بین الاقوامی فورس، امن بورڈ اور فلسطینی ریاست: ٹرمپ کا غزہ منصوبہ کیا ہے اور پاکستان نے سکیورٹی کونسل میں اس کی حمایت کیوں کی؟

بی بی سی اردو  |  Nov 18, 2025

Getty Images

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں قیامِ امن کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ 20 نکاتیمنصوبے کے حق میں قرارداد منظور کر لی ہے۔

سلامتی کونسل میں منظور کردہ قرارداد میں غزہ میں مختلف ممالک کی افواج پر مشتمل ’بین الاقوامی استحکام فورس‘ کا قیام بھی شامل ہے۔ اس فورس میں جن ممالک کی افواج شامل ہوں گی، اُن کے نام سامنے نہیں آئے ہیں۔

سلامتی کونس میں پیش کردہ اس قرارداد کے حق میں برطانیہ اور فرانس سمیت 13 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ روس اور چین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ پاکستان نے بھی حق میں وٹ دیا۔

پاکستان نے غزہ کے معاملے پر سلامتی کونسل کی قرارداد حق میں ووٹ دیا ہے۔

اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتھونی گرتیس نے کہا کہ یہ قرارداد جنگ بندی کو برقرار رکھنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

دوسری جانب حماس نے سلامتی کونسل کی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قرارداد فلسطینی عوام کے حقوق اور مطالبات کو پورا نہیں کر سکتی ہے۔ تاہم فلسطین اتھارٹی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ قرارداد پر ’جلد عمل درآمد‘ کرنے کی ضرورت ہے۔

غزہ میں قیامِ امن کے لیے دیگر مسودوں کے مقابلے میں اقوام متحدہ کی قرارداد میں فلسطین کی ریاستی حیثیت تسلیم کرنے اور حقِ خود ارادیت کے حوالے سے ایک مصدقہ حوالہ ہے۔

کئی اہم عرب ممالکنے قرارداد کے مسودے پر فلسطینی عوامکے حق خود ارادیت کو متن میں شامل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کی سختی سے مخالفت کرتا ہے جو فلسطین کی ریاستی حیثیت کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔

Getty Imagesسلامتی کونسل میں منظور ہونے والی قرارداد کے تحت بین الاقوامی فورس علاقے میں سکیورٹی اور دہشت گردوں کا نیٹ ورک ختم کرنے میں مدد کرے گی حماس کی حق حکمرانی سے دستبرداری، اسرائیلی فوج کی مشروط واپسی اور قیامِ امن بورڈ: غزہ کے لیے نئے 20 نکاتی امن منصوبے میں کیا کہا گیا ہے؟ٹرمپ کی دوستی اور نتن یاہو کی مشکل: امن معاہدے سے جان چھڑانا اسرائیلی وزیراعظم کو کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے؟ذاتی تعلق، پس پردہ دباؤ اور دھمکی: ٹرمپ نے نتن یاہو کو غزہ امن معاہدے پر کیسے مجبور کیا؟’عرب عوام عراق کو نہیں بھولے‘: کیا سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر غزہ کا انتظام سنبھال سکتے ہیں؟سلامتی کونسل کی قرارداد میں کیا ہے؟

اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق بین الاقوامی استحکام فورس اسرائیل، مصر اور نئی تربیت یافتہ مگر تصدیق شدہ فسلطینی پولیس فورس سرحدی علاقوں کی سکیورٹی اور حماس سمیت ریاست مخالف گروہوں کو غیر مسلح کرنے میں مدد کرے گی۔

یاد رہے کہ اب تک غزہ میں پولیسں حماس کے زیر انتظام کام کرتی ہے۔

اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سفیر مائیک والٹز نے سکیورٹی کونسل کو بتایا کہ ’بین الاقوامی فورس کے اہداف یہ ہوں گے کہ وہ علاقے کو محفوظ بنائیں، غزہ میں غیر عسکری کارروائیوں کی حمایت کریں، دہشت گردوں کا نیٹ ورک ختم کریں، اسلحہ ختم کریں اور فلسطینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائے گی۔‘

سکیورٹی کونسل نے اپنی قرارداد میں غزہ میں ’بورڈ آف پیس‘ (امن) کے نام سے عبوری حکومت کے قیام کی منظوری دی ہے، جس کا کام فلسطینی ٹیکنوکریٹک پر مشتمل غیر سیاسی کمیٹی کی گورننس کی نگرانی کرنااور غزہ کی تعمیر نو اور انسانی امداد کی فراہمی پر نظر رکھنا ہے۔

غزہ میں دو سال تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد تعمیرِ نو کے لیے معالی معاونت،عالمی بینک کی حمایت سے بننے والے ٹرسٹ فنڈ سے کی جائے گی۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی استحکام فورس اور بورڈ آف پیس،فلسطینی کمیٹی اور پولیس فورس کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔

حماس نے اقوام متحدہ کی قرارداد کو مسترد کر دیا ہے۔ حماس نے ٹیلی گرام پر جاری پیغام میں کہا کہ ’غزہ میں بین الاقوامی سرپرستی کا جو نظام مسلط کیا جا رہا ہے اسے ہمارے عوام اور مختلف گروہوں نے مسترد کیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’غزہ میں بین الاقوامی فورس کو دیے گئے اہداف اور کردار، جیسے مزاحمت کو غیر مسلح کرنا وغیرہ، یہ فورس کی غیرجانبداری کو ختم کر کے علاقے پر اپنا تسلط جمانے کی اس لڑائی میں فریق بناتی ہے۔‘

Getty Imagesاسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کی سختی سے مخالفت کرتا ہےپاکستان نے قرارداد کی حمایت کیوں کی؟

غزہ کے معاملے پر سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد پر جہاں روس اور چین نے تنقید کی ہے وہیں پاکستاننے سلامتی کونس کے قرارداد کی حمایت کی ہے۔

ایسے میں سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر مختلف تبصرے سامنے آئے۔

قانون دان ریما عمر نے ایکس پر لکھا کہ سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی قرارداد میں پاکستان وفد کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ جیسے خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے واضح سیاسی راستے متعین نہیں کیا گیا جبکہ بورڈ آف پیس اور بین الاقوامی استحکام فورس کے بارے میں وضاحت نہیں دے گئی ہے۔

سابق رکنِ قومی اسمبلی اور بین الاقوامی اُمور کی ماہرڈاکٹر شیری مزاری نے کہا کہ اگر پاکستان کی تجاویز شامل نہیں کی گئی ہیں تو پاکستان نے قرارداد کے حق میں کیوں ووٹ دیا ہے؟

شیری مزاری نے لکھا کہ پاکستان کے ووٹ دینے کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ ’پاکستان کی تجاویز صرف پاکستان کی عوام کو خوش کرنے کے لیے ہیں۔‘

تاہم اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب عاصم افتخار نے سلامتی کونسل سے خطاب میں کہا کہ قرارداد کے حق میں ووٹ دینے کا بنیادی مقصد ’غزہ میں فوری طور پر خونریزی روکنا، جنگ بندی کو برقرار رکھنااور علاقے سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا اور بڑے پیمانے پر انسانی امداد کو یقینی بنانا ہے۔‘

پاکستانی مندوب عاصم افتخار نے کہا کہ ’اس منصوبے سے غزہ میں امن کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ غزہ میں امن کے معاملے پر پاکستان کا موقف، فلسطین اور عرب ممالک کے مطابق ہے جس کے تحت جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ میں عوام کو نقل مکانی کے بغیر تعمیرِ نو اور آزاد فلسطینی ریاست کی جانب آگے بڑھنا ہے۔

ایکس پر جاری تفصیلی بیان میں انھوں نے پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز بیان کیں۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ مذاکرات میں پاکستان نے نہ صرف عرب ممالک کی تجاویز کی حمایت کی بلکہ اپنی بھی کچھ تجاویز متعارف کروائیں جن میں کچھ کو مان لیا گیا جیسے جنگ بندی کو برقرار رکھنا اور کونسل کو رپورٹ کرنا وغیرہ لیکن کچھ تجاویز کو تسلیم نہیں کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ جن تجاویز کو شامل نہیں کیا گیا ہے اس میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے واضح طریقہ کار، فلسطینی اتھارٹی کا مرکزی کردار اور بین الاقوامی استحکام فورس اور بورڈ آف پیس کے بارے میں مکمل وضاحت شامل ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ فلسطین کے عوام کا خقِ خود ارادیت غیر مشروط ہونا چاہیے اور بورڈ آف پیس کی حیثیت عارضی ہو نہ کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کا متبادل بن جائے۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ بین الاقوامی امن فورس اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت کام کرے، مکمل طور پر جنگ بندی کا احترام کرے اور یہ فورس علاقے میں اسرائیلی افواج کے انخلا کے بعد ہی کام شروع کرے جبکہ اس فورس کی اولین ترجیح غزہ کے عوام کا تحفظ ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ غزہ میں فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے زیر انتظام سیاسی عمل کے ذریعے ہی مختلف گروہوں کو غیر مسلح کرنے کا کام شروع کیا جائے۔

پاکستان کا ماننا ہے کہ کسی بھی علاقے کا الحاق یا کسی بھی علاقے سے جبری نقل مکانی نہیں ہونی چاہیے اور ویسٹ بینک یا غربِ اردن اور غزہ کا علاقے آزاد فلسطینی ریاست کا حصہ ہوں۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب نے واضح کیا کہ پاکستان 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک خودمختار، آزاد فلسطین کے لیے اپنی دیرینہ حمایت کا اعادہ کرتا ہے۔

انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کا ماننا ہے کہ خطے میں پائیدار امن اور استحکام دو ریاستی حل کے تحت آزادی فلسطینی ریاست کے قیام سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

قرارداد کی منظوری’تاریخی لمحہ‘ مگر چین اور روس کی تنقید

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سلامتی کونسل کی قرارداد کو ’تاریخی‘ قرار دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے ’بورڈ آف پیس‘ (یا امن بورڈ) کی توثیق ہوئی اور اسے تسلیم کیا گیا ہے اور جلد اس بورڈ کی رکنیت کا اعلان کیا جائے گا۔

توقع ہے کہ غزہ میں قیامِ امن کے لیے قائم ہونے والے اس بورڈ آف پیس کی سربراہی امریکی صدر ٹرمپ خود کریں گے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فورم ٹرتھ سوشل پر اپنے بیان میں امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’یہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں بہت بڑی منظوری ہو گی جس سے دنیا بھر میں مزید امن آئے گا اور یہ تاریخی لحاظ سے اہم لمحہ ہے۔‘

روس اور چین نے سلامتی کونسل کی اس قرارداد پر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا لیکن انھوں نے اس قرارداد کو ویٹو نہیں کیا بلکہ مسلمان اور عرب ممالک کی حمایت یافتہ اس قرارداد کو منظور ہونے دیا۔

لیکن ماسکو اور بیجنگ نے اس قرارداد پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ قیامِ امن کے لیے جو طریقہ کار مرتب کیا گیا ہے اس میں اقوام متحدہ کو شامل نہیں کیا گیا ہے اور یہ قرارداد دو ریاستی حل کے لیے پختہ عزم کا اعادہ نہیں کر رہی ہے۔

اس سے قبل امریکہ، فلسطینی اتھارٹی، کئی مسلمان اور عرب ممالک جیسے مصر، سعودی عرب اور ترکی نے اقوام متحدہ سے جلد قرارداد منظو کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

غزہ میں قیامِ امن کے منصوبے کے پہلے مرحلے میں اسرائیل اور حماس کے مابین مغویوں کا تبادلہ 10 اکتوبر سے شروع ہوا تھا۔

امریکی صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے اعلان کے بعد سے حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بند ہوئی تھی۔ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 251 اسرائیلیوں کو مغوی بنایا گیا تھا جس کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اسرائیلی افواج کے حملوں میں کم سے کم69483 فلسطینی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

ذاتی تعلق، پس پردہ دباؤ اور دھمکی: ٹرمپ نے نتن یاہو کو غزہ امن معاہدے پر کیسے مجبور کیا؟حماس کی حق حکمرانی سے دستبرداری، اسرائیلی فوج کی مشروط واپسی اور قیامِ امن بورڈ: غزہ کے لیے نئے 20 نکاتی امن منصوبے میں کیا کہا گیا ہے؟ٹرمپ کا غزہ منصوبہ اور مبہم اصطلاحات میں فلسطینی ریاست کا ذکر: ایک اہم قدم جسے چند بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہےنتن یاہو کی مشکل، حماس کی خواہش اور ٹرمپ کا دباؤ: 7 اکتوبر حملے کے دو سال بعد کیا غزہ میں جنگ ختم ہونے والی ہے؟حماس کی حق حکمرانی سے دستبرداری، اسرائیلی فوج کی مشروط واپسی اور قیامِ امن بورڈ: غزہ کے لیے نئے 20 نکاتی امن منصوبے میں کیا کہا گیا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More