جوتوں کی بدبو کا وہ ’حل‘ جس پر عالمی انعام ملا

بی بی سی اردو  |  Sep 29, 2025

Getty Imagesبدبودار جوتے بعض اوقات ناقابل برداشت ہوتے ہیں

تقریباً ہر گھر میں ایک جوتوں کا ایسا جوڑا ضرور ہوتا ہے جس کی بدبو کو نظر انداز کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

اب ذرا کسی خاندان کے تمام جوتوں کو ایک ریک میں رکھ کر تصور کریں، تو یہ نہ صرف ایک گھریلو ڈیزائن کا مسئلہ نظر آتا ہے بلکہ عالمی نوعیت کا مسئلہ نظر آتا ہے۔

دو انڈین محققین کو یہ خیال آیا کہ یہ صرف بدبو کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک سائنسی تحقیق کا موضوع ہے۔

اور انھوں نے یہ تحقیق شروع کر دی کہ بدبو دار جوتے شو ریک کے استعمال کے تجربے کو کس طرح متاثر کرتے ہیں، اور اس سفر میں وہ ایک دلچسپ اور مزاحیہ سائنسی انعام ’اِگ نوبیل پرائز‘ حاصل کرنے تک جا پہنچے۔ یہ انعام اگرچہ بظاہر بے معنی اور مزاحیہ ہے لیکن یہ تخلیقی سائنسی کوششوں پر دیا جاتا ہے۔

دہلی کے مضافات میں قائم شیو نادر یونیورسٹی میں ڈیزائن کے 42 سالہ اسسٹنٹ پروفیسر وکاش کمار اور ان کے سابق طالبعلم، 29 سالہ سارتھک متل کو بدبودار جوتوں کے حوالے سے تحقیق کا خیال آیا تھا۔

سارتھک متل کے مطابق، انھوں نے اکثر دیکھا کہ ہوسٹل کی راہداریوں میں جوتے کمروں کے باہر رکھے ہوتے تھے اور خاص طور پر ایسے کمروں کے باہر جو دو طلبا کے مشترکہ کمرے ہوتے تھے۔

BBCوکاش کمار اور سارتھک متل کو ان کی تحقیق کے لیے اگ نوبل انعام دیا گيا ہے

پہلے پہل انھیں یہ خیال آیا کہ ایسے طلبا کے لیے جوتے رکھنے کا ایک خوبصورت اور جدید طرز کا ریک بنایا جائے۔ لیکن جب انھوں نے مسئلے کی گہرائی میں جانا شروع کیا، تو اصل مسئلہ جگہ کی کمی نہیں تھی بلکہ جوتوں سے آنے والی بدبو ہی وہ وجہ تھی جس نے جوتوں کو کمروں سے باہر رکھنے پر انھیں مجبور کیا تھا۔

سارتھک متل اب ایک سافٹ ویئر کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’مسئلہ جگہ یا جوتوں کے ریک کی کمی کا نہیں تھا بلکہ مسئلہ جوتوں کے مسلسل استعمال اور پسینے کے باعث پیدا ہونے والی بدبو تھی۔‘

لہٰذا دونوں محققین نے ہاسٹل میں ایک سروے کیا اور ایک سادہ انسانی اہمیت کا سوال پوچھا: اگر جوتوں سے ہی بدبو آتی ہو، تو کیا جوتے رکھنے کے ریک کا پورا جواز ہی بے معنی نہیں ہو جاتا؟

149 طلبا (جن میں سے 80 فیصد مرد تھے) پر کیے گئے سروے سے وہ بات ثابت ہوئی جو ہم میں سے اکثر جانتے تو ہیں، مگر مانتے نہیں۔ آدھے سے زیادہ افراد اپنے یا دوسروں کے جوتوں کی بدبو سے شرمندگی محسوس کر چکے تھے، تقریباً سبھی اپنے گھروں میں جوتے ریک میں رکھتے تھے، اور بہت کم لوگ ایسے تھے جو بدبو دور کرنے والی موجودہ مصنوعات کے بارے میں جانتے تھے۔

بدبو دور کرنے کے دیسی حل میں چائے کی پتی رکھ دینا، بیکنگ سوڈا چھڑکنا یا ڈیوڈرنٹ سپرے کرنا شامل ہے لیکن یہ مؤثر ثابت نہیں ہو رہے تھے۔

اس کے بعد دونوں محققین نے سائنس کا سہارا لیا۔ وہ پہلے سے موجود تحقیق سے جان چکے تھے کہ مسئلے کی جڑ ’کائٹوکوکس سیڈینٹیریئس‘ نامی بیکٹیریا ہے جو پسینے بھرے جوتوں میں نشوونما پاتا ہے۔ ان کے تجربات سے معلوم ہوا کہ یو وی سی روشنی کی مختصر مقدار اس بیکٹیریا کو مار سکتی ہے اور بدبو ختم کر سکتی ہے۔

Getty Imagesانڈین سائنسدانوں نے ایک ایسا ریک بنایا جو بدبو کو ختم کر دے

اپنے مقالے میں وہ لکھتے ہیں: انڈیا میں تقریباً ہر گھر میں کسی نہ کسی قسم کا جوتوں کا ریک ہوتا ہے، اور اگر یہ ریک جوتوں کی بدبو سے پاک ہو تو یہ ایک خوشگوار تجربہ ہوگا۔

انھوں نے ’بدبودار جوتوں کو ایک موقع سمجھا اور روایتی جوتے رکھنے کے ریک کو نئے ڈیزائن کے ذریعے بہتر بنانے کا فیصلہ کیا۔‘

اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ یہ ایک عام سا مقالہ نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ سے ایک دلچسپ اور منفرد ایجاد سامنے آئی اور ایک ایسا جوتوں کا ریک بن کر تیار ہوا جس میں یو وی سی روشنی لگی ہو، جہاں صرف جوتے پڑے نہ رہیں بلکہ وہ جراثیم سے پاک بھی ہوں۔

تجربے میں انھوں نے یونیورسٹی کے کھلاڑیوں کے استعمال شدہ جوتے استعمال کیے، جن سے خاصی بدبو آتی تھی۔ چونکہ بیکٹیریا کی افزائش زیادہ تر پاؤں کے اگلے حصے میں ہوتی ہے، اس لیے یو وی سی روشنی اسی حصے پر مرکوز کی گئی۔

تحقیق میں روشنی کے دورانیے کے حساب سے بدبو کی شدت کو جانچا گیا، اور معلوم ہوا کہ صرف دو سے تین منٹ کی یو وی سی روشنی سے بیکٹیریا ختم ہو جاتا ہے اور بدبو چلی جاتی ہے۔

لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ اگر روشنی زیادہ دیر کے لیے دی جائے تو گرمی زیادہ پیدا ہوتی ہے اور جوتے کا ربڑ جلنے لگتا ہے۔

انھوں نے صرف یہ نہیں کیا کہ ایک یو وی سی ٹیوب جوتوں پر لگا دی اور نتیجے کا انتظار کیا، بلکہ ہر لمحے کی بدبو کو جانچا گیا۔

بریل ایجاد کرنے والے ذہین نابینا لڑکے کی کہانیگٹروں میں انسانی فضلے کی تلاش کا ’خفیہ‘ مشن جس نے کئی رازوں سے پردہ اٹھایازندگی کو آسان بنانے والی وہ جدید ایجادات جو دہائیوں پہلے معرض وجود میں آ چکی تھیںامن کا نوبیل انعام ہیروشیما، ناگاساکی ایٹم بم حملوں میں زندہ بچ جانے والوں کی تنظیم کے نام

شروع میں جوتے سے آنے والی بدبو کو ’تیز، ناگوار، سڑے ہوئے پنیر جیسی‘ قرار دیا گیا۔ دو منٹ بعد یہ ’انتہائی ہلکی، جلے ہوئے ربڑ جیسی‘ رہ گئی۔ چار منٹ میں بدبو ختم ہو چکی تھی، اور صرف ’معمولی جلے ہوئے ربڑ‘ جیسی مہک بچی تھی۔

چھ منٹ بعد جوتے بدبو سے پاک اور ٹھنڈے محسوس ہو رہے تھے۔ لیکن اگر دورانیہ دس سے پندرہ منٹ تک بڑھایا گیا، تو جوتے گرم ہو گئے اور ان سے ’تیز جلے ربڑ‘ جیسی بو آنے لگی، جس سے ثابت ہوا کہ سائنس میں وقت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

آخر میں، دونوں نے ایک ایسا جوتوں کا ریک تجویز کیا جس میں یو وی سی ٹیوب لگی ہو۔ یہ تحقیق کئی سال تک کہیں پیش نہیں کی گئی، جب تک کہ امریکہ میں دیے جانے والے اِگ نوبیل انعام والوں نے خود ان سے رابطہ نہیں کیا۔

یہ انعام ’اینلز آف امپروبیبل ریسرچ‘ نامی جریدے کی جانب سے دیا جاتا ہے، اور ہارورڈ-ریڈکلف گروپس کے تعاون سے ہر سال دس غیر روایتی تحقیقات کو نوازا جاتا ہے۔

اس کا مقصد ’پہلے لوگوں کو ہنسانا، پھر سوچنے پر مجبور کرنا، غیر معمولی ایجاد کو سراہنا اور تخیل کی قدر کرنا ہے۔‘

کمار نے بتایا: ’ہمیں اس انعام کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ یہ سنہ 2022 کی ایک پرانی تحقیق تھی۔ ہم نے اسے کہیں بھی نہیں بھیجا تھا۔ اِگ نوبیل کی ٹیم نے خود ہمیں ڈھونڈا، فون کیا، اور یہی بات خود ہنسنے اور سوچنے کے قابل ہے۔‘

رواں سال اس اگ نوبیل انعام کے دیگر جیتنے والوں میں جاپانی ماہرین حیاتیات بھی شامل ہیں جنھوں نے گایوں کو مکھیوں سے بچانے کے لیے ان پر پینٹنگ کی، امریکی ماہرین اطفال جنھوں نے معلوم کیا کہ لہسن ماں کے دودھ کو بچوں کے لیے زیادہ پرکشش بناتا ہے اور ڈچ محققین نے یہ نتیجہ نکالا کہ الکوحل غیر ملکی زبان سیکھنے کی صلاحیت کو تیز کرتی ہے، اگرچہ اس کا اثر پھل کھانے والے چمگادڑوں پر اُلٹا پڑتا ہے اور وہ اُڑتے ہوئے لڑکھڑانے لگتے ہیں۔

ایک مؤرخ نے اپنی انگلی کے ناخن کی بڑھوتری کو 35 سال تک نوٹ کیا، اور طبیعیات کے ماہرین نے پاستا ساس کے راز کھوجنے میں دلچسپی دکھائی۔

بدبودار جوتوں پر انعام جیتنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ انڈین محققین کے لیے معیار مزید بلند ہو گیا ہے۔

کمار کہتے ہیں: ’شناخت ملنے سے آگے، اب یہ ہمارے لیے ایک ذمہ داری بھی بن گئی ہے کہ اب ہمیں ان چیزوں پر تحقیق کرنی ہے جن پر لوگ عام طور پر غور نہیں کرتے یا توجہ نہیں دیے اور سوال نہیں کرتے۔‘

دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آج کے بدبو دار جوتے کل کی انقلابی سائنسی دریافت بن سکتے ہیں۔

امن کا نوبیل انعام ہیروشیما، ناگاساکی ایٹم بم حملوں میں زندہ بچ جانے والوں کی تنظیم کے نامقصہ ایک پیسہ انعام اور نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کی جھنگ سے محبت کاکیا انڈیا کی قدیم نالندہ یونیورسٹی کو مسلم حکمراں بختیار خلجی نے تباہ کیا؟زندگی کو آسان بنانے والی وہ جدید ایجادات جو دہائیوں پہلے معرض وجود میں آ چکی تھیںانڈیا کے خلائی مشن ہالی وڈ کی سائنس فکشن فلموں سے بھی سستے کیسے؟کلاشنکوف سمیت وہ چار ’تباہ کن‘ ایجادات جن کے موجد احساس جرم کا شکار ہوئے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More