انتباہ: اس مضمون میں بعض تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کُن ہو سکتی ہیں۔
خان یونس کے ناصر ہسپتال کے ایک ہال میں درجنوں فلسطینی اُن گلتی سڑتی لاشوں کی تصویروں میں اپنے اُن پیاروں کی شناخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو غزہ میں جنگ کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے۔
شناخت کے اس عمل کے دوران بہت سے لاپتہ افراد کے لواحقین خدا سے دعا گو ہیں کہ وہ اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں تاکہ انھیں سپرد خاک کیا جا سکے اور گھر والوں کو کچھ تسلی میسر آ سکے۔ تاہم بہت سے لاشیں ایسی ہیں جنھیں کوئی شناخت نہیں کر پایا اور جنھیں بعد میں ایک اجتماعی قبر میں ’نامعلوم افراد‘ کے طور پر دفن کر دیا گیا۔ 
درد اور صدمے کا یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں ہے۔ ڈاکٹروں اور لاشوں کا معائنہ کرنے والے لواحقین کے مطابق چند لاشوں پر ’تشدد کے نشانات‘ بھی پائے گئے ہیں۔ 
غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل اور حماس کے درمیان لاشوں کا تبادلہ بھی ہوا ہے اور اسی سلسلے میں اسرائیل نے اب تک 195 نامعلوم فلسطینیوں کی لاشیں غزہ کے حوالے کی ہیں، تاہم 95 لاشوں کی شناخت کی تصدیق نہ ہونے کے بعد ان لاشوں کو ایک اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا۔
اجتماعی قبر میں 95 نامعلوم لاشیںEPAخان یونس کے ناصر ہسپتال میں اسرائیل سے موصول ہونے والی فلسطینیوں کی لاشیں لائی جا رہی ہیں
اسرائیلی اخبار یدیہ اہرنات کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے ایک اسرائیلی یرغمالی کی لاش کے بدلے 15 فلسطینیوں کی لاشیں حوالے کی ہیں۔
فلسطینیوں کی لاشوں کی حوالگی کا عمل 14 اکتوبر سے شروع ہوا اور واپس کی گئی لاشوں کی تعداد 195 تک پہنچ گئی ہے۔
اِن لاشوں کی تدفین اسلامی رسومات کے مطابق کی گئی اور خان یونس کے مفتی شیخ احسان اشور نے اجتماعی نماز جنازہ ادا کروائی۔
مفتی شیخ احسان اشور نے بی بی سی کو بتایا کہ ان لاشوں کے گلنے سڑنے کے باعث اُن میں تعفن پیدا ہو چکا تھا جبکہ انھیں طویل عرصے تک محفوظ رکھنے کے لیے غزہ میں موجود سرد خانوں میں ناکافی جگہ کے باعث تدفین میں مزید تاخیر نہیں کی جا سکتی تھی۔ 
مفتی احسان اشور نے مزید کہا کہ لاشوں کو مخصوص نشانات اور نمبروں کے ساتھ دفن کیا گیا ہے اور اگر کچھ لاشوں کی بعدازاں شناخت ہو جاتی ہے تو نمبر کو میت کے نام سے تبدیل کر دیا جائے گا۔
لاشوں کو سنبھالنے کا طریقہ کار کیا ہے؟
غزہ کی پٹی میں فلسطینی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل منیر البرش نے بی بی سی کو بتایا کہ وزارت صحت اور انصاف، پبلک پراسیکیوشن اور فرانزک میڈیسن پر مشتمل خصوصی کمیٹی اسرائیل سے ان لاشوں کو وصول کر رہی ہے۔
میت پر موجود کسی بھی شناختی علامت اور سامان کو دستاویز کرنے کے لیے لاشوں کا معائنہ کیا جا رہا ہے جس کے بعد لاشوں، سامان اور شناختی علامات (اگر موجود ہوں) کی تصاویر کو ایک خاص کوڈ کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے۔
اگر لوگ تصاویر اور سامان کے ذریعے میت کو پہچان لیتے ہیں تو طریقہ کار کے مطابق لاش وصول کرنے کی تاریخ مقرر کرنے سے پہلے اہلخانہ خان یونس میں واقع ناصر میڈیکل کمپلیکس کے فیلڈ ہسپتال میں متعلقہ کمیٹی کے پاس شواہد لے کر جاتے ہیں۔
جہاں تک ان لاشوں کا تعلق ہے جن کی کسی نے شناخت نہیں کی ہے، انھیں دفنانے سے پہلے ایک مخصوص مدت کے لیے رکھا جاتا ہے۔
منیرالبرش نے مزید بتایا کہ لاشوں کی حوالگی اسرائیلی کی طرف سے فراہم کردہ فہرستوں کے ذریعے کی جانی تھی لیکن انھیں صرف چھ فہرستیں فراہم کی گئیں۔
ان کے مطابق ’جب ہم نے فہرستوں پر شناختی نمبر چیک کیے تو ہمیں معلوم ہوا کہ وہ غزہ میں موجود زندہ بزرگ افراد کے لیے مختص نمبر تھے۔‘
’میرا دل رو رہا ہے‘Reutersدیر البلاح میں ایک اجتماعی قبر میں دفن کرنے سے پہلے فلسطینی نامعلوم لاشوں کی نماز جنازہ ادا کر رہے ہیں
مروان ابو حرب خدا سے دعا گو ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کی لاش تلاش کر پائیں تاکہ اس کے بعد وہ انھیں دفن کر سکیں۔ 
مروان نے جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی اپنا بیٹا کھو دیا تھا تاہم لاشوں کی شائع شدہ تصاویر میں وہ اپنے بیٹے کو نہیں پہچان سکے۔ 
 انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم خدا سے دعا گو ہیں کہ اپنے بیٹے کو تلاش کر کے اسے سپرد خاک کر سکیں اور یہ جان لیں کہ یہاں اس کی قبر ہے تاکہ اس پر قرانی آیات کی تلاوت کر سکیں۔‘
مروان نے کہا کہ ’دیر البلاح میں دفن ہونے والوں کی کوئی علیحدہ صفات یا شناخت نہیں اور ہم دنیا سے کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے محض نمبر نہیں ہیں۔‘
غزہ کی پٹی میں وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ 75 فلسطینیوں کی لاشوں کی شناخت ان کے اہلخانہ نے ایک الیکٹرانک لنک کے ذریعے کی ہے جس میں لاشوں اور ان کے سامان کی تصاویر شائع کی گئی ہیں۔
اُم ابراہیم ان تصاویر میں اپنے بیٹے کی تلاش پر مصر ہیں، جبکہ ایک اور خاتون (جنھوں نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا) نے لاشوں کی شناخت کے حوالے سے دی گئی معلومات میں کمی کا الزام عائد کیا اور بغیر شناخت ایسی لاشوں کی تدفین پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’میرا دل رو رہا ہے۔‘
AFP via Getty Imagesایک اہلکار ایک فلسطینی کی باقیات کی شناخت کرتے ہوئے اس کے شناختی کارڈ کی جانچ کر رہا ہے
اکرم مناسرا ان لاشوں میں اپنے بیٹے کی شناخت کرنے میں کامیاب رہے ہںی۔ اکرم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے بیٹے کو اس کے چہرے پر موجود تل اور دانتوں سے پہچانا۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سات اکتوبر 2023 سے اب تک ہلاک ہونے والے سینکڑوں فلسطینیوں کی لاشیں اب بھی اسرائیل کے پاس موجود ہیں۔
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے فلسطینی اور اسرائیلی دونوں طرف کی لاشوں کی منتقلی کے عمل کو سنبھالا ہوا ہے۔ کمیٹی نے فریقین پر زور دیا ہے کہ ’لاشوں کے ساتھ عزت کے برتاؤ کو یقینی بنایا جائے۔‘
دو سالہ جنگ، زیرِ زمین سرنگوں کا جال اور بکھری ہوئیقیادت: کیا غزہ پر آہنی گرفت رکھنے والی حماس واقعی اقتدار چھوڑ دے گی؟ٹرمپ نے ’فلسطینی منڈیلا‘ کی رہائی کی امید پیدا کر دی: اسرائیلی قید میں موجود مروان البرغوثی کون ہیں؟غزہ میں حماس اور مسلح قبیلے ’دغمش‘ کے درمیان جھڑپوں میں 27 ہلاکتیں: ’دغمش‘ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں اور یہ کتنا طاقتور قبیلہ ہے؟غزہ میں نقل مکانی ’جس کی حالیہ دہائیوں میں مثال نہیں ملتی‘
دوسری جانب غزہ میں شعبہ صحت کے حکام ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے لاشوں کی شناخت کرنے سے قاصر رہے۔
البرش نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی فوج نے جنگ کے دوران یہ ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھنے والی تمام لیبارٹریوں کو تباہ کر دیا ہے۔
تدفین سے پہلے لاشوں سے نمونے حاصل کیے گئے جن کے ٹیسٹ اس وقت ہی کیے جا سکیں گے جب ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کے قابل لیبارٹریاں اپنا کام شروع کر سکیں گی۔
تشدد اور بدسلوکی کے الزامات
لاشوں کا معائنہ کرنے کے بعد متعدد گروہوں کی جانب سے اسرائیلی پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ ان لاشوں کو لواحقین کے حوالے کرنے کے معاملے پر خلاف ورزیوں کا مرتکب ہوا ہے تاہم اسرائیل نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
شہری دفاع کے ترجمان محمود بسال نے اے ایف پی کو بتایا کہ زیادہ تر لاشیں خان یونس کے ناصر ہسپتال میں ’انتہائی خراب حالت‘ میں‘ پہنچائی گئی ہیں۔
منیر البرش نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کچھ لاشوں کے سر اور سینے پرتشدد کے نشانات پائے گئے جبکہ کچھ کو قریب سے گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ قتل کرنے کے بعد لاشوں کو جلایا گیا، مسخ کیا گیا اور کچھ کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا۔‘
منیر البرش نے مزید کہا کہ ’ہمیں بدھ کے روز 30 لاشیں ملی تھیں جنھیں بُری طرح کچل دیا گیا تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’مجھے اب بھی ایک لاش یاد ہے جس پر زنجیر کے نشانات موجود تھے۔‘
غزہ میں وزارت صحت کے مردہ خانے کے سربراہ احمد ظہیر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’فرانزک جائزے میں لاشوں پر زخموں اور نیل کے نشانات کے شواہد ملے۔‘
احمد ظہیر نے بتایا کہ ’کچھ لاشوں سے گولیاں نکالی گئی جبکہ ہاتھ پاؤں بندھی اورمزاحمت کے نشانات کے ساتھ کئی لاشیں موجود تھیں جبکہ دو لاشیں ایسی لائی گئیں جن کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی۔‘
Reutersوسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلاح میں اجتماعی قبر میں تدفین سے قبل نامعلوم لاشیں
اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کے ترجمان شوش پیڈرسن نے غزہ سے آنے والی ان رپورٹس کو اسرائیل کے کردار کو داغدار کرنے کی ایک اور کوشش قرار دیا۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ ’وہ بین الاقوامی قانونین پر سختی سے عمل پیرا ہے۔‘
بی بی سی نے لاشوں کے ورثا کو شناخت کی اجازت دینے کے لیے وزارت صحت کی جاری کردہ کچھ تصاویر کا جائزہ لیا اور لاشوں میں سے ایک کے بائیں پاؤں پر کٹے ہوئے انگوٹھے، ایک لاش کے گلے میں کپڑے کا پھندہ اور ایک لاش کے ٹخنوں کے جوڑوں پر بندش کے نشانات کی موجودگی کے شواہد دیکھے۔ 
غزہ میں ماہرین اسرائیل کی جانب سے حوالے کی گئی لاشوں کی شناخت کے لیے کام کر رہے ہیں۔
جب انھوں نے تصاویر کا جائزہ لیا تو وہاں ایک کٹی ہوئی انگلی، جسم کے پیچھے بندھے ہوئے ہاتھوں کے گرد پلاسٹک کی پٹیاں، کلائی کے جوڑوں، بازوؤں، کہنی کے قریب اور آنکھوں پر پٹییاں بندھی دیکھیں۔ 
اسرائیلی فوج نے لاشوں کی ایک یا ایک سے زیادہ انگلیاں کاٹنے کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’اب تک لوٹائی گئی تمام لاشیں غزہ کی پٹی کے اندر موجود جنگجوؤں کی ہیں۔‘
اسرائیلی فوج نے رہائی کے عمل سے پہلے کسی بھی لاش کو باندھنے کے الزام کی تردید کی۔
ٹرمپ نے ’فلسطینی منڈیلا‘ کی رہائی کی امید پیدا کر دی: اسرائیلی قید میں موجود مروان البرغوثی کون ہیں؟دو سالہ جنگ، زیرِ زمین سرنگوں کا جال اور بکھری ہوئیقیادت: کیا غزہ پر آہنی گرفت رکھنے والی حماس واقعی اقتدار چھوڑ دے گی؟غزہ میں حماس اور مسلح قبیلے ’دغمش‘ کے درمیان جھڑپوں میں 27 ہلاکتیں: ’دغمش‘ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں اور یہ کتنا طاقتور قبیلہ ہے؟غزہ معاہدے کا پہلا مرحلہ: اب کیا ہو گا اور کن نکات پر ابہام باقی ہے؟غزہ میں نقل مکانی ’جس کی حالیہ دہائیوں میں مثال نہیں ملتی‘سات اکتوبر حملوں کے بعد ایک یہودی خاندان نے اسرائیل منتقل ہونے کا فیصلہ کیا، لیکن دوسرا اسے چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوا؟ٹرمپ کا غزہ منصوبہ اور مبہم اصطلاحات میں فلسطینی ریاست کا ذکر: ایک اہم قدم جسے چند بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے