سستے تیل کی ’سازش‘ جس نے سرد جنگ میں سوویت یونین کو نقصان پہنچایا، کیا ٹرمپ اسے دہرا سکتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Oct 24, 2025

BBC

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ یوکرین میں روس کی جنگ کو فنڈ کرنے والی دو بڑی روسی آئل کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ کریملن کا کہنا ہے کہ روس کو ایسی پابندیوں سے ’تحفظ‘ حاصل ہے لیکن ہمیں تاریخ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ٹرمپ تیل کے ذریعے یوکرین میں قیام امن کے لیے ثالثی کر سکتے ہیں۔

پولینڈ میں ناقد اور صحافی ایڈم مچنک نے ایک بار کہا تھا کہ ’تاریخ گواہ ہے کہ حالات نے کمیونسٹوں کو مجبور کیا تھا کہ وہ سمجھداری کا مظاہرہ کریں اور سمجھوتے تسلیم کریں۔‘

سوویت یونین کے کیس میں تیل کی قیمت ایک بڑی وجہ تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد 70 اور 80 کی دہائیوں میں جب معاشی عدم استحکام تھا تو اس وقت تیل کی قیمت میں بہت اتار چڑھاؤ آیا تھا۔

سنہ 1973 سے 1974 اور پھر 1978 سے 1980 تک تیل کی قیمت میں اضافے نے مہنگائی میں اضافہ کیا جو پہلے ہی امریکہ اور مغربی یورپ میں اپنی بلندی پر تھی۔ یہ ممالک اس وقت معاشی سست روی اور بے روزگاری سے نمٹنے کی کوششیں کر رہے تھے اور ان پر قرضے بھی بڑھ رہے تھے۔

دریں اثنا سوویت یونین میں برآمدات کی آمدن بڑھ رہی تھی۔ اس نے نہ صرف اپنی غیر موثر مگر مستحکم معیشت کو برقرار رکھا بلکہ صنعتی و فوجی انفراسٹرکچر کی بھی امداد کی۔ ہتھیاروں کی دوڑ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے افریقہ اور ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا تھا۔

جنگ اور امنGPO / Getty Imagesاکتوبر 1973 میں یوم کپور جنگ کے آغاز کے چند دن بعد شامی فوجی اسرائیلی فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں

6 اکتوبر 1973 کو مصر اور شام کی قیادت میں عرب ریاستوں کے اتحاد نے اسرائیل پر اچانک حملہ کیا جسے یوم کپور جنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

سوویت یونین نے عرب ریاستوں کی جبکہ امریکہ نے اسرائیل کی حمایت کی۔ اس کے جواب میں عرب ممالک نے تیل کی سپلائی کم کر دی اور امریکہ پر پابندیاں عائد کیں جس سے قیمتیں بڑھ گئیں۔

تاریخ دان اور کتاب ’دی کویئسٹ اینڈ دی پرائز: دی ایپس کویئسٹ فار آئل، منی اینڈ پاور‘ کے مصنف ڈینیئل یرگن کہتے ہیں کہ ’1973 میں تیل کی پابندی نے عالمی توانائی کی مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

’اس نے علاقائی سیاست اور عالمی معیشت کی ترتیب نو کی اور توانائی کے جدید دور کو متعارف کرایا۔‘

اور جب 1979 میں مصر-اسرائیل امن معاہدے پر دستخط ہوئے تو ایران میں انقلاب آیا جس نے تیل کے دوسرے بحران کو شروع کیا۔

پاکستان میں تیل کے ممکنہ ’وسیع ذخائر‘ کہاں ہیں اور ان کی دریافت کا کام کہاں ہو رہا ہے؟دلی سے دوری اور اسلام آباد سے قربت: ’پاکستان کو سمجھنا ہو گا کہ اس کا واسطہ ایک غیر روایتی امریکی صدر سے پڑا ہے‘ٹرمپ کی سرزنش، شی سے مصافحہ اور روسی تیل: انڈیا کی خارجہ پالیسی کا امتحانسستے تیل کے بدلے بڑا امتحان: روسی تیل انڈیا کے لیے کتنا اہم ہے؟فتح اور شکستKeystone-France/Gamma-Keystone via Getty Images1980 کی دہائی کے اوائل کے دوران سائبیریا میں تیل کے نئے ذخائر دریافت ہوئے

اگرچہ امریکہ اور مغربی یورپ کو کساد بازاری کا سامنا تھا تاہم سوویت یونین نے نسبتاً استحکام کو برقرار رکھا جسے اس کے ٹھراؤ کا دور کہا جاتا ہے۔

خلیجی ریاستوں کے باہر سائبیریا کے پاس تیل کے سب سے بڑے ذخائر دریافت ہوئے۔ تیل کی بڑھتی قیمتوں نے تیل نکالنے کے کام کو بہت منافع بخش بنا دیا تھا۔ 1980 تک سوویت یونین دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک بن گیا تھا۔

کیوبا اور ویتنام کے ساتھ ساتھ مشرقی یورپی اتحادیوں کو کم قیمت پر سوویت تیل مل رہا تھا۔ یوں سوویت یونین پر انحصار کرنے والے ممالک کا نیٹ ورک قائم ہوا۔ مغربی ممالک کو تیل کی برآمد سے اچھی آمدن حاصل ہو رہی تھی۔

اناج سے لے کر صنعتی سامان اور ٹیکنالوجی تک، پیٹرو ڈالر کی اچانک بڑے پیمانے پر آمد کے ذریعے سوویت یونین نے ہر وہ چیز درآمد کی جو اب تک اس کی سوشلسٹ معیشت پیدا نہیں کر رہی تھی تاہم اس نے سوویت نظام میں مسائل پر پردہ ڈال دیا۔ دفاعی اخراجات کے علاوہ معیشت کے ہر شعبے کے وسائل سے تیل کی صنعت میں سرمایہ کاری کی جا رہی تھی۔

مغربی ممالک بھی اسی جانب گامزن تھے۔ جرمن چانسلر ہیلمٹ کوہل نے سوویت یونین کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ’راکٹوں والا برکینا فاسو‘ بن گیا ہے۔ یہ غریب مغربی افریقی ملک سے متعلق ایک حوالہ تھا۔

وقت اور پیسہGetty Images

افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد 1979 میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے سوویت یونین کو ٹیکنالوجی کی برآمدات پر پابندیاں عائد کی جس سے اس کی تیل کی پیداوار فوراً متاثر ہوئی۔

1980 کی دہائی کے اوائل میں جب عالمی کھپت میں کمی آنا شروع ہوئی اور تیل کی قیمتیں بالآخر گرنا شروع ہوئیں تو سوویت بجٹ اور اخراجات کو سہارا دینے والی ’سنہری‘ آمدن کا سلسلہ تھم گیا۔

سوویت رہنماؤں کے لیے قیمتیں بڑھانا کوئی آپشن نہیں تھا جبکہ پولینڈ میں ہڑتالوں اور مظاہروں کے بعد مارشل لا نافذ ہو گیا تھا۔

اس کے بجائے انھوں نے بجٹ کے خسارے کو پُر کرنے کے لیے قرض لیے۔

کتاب ’پوسٹ وار: اے ہسٹری آف یورپ سنس 1945‘ کے مصنف ٹونی جوڈ کے مطابق سوویت سوویت بلاک صرف ادھار لیے گئے پیسوں پر نہیں بلکہ ادھار لیے گئے وقت پر جی رہا تھا۔

ڈیل ہو گی یا نہیں؟ Getty Imagesامریکی صدر رونالڈ ریگن نے فروری 1985 میں واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں سعودی عرب کے بادشاہ فہد سے ملاقات کی۔ اس کے فوراً بعد تیل کی قیمتیں گرنا شروع ہوگئیں

1980 اور 1986 کے درمیان تیل کی قیمت 35 ڈالر فی بیرل سے گِر کر 10 سے 15 ڈالر تک پہنچ گئی۔

مغرب نے مشرق وسطیٰ سے درآمدات کو کم کرنے کے لیے توانائی کی بچت، بجلی کی طرف منتقلی اور ملکی پیداوار کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کی تھی۔

لیکن پھر یوکرین کے صدر کے دفتر کے سربراہ آندری یرماک کے مطابق یوکرین کو ’تیل کی قیمتوں میں کمی اور پیداوار میں اضافہ کر کے ماسکو کو نقصان پہنچانے کا موقع ملا۔‘

یرمک نے والسٹریٹ جرنل میں لکھا کہ ’1986 میں (امریکی) صدر رونالڈ ریگن اور سعودی عرب کے شاہ فہد نے تیل کی قیمت کم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ 10 ڈالر فی بیرل کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ ایک سال کے دوران سوویت یونین کو 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوگا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم میں سب سے زیادہ بااثر کھلاڑی ہے۔ اس نے اوپیک کو پیداوار بڑھانے پر آمادہ کیا۔‘

’امریکہ نے بھی پیداوار میں اضافہ کیا اور سوویت یونین کے لیے ٹیکنالوجی کی برآمدات پر پابندی لگا دی۔ تیل کی قیمتیں توقع سے کہیں زیادہ گِر گئیں، یعنی 12 ڈالر فی بیرل۔‘

’فوجی اخراجات کے باعث سوویت معیشت کو کافی نقصان پہنچا۔‘

’بعد میں جو ہوا وہ سب کو معلوم ہے۔ 1991 میں سوویت یونین کا خاتمہ ہوا۔ دنیا کا سب سے بڑا جوہری ہتھیار بھی اسے نہ بچا سکا۔‘

ریگن انتظامیہ نے اس طرح کے کسی بھی معاہدے کی تردید کی تھی تاہم اس معاملے پر آج تک ماہرین اقتصادیات، تاریخ دانوں اور سفارت کاروں کی طرف سے بحث جاری ہے۔

درحقیقت ماہر اقتصادیات اور یورپ کے تھنک ٹینک کے مرکز برائے تجزیہ اور حکمت عملی کے ڈائریکٹر دمتری نیکراسوو نے اسے ایک سازشی تھیوری کے طور پر مسترد کر دیا ہے جو ’تحقیق سے ثابت نہیں۔‘

ہتھوڑا اور درانتیDirck Halstead / Getty Imagesسوویت صدر میخائل گورباچوف نے اظہار رائے کی زیادہ آزادی اور معاشی لبرلائزیشن کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی صدر رونالڈ ریگن کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کیے

جب میخائل گورباچوف 1985 میں سوویت یونین کے رہنما بنے تو انھوں نے یہ امید ظاہر کی تھی کہ تیل سے حاصل ہونے والی آمدن گلاسنوسٹ (مشاورت اور اتفاق رائے کی پالیسی)، زیادہ سے زیادہ اظہار رائے کی آزادی اور پیرسٹروکا (سیاسی اصلاحات) اور اقتصادی لبرلائزیشن کی فنڈنگ میں مدد کرے گی۔

اگرچہ سوویت یونین اس وقت تک دنیا کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک بن چکا تھا تاہم اب وہ اپنی گھریلو مانگ یا اپنے پر انحصار کرنے والے اتحادیوں کی ضرورت پوری نہیں کر سکتا تھا، خاص طور پر جب قیمتوں پر سبسڈی تھی اور عالمی منڈی میں قیمتیں اور مانگ گِر گئی تھی۔

جب سوویت یونین نے سبسڈی ختم کی تو سوویت نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگا۔

1980 کی دہائی کے آخر تک مشرقی یورپ میں انقلابات اور الگ ریاستوں کے قیام کے بعد 25 دسمبر 1991 کو کریملن کے پرچم سے ہتھوڑے اور درانتی کا نشان ہٹا دیا گیا اور اس کی جگہ روسی ترنگے نے لے لی۔

لیکن سوویت یونین کی طرح جدید روس کی معیشت بھی توانائی کی برآمدات پر انحصار کرتی ہے۔

یرمک لکھتے ہیں کہ روس کی معیشت کا انحصار ’ملک کے قدرتی وسائل پر ہے، جیسا کہ سوویت دور میں تھا۔‘

’حالیہ برسوں کے دوران تیل اور گیس روسی برآمدات میں 60 فیصد اور وفاقی محصول میں 40 فیصد بنتے ہیں۔‘

مغربی پابندیوں کے باوجود ماسکو کے سب سے بڑے صارفین میں دنیا کے دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک چین اور انڈیا شامل ہیں۔ جبکہ ترکی میں روس سے تیل خریدتا ہے۔

روس تیل سے جو اربوں ڈالر کماتا ہے اسے یوکرین میں جنگ کی فنڈنگ ​​کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

BBC’ڈریل بیبی ڈریل‘

ٹرمپ نے دوبارہ صدر بننے پر جنوری 2025 کے دوران اپنی پہلی تقریر میں ’ڈریل بیبی ڈریل‘ کی پالیسی کا اعلان کیا تھا، یعنی مقامی سطح پر ایندھن کی پیداوار بڑھائی جائے گی۔

بعض لوگوں کی رائے ہے کہ وہ ریگن کے راستے پر چل سکتے ہیں۔ ریگن نے ایک بار سوویت یونین کو ’شیطانی سلطنت‘ کہا تھا۔

یرمک کہتے ہیں کہ امریکہ تیل کی قیمتوں میں کمی لا کر اور پیداوار بڑھا کر ماسکو کی آمدن کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

تاہم فی الحال ٹرمپ کی عائد کردہ نئی پابندیوں نے عالمی سطح پر تیل کی قیمت بڑھا دی ہے۔ اس وقت برینٹ کی قیمت پانچ فیصد اضافے کے بعد 65 ڈالر فی بیرل ہے۔

مگر روسی خام تیل یورالز برینٹ سے قدرے سستا ہوتا ہے۔ پابندیوں کے باعث یہ خریداروں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے جو کہ شاید اس کی قیمت میں مزید کمی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

BBCروس کا ماضی اور مستقبل

دریں اثنا یوکرین کے روسی آئل ریفائنریوں اور توانائی کے انفراسٹرکچر پر حملے شدت اختیار کر رہے ہیں۔

کیا یہ کوششیں روس کے لیے جنگ کے اخراجات کو برداشت کرنا مشکل بنا دیں گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

بی بی سی روسی سروس میں اکنامسٹ ایڈیٹر اولگا شمینا کا خیال ہے کہ جدید روسی معیشت میں توانائی کی برآمدات پر انحصار سوویت دور سے مختلف ہے۔

اگرچہ تیل کی گِرتی قیمتوں نے اہم کردار ادا کیا تھا مگر سوویت معاشی نظام کا اصل مسئلہ اس کا غیر موثر ہونا تھا مگر اس بار یوکرین جنگ سے قبل روسی معیشت مستحکم تھی۔

سستے تیل کے بدلے بڑا امتحان: روسی تیل انڈیا کے لیے کتنا اہم ہے؟ٹرمپ کی سرزنش، شی سے مصافحہ اور روسی تیل: انڈیا کی خارجہ پالیسی کا امتحانپاکستان میں تیل کے ممکنہ ’وسیع ذخائر‘ کہاں ہیں اور ان کی دریافت کا کام کہاں ہو رہا ہے؟امریکی ’پابندیوں‘ کے بعد انڈیا کی چین سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش: کیا پوتن مودی کی مشکل کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟دلی سے دوری اور اسلام آباد سے قربت: ’پاکستان کو سمجھنا ہو گا کہ اس کا واسطہ ایک غیر روایتی امریکی صدر سے پڑا ہے‘ٹرمپ ایرانی تیل کی برآمدات ’صفر‘ پر دھکیل کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More