’آپ کا رجسٹریشن والا سٹکر کہاں ہے؟‘
یہ سوال ایک دراز قد شخص نے مُجھ سے اُس وقت پوچھا کہ جب میں راولپنڈی میں آڈیشن دینے کے لیے آنے والے لوگوں سے بات کرنے کے لیے وہاں موجود تھی۔ اُن کی پاکستان آئیڈل کے لوگو والی ٹی شرٹ سے یہ واضح تھا کہ وہ انتظامیہ کے اہلکار ہیں۔
راولپنڈی آرٹس کونسل میں اُس وقت اور بھی ایسے بہت سے لوگ موجود تھے کہ جو آڈیشن دینے کے لیے آنے والے نوجوانوں کو قطاروں میں رہنے اور نظم و ضبط قائم رکھنے کی ہدایات کر رہے تھے جن پر تمام شرکا عمل کر رہے تھے۔
میں نے انتظامیہ کے رُکن کو بتایا کہ میں یہاں بی بی سی اُردو کی جانب سے پاکستان آئیڈل سیزن ٹو پر ایک سٹوری کے لیے انٹرویوز کرنے آئی ہوں اور ایک صحافی ہوں۔
یہ سن کر انھوں نے مجھے اور میرے ساتھی کیمرہ مین کو انتظامیہ کے لیے مختص ایک کمرے میں جانے اور وہاں انتظار کرنے کی ہدایت کی۔
اُس وقت وہاں موجود شرکا اپنے آڈیشن کی تیاری میں مصروف تھے اور گانے کی مشق کر رہے تھے۔ کوئی نصرت فتح علی خان کی قوالی گُنگنا رہا تھا تو کوئی ریپ گانے میں مشغول تھا، ماحول ایسا تھا کہ سب ہی اپنے خوابوں کو پورا ہوتے دیکھنا چاہتے تھے۔
اسی ماحول میں شفاعت علی ہم سے ملنے اور بات کرنے کے لیے پہنچ گئے۔
شفاعت نے آڈیشنز کے لیے نوجوانوں کے رش سے متعلق میرے سوال پر کہا کہ ’ابھی تو یہ کُچھ بھی نہیں، اگر آپ صبح کے وقت یہاں آتیں تو رش اور گہما گہمی دیکھ کر حیران رہ جاتیں۔‘
انھوں نے کہا کہ انھیں اور پاکستان آئیڈل کی ٹیم کو یہ اُمید نہیں تھی کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ آڈیشنز دینے آئیں گے کیونکہ ان کے مطابق پاکستان آئیڈل سیزن ٹو کی تشہیر اور آڈیشن کے لیے درست مقام کا اعلان کرنے کا وقت ہی نہیں ملا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ سکھر، ملتان اور لاہور آڈیشنز میں بھی یہی صورتحال تھی جہاں بہت تعداد میں ’ٹیلنٹیڈ‘ لوگ شامل ہوئے۔
وہاں موجود نوجوانوں سے بات کر کے اس بات کا اندازہ ہوا کہ یہاں ان لمبی قطاروں میں لگے کنٹیسٹنٹس صرف راولپنلڈی اور اسلام آباد سے ہی نہیں بلکہ دیگر بہت سے شہروں سے لمبی مسافت طے کر کے راولپنڈی پہنچے ہیں۔
تقریباً ایک دہائی بعد واپسی
شفاعت نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’پاکستان آئیڈل کے پہلے سیزن کا فارمیٹ باہر سے آیا تھا مگر اس بار پاکستان آئیڈل ٹیم نے اسے پاکستانی انڈسٹری اور ماحول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔‘
پروڈیوسر بدر اکرام نے بھی چند نئی تبدیلیوں کا ذکر کیا۔
انھوں نے بتایا کہ اس بار آن لائن آڈیشنز کی اجازت دی گئی جس سے خواتین کی شرکت نمایاں طور پر بڑھی اور پہلی مرتبہ یہ شو ایک سے زیادہ چینلز پر نشر ہونے جا رہا ہے۔
’پاکستان وہ پہلا مُلک ہے کہ جہاں فریمنٹل نے اس شو کو ایک سے زیادہ چینلز پر دکھانے کی اجازت ملی ہے۔‘
فریمینٹل اور پاکستان آئیڈل: یہ سب کیا ہے؟
بدر نے فریمینٹل کپمنی سے متلعق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’فریمینٹل میڈیا دنیا کی سب سے بڑی پروڈکشن کمپنیوں میں سے ایک ہے جس کے پاس مختلف فارمیٹ شوز کے متعدد لائسنس ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے اسی بارے میں بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’آئیڈل بھی انھیں کا فارمیٹ ہے اور یہ 56 ممالک میں چل رہا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ انڈین آئیڈل ہے یا امیریکن آئیڈل ہے مگر دراصل یہ ایک پروگرام کا فارمیٹ ہے جو ہر مُلک اپنے انداز میں کرواتا ہے اور اب تک یہ دُنیا کے 56 ممالک میں ہو چُکا ہے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’یہ دنیا کے سب سے مقبول اور کامیاب فارمیٹ شوز میں سے ایک ہے۔ وہ فرنچائز اب پاکستان آئی ہے تو یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ایک بہت بڑی کامیابی اور ہماری انڈسٹری پر بڑی کمپنیوں اور اداروں کا بڑھتا ہوا اعتماد ہے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس سیزن میں صرف پاکستانی گانے ہوں گے؟ پاکستان آئیڈل کی جج زیب بنگش نے کہا کہ ’مُجھے یہ بتاتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ جی ہاں صرف پاکستانی گانے ہوں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم سب نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ صرف پاکستانی گانے آڈیشن میں شامل کیے جائیں گے۔ اس بات کی خوشی بھی ہے کہ یہاں اپنی آواز کا جادو جگانے والے نوجوانوں نے اس پر باقاعدہ ریسرچ کی اور وہ مختلف پاکستانی گانے ڈھونڈ کر ہمارے سامنے پیش کرنے کے لیے لے کر آئے۔‘
پہلا سیزن کتنا کامیاب رہا اور اس میں کامیاب ہونے والے آج کہاں ہیں؟
پاکستان آئیڈل کا پہلا سیزن بہت لوگوں کے لیے شاید یادگار ضرور تھا لیکن اُس کے شرکا آج میوزک انڈسٹری میں کس مقام پر ہیں؟ اور پاکستان آئیڈل نے انھیں اپنے خواب پورے کرنے میں کتنی مدد دی؟
ان تمام سوالوں کا جواب جاننے کے لیے ہم نے سیزن ون کا حصہ بننے والے چند شرکا سے رابطہ کیا اور اُن سے اس بارے میں بات کی۔
روز میری مشتاق پہلے سیزن کی وہ واحد خاتون تھیں کہ جو اس مقابلے میں ’ٹاپ فائیو‘ تک پہنچی تھیں۔ وہ اب بھی گلوکاری جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اُس سیزن کے شرکا بھی بہت ’ٹیلنٹڈ‘ تھے مگر انھیں ویسی پہچان اور مواقع نہیں ملے جیسے دوسرے ممالک کے آئیڈلز میں ملتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ ویسی سپورٹ پاکستان میں ہو گی جیسا ’امریکن آائیڈل‘ یا ’انڈین ائیڈل‘ کے شرکا کو ملتی ہے، جس کے بعد وہ فلمی دُنیا میں قدم رکھتے ہیں اور پلے بیک سنگنگ اور لائیو کانسرٹس کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر یہاں حالات مختلف تھے ہم نے آئیڈل کے بعد جو بھی کیا اپنے بل بوتے پر ہی کیا۔ پاکستانی میوزک اور فلم انڈسٹری کی طرف سے کوئی خاص ردِعمل، رہنمائی یا سپورٹ نہیں ملی۔‘
سیزن ون کے فائنل میں پہنچنے والے وقاص علی وکی کے مطابق ’پاکستان میں گلوکاروں کے پاس زیادہ مواقع نہیں، آپ کو زیادہ پرائیویٹ یا کارپوریٹ ایونٹس نہیں ملتے، بلکہ یہاں ایسے ایونٹس ہوتے ہی نہیں ہیں۔‘
وقاص اب بھی میوزک انڈسٹری سے منسلک ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’شو کے بعد ہر فنکار کو اپنا راستہ خود بنانا پڑتا ہے۔‘ ان کے مطابق ’پاکستان کی میوزک انڈسٹری میں مواقع بہت کم ہیں اور کسی بھی فنکار کے لیے ضروری ہے کہ وہ شو کے بعد بھی انڈسٹری اور لوگوں سے اپنے میوزک کے ذریعے رابطے میں رہے۔‘
’جو توقع آپ کرتے ہیں شاید اُس طرح سے سب کُچھ آپ کو نہیں ملتا، لیکن آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ کسی حد تک معاملات بہتری کی جانب بڑھنے لگتے ہیں مگر اُس طرح نہیں کہ جن کے خواب آپ دیکھ کر یہ محنت کر رہے ہوتے ہیں۔‘
ایک دوسرے کے ساتھ رابطے اور نیٹ ورکنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے روز میری مشتاق کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی میوزک انڈسٹری میں تقریباً سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ کسی کو آپ کے بارے میں نہیں پتہ ہوگا۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’میں گذشتہ 10 سے 12 سال سے سوشل میڈیا پر سرگرم ہوں اور یہ سمجھتی ہوں کہ اگر میں کسی اور ملک میں ہوتی تو شاید صرف سوشل میڈیا کے ذریعے بھی زیادہ مواقع مل سکتے تھے۔‘
سید ساجد عباس سیزن ون میں ٹاپ 13 تک پہنچے تھے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب ایڈورٹائیزنگ یعنی اشتہارات کے شعبے میں ہیں۔
انھوں نے کچھ ڈراموں کے او ایس ٹیز یعنی اوریجنل ساؤنڈ ٹریک گانے کے ساتھ ساتھ اشتہارات میں بھی گلوکاری کی ہے۔
سید ساجد عباس نے پاکستان آئیڈل جیسے شوز سے وابستہ توقعات کے ایک اور پہلو پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ’ایسے شوز شرکا میں خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں اور سیکھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور انھیں اپنی کمزوریوں کا درست انداز میں پتہ چلتا ہے اور آپ اُن میں بہتری لا سکتے ہیں۔‘
’موقع ہم دیتے ہیں، کوشش اور محنت سب کی اپنی ہوتی ہے‘
شو ترتیب دینے والوں کا اس بارے کہنا ہے کہ ’آئیڈل ایک پلیٹ فارم ضرور ہے لیکن اس کے بعد گلوکار کو خود ہی اپنی منزل تلاش کرنا پڑتی ہے۔‘
زیب بنگش کا کہنا تھا کہ ’جی ہاں میوزک انڈسٹری میں سب کُچھ آسانی سے حاصل نہیں ہو جاتا، مسائل تو ہیں اور ان کا سامنا صرف نوجوان اور نئے فنکاروں کو ہی نہیں بلکہ ہمیں بھی کرنا پڑتا ہے۔ وقت پر ادائیگیاں نہیں ہوتیں، مناسب نمائندگی نہیں ملتی، پروفیشنلزم ہماری انڈسٹری میں آئی نہیں ہے۔‘
’یہ جگہ باہر بیٹھ کر جس قدر آسان لگتی ہے ویسی حقیقت میں نہیں ہے۔ یہاں آنے والے نوجوانوں کو ایک موقع دے رہے ہیں۔ اس کے بعد ہر کسی کو خود اپنے محنت کرنی ہو گی۔ انھیں اپنے ہنر، اپنے کام کو وقت دینا ہو گا۔ یہ ان کی جنگ ہے انھیں خود لڑنا ہو گی۔‘
پاکستان آئیڈل سیزن ٹو کے جج راحت فتح علی خان کا بھی کہنا تھا کہ ’ہم نے یہاں آنے والے نوجوان فنکاروں کو ایک پلیٹ فارم دے دیا، اب اس کے بعد ان کی اپنی پرواز ہے کہ وہ خود سے اس کو کیسے آگے لے کے جاتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میوزک کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی ضروری ہے۔ فلمیں ہوں گی تو سنگرز کو بھی گانے کا مواقع ملے گا۔‘
روز میری مشتاق کا کہنا تھا کہ ’پچھلے سیزن میں وعدے کیے گئے تھے کہ فائنل میں پہنچنے والوں کو ٹورز اور شوز پر لے جایا جائے گا، مگر ایسا نہ ہو سکا۔‘
تاہم پروڈیوسر بدر اکرام نے اس بارے کہا کہ ’آخری تین فائنلسٹس کو ایک انٹرنیشنل لیبل کے ساتھ ریکارڈ ڈیل ملے گی۔ اس بار البمز، ویڈیوز اور کنسرٹس کا موقع بھی دیا جائے گا۔‘
کیا پاکستان آئیڈل جیسے ریئلٹی شوز کامیاب ہو سکتے ہیں؟
ایسے حالات میں یہ سوال اہم ہے کہ کیا پاکستان آئیڈل جیسا شو طویل عرصے تک کامیابی سے چل سکتا ہے؟
پروڈیوسر بدر اکرام پُرامید ہیں اور بتاتے انھیں آڈیشنز اور پروموشن مہم میں جو رسپانس ملا ہے اُس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس شو میں لوگوں کی دلچسپی بہت زیادہ ہے۔
بدر نے یہ بھی کہا کہ ’اس بار وفاقی اور صوبائی حکومت اور نجی اداروں نے بھرپور تعاون کیا ہے اور ریاستی سطح پر فن کی پزیرائی اور سپورٹ دیکھنے کو مل رہی ہے۔‘
اسی طرح روز نے کہا کہ ’پاکستان میں ایسے شوز تو ضرور ہونے چاہییں۔ بات ہمیشہ جیتے کی نہیں ہوتی۔ آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ جب آپ موسیقی سے منسک لوگوں کو اپنے ارد گرددیکھتے ہیں تو آپ میں میوزک کے حوالے سے سنجیدگی بھی بڑھتی ہے۔‘
زیب بنگش کا کہنا تھا کہ ’ایسے پلیٹ فارمز اور شوز کا تسلسل سے ہونا ضروری ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جیسے جیسے سیزنز آگے بڑھتے ہیں ویسے ہی گلوکاروں کے لیے مواقع بھی بڑھتے ہیں۔ ایک تسلسل سے بھی فرق پڑتا ہے۔ ابھی تو صرف سیکنڈ سیزن ہے لیکن آپ یہ بھی سمجھ سکتے ہیںکہ ایک لمبے وقفے کے بعد ایک طرح سے یہ پہلا ہی سیزن ہے۔‘
عینا آصف: ’تنقید برداشت کرنا بڑا چیلنج تھا، سوشل میڈیا پر اپنے بارے میں کچھ بُرا پڑھ لیتی تو رو پڑتی تھی‘25 کروڑ روپے کے بجٹ سے بننے والی فلم ’لو گورو‘: ’ایک بار ولن کا رول کیا تھا مگر وہ فلم چلی نہیں اس لیے اب تک ہیرو آتا ہوں‘’پرورش‘: جین زی کا ڈرامہ جس نے والدین اور بچوں کے بیچ فاصلے کی کہانی دکھائی’لازوال عشق‘: ’سچی محبت کی تلاش‘ کے لیے بنایا گیا پروگرام پاکستان میں متنازع کیوں بنا؟’ہمیں فقیر بنا دیا گیا ہے‘: پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری جہاں ’چیک ملنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں‘عروج آفتاب کی موسیقی پر لاہور، ’محبت‘ اور سانحات کا اثر