کراچی میں سرکٹی لاش برآمد، کیا شہر دوبارہ ’بوری بند لاشوں‘ کے دور میں داخل ہو رہا ہے؟

اردو نیوز  |  Oct 01, 2025

کراچی میں گذشتہ روز شہر کے مختلف علاقوں میں دو ایسے لرزہ خیز واقعات پیش آئے جنھوں نے نہ صرف عوام بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

نارتھ ناظم آباد کے علاقے بلاک ایل میں ایک نالے سے ایک شخص کی بوری بند لاش برآمد ہوئی جس کا سر غائب تھا، جبکہ گلستانِ جوہر کے علاقے پہلوان گوٹھ کے قبرستان کے قریب کچرا کنڈی سے ایک بیگ میں انسانی سر ملا۔

پولیس کے مطابق نارتھ ناظم آباد کے نالے سے ملنے والی لاش کی شناخت نادرا کے ریکارڈ کی مدد سے کر لی گئی ہے۔

مقتول کا نام محمد یوسف ہے جس کا تعلق مانسہرہ سے تھا۔ پولیس نے واقعہ کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرکے تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔ ریسکیو اہلکاروں کا کہنا ہے کہ مقتول محمد یوسف کی لاش بوری میں بند کر کے نارتھ ناظم آباد کے نالے میں پھینکی گئی تھی۔

دوسری جانب پہلوان گوٹھ کے قبرستان سے برآمد ہونے والا انسانی سر قانونی کارروائی کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

پولیس حکام نے کہا ہے کہ یہ دونوں واقعات آپس میں منسلک بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اس حوالے سے حتمی رائے فارنزک تفتیش کے بعد ہی دی جا سکے گی۔

نارتھ ناظم آباد کے نالے سے برآمد ہونے والی سرکٹی لاش

کراچی کے متوسط طبقے کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں روز مرہ زندگی معمول کے مطابق جاری تھی کہ اچانک بلاک ایل کے ایک نالے میں بوری سے ایک لاش برآمد ہوئی۔ اہلِ علاقہ نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی۔

جائے وقوعہ پر پہنچنے والی ٹیم نے دیکھا کہ لاش نہ صرف بوری میں بند ہے بلکہ اس کا سر بھی غائب ہے۔ یہ منظر دیکھنے والوں کے لیے خوف اور حیرت کا باعث تھا۔

پولیس نے شبہ ظاہر کیا کہ یہ انسانی سر نارتھ ناظم آباد سے ملنے والی لاش کا بھی ہو سکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)لاش کو ریسکیو اداروں نے ہسپتال منتقل کیا۔ جائے وقوعہ پر موجود ریسکیو اہلکار نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مقتول کی شناخت یوسف کے نام سے ہوئی ہے۔ مقتول کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے تھا۔‘

پولیس حکام کے مطابق اس بات کا تعین کیا جا رہا ہے کہ یوسف کا قتل ذاتی دشمنی کی وجہ سے ہوا یا وہ کسی منظم گروہ کی کارروائی کا نشانہ بنا۔

اس واقعے کے اگلے روز بدھ کی صبح شہر کے دوسرے حصے گلستانِ جوہر کے علاقے پہلوان گوٹھ کے قبرستان کے قریب موجود کچرا منڈی سے بھی ایک ہولناک اطلاع ملی۔ وہاں ایک بیگ سے انسانی سر برآمد ہوا۔

ریسکیو اہل کاروں نے بیگ کو تحویل میں لے کر ہسپتال منتقل کر دیا۔ پولیس نے شبہ ظاہر کیا کہ یہ انسانی سر نارتھ ناظم آباد سے ملنے والی لاش کا بھی ہو سکتا ہے۔

تاہم باضابطہ فارنزک رپورٹ آنے کے بعد ہی دونوں واقعات کے باہمی تعلق پر بات کی جاسکتی ہے۔

اس واقعہ سے شہریوں میں خوف کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر میں ایسے واقعات کا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ شہر میں مجرمانہ سرگرمیاں ایک بار پھر شدت اختیار کر رہی ہیں۔ 

ماہرین کے مطابق یہ رجحان اس بات کا ثبوت ہے کہ کراچی میں تشدد پر مبنی منظم جرائم دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں (فوٹو: گرو اپ پاکستان)کراچی میں ’بوری بند لاشوں‘ کی تاریخ

کراچی میں ’بوری بند لاش‘ کی اصطلاح نئی نہیں۔ 1990 اور 2000 کی دہائی میں یہ شہر اس طرح کے مناظر کا عادی ہو گیا تھا جب مختلف سیاسی، لسانی اور جرائم پیشہ گروہ مخالفین کو قتل کر کے ان کی لاشیں بوری میں ڈال کر سڑکوں، نالوں اور سنسان جگہوں پر پھینک دیا کرتے تھے۔ کئی برس حالات بہتر رہنے کے بعد ایک بار پھر ایسے واقعات رونما ہونے لگے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ رجحان اس بات کا ثبوت ہے کہ کراچی میں تشدد پر مبنی منظم جرائم دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں اور ریاستی اداروں کو فوری طور پر ان پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ 

کراچی میں جرائم کی موجودہ صورتِ حال

کراچی پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق 2025 کے ابتدائی نو ماہ کے دوران سٹریٹ کرائمز کی ہزاروں وارداتیں رپورٹ ہو چکی ہیں۔

روزانہ درجنوں شہری موبائل فونز، موٹر سائیکلوں اور نقدی سے محروم کیے جا رہے ہیں۔ صرف ڈکیتیوں کے دوران مزاحمت پر سینکڑوں افراد زخمی اور بیسیوں ہلاک ہو چکے ہیں۔

کراچی کے شہری کہتے ہیں کہ سٹریٹ کرائمز تو ایک طرف، اب بوری بند لاشوں اور انسانی اعضا کے برآمد ہونے جیسے واقعات نے خوف کو اور بڑھا دیا ہے۔

پولیس کے مطابق کچھ مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)پولیس حکام کا کہنا ہے کہ نارتھ ناظم آباد اور گلستانِ جوہر کے واقعات پر ہر پہلو سے تفتیش جاری ہے۔

فارنزک ٹیموں کو جائے وقوعہ پر بلا لیا گیا ہے تاکہ شواہد اکٹھے کیے جا سکیں۔ ایس ایس پی سینٹرل نے میڈیا کو بتایا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ دونوں واقعات آپس میں جڑے ہیں یا نہیں۔

تاہم شہریوں کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں، پولیس ملزموں تک ضرور پہنچے گی۔

پولیس کے مطابق کچھ مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے، اور امکان ہے کہ جلد ہی اس معاملے میں بڑی پیش رفت سامنے آئے۔

ماہرین کی رائے

جامعہ کراچی کے شعبہ کرمنالوجی کی سربراہ ڈاکٹر نائمہ سعید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کراچی میں جرائم کے بڑھنے کی بنیادی وجوہات میں معاشی بحران، بے روزگاری اور منشیات مافیا کی سرگرمیاں شامل ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’پولیس کی نفری شہر کی آبادی کے حساب سے ناکافی ہے اور اکثر جرائم کی تفتیش تاخیر کا شکار ہو جاتی ہے۔‘

ان واقعات کے بعد شہری خود کو غیرمحفوظ تصور کرنے لگے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)نائمہ سعید کے مطابق کراچی میں آج بھی لاکھوں نوجوان بے روزگار ہیں۔ جب ریاست ان کے لیے روزگار کے مواقع فراہم نہیں کرتی تو مجرمانہ گروہ انھیں آسانی سے اپنے نیٹ ورک کا حصہ بنا لیتے ہیں۔

یہ صرف قتل کے واقعات نہیں بلکہ اس شہر کے اجتماعی خوف کی عکاسی کرتے ہیں۔ نارتھ ناظم آباد کے نالے سے بوری بند لاش اور گلستانِ جوہر کے قبرستان سے انسانی سر ملنے نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا کراچی دوبارہ 1990 کی دہائی کے تاریک دور میں داخل ہو رہا ہے؟

ماہرین اور شہری حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ اگر بروقت اور سخت اقدامات نہ کیے گئے تو شہر میں ایک بار پھر منظم جرائم شروع ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے پولیس اصلاحات، شفاف تفتیش اور عدالتی نظام میں بہتری کے ساتھ ساتھ شہریوں کو تحفظ کا حقیقی احساس دلانا ناگزیر ہے۔

کراچی کے یہ تازہ واقعات اس بات کا عندیہ ہیں کہ شہر میں جرائم نہ صرف بڑھ رہے ہیں بلکہ ان کی نوعیت بھی خطرناک اور پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔

سٹریٹ کرائمز، انسانی سمگلنگ، ڈکیتیاں اور اب بوری بند لاشیں۔ یہ سب واقعات مل کر ایک ایسے خوفناک منظرنامے کی تصویر پیش کر رہے ہیں جس میں شہری خود کو غیرمحفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More