احمد ال احمد: بونڈائی میں حملہ آور پر قابو پانے والے ’ہیرو‘ جنھیں ٹرمپ اور نتن یاہو نے بھی خراج تحسین پیش کیا

بی بی سی اردو  |  Dec 15, 2025

آسٹریلیا میں سڈنی بونڈائی ساحل پر فائرنگ کرنے والے ایک حملہ آور پر قابو پانے والے جس نہتے شخص کی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے، اس کی شناخت 43 سالہ احمد ال احمد کے نام سے ہوئی ہے۔

بی بی سی نے اس ویڈیو کی تصدیق کی ہے جس میں احمد کو مسلح حملہ آور پر جھپٹتے ہوئے اور اس کی بندوق چھینتے ہوئے دیکھا گیا جس کے بعد احمد نے بندوق چھین کر اسی حملہ آور پر تان لی تھی۔

احمد کے اہلخانہ نے سیون نیوز آسٹریلیا کو بتایا ہے کہ وہ ایک پھل فروش ہیں اور دو بچوں کے والد ہیں۔ اس وقت احمد ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ان کو بازو اور ہاتھ پر گولیاں لگیں تھیں اور ہسپتال میں ان کی سرجری کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ اتوار کو آسٹریلیا کے بونڈائی ساحل پر ہونے والے اس واقعے میں 15 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔ آسٹریلیا کی پولیس نے اس واقعے کو ’دہشت گردی‘ قرار دیا ہے جس میں یہودی کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا۔

احمد کے ایک کزن، مصطفی، نے سیون نیوز آسٹریلیا کو بتایا کہ ’وہ ہیرو ہے، 100 فیصد ہیرو ہے۔ اس کو دو گولیاں لگی ہیں، ایک بازو پر اور ایک ہاتھ پر۔‘

سوموار کے دن مصطفی نے بتایا کہ ’مجھے امید ہے کہ وہ ٹھیک ہو گا۔ میں رات کو اس سے ملا تھا۔ وہ ٹھیک تھا لیکن ہم انتظار کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر کیا کہتے ہیں۔‘

پولیس کے مطابق حملہ آور باپ بیٹا تھے جن کی عمریں 50 اور 24 برس بتائی گئی ہیں۔

پولیس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 50 سالہ حملہ آور ہلاک ہو چکا ہے جبکہ اس کا 24 سالہ بیٹا ہسپتال میں ہے۔

احمد کی وائرل ہو جانے والی ویڈیو

احمد کی مسلح حملہ آور سے بندوق چھیننے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہو چکی ہے۔ اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلح شخص ایک درخت کے پیچھے آڑ لے کر بندوق سے فائرنگ کر رہا ہے۔

اسی ویڈیو میں احمد کو قریب ہی ایک گاڑی کے پیچھے چھپے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور پھر وہ اچانک حملہ آور پر جھپٹتے ہیں اور اس سے بندوق چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔ احمد اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور حملہ آور کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

احمد اب بندوق کا رخ حملہ آور کی جانب کر دیتے ہیں جو ایک پل کی جانب پسپا ہو جاتا ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ احمد بندوق نیچے کر لیتے ہیں اور اپنا ایک ہاتھ ہوا میں بلند کر دیتے ہیں جیسے پولیس کو دکھانا چاہتے ہوں کہ وہ حملہ آور نہیں ہیں۔ جس حملہ آور سے احمد بندوق چھینتے ہیں اسے تھوڑی دیر بعد پل پر ایک اور بندوق کے ساتھ فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

’وہ حقیقی ہیرو ہے‘

اتوار کے دن پریس کانفرنس کے دوران نیو ساؤتھ ویلز کے پریمیئر کرس منز نے احمد کی بہادری کو خراج تحسین پیش کیا جن کی شناخت اس وقت تک واضح نہیں تھی۔

’وہ شخص حقیقی ہیرو ہے۔ اور مجھے اس بات میں شک نہیں کہ ایسے اور لوگ بھی ہیں۔ بہت سے لوگ اسی بہادری کی وجہ سے زندہ ہیں۔‘

ترکی کے خبر رساں ادارے اے اے ڈاٹ کام ڈاٹ ٹی آر نے احمد کی بہادری کے حوالے سے اپنے مضمون میں نیو ساؤتھ ویلز سٹیٹ کے پریمیئر کرس منزکا بیان شائع کیا ہے۔

اس کے مطابق نیو ساؤتھ ویلز سٹیٹ کے پریمیئر کرس منز نے 43 سالہ احمد الاحمد کو ایک حقیقی ہیرو قرار دیا ہے اور کہا کہ ’اس ویڈیو میں میں نے اب تک کا سب سے ناقابل یقین منظر دیکھا ہے۔‘

کرس منز نے کہا کہ ’ایک شخص ایک ایسے مسلح حملہ آور کے پاس جا رہا ہے جس نے کمیونٹی پر فائرنگ کی تھی، اور وہ یہ سب اکیلے اور نہتے رہ کر رہا ہے۔ اپنی جان خطرے میں ڈال کر بے شمار لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے اس نے یہ کیا۔‘

آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البنیز نے بعد میں کہا کہ ’ہم نے آسٹریلوی شہریوں کو دوسروں کی مدد کرنے کے لیے خطرے کی جانب دوڑتے ہوئے دیکھا۔‘

’یہ لوگ ہیرو ہیں اور ان کی بہادری نے زندگیاں بچائی ہیں۔‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی احمد کی تعریف کی ہے۔ وائٹ ہاؤس میں کرسمس کی ایک تقریب میں بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ’یہ ایک بہت زیادہ بہادر شخص تھا جس نے ایک حملہ آور پر حملہ کیا اور بہت سی زندگیاں بچائیں۔‘

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے بھی احمد کو خراج تحسین پیش کیا۔ ایک پریس کانفرنس کے دوران نتن یاہو نے کہا کہ ’ہم نے ایک بہادر شخص کا عمل دیکھا، جو ایک بہادر مسلمان تھا، اور میں اسے سیلوٹ کرتا ہوں۔‘

بونڈائی کے ساحل پر عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

’پہلے لگا کہ آتشبازی ہو رہی ہے۔۔۔ میں نے حملہ آور کو نہیں دیکھا تھا لیکن پھر احساس ہوا کہ بہت قریب سے گولیاں چلائی جا رہی ہیں۔۔ پھر میں چلایا کہ بھاگو۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ کبھی نہ ختم ہونے والی تڑتڑاہٹ ہے۔‘

’سب ایک دوسرے کو دھکیل رہے تھے، کوئی ترتیب نہیں تھی اور ہم بس دوڑتے چلے گئے۔‘

یہ الفاظ نکو اور ولیم نامی عینی شاہدین کے ہیں، جو آسٹریلیا کے بونڈائی ساحل پر اتوار کو یہودی کمیونٹی پر ہونے والے’دہشت گردانہ‘ حملے کی ہولناکی بیان کر رہے تھے۔

آسٹریلوی حکام کے مطابق اس واقعے میں اب تک 11 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

حکام کے مطابق دو حملہ آوروں میں سے ایک ہلاک ہو چکا ہے جبکہ دوسرا ’شدید زخمی حالت میں ہسپتال میں زیرِ علاج‘ ہے۔

پولیس کمشنر میل لینین نے اس واقعے کو باضابطہ طور پر ’دہشت گردی کا واقعہ‘ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق حملے والی جگہ پر ایک ہزار سے زائد افراد موجود تھے، جن میں سے کئی یہودی حنوکا کا جشن منا رہے تھے۔

ایک اور عینی شاہد برطانوی شہری فن گرین نے یہ منظر جائے وقوعہ کے قریب ایک اپارٹمنٹ سے دیکھا۔

بی بی سی کی کیٹی واٹسن سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’فائرنگ کی آوازیں سنتے ہی میں کھڑکی کی جانب بڑھا۔۔۔ سفید کار کے اُوپر موجود ایک شخص گولیاں چلا رہا تھا۔۔ میں نے حملہ آور کو لوگوں کو گولیاں مارتے دیکھا۔ کچھ لوگ چیختے ہوئے میرے اپارٹمنٹ کی جانب بڑھ رہے تھے۔‘

گرین کا کہنا ہے کہ ’میں نے اپنے بلائنڈز بند کیے اور الماری میں چھپ گیا۔‘

Getty Images’وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بونڈائی میں ایسا ہو سکتا ہے‘

بونڈائی کے ساحل پر ایک دن گزارنے کے بعد اپنا سامان سمیٹ کر واپس جانے کی تیاری کرنے والے ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بونڈی میں ایسا کوئی واقعہ پیش آ سکتا ہے۔‘

مارکوس کاروالیو نامی عینی شاہد کا مزید کہنا تھا کہ جیسے ہی لوگوں کو حقیقت کا اندازہ ہوا ’سب دوڑنے لگے۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ 10 لاکھ سالوں کے دوران بھی بونڈائی ساحل پر ایسا واقعہ ہو سکتا ہے۔‘

یہودی عبادت گاہ پر حملہ: ’میں مرنے کے لیے آیا ہوں، اس کے لیے میں دو سال سے دعا کر رہا تھا‘امریکہ میں یہودی عبادت گاہ پر حملہ: ’میں نے حملہ آور پر کرسی پھینکی اور دروازے کی طرف بھاگا‘جہاد الشامی: مانچسٹر میں یہودی عبادت گاہ پر حملہ کرنے والا شخص کون ہے اور ان کے والد کے فیس بُک اکاؤنٹ پر بی بی سی نے کیا دیکھا؟ کار میں ’بم بنانے کی فیکٹری‘: امریکہ کو ’انتہائی مطلوب دہشت گرد‘ کے فرار اور 21برس بعد گرفتاری کی کہانی

مارکوس کاروالیو کے مطابق ’میں اپنی جان بچانے کے لیے نارتھ بونڈائی کے ایک گھاس والے ٹیلے کی طرف دوڑنے لگا، پھر چند افراد کے ساتھ ایک آئس کریم وین کے پیچھے چھپ گیا۔‘

ایمرجنسی سروسز کے پہنچنے اور فائرنگ رکنے کے بعد انھوں نے گھر جانے کی کوشش کی لیکن اس مقام سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ ’لاشیں زمین پر بکھری پڑی تھیں۔‘

’میرے خاندان کے کئی افراد اور دوست بھی مرنے والوں میں شامل ہیں‘

آسٹریلیا میں یہودی کمیونٹی کی نمائندہ تنظیم ’آسٹریلین جیوری‘ کی ایگزیکٹو کونسل کے عہدے دار الیکس راؤچن کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں اُن کے خاندان کے افراد اور دوست بھی شامل ہیں۔

بی بی سی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’ہلاک ہونے والوں میں میرا ایک پیارا دوست بھی شامل ہے جو ایک ماہ قبل ہی والد بنے تھے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’میرا دوست، انتہائی ہنس مکھ اور خوبصورت شخصیت کا مالک تھا۔۔اب اس کا بیٹا، جو صرف ایک ماہ قبل پیدا ہوا ہے، بغیر باپ کے پرورش پائے گا۔‘

راؤچن کہتے ہیں کہ جائے وقوعہ کے قریب اُنھیں ایک چار سالہ بچی بھی ملی، جس نے اپنے چہرے پر شیرنی کی پینٹنگ کی ہوئی تھی اور یہ اپنے والدین سے بچھڑ گئی تھی۔

اُن کے بقول ہمیں خدشہ تھا کہ شاید اس نے اپنے والدین کو کھو دیا ہے، لیکن بہت جلد ہم بچی کو اس کے والدین تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ حملہ آوروں نے اس معصوم بچی اور اس جیسے دیگر لوگوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

Getty Imagesعلاقے میں ویرانی، لوگ گھروں میں محصور

مقامی افراد کے مطابق یہ واقعہ شمالی بونڈائی کے اس پرسکون علاقے میں ہوا ہے، جس کا شمار خاندانوں کے لیے تفریح کے بہترین ساحلوں میں ہوتا ہے۔

بہت سے خاندان اپنے بچوں کے ہمراہ اس علاقے میں رہتے ہیں جبکہ نوجوان جوڑوں کے لیے بھی یہ رہائش کے لیے پسندیدہ جگہ ہے۔

یہودیوں کی حنوکا کی تقریب کھیل کے ایک بڑے میدان کے بالکل ساتھ سبزے پر منعقد ہو رہی تھی اور سڑک کے بالکل پار ایک پرائمری سکول بھی ہے۔

چند گھنٹے قبل علاقے کی سڑکیں ہزاروں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں، جوان اور بوڑھے، دھوپ کے موسم سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ لیکن اب یہاں سناٹے کا راج ہے۔

پولیس کی کچھ گاڑیوں کے علاوہ پورا علاقہ سنسان ہے اور خوف کے باعث لوگ صرف گھروں تک محصور ہیں۔

Getty Images

بی بی سی نے ایک صحافی ڈینی کلیٹن سے بات کی ہے جو ساحل سمندر پر تھے اور بونڈائی پویلین سے ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کر رہے تھے۔

کلیٹن کے ذریعہ شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں پولیس اہلکاروں کو حملہ آوروں پر فائرنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

ایک پولیس افسر ساحل کے قریب موجود لوگوں کو دیوار کے پیچھے چھپنے کا کہہ رہا ہے۔

کلیٹن کہتے ہیں کہ وہ اب بھی یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہوا کیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’جب میں نے فائرنگ کی آواز سنی تو خوف و ہراس پھیل گیا۔ لوگ وہاں سے نکل رہے تھے اور اس دوران عجلت میں گاڑیوں کو آپس میں ٹکراتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔‘

کلیٹن کہتے ہیں کہ وہاں دو بندوق بردار موجود تھے اور وہ لوگوں کے ایک گروپ پر گولیاں چلا رہے تھے۔

ایمسٹرڈیم میں اسرائیلی فٹبال شائقین پر حملے: ’ہمیں یہود مخالف رویوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے‘، نیدرلینڈز کے بادشاہکشیدگی میں اضافہ یا کمزور نظر آنا، اسرائیلی حملے کے بعد ایران کو ایک بار پھر مشکل صورتحال کا سامناجہاد الشامی: مانچسٹر میں یہودی عبادت گاہ پر حملہ کرنے والا شخص کون ہے اور ان کے والد کے فیس بُک اکاؤنٹ پر بی بی سی نے کیا دیکھا؟ کار میں ’بم بنانے کی فیکٹری‘: امریکہ کو ’انتہائی مطلوب دہشت گرد‘ کے فرار اور 21برس بعد گرفتاری کی کہانیامریکہ میں یہودی عبادت گاہ پر حملہ: برطانیہ میں گرفتاریاں، ’میرا بھائی ذہنی بیماری کا شکار تھا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More