جنرل فیض: فوجی محبت، فوجی انصاف

بی بی سی اردو  |  Dec 12, 2025

جوانی میں ایک محبت کے مارے فوجی نے اپنا حالِ دل بیان کرنے کے لیے انگریزی کی ایک نظم سنائی تھی۔ آپ بھی سن لیں:

ہم جان دیتے ہیں اُس وطن کے لیے

جس سے ہم پیار کرتے ہیں

سوچو ہم کیا کریں گے اس کے لیے

جو ہم سے پیار کرے گا

ہر آنے والے آئی ایس آئی چیف کو پیار ملتا ہے اور جاتے ہوئے تھوڑی بہت لعن طعن۔ ہر آنے والے کے بارے میں دفاعی تجزیہ نگار انگلیاں ہلا ہلا کر بتاتے ہیں کہ وہ ایک انتہائی پیشہ ور جنرل ہیں۔

مبارک سلامت کے اس شور میں کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ’بھائیو! فوج کے سب سے حساس ادارے کا سربراہ کوئی پیشہ ور جنرل ہی بنے گا۔ اس کے لیے کوئی امیدوار پاکستان آئیڈل سے تو نہیں چُنا جا سکتا۔‘

جب وہی آئی ایس آئی چیف گھر جاتا ہے تو الزام لگتا ہے کہ یہ تو اس حساس عہدے پر رہ کر سیاست کرتا رہا۔ یہ اس طرح کا الزام ہے کہ پوپ کی وفات کے بعد کہا جائے کہ ’یہ ساری عمر اپنے مذہب کی تبلیغ کرتا رہا۔‘

جنرل فیض حمید کا نام پہلی دفعہ تب سنا تھا جب ایک سینیئر اور باخبر صحافی نے اپنے فون پر ایک میسیج دیکھا اور مجھ سے سگریٹ مانگا۔

میں نے کہا کہ آپ تو کب کا چھوڑ چکے ہیں۔ فرمایا کہ ’سگریٹ نکالو، خبر ہی بہت ٹینشن والی ہے۔ فیض ڈی جی بن گیا ہے۔‘

بتایا گیا کہ ڈان لیکس کے نام سے میڈیا پر اور حکومت پر جو ڈنڈا چلایا جا رہا ہے اس کے پیچھے جنرل فیض ہی تھے۔

میں نے تسلی دی کہ آپ نے بڑے آئی ایس آئی چیفس آتے جاتے دیکھے ہیں، یہ مصیبت بھی گزر جائے گی۔

انھوں نے مجھے اُن آنکھوں سے دیکھا جس کا مطلب ہوتا ہے کہ تمھیں اس بلا کا پتا ہی نہیں جو اب نازل ہونے والی ہے۔

پہلے آئی ایس آئی چیف جو اپنے آپ کو ولی عہد سمجھنے لگے تھے وہ جنرل حمید گل تھے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ نہ صرف انھوں نے افغانستان آزاد کروایا، سوویت یونین کو توڑا بلکہ پوری دنیا میں کمیونزم کو شکست دی۔ ان سے کبھی کوئی یہ نہ پوچھ سکا کہ آپ کا پہلا کام تھا اپنے چیف اور ادارے کی حفاظت۔

آپ کی کمان میں آپ کے چیف اور آدھے درجن سے زیادہ جنرل ایک طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوئے۔ نہ آپ حادثے کو روک سکے نہ قوم کو بتا سکے کہ ذمے دار کون تھا۔

اس کے بعد جو بھی آئی ایس آئی چیف آئے ان میں سے کوئی ایک حکومت کو گھر بھیجنے کا بندوبست کرتا، کوئی کسی جیل میں بیٹھے یا جلا وطنی میں دن گزارتے سیاستدان کو واپس لانے کا بندوبست کرتا۔

ایک بے نظیر بھٹو کو باقاعدہ غدار قرار دیتا تو بعد میں آنے والا فیصلے کرتا کہ نہیں اب وہ ٹھیک ہو گئی ہیں۔

نواز شریف کبھی بگڑا ہوا بچہ تو کبھی ہائی جیکر، لیکن پھر دوبارہ مدبر سیاستدان قرار پاتا۔ آصف زرداری میمو گیٹ کا ملزم اور سارے ملک کو بیچ کر کھانے والا قرار پاتا اور پھر فیصلہ کہ چلیں انھیں ہی دوبارہ صدر بنا دیتے ہیں۔

یہ فیصلے ظاہر ہے کہ ادارہ ہی کرتا تھا لیکن سیاستدانوں اور میڈیا کو سیدھا کرنے کے لیے دست و بازو آئی ایس آئی کے استعمال ہوتے تھے۔

اس طرح آئی ایس آئی چیف کو ایک اچھے سپاہی کی طرح اپنے ادارے کے لیے اپنی ذات کی قربانی دینا پڑتی۔

فیض حمید: آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو ’سیاسی سرگرمیوں، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی‘ سمیت چار الزامات پر 14 سال قید بامشقت کی سزافیض حمید کا کورٹ مارشل: آئی ایس آئی کے سربراہان ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تنازعات کی زد میں کیوں رہتے ہیں؟فیض حمید کی سزا کے اعلان کا آخری پیراگراف کیا معنی رکھتا ہے؟فیض حمید کی تبدیلی سے حکومت کی تبدیلی کے منصوبے تک: عمران خان کی پوڈکاسٹ سوشل میڈیا پر زیرِ بحث

ریٹائرمنٹ کے بعد تھوڑی سی بدنامی اس عہدے میں پارٹ آف دا جاب سمجھی جاتی تھی۔ خاموش رہیں، گالف کھیلیں اور قریبی پیاروں دوستوں کو اپنی فتوحات کے قصے سنائیں۔

جنرل فیض نے خود یا شاید ان کے مداحوں نے انھیں آئی ایس آئی چیف بنتے ہی فوج کا ولی عہد مقرر کر دیا تھا۔

10 سالہ منصوبے کی باتیں ہونے لگیں۔ کچھ لوگوں نے سمجھایا بھی کہ فوج میں تاج پوشی نہیں ہوتی۔ مغل بادشاہ بھی کسی شہزادے کو ولی عہد بناتے تھے تو اس کے خلاف محلاتی سازشیں شروع ہو جاتی تھیں۔ یہ تو ایک پیشہ ور فوج ہے جس میں ہر تھری سٹار جنرل اپنے آپ کو بجا طور پر ولی عہد سمجھتا ہے۔

اب جنرل فیض کو 14 سال قید بامشقت کی سزا ہو چکی۔ ابھی کچھ اور سنگین جرائم کا حساب باقی ہے۔ یہیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ دیکھو فوج کے اندر احتساب کا نظام کتنا مضبوط ہے۔ جرنیلوں کو پیغام ہے کہ ریٹائر ہونے کے بعد کوئی اعلیٰ عہدہ بھی نہیں ملتا تو صبر شکر کرو، اپنی گالف کی گیم پر توجہ دو۔

لیکن ایک پیغام قوم کو بھی دیا جا رہا ہے، وہی پرانی فوجی محبت والی نظم دوبارہ سنائی جا رہی ہے کہ دیکھو اگر ہم اپنے اتنے لاڈلے جنرل کے ساتھ یہ کر سکتے ہیں تو تم جو اڈیالہ کی جیل کے سیل سے دھمکیاں دیتے رہتے ہو، تم جو سوشل میڈیا پر مسنگ پرسنز کے بارے میں سوال کرتے ہو تم جو تاحیات وردی اور تاحیات استثنیٰ کے معنی پوچھتے ہو تم جو دل میں یہ سوچتے ہو کہ اگر ایک جنرل کا حساب ہوا ہے تو کیا دوسرے کا بھی ہو گا۔

ذرا سوچو! ہم تمھارے ساتھ کیا کر سکتے ہیں۔

فیض حمید کی سزا کے اعلان کا آخری پیراگراف کیا معنی رکھتا ہے؟فیض حمید: آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو ’سیاسی سرگرمیوں، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی‘ سمیت چار الزامات پر 14 سال قید بامشقت کی سزافیض حمید کا کورٹ مارشل: آئی ایس آئی کے سربراہان ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تنازعات کی زد میں کیوں رہتے ہیں؟فیض حمید: ایک ’متحرک جنرل‘ جن کا کریئر تنازعات میں گِھرا رہافیض حمید کی تبدیلی سے حکومت کی تبدیلی کے منصوبے تک: عمران خان کی پوڈکاسٹ سوشل میڈیا پر زیرِ بحثجنرل فیض حمید کا دورۂ کابل نامناسب اور غیرضروری تھا: اسد درانی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More