میچ پہلے گھنٹے میں پاکستانی ٹیم کے ہاتھ سے نکل گیا: عامر خاکوانی کا تجزیہ

اردو نیوز  |  Sep 15, 2025

ایمانداری کی بات ہے کہ ایشیا کپ میں پاکستان اور انڈیا کا ٹی20 میچ واضح طور پر ایک بڑے طاقتور پہلوان کا کسی نوآموز پہلوان سے معرکے جیسا تھا۔ انڈیا ہر لحاظ سے پاکستان سے بہتر، تجربہ کار اور پورے کنٹرول میں نظر آیا۔ درحقیقت میچ کے پہلے گھنٹے میں پاکستان کے ہاتھ سے میچ نکل گیا تھا۔ پہلے 10 اوورز نے بتا دیا تھا کہ اس میچ کا انجام کیا ہو گا؟ کرکٹ میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، آوٹ کلاس کر دینا۔ انڈیا نے پاکستان کو آوٹ کلاس کر دیا، ایک بدترین شکست سے دوچار کیا۔ اس کے امکانات ہیں کہ ایشیا کپ کے سپرفور مرحلے میں پاکستان ایک اور میچ انڈیا سے کھیلے اور پھر شائد فائنل میں پہنچا تو ایک اور میچ ہوجائے۔ اگر پہلے میچ والے مائنڈ سیٹ اور سٹائل سے کھیلے توپاکستان کے لیے یقینی شکست وہاں بھی انتظار کر رہی ہے۔

ہار جیت میچ کا حصہ ہے، لیکن اگر یوں یک طرفہ شکست ہو، اپنی قومی ٹیم مقابلے ہی میں نہ آ پائے اور یوں لگے جیسے کسی کلب لیول کی ٹیم کا انٹرنیشنل ٹیم سے میچ ہو، تب دیکھنے والوں کو افسوس اور دکھ ہوتا ہے۔

آج کے میچ میں دو تین چیزیں واضح نظر آئیں۔ پہلی یہ کہ پاکستانی ٹیم مینجمنٹ کو شائد انڈین ٹیم کے مضبوط پہلوؤں کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ ان کے پاس انڈین کھلاڑیوں کو کاؤنٹر کرنے کا پلان نظر نہیں آیا۔ مثال کے طور پر جسپریت بمراہ انڈیا کے نمبرون بولر ہیں بلکہ وہ دنیا کے اس وقت بہترین بولر ہیں جنہیں خاص طور سے ٹی20 میں نئی گیند سے ہٹنگ کرنا بہت مشکل اور دشوار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بمراہ نئی گیند سے بہت عمدہ سوئنگ کرتا ہے، گیند کو اندر لاتا اور باہر نکالتا ہے اور پرفیکٹ یارکر کراتا ہے۔ نئی گیند سے یارکر کرنا مشکل ہوتا ہے، دنیا میں اکا دکا ہی ایسے باولر ہیں جو اچھا یارکر کرا سکتے ہیں، اس وقت بمراہ ان میں سرفہرست ہے۔

جب میچ کی پہلی ہی گیند پر صائم ایوب ایک اونچا پش کرتے ہوئے آوٹ ہو گئے، تب دوسرے ہی اوور میں محمد حارث کو یکایک بمراہ کی گیند پر ایک انتہائی غیرذمہ دارانہ انداز میں اندھا دھند شاٹ کھیلنے کی کیا ضرورت تھی؟ ابھی میچ شروع ہوا ہے، پہلی وکٹ گر گئی، بمراہ کوئی لوز گیند کرائے تب یوں چھکا لگانے کی کوشش کرو، ورنہ ہٹنگ کے لیے کسی دوسرے بولر جیسے ہاردک پانڈیا کا انتخاب کر لو۔ اس کے بجائے حارث نے بلا سوچے سمجھے شاٹ کھیلا اور وکٹ گنوا کر ٹیم پر دباؤ ڈال دیا۔

پھر ہر کوئی جانتا تھا کہ انڈیا کی اصل قوت اور مضبوطی اس کے تین سپیشلسٹ سپنرز ہیں، مسٹری سپنر کلدیپ یادو، مسٹری سپنر چکرورتی اور لیفٹ آرم روایتی مگر ایکوریٹ سپنر اکشر پٹیل۔ اس وقت انڈین سپن اٹیک دنیا کا بہترین اٹیک ہے۔ پاکستانی بلے بازوں نے لگتا ہے سپن اور خاص کر مسٹری سپنرز کو کھیلنے کی تیاری ہی نہیں کی تھی۔ ہمارے بہترین بلے باز بھی انڈین سپنرز کو کھیلنے میں ناکام نظر آئے۔ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ کیسے شاٹس کھیلیں اور کس طرح رنز بنائیں؟ آپ اندازہ لگائیں کہ پاور پلے کے چھ اوورز میں 42 رنز دو وکٹوں کے نقصان پر بنے یعنی سات کے رن ریٹ سے جبکہ اگلے چار اوورز میں صرف سات رنز بنے اور دو وکٹیں گر گئیں۔ فخر زمان اور سلمان آغا فارغ ہو گئے۔ اس کے بعد میچ میں کیا رہ گیا تھا؟ حسن نواز، محمد نواز، فہیم اشرف وغیرہ سے کس کو امید تھی؟ وہ تو آخر میں شاہین شاہ آفریدی نے غیرمتوقع طور پر دھواں دھار بیٹنگ کی، چار چھکے لگائے تو ٹیم کا سکور 127 تک پہنچا ورنہ شائد بمشکل 100 رنز تک پہنچ پاتے۔

صائم ایوب نے ثابت کیا ہے کہ اس میں پوٹینشل موجود ہے اور نئی گیند سے پاور پلے میں بولنگ کرانے کا تجربہ برا نہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)پاکستانی بولرز بھی انڈین بلے بازوں سے بے خبر اور لاعلم نظر آئے۔ ابھیشک شرما ان کے اوپنر ہیں، آئی پی ایل میں غیرمعمولی کارکردگی دکھانے والے ٹی20 سپیشلسٹ۔ ابھیشک شرما کا سٹرائیک ریٹ دنیا میں سب سے زیادہ ہے، یعنی وہ اس وقت دنیا بھر میں کم گیندوں پر تیزی سے رنز کرنے والا نمبرون بیٹر ہے۔ پاکستانی ٹیم نے ابھیشک شرما پر لگتا ہے کام ہی نہیں کیا تھا۔ شاہین شاہ آفریدی نے حسب معمول جوش میں اندھا دھند بولنگ کی، ایک دو بڑے شاٹ لگنے کے بعد بھی عقل نہ کی اور اپنی لینتھ درست نہ کر پائے۔ یوں ابتدائی اوورز میں پاکستانی بولنگ دباو میں آ گئی۔ 128 رنز کا ہدف ہو اور پاور پلے کے چھ اوور میں اگر 60 رنز بن جائیں تو باقی میچ میں کیا رہ گیا؟ یہ بھی صائم کی مہربانی ہے کہ اس نے شبمن گل اور ابھیشک شرما کو آوٹ کر دیا، ورنہ میچ شائد پہلے 10 اوورز ہی میں ختم ہو جاتا۔

دوسری بڑی خامی پاکستانی ٹیم کا ’الٹر اگریسو‘ سٹائل ہے۔ ہماری ٹیم مینجمنٹ، کوچ، کپتان سب اس بات کا دعویٰ کرتے اور کریڈٹ لیتے ہیں کہ ہم ماڈرن سٹائل کی جارحانہ ٹی20 کرکٹ کھیلتے ہیں۔ ہم ڈرتے نہیں اور کھل کر کھیلتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ایک بات انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ جارحانہ کرکٹ کھیلنے کا مقصد فضول میں وکٹیں گنوانا نہیں ہوتا۔ یہ ٹی10 نہیں ٹی20 ہے جس میں 20 اوورز کھیلنے پڑتے ہیں۔

ایسی جارحانہ کرکٹ کا کیا فائدہ جب ٹیم بُری طرح میچ ہار جائے۔ جارحانہ سٹائل کے ساتھ عقل کی بھی ضرورت رہتی ہے۔ خاص کر جب آپ کا مقابلہ کوالٹی بولنگ سے ہو اور پچ پر گیند ٹرن یا سوئنگ ہو رہا ہو، تب دیکھ بھال کر کھیلنا چاہیے۔ بہتر ہوتا ہے کہ سٹرائیک روٹیشن کی جائے، سنگل، ڈبلز بنتے رہیں اور موقع ملنے پر بڑے شاٹس بھی کھیل لیے جائیں۔ ایسے مواقع پر اس کی بھی اہمیت ہوتی ہے کہ اوورز پورے کھیلے جائیں اور آخری تین چار اوورز میں ایک دو اچھے ہٹر وکٹ پر موجود ہوں نہ کہ وہ جارحانہ کرکٹ کے چکر میں یکے بعد دیگرے آوٹ ہو کر پویلین بیٹھے ماتم کر رہے ہوں۔ میچ میں پاکستان نے یہی کیا۔

ہر کوئی جانتا ہے کہ انڈیا کی اصل قوت اور مضبوطی اس کے تین سپیشلسٹ سپنرز ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)ایک بات مجھے محسوس ہوئی کہ ٹیم خاص کر کپتان اور سینیئر کھلاڑی بابر اعظم فوبیا کا شکار ہو چکے ہیں۔ سلمان آغا اور دیگر اس دباؤ کا شکار نظر آئے۔ بابر اعظم اور محمد رضوان پر یہی تنقید ہوتی تھی کہ جب وکٹیں گریں تو وہ سلو کھیلتے تھے اور بڑے شاٹس کھیلنے کے بجائے سنگل ڈبلز پر فوکس کرتے اور یوں سست سٹرائیک ریٹ کے ساتھ رنز بنتے۔ سلمان آغا، فخر زمان، حسن نواز وغیرہ پر یہی دباؤ ہے کہ اگر ہم سیچوئشن کے مطابق بھی سست کھیلے تو کہیں ہم پر بابر اعظم، رضوان کی طرح ٹک ٹک کرنے کا الزام نہ لگ جائیں۔ اس لیے جب بھی وہ کچھ پھنستے ہیں، اندھا دھند بڑا شاٹ کھیلنے کے چکر میں وکٹ گنوا دیتے ہیں۔

یہی اس میچ میں ہوا۔ فخر زمان اچھا کھیل رہا تھا، مگر انڈین سپنر اپنی نپی تلی بولنگ سے اسے تیزی سے رنز نہیں کرنے دے رہے تھے، فخر کو چاہیے تھا کہ وہ سٹرائیک روٹیٹ کرتا رہتا اور کمزور گیندوں کا انتظار کرتا۔ فخر اس کے بجائے دباؤ میں آ کر وکٹ ضائع کر بیٹھا۔ پھر سلمان آغا نے بھی یہی کیا۔ انڈین سپنرز نے اسے باندھ کر رکھ دیا۔ دو چار گیندیں ضائع ہوئیں تو سلمان آغا نے بے صبری سے ایک بے موقع سلوگ سوئپ شاٹ کھیلا اور آؤٹ ہو گیا۔ میچ تب ہی ہاتھ سے سلپ ہو گیا تھا۔

حسن نواز نے سہہ ملکی ٹورنامنٹ میں بھی غیرذمہ داری دکھائی تھی۔اس کا ایک کیچ چھوٹ جائے، چانس ملے تو وہ اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اگلی ہی گیند پر ایک اور غیرذمہ دارانہ شاٹ کھیل کر آؤٹ ہو جاتا ہے۔ ایسا کون کرتا ہے بھئی؟ افغانستان کے خلاف میچ میں راشد خان کی گیند پر اس کا کیچ چھوٹ گیا، اگلی ہی گیند پر ایک اور اونچا کیچ دیا اور آوٹ ہو گیا۔ آج کے میچ میں بھی ایسا ہوا۔ ایک چانس ملا، مگر اگلی ہی گیند پر اس نے وکٹ گنوا دی۔ اگر اسی انداز کی کرکٹ جارحانہ کرکٹ ہے تو پھر سمجھ لیں کہ پاکستانی ٹیم کسی بھی اچھی ٹیم کی کوالٹی بولنگ کے سامنے ہر بار یوں ہی ڈھیر ہوجائے گی۔

شاہین شاہ آفریدی نے ثابت کیا کہ اس میں بڑے شاٹس کھیلنے کی صلاحیت ہے اور وہ فہیم اشرف سے بہتر ہارڈ ہٹنگ کر سکتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)میچ کی خاص بات صاحبزادہ فرحان کے بمراہ کو لگائے گئے دو چھکے تھے۔ پہلا چھکا تو ایسا شاندار تھا کہ ہر کوئی دیکھتا رہ گیا۔ بمراہ کو شائد ہی کسی پاکستانی کھلاڑی نے چھکا لگایا ہو گا۔ صاحبزادہ فرحان نے آج خلاف معمول وکٹ پر ٹھیرنے کی کوشش کی اور اچھی اننگ کھیلی۔ انڈین بولنگ اتنی عمدہ تھی کہ وہ زیادہ رنز نہ کر پایا، مگر آج اس کا قصور نہیں تھا۔     

دوسری خاص بات شاہین شاہ آفریدی کی آخری اوورز میں کی گئی بیٹنگ تھی۔ شاہین نے 16 گیندوں پر 31 رنز بنائے جن میں چار شاندار چھکے شامل تھے، اس نے سپنرز کو بھی چھکے لگائے اور پھر آخری اوور میں ہارک پانڈیا کودو بلند وبالا چھکے جڑ دیے۔ شاہین شاہ آفریدی نے ثابت کیا کہ اس پر محنت کی جائے تو وہ ٹی20 آل راونڈر کے طو رپر تیار ہو سکتا ہے، اس میں بڑے شاٹس کھیلنے کی صلاحیت ہے اور فہیم اشرف سے بہتر ہارڈ ہٹنگ کر سکتا ہے۔

صائم ایوب کو پاور پلے میں شاٹس بھی لگے، مگر اس نے چند بہت عمدہ گیندیں کرائیں اور دو وکٹیں ٹیم کو دلائیں، تیسری وکٹ بھی اس نے ہی تلک ورما کی لی۔ صائم ایوب نے ثابت کیا ہے کہ اس میں پوٹینشل موجود ہے اور نئی گیند سے پاور پلے میں بولنگ کرانے کا تجربہ برا نہیں۔ البتہ صائم کو اپنی لائن ولینتھ پر کنٹرول کرنا ہو گا، ابھیشک شرما جیسے ہٹر کو اگر آف سٹمپ سے باہر گیند کی جائے گی تو باؤنڈری یقینی ہے۔

اس میچ میں ابرار نے بھی اچھی باولنگ کرائی، اگرچہ اسے وکٹ نہیں ملی، مگر ابرار ایک کوالٹی سپنر ہے۔ محمد نواز کو نجانے کس ترنگ میں کوچ مائیک ہیسن نے دنیا کا نمبر ون سپنر قرار دیا۔ نواز گذشتہ چند میچز سے اچھا پرفارم کر رہا ہے، مگر وہ بہرحال ایک روایتی سپنر ہے جس کے پاس زیادہ ورائٹی نہیں اور جو کسی بھی وقت بری طرح پٹ سکتا ہے۔ انڈین بیٹنگ کے خلاف نواز بھی ناکام رہا اور سفیان مقیم بھی متاثر نہیں کر سکا۔ البتہ اگر ٹیم اچھا اور بڑا ہدف دیتی تو ممکن ہے صورتحال مختلف ہوتی۔

فخر زمان کو چاہیے تھا کہ وہ سٹرائیک روٹیٹ کرتا رہتا اور کمزور گیندوں کا انتظار کرتا۔ (فوٹو: اے ایف پی)میچ میں امپائروں پر بھی دباؤ محسوس ہو رہا تھا۔ انڈین بولنگ پر کم از کم دو ایسے ایل بی ڈبلیو دیے گئے جن میں گیند لیگ سٹمپ سے چھ انچ باہر تھی، انہیں آوٹ دینا بنتا ہی نہیں تھا، ریویو میں فیصلے واپس تو ہو گئے، مگر امپائروں کی کمزور ججمنٹ پر حیرت ہوئی۔

ایشیا کپ سے قبل روی شاستری اور بعض دیگر سابق انڈین کھلاڑی کہہ رہے تھے کہ اس بار ایشیا کپ میں اسی لیے شائقین دلچسپی  نہیں لے رہے کہ ہرایک کو معلوم ہے کہ انڈیا سپر فیورٹ ہے اور مقابلہ ہوگا ہی نہیں، ایک سابق انڈین کرکٹر نے تو یہ تجویز بھی دی کہ جنوبی افریقہ کو شامل کر ایشیا کپ کو افریشیا کپ کر دیا جائے تاکہ کچھ تو مقابلہ رہے۔ تب ہم پاکستانیوں کو اس سے ہتک اور بے عزتی کا احساس ہوا۔ افسوس کہ پہلے میچ کے بعد یہ تاثر درست ثابت ہوا۔ اگر پاکستان نے اسی مائنڈ سیٹ، ایسی پلاننگ اور انہی کمزوریوں کے ساتھ کھیلنا ہے تو پھر ایشیا کپ میں انڈیا کے ساتھ ایک یا دو جتنے مزید میچز ہوں گے، نتیجہ یہی نکلے گا۔

بہرحال پاکستان کو متحدہ عرب امارات سے اگلا میچ جیت کر سپر فور میں جانا چاہیے۔ وہاں ان کے پاس موقع ہوگا کہ اپنی غلطیاں نہ دہرائیں اور اچھا کھیل کر فائنل میں جائیں۔ اس سے زیادہ امید اس بے چاری پاکستانی ٹیم سے نہیں کرنی چاہیے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More