاریخی موڑ پر کھڑا ہے جس کے لیے اسرائیل کی طرف سے درپیش چیلنجوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
Getty Imagesبحرین کے وزیر خارجہ عبداللطیف بن راشد الزیانی، اسرائیلی وزیراعظمنتن یاہو، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زید النہیان 15 ستمبر 2020 کو وائٹ ہاؤس میں ابراہم معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت کر رہے ہیں۔'عربوں کے پاس آپشنز موجود ہیں‘
الحرمی نے اس بات پر زور دیا کہ عربوں کے پاس آپشنز موجود ہیں، لیکن انھیں حقیقی عزم کی ضرورت ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات پر نظر ثانی اور اس کے مغربی اتحادیوں اور شراکت داروں پر دباؤ ڈال کر اپنی اہمیت منوا سکتے ہیں۔ خلیجی ممالک دنیا کو تیل کی ضروریات کا 40 فیصد فراہم کرتے ہیں اور یہ معاملہ بھی اُنھیں خاص بناتا ہے۔
الحرمی کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی عدالتوں اور تنظیموں کے ذریعے اسرائیل پر’گھیرا تنگ‘ کرنے کی حکمت عملی بھی سود مند ہو سکتی ہے۔
قطر کی جانب سے حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالثی سے پیچھے ہٹنے کے آپشن سے متعلق سوال پر الرمی کا کہنا تھا کہ یہ قطر کی پالیسی اور آئین کا مستقل حصہ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ثالثی ختم کرنے کے بجائے دوحہ کی یہ کوشش ہو گی کہ غزہ میں جنگ ختم کرانے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچانے کے لیے اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھے۔
دوحہ اجلاس قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور انتظامیہ کے متعدد اعلیٰ حکام کے درمیان واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات کے بعد ہو گا۔
اس ملاقات کو ’مثبت‘ قرار دیا گیا تھا جس میں خطے میں ثالث کے طور پر دوحہ کے مستقبل کے کردار کے ساتھ ساتھقطر اور امریکہ کے درمیان دفاعی تعاون پر بھی بات کی گئی۔
دوحہ میں سجے اونٹوں، سائبر ٹرکس اور جیٹ طیاروں سے ٹرمپ کا شاہانہ استقبال اور 96 ارب ڈالر کے تاریخی معاہدے کی روداددوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیلی حملہ جس نے ’سفارتکاری کے دروازے بند کر دیے‘سعودی عرب نے جارحانہ حکمت عملی ترک کر کے ’بین الاقوامی ثالث‘ کا کردار کیوں اپنایا اور بطور ثالث یہ قطر سے کیسے مختلف ہے؟قطر گیٹ، نتن یاہو اور خفیہ ادارے کا سربراہ: رشوت اور فراڈ کا سکینڈل جس نے اسرائیل میں کھلبلی مچا دیقطر میں اسرائیلی حملے کے غزہ میں جنگ بندی کے امکانات اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اتحاد پر کیا اثرات پڑیں گے؟