’سر قلم کرنے‘ سے متعلق متنازع بیان اور بڑھتی کشیدگی: چین نے اپنے شہریوں کو جاپان سے دور رہنے کی تلقین کیوں کی؟

بی بی سی اردو  |  Nov 16, 2025

چین نے اپنے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جاپان کا سفر نہ کریں جبکہ تائیوان سے متعلق جاپانی وزیرِ اعظم سانائے تکائچی کے بیان پر بیجنگ میں جاپان کے سفیر کو طلب کر لیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ رواں ہفتے تکائچی کے تائیوان کے متعلقبیان کے بعد دونوں ممالک میں تلخ بیانات نظر آئے۔ جاپان کی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو جاپان اپنی دفاعی افواج کا استعمال کر سکتا ہے۔

اس کے بعد دونوں ممالک کی وزارتِ خارجہ نے ایک دوسرے کے سامنے سخت احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اس ضمن میں بعض افراد نے ایک چینی سفارتکار کے ایک بیان کو تکائچی کا ’سر قلم کرنے کی دھمکی‘ سمجھا ہے۔

یہ تنازع چین اور جاپان کے درمیان تاریخی دشمنی اور تائیوان کی خود مختار حیثیت سے متعلق دیرینہ 'سٹریٹیجک ابہام' کے پہلوؤں کو بھی چھوتا ہے۔

یہاں ہم آپ کو اس مضمون کے ذریعے صورتحال کی مزید تفصیل پیش کر رہے ہیں۔

اب تک کیا ہوا؟

موجودہ کشیدگی کا آغاز جاپان میں گذشتہ جمعہ کو ایک پارلیمانی اجلاس سے ہوا، جب ایک اپوزیشن رکنِ پارلیمان نے تکائچی سے دریافت کیا کہ کن حالات میں تائیوان کا مسئلہ جاپان کے لیے وجودی خطرہ بن سکتا ہے۔

تکائچی نے جواب دیا: 'اگر جنگی جہاز آ جائیں اور طاقت کا استعمال ہو، تو یہ صورتحال وجودی خطرے کے زمرے میں آ سکتی ہے۔'

'وجودی خطرے کی صورتحال' جاپان کے 2015 کے سلامتی قانون میں وضع کردہ ایک اصطلاح ہے جو اس وقت استعمال ہوتی ہے جب کسی اتحادی ملک پر حملہ جاپان کے وجود کے لیے خطرہ بن جائے۔ ایسے حالات میں جاپان کی اپنی دفاعی افواج کارروائی کر سکتی ہیں۔

تکائچی کے ان بیانات پر بیجنگ نے فوری ناراضگی کا اظہار کیا اور چین کی وزارتِ خارجہ نے انھیں 'سنگین' قرار دیا۔

گذشتہ سنیچر کے روز اوساکا میں چین کے قونصل جنرل شوئے جیان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر تکائچی کے پارلیمانی بیان سے متعلق ایک خبر شیئر کی اور اس کے ساتھ اپنا تبصرہ بھی لکھا کہ ’آگے بڑھنے والے ناپاک سر کو قلم کر دینا چاہیے۔‘

اگرچہ شوئے کے بیان کی نیت 'واضح نہ بھی ہو' لیکن جاپان کے چیف کیبنٹ سیکریٹری مینورُو کہارا نے پیر کو صحافیوں سے کہا کہ یہ بیان 'انتہائی نامناسب' تھا۔

Getty Imagesتکائچی جاپان کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہیں

ٹوکیو نے شوئے کے بیان پر چین کے سامنے احتجاج کیا، جبکہ بیجنگ نے تکائچی کے بیان پر جاپان سے احتجاج کیا۔

شوئے کی پوسٹ بعد میں ہٹا دی گئی مگر دونوں جانب سے بیانات کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

منگل کو تکائچی نے اپنے بیان واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ 'حکومت کے روایتی مؤقف کے مطابق' ہے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ وہ آئندہ مخصوص صورتحال پر تبصرہ کرنے میں احتیاط کریں گی۔

پھر جمعرات کو چین کی وزارتِ خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹفارم ایکس پر جاپانی اور انگریزی میں پیغام جاری کیا، جس میں جاپان کو 'آگ سے کھیلنے' سے باز رہنے کی تاکید کی گئی اور کہا گیا کہ اگر جاپان 'آبنائے تائیوان کے معاملے میں دخل اندازی کی جرأت کرے گا تو یہ جارحیت کے مترادف ہوگا۔'

اسی روز چین کے نائب وزیرِ خارجہ سُن وی دُونگ نے جاپان کے سفیر کو طلب کر کے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

سرکاری خبر رساں ادارے شنہوا کے مطابق سُن وی دُونگ نے تکائچی کے بیان کو 'انتہائی غلط اور خطرناک' قرار دیتے ہوئے جاپان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بیان کو واپس لے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ 'بصورتِ دیگر تمام نتائج کی ذمہ داری جاپان پر ہوگی۔'

جاپان کے سفیر نے بیجنگ کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے وضاحت کی کہ تائیوان کے بارے میں ان کا مؤقف 'بدلا نہیں' ہے۔ مینورُو کہارا نے جمعہ کے روز صحافیوں کو یہ بتایا۔

کہارا نے یہ بھی کہا کہ جاپان نے شوئے کے سوشل میڈیا بیان پر چین سے 'مناسب اقدام' کرنے کی زور دار اپیل کی ہے۔

پھر جمعہ کی شب جاپان میں چینی سفارتخانے نے ایک بیان جاری کیا، جس میں اپنے شہریوں کو 'مستقبل قریب میں جاپان کا سفر کرنے سے پرہیز' کرنے کا مشورہ دیا گیا، اور تکائچی کے تائیوان سے متعلق بیانات کو 'کھلی اشتعال انگیزی' قرار دیا۔

Getty Imagesتائیوان کے معاملے پر چین اور جاپان کے درمیان ابہام پایا جاتا ہےدیرینہ دشمنی کی تاریخ

دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کی ایک طویل تاریخ ہے جس کا آغاز 19ویں صدی میں ہونے والی کئی جنگوں اور دوسری عالمی جنگ کے دوران چین میں جاپانی فوج کے مظالم سے ہوتا ہے۔

جمعرات کو چین کی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں اسی تاریخی پس منظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر جاپان ماضی سے سبق سیکھنے میں ناکام رہتا ہے اور تائیوان کے معاملے میں عسکری مداخلت جیسے بے تدبیری کے اقدامات کی کوشش کرتا ہے، تو چین کی فوج کی آہنی دیوار کے سامنے اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔'

تاریخی شکوے شکایات اب تک دونوں ممالک کے تعلقات میں رکاوٹ بنتے رہے ہیں۔ تاہم تازہ صورتحال میں تکائچی کی قیادت، جو سابق وزیرِ اعظم شنزو آبے کی تربیت یافتہ سمجھی جاتی ہیں، مزید کشیدگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

یہ قدامت پسند رہنما امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کی خواہاں ہیں اور جاپان کا دفاعی بجٹ بڑھانے کا عزم رکھتی ہیں، جس سے بیجنگ میں تشویش پیدا ہو گئی ہے۔

تکائچی چین کے بارے میں سخت مؤقف رکھنے کے باعث مشہور ہیں اور طویل عرصے سے تائیوان کی پُرزور حامی رہی ہیں۔

چین اور جاپان کی دشمنی کی کہانی جو چین اپنے شہریوں کو بھولنے نہیں دیتابحری بیڑوں کی پراسرار حرکت، سکستھ جنریشن طیارے اور فوجی مشقیں: چین کیسے امریکہ کی ’جزیروں کی زنجیر‘ توڑنے کی کوشش کر رہا ہے؟دنیا کی سب سے بڑی بحری قوت کے ساتھ چین ’سمندروں پر حکمرانی‘ کے خواب کو حقیقت میں بدلنے سے کتنی دور ہے؟طاقت کا مظاہرہ، ٹرمپ کی ناراضی اور عالمی قیادت: شی جن پنگ کی تقریر اور چین کی پریڈ میں چھپا ہوا پیغام

وہ اس سے قبل کہہ چکی ہیں کہ جزیرے کی ناکہ بندی جاپان کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، اور یہ کہ چین کے ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے جاپان اپنی افواج کو متحرک کر سکتا ہے۔

تائیوان کے معاملے پر چین خاص طور پر حساس ہے۔ تائیوان ایک خود مختار جزیرہ ہے جسے بیجنگ اپنی سرزمین کا حصہ قرار دیتا ہے۔ چین نے تائیوان پر قبضہ کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کو خارج نہیں کیا، جو تائیوان اور خطے میں اس کے اتحادیوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں بیجنگ نے تکائچی پر 'ون چائنا' کے اصول کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔ یہ الزام اس وقت لگایا گیا جب تکائچی نے جنوبی کوریا میں ایپیک اجلاس کے دوران ایک اعلیٰ تائیوانی اہلکار کے ساتھ ہونے والی ملاقات کی تصاویر پوسٹ کیں۔

Getty Imagesتکائچی خود کو آئرن لیڈی بنانا چاہتی ہیںتکائچی کے حالیہ بیانات سے اتنا ہنگامہ کیوں پیدا ہوا؟

جاپانی وزیرِ اعظم کے تازہ بیانات تائیوان کی حیثیت کے بارے میں اس روایتی مبہم مؤقف سے ہٹ کر ہیں، جسے جاپان طویل عرصے سے اختیار کرتا آیا ہے۔

یہ مؤقف امریکہ کی دیرینہ پالیسی 'سٹریٹیجک ابہام' کے مطابق ہے، جس میں یہ واضح نہیں کیا جاتا کہ چین کے حملے کی صورت میں وہ تائیوان کے دفاع کے لیے کیا کرے گا۔

دہائیوں تک اس ابہام نے چین کو قیاس آرائیوں پر مجبور رکھا، یعنی ایک طرح سے یہ ایک قسم کا تدارک تھا، اور ساتھ ہی دونوں کے درمیان اقتصادی تعلقات کو پھلنے پھولنے کی اجازت بھی ملتی رہی۔

جاپانی حکومت کا سرکاری مؤقف تائیوان کے مسئلہ کو مکالمے کے ذریعے پُرامن طور پر حل کیا جانا ہے۔ جاپانی حکام عمومی طور پر سلامتی کے معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے تائیوان کا نام لینے سے گریز کرتے ہیں۔

جب کبھی انھوں نے ایسا کیا ہے، بیجنگ کی جانب سے سخت ردِعمل سامنے آیا ہے۔

سنہ 2021 میں اُس وقت کے نائب وزیرِ اعظم تارو آسو نے کہا تھا کہ چین کے حملے کی صورت میں جاپان کو امریکہ کے ساتھ مل کر تائیوان کا دفاع کرنا ہوگا۔ بیجنگ نے ان کے بیان کی شدید مذمت کی اور جاپان کو 'اپنی غلطیاں سدھارنے' کا مشورہ دیا۔

اس حالیہ تنازع میں چین کی وزارتِ خارجہ نے تکائچی کے بیان کو 'چین کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت' قرار دیا۔

وزارت کے ترجمان لِن جیان نے پیر کو ایک پریس بریفنگ میں کہا: 'تائیوان، چین کا تائیوان ہے' اور یہ کہ چین اس معاملے میں 'کسی بھی بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا۔'

انھوں نے مزید پوچھا: 'جاپانی رہنما 'تائیوان کی آزادی' کے حامی عناصر کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ کیا جاپان چین کے بنیادی مفادات کو چیلنج کرنے اور اس کے اتحاد کے عمل کو روکنے کی کوشش پر آمادہ ہے؟'

طاقت کا مظاہرہ، ٹرمپ کی ناراضی اور عالمی قیادت: شی جن پنگ کی تقریر اور چین کی پریڈ میں چھپا ہوا پیغامصدر ٹرمپ کا جوہری تجربوں کا اعلان: کیا یہ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی نئی دوڑ کا آغاز ہے؟ایٹمی ہتھیار، معاشی مدد یا امریکہ کے لیے پیغام: کم جونگ اُن اور پوتن چین کیوں جا رہے ہیں؟بحری بیڑوں کی پراسرار حرکت، سکستھ جنریشن طیارے اور فوجی مشقیں: چین کیسے امریکہ کی ’جزیروں کی زنجیر‘ توڑنے کی کوشش کر رہا ہے؟دنیا کی سب سے بڑی بحری قوت کے ساتھ چین ’سمندروں پر حکمرانی‘ کے خواب کو حقیقت میں بدلنے سے کتنی دور ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More