EPAپوتن نے ایٹمی توانائی سے چلنے والے اور ایٹمی ہتھیار رکھنے کی صلاحیت سے لیس انڈر واٹر ڈرون 'پوسیڈون' کے بارے میں کہا کہ ’اس کا کوئی ثانی نہیں‘
بدھ کے روز یوکرین جنگ میں شریک سابق فوجیوں کے ساتھ چائے اور کیک کھاتے ہوئے روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اعلان کیا کہ روس نے ایک نئے ہتھیار کا تجربہ کیا ہے۔
روسی رہنما نے ایٹمی توانائی سے چلنے والے اور ایٹمی ہتھیار رکھنے کی صلاحیت سے لیس انڈر واٹر ڈرون ’پوسیڈون‘ کے بارے میں کہا کہ ’اس کا کوئی ثانی نہیں۔‘ اس ہتھیار کو زیرِ سمندر میزائل کی طرح چلایا جا سکتا ہے۔
ایک سینیئر روسی رکن پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ اس سے ’پوری کی پوری ریاست کو غیر فعال کیا جا سکتا ہے۔‘
پہلی بار 2019 میں پوسیڈون کی رونمائی کی گئی تھی۔ روسی میڈیا نے کہا تھا کہ یہ 200 کلومیٹر فی گھنٹہ (120 میل فی گھنٹہ) کی رفتار حاصل کرنے کے قابل ہو جائے گا اور ’مسلسل بدلتے ہوئے راستے‘ میں سفر کرے گا جس سے اسے روکنا ناممکن ہو جائے گا۔
کچھ روز قبل ماسکو نے اعلان کیا تھا کہ اس نے ’لامحدود رینج‘ کے بوریوسٹنک ایٹمی کروز میزائل کی آزمائش کی ہے۔ اس کے بارے میں پوتن نے کہا تھا کہ یہ میزائل اتنا نیا ہے کہ ’ہم ابھی تک اس بات کی شناخت نہیں کر سکے کہ یہ کیا ہے، یہ ہتھیاروں کی کون سی قسم سے تعلق رکھتا ہے۔‘
روس کے لیے ہتھیاروں کا تجربہ کرنا اور اس کی نمائش کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ روسی اعلانات اور دعوؤں کے برعکس اس کی فوجی صلاحیت مبہم رہی ہے۔
Getty Images2019 میں پانچ روسی نیوکلیئر انجینیئرز راکٹ انجن کے دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے
روسی امور کے ماہر اور ماسکو کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مارک گیلیوٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ بنیادی طور پر دنیا کو ختم کر دینے والے ہتھیار ہیں۔ یہ اس وقت تک استعمال نہیں کیے جا سکتے جب تک کہ آپ دنیا کو تباہ کرنے میں خوش نہ ہوں۔‘
گیلیوٹی نے مزید کہا کہ پوسیڈون اور بوریوسٹنک دونوں حملے کے جواب میں استعمال کیے جانے والے ہتھیار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کریملن کے لیے سب سے زیادہ پروپیگنڈا کرنے والے بھی یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ کون روس پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا یہ ہتھیار واقعی قابل عمل ہوں گے۔
2019 میں پانچ روسی نیوکلیئر انجینیئرز راکٹ انجن کے دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے جس کے بارے میں کچھ روسی اور مغربی ماہرین کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق بوریوسٹنک کے منصوبے سے تھا۔
دو سال بعد لندن میں قائم تھنک ٹینک انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) نے کہا تھا کہ روس کو میزائل کے ’جوہری پروپلشن یونٹ کی قابل اعتماد کارکردگی‘ کو یقینی بنانے میں ’کافی تکنیکی چیلنجز‘ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تھنک ٹینک عالمی تنازعات اور سلامتی میں مہارت رکھتا ہے۔
نہ ہی پوسیڈون اور نہ ہی بوریوسٹنک کوئی نئے ہتھیار ہیں۔ دونوں کو پہلی بار 2018 میں دنیا کے سامنے ہتھیاروں کی ایک نئی صف کے حصے کے طور پر پیش کیا گیا تھا جسے پوتن نے ’ناقابل تسخیر‘ کہا تھا۔
لہذا یہ اعلانات اپنے مندرجات کے بجائے مقررہ وقت کے لیے زیادہ اہم ہو سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا جوہری تجربوں کا اعلان: کیا یہ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی نئی دوڑ کا آغاز ہے؟خلیجی ممالک کے بجائے امریکہ سے خام تیل کیوں درآمد کیا گیا اور کیا یہ پاکستان کو سستا پڑے گا؟ٹرمپ نے ’فلسطینی منڈیلا‘ کی رہائی کی امید پیدا کر دی: اسرائیلی قید میں موجود مروان البرغوثی کون ہیں؟شہزادی مارگریٹ کی دگنی عمر کے شادی شدہ شخص سے محبت کی داستان، جس کا آغاز ’جیکٹ کے دھاگے‘سے ہوا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند ماہ تک روس اور یوکرین کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی اور اب وہ اس معاملے پر خاموش ہیں۔
گذشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس نے ٹرمپ اور پوتن کے درمیان ہونے والی سربراہی ملاقات کو منسوخ کر دیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا تھا کہ ماسکو اور واشنگٹن کے موقف میں خلیج بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے اعلیٰ سطحی ملاقات سے معنی خیز نتائج حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔
ملاقات کے منسوخ ہونے کے فوراً بعد ٹرمپ نے روس کی دو سب سے بڑی تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی تھں۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ ان کے تعلقات اب بھی کشیدہ دکھائی دیتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ ماسکو کی عدم دلچسپی سے ناراض ہو رہے ہیں۔
اس لیے پوتن ٹرمپ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
گیلیوٹی کی رائے ہے کہ ٹرمپ کبھی یوکرین کی حمایت میں نظر آتے ہیں اور کبھی روس سے ہمدردی ظاہر کرتے ہیں۔ انھیں ایسا لگتا ہے کہ کیئو سے زیادہ ماسکو کو برتری حاصل ہے۔’اس تناظر میں اس (ہتھیاروں کے کامیاب تجربات) کا مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ روس واقعی طاقتور ہے۔‘
یوکرین کے میدان جنگ سے ایک اور سراغ مل سکتا ہے۔
روس نے ساڑھے تین سال قبل اپنے پڑوسی ملک پر پوری طرح مداخلت شروع کی تھی۔ روسی افواج کو پیشرفت حاصل نہیں ہو رہی ہے جبکہ اسے انسانی زندگیوں کے ساتھ ساتھ قیمتی وسائل خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔
میکینزی انٹیلی جنس سروسز میں انٹیلیجنس کے سربراہ ڈیوڈ ہیتھ کوٹ نے کہا ہے کہ ’ہم یوکرین میں موسم گرما کی لڑائی کے اختتام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور یہ روسیوں کے لیے بہت اچھا نہیں رہا۔‘
Getty Imagesٹرمپ نے اپنی فوج کو جوہری ہتھیاروں کے تجربات کی ہدایات جاری کر دی ہیں
ہیتھ کوٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ بوریوسٹنک اور پوسیڈون کے تجربات کو روس کی روایتی افواج کی کمزوری کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
روس باقاعدہ کسی عسکری اتحاد کا حصہ نہیں ہے جو کہ کسی مسئلے یا روسی افواج کے یوکرین میں پھنسے رہنے کے دوران دوسروں کے لیے کوئی خطرہ ہو۔
ہیتھ کوٹ کہتے ہیں کہ ’یہی وجہ ہے کہ روسی غیر ضروری طور پر اپنی عسکری قوت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔‘
شاید روسی کی جانب سےبوریوسٹنک اور پوسیڈون کے تجربات کے اعلان کے پیچھے یہی وجہ ہو لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کا اثر ٹرمپ پر ضرور ہوا ہے، جنھوں نے اپنی فوج کو جوہری ہتھیاروں کے تجربات کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام روس اور چین جیسے ممالک کی برابری کے لیے لیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’جب دوسرے تجربات کر رہے ہیں تو ایسے میں مناسب ہوگا کہ ہم بھی یہی کریں۔‘
تاہم ان تجربات میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں کیونکہ گذشتہ 33 برسوں سے امریکہ نے ایسا کوئی تجربہ نہیں کیا ہے۔
ٹرمپ کے اس بیان میں کریملن کا بھی فوری ردِعمل سامنے آیا۔
پوتن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے سوال کیا کہ کیا امریکی صدر کو درست معلومات دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ روس کے تجربات کو ’کسی بھی طرح سے جوہری تجربہ نہیں کہا جا سکتا۔‘
امریکی صدر نے یہ نہیں بتایا کہ کس قسم کے تجربات کو دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔
انسٹٹیوٹ فور سٹریٹجک سٹڈیز سے منسلک کرسٹوفر ایجرٹن کہتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ کا فیصلہ بوریوسٹنک کے روسی تجربے کا براہ راست ردِعمل ہے اور ہوسکتا ہے امریکہ بھی ایسے ہی کسی بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہو۔
کیا ٹرمپ کا چین کو نظر انداز کر کے معدنیات کی عالمی صنعت پر قابض ہونے کا خواب پورا ہو پائے گا؟ٹرمپ کا دورۂ ایشیا: شی جن پنگ کے ساتھ چھ سال بعد ملاقات جو تجارتی جنگ کی سمت طے کر سکتی ہےبحری جنگی جہاز، لڑاکا طیارے اور سی آئی اے: جنگوں کے مخالف ڈونلڈ ٹرمپ وینزویلا میں چاہتے کیا ہیں؟آسیان اجلاس میں شرکت کے لیے مودی ملائیشیا کیوں نہیں جا رہے؟سابق آسٹریلوی خاتون اہلکاروں کا فوج پر جنسی ہراسانی کا تاریخی مقدمہ: ’جب جاگی تو بے لباس تھی اور جسم پر نیل تھے‘