مشرقی پاکستان سے آخری پرواز: سرینڈر سے انکار کرنے والے پاکستانی فوجی اور ڈھاکہ سے فرار کی کہانی

بی بی سی اردو  |  Dec 16, 2025

یہ 15 دسمبر 1971 کی رات تھی۔ پاکستانی فوج کی جانب سے انڈیا کے سامنے باضابطہ طور پر ہتھیار ڈالنے کی تیاریاں جاری تھیں اور ڈھاکہ میں تعینات پاکستان آرمی کی فورتھ ایوی ایشن سکواڈرن کو حکم ملا تھا کہ اپنے ہیلی کاپٹر اور اسلحہ تباہ کر دیں۔

مگر یہ پائلٹ قید نہیں، فرار چاہتے تھے۔

منصوبہ بظاہر سادہ تھا: ہیلی کاپٹر تباہ کرنے کے بجائے انھیں اُڑا کر برما لے جایا جائے۔ لیکن یہ فیصلہ موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔۔۔۔ انڈین فضائیہ فضا پر مکمل غلبہ حاصل کر چکی تھی، ڈھاکہ انڈین فوج اور مکتی باہنی کے سخت گھیرے میں تھا اور نکلنے کا ہر راستہ بند دکھائی دیتا تھا۔

یہ مشرقی پاکستان سے آخری پرواز تھی کیونکہ اگلے ہی دن بنگلہ دیش وجود میں آ گیا۔

لیکن یہ لوگ آخر کیسے فرار ہوئے؟

اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں آج سے 54 برس قبل اُس تاریک اور فیصلہ کن رات میں جانا ہو گا جہاں اس آپریشن کی کہانی، خود اس میں شریک افسران کی زبانی سامنے آتی ہے۔

’انڈین جہاز ہر رات آ کر ڈھاکہ ائیر پورٹ کا رن وے اُڑا جاتے‘

اس وقت فورتھ ایوی ایشن سکواڈرن کی کمان لیفٹیننٹ کرنل سید لیاقت بخاری کر رہے تھے اور ڈھاکہ میں تعینات اس سکواڈرن کے پاس پانچ ایم آئی-8 اور چار الوئیٹ-تھری ہیلی کاپٹر شامل تھے۔

3 دسمبر 1971 کی شام، مغربی پاکستان سے انڈین ہوائی اڈوں پر پاکستان ایئر فورس کے فضائی حملوں کے فوراً بعداسی رات انڈین طیاروں نے ڈھاکہ ائیر فیلڈ پر حملہ کر دیا۔

یہ مکمل جنگ کا آغاز تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) علی قلی خان اس وقت میجر کے عہدے پر فائز تھے اور ایم آئی-8 کے پائلٹ تھے۔ وہ 10 اپریل 1971 کو ڈھاکہ پہنچے تھے۔

بی بی سی سی بات کرتے ہوئے جنرل (ر) علی قلی خان اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 26 مارچ کو بغاوت شروع ہونے کے بعد کئی جگہوں پر مکتی باہنی کا قبضہ ہو چکا تھا۔

اس وقت ڈھاکہ میں ایک ہی ائیرپورٹ تھا۔ علی قلی خان کے مطابق 3 دسمبر کی رات جب حملہ ہوا تو پہلے دن ہی تقریباً ڈھاکہ پر 130 ریڈز آئے اور ’انھوں (انڈین فضائیہ) نے ائیرپورٹ اُڑایا دیا۔ انڈین طیاروں نے بمباری سے مین رن وے تباہ کر دیا جس کے بعد پاکستان کی فضائیہ کے جہاز وہاں سے اڑان نہیں بھر سکتے تھے تاہمفورتھ ایوی ایشن سکواڈرن کے ہیلی بورن آپریشن جاری رہے۔‘

ابتدائی تین دنوں میں انڈین فضائی حملوں کا مرکزی ہدف ڈھاکہ ایئر فیلڈ تھا، جس پر بار بار بمباری ہوتی رہی۔ علی قلی خان کے مطابق وہ (انڈین فضائیہ کے جہاز) ہر رات آ کر رن وے اُڑا جاتے تھے۔

BBC14 دسمبر 1971 کو واضح ہو گیا کہ جنرل نیازی نے انڈیا کے آگے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ڈھاکہ کی فضاؤں پر انڈیا کا راج

انڈین فضائی برتری کے باعث ایم آئی–8 اور الوئیٹ ہیلی کاپٹروں کی زیادہ تر پروازیں رات کے وقت انجام دی گئیں۔ جنرل (ر) علی قلی خان کے مطابق وہ اور دیگر پائلٹ ’کبھی راشن لے جاتے، کبھی گولہ بارود۔ یہ سب کام رات کے وقت کیے جاتے تھے۔‘

ڈھاکہ کی فضاؤں پر انڈیا کا راج تھا۔۔۔ پائلٹوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ لینڈنگ پر وہ اپنی فوج کو دیکھیں گے یا دشمن کو۔

پاکستان کی عسکری ایوی ایشن کی سرکاری تاریخ اور کتاب ’ہسٹری آف پاکستان آرمی ایویشن 1947 تا 2007‘ میں میجر جنرل (ر) محمد اعظم اور میجر (ر) عامر مشتاق چیمہ لکھتے ہیں کہ ’سیاہ راتوں میں بغیر مناسب نیویگیشنل آلات اور سازوسامان کے انتہائی نچلی پرواز کرنا نہایت خطرناک تھا۔‘

فرار کی منصوبہ بندی

علی قلی خان کے مطابق جب 15 دسمبر کی شام ’ہمارے کمانڈنگ افسر ایسٹرن کمانڈ پہنچے تو انھیں بتایا گیا کہ جنرل نیازی نے 16 دسمبر کو ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے لہذا چیف آف سٹاف ایسٹرن کمانڈ (بریگیڈیئر باقر صدیقی) نے ہتھیار ڈالنے کی ہدایات دیتے ہوئے تمام بھاری سازوسامان، بشمول گنز، ٹینکس اور ہیلی کاپٹرز تباہ کرنے کا حکم دیا۔‘

’جب ہمارے سی او نے یہ سنا تو انھوں نے کہا کہ ہم سرنڈر کرنے اور جہاز تباہ کرنے کے بجائے یہاں سے نکل سکتے ہیں۔‘

جو افسران فرار چاہتے تھے ان کا مؤقف تھا کہ جنیوا کنونشن کے تحت ہتھیار ڈالنے کے بعد فرار ہر فوجی کا حق ہے، اس لیے ہیلی کاپٹروں کو تباہ یا دشمن کے حوالے کرنے کے بجائے پاکستان لے جا کر دوبارہ استعمال کیا جانا چاہیے، خاص طور پر جب مغربی پاکستان میں جنگ ابھی جاری تھی۔

علی قلی خان کے مطابق اس وقت نکلنے کے دو راستے تھے۔

’ایک تھا برما میں اکیاپ(جسے اب میانمار کے نام سے جانا جاتا ہے)۔۔۔ یہ چٹاگانگ کے جنوب میں واقع تھا اور پاکستانی پائلٹ اڑ کر وہاں جا سکتے ہیں۔ اور دوسرا راستہ نیپال تھا۔‘

لیکن اکیاپ جانا زیادہ بہتر تھا۔ علی قلی خان کے مطابق یہی فیصلہ ہوا کہ ’ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور اپنے ہیلی اڑا کر برما لیجائیں گے۔‘

فرار کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی

اضافی فیول ٹینک کے ساتھ ایم آئی-8 تقریباً 24 مسافر لیجانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ جبکہ الوئیٹ تھری پر ہتھیاروں کے ساتھ تین سے چار مسافر جا سکتے تھے۔

تاہم مسئلہ یہ تھا کہ اس وقت اس سکوارڈن کے تمام ہیلی ڈھاکہ چھاؤنی میں بکھرے پڑے تھے۔۔۔ کوئی کسی درخت کے نیچے چھپایا گیا تھا۔۔۔ کوئی ہیلی کسی سڑک پر کھڑا تھا۔۔۔ اور کوئی گالف کورس میں۔

علی قلی خان کے مطابق انھیں اپنے ہیلی تیار کرنے کا حکم ملا اور کہا گیا کہ ’آپ جہاز تیار کریں، مسافروں کے بارے میں ہم آپ کو بتائیں گے۔۔۔۔‘انھوں نے رات کے 2 بجے اندھیرے میں اکیاپ جانے کا منصوبہ بنایا۔

بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) سید لیاقت بخاری نے ہسٹری آف پاکستان آرمی ایویشن کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ بریفنگ کے دوران پائلٹس کو ہدایت دی گئی تھی کہ 16 دسمبر 1971 کو صبح 3 سے 3:35 کے درمیان پرواز کریں۔۔۔ہر ہیلی کاپٹر پانچ منٹ کے وقفے پر اڑے گا۔ ایم آئی ایٹ، بیورز کے بعد اڑیں گے اور الوئیٹس اضافی فیول لے کر سست رفتار پرواز کریں گے۔

پہلی پرواز سی او لیاقت بخاری کی تھی۔۔۔ مگر پرواز سے قبل وہاں ایک ہنگامہ برپا تھا۔۔۔ فرار کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی اور دو سے تین سو لوگ جمع ہو گئے تھے۔ ہر کوئی ہیلی پر سوار ہونا چاہتا تھا۔ بلآخر اس ہیلی نے 40 مسافروں کے ساتھ ٹیک آف کیا۔

مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش: 13 دن کی جنگ کے دوران ڈھاکہ میں کیا ہوتا رہا؟جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیابنگلہ دیش پاکستان کی جانب سے ماضی میں مانگی گئی ’معافی‘ کو ناکافی کیوں سمجھتا ہے؟’سی آئی اے سے تربیت یافتہ‘ تبت کے کمانڈو جنھیں انڈیا نے 1971 میں پاکستان کے خلاف استعمال کیا

لیفٹیننٹ کرنل عاطف علوی کی عمر اس وقت سات سال تھی۔ انھوں نے میجر جنرل (ر) محمد اعظم اور میجر (ر) عامر مشتاق چیمہ کو بتایا کہ ’ہم چھ بہن بھائی تھے، آدھی رات کے وقت میرے والد جلدی میں آئے اور والدہ کو سامان باندھنے کو کہا۔ میں نے اپنا کرکٹ بیٹ پکڑا۔۔۔ پھر ہم جیپ میں ایک سکول پہنچے جہاں ایک بڑا ہیلی کاپٹر کھڑا تھا اور لوگ چیخ رہے تھے۔۔۔ کوئی جگہ نہیں تھی۔ والد ہمیں وہاں سے دوسرے مقام لے گئے اور وہاں ہمیں ہیلی کاپٹر پر جگہ ملی۔ مگر ہمارے والد پیچھے رہ گئے۔‘

ان ہیلی کاپٹروں میں سے سیٹیں ہٹا کر تمام سامان باہر پھینکا گیا اور خواتین کو سوار کیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ جانیں بچائی جا سکیں۔

علی قلی بتاتے ہیں کہ انھیں جس ہیلی کو اڑانا تھا اس کے روٹر میں تھوڑی خرابی تھی۔ لہذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس پر مسافر نہیں جائیں گے۔

علی قلی خان اور ان کے ساتھی پائلٹ جب رات کو روانگی کے مقام پر پہنچے تو ان کا دوسرا نمبر تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’پانچ منٹ بعد ہم اڑنے والے ہی تھے تو وہاں کچھ خواتین آئیں۔ ان کے ساتھ بچے بھی تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں بھی لے جائیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے انھیں بتایا کہ ہمیں تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن ہمارے ہیلی کاپٹر کا روٹر تھوڑا خراب ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں اگر یہ اڑ گیا تو ہم آپ کو بھی لے جائیں گے۔ انھوں نے کہا ٹھیک ہے۔‘

اس ہیلی میں چندخواتین اور ایک نوجوان لڑکا سوار ہو سکا۔

بادلوں سے ڈھکا ہوا آسمان

فضا میں دشمن کا غلبہ تھا تاہم پاکستانی پائلٹوں نے یکے بعد دیگرے نے اڑان بھری اور شمال کی طرف چٹاگنگ کے ساحل کے ساتھ ساتھ نیچی پرواز کرتے ہوئے اکیاب کی طرف گئے۔

اس دوران سخت وائرلیس خاموشی اختیار کی گئی، اندرونی یا بیرونی روشنی بالکل استعمال نہیں کی گئی۔ ایم آئی ایٹ کی کم از کم پرواز کا وقت دو گھنٹے 30 منٹ تھا اس لیے تین گھنٹے کا ایندھن ضروری تھا۔

سب سے آخری ہیلی ایم آئی ایٹ میجر منظور کمال باجوہ اڑا رہے تھے جو کسی ہنگامی لینڈنگ کی صورت میں دیگر ہیلی کاپٹرز کے لیے سرچ اینڈ ریسکیو کور فراہم کرنے کے ذمہ دار تھے۔

انھوں نے ہسٹری آف پاکستان آرمی ایوی ایشن کو بتایا کہ اس رات ’آسمان مکمل بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا جو پائلٹس کے لیے شدید مشکل پیدا کر رہا تھا۔‘

رات 3 بج کر 35 منٹ پر جب وہ آخری ہیلی کاپٹر کے طور پر اُڑے تو انھوں نے چند لمحوں کے لیے لینڈنگ لائٹس جلائیں تاکہ درختوں کے اوپر سے محفوظ طریقے سے اُڑان بھر سکیں۔ ہیلی کاپٹر بہت بھاری تھا، جگہ بھی کم تھی اور رات کافی سرد تھی۔

ہتھیار سمندر میں پھینک دیے

اکیاب پہنچنے تک صبح ہو چکی تھی جسے فوجی اصطلاح میں ’فرسٹ لائٹ‘ کہتے ہیں۔ سورج نکل چکا تھا۔

تاہم آکیاب کے قریب پہنچتے ہی انھوں نے ریڈیو خاموشی اختیار کی تاکہ لینڈنگ کی اجازت سے انکار نہ ہو جائے۔

علی قلی خان بتاتے ہیں کہ ’جب ہم نے اکیاب کی ائیر فیلڈ دیکھ لی تو ہم سمندر کی طرف مڑ گئے اور تمام فوجی سامان، بشمول ذاتی ہتھیار، کیمرے، شناختی دستاویزات، لاگ بکس اور پاسپورٹ سمندر میں پھینک دیے، پھر واپس آئے اور لینڈ کیا۔‘

اس سے قبل وہ اپنے ہیلی کاپٹروں سے پاکستانی فوج کا نشان مٹا چکے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اگرچہ انھوں نے دوسرے نمبر پر ٹیک آف کیا تھا لیکن ان کا جہاز اکیاپ پہنچنے والا پہلا تھا۔ ’جب ہم نے وہاں لینڈ کیا اور میں جہاز سے نکلا تو ایک برمی فوجی دوڑتا آیا اور مجھ سے اردو میں پوچھا کہ کیا آپ پاکستانی ہیں؟ میں نے کہا ہاں، میں پاکستانی ہوں۔ اس نے پوچھا، کیا تم فوجی ہو؟ میں نے کہا نہیں، نہیں، ہم فلڈ پروٹیکشن کے لوگ ہیں۔ پھر اس نے کہا مسلمان ہو؟ میں نے کہا، ہاں۔۔۔ اس نے فوراً اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور کہا، میں بھی مسلمان ہوںاور میرا نام مصطفیٰ کمال ہے۔‘

لیفٹیننٹ جنرل (ر) علی قلی خان کو آج بھی مصطفیٰ کمال یاد ہے۔

تھوڑی دیر میں دیگر ہیلی بھی اکیاب پہنچنے لگے۔۔۔ ان میں زیادہ تر خواتین، بچوں، سپاہیوں سمیت پائلٹس اور میکانک سوار تھے۔۔ سات جہازوں میں تقریباً170 لوگ جمع ہوئے۔

ایک الوئیٹ تھری جسے وہ پیچھے چھوڑ آئے تھے، اگلے دن صبح 11 بجے پہنچا۔

اکیاب پہنچتے ہی انھیں برما آئل کمپنی کی عمارت میں رکھا گیا۔ وہاں کوئی پابندی نہیں تھی مگر پہرہ تھا۔

ہیلی کاپٹر برما ہی چھوڑ آئے

اکیاپ میں پاکستانی قونصلر بنگالی تھے اور وہ بھی بنگلہ دیشی بن چکے تھے۔ ان افراد نے ان کے گھر کچھ دیر قیام کیا۔

اگلے دن ایک جہاز آیا اور خواتین اور بچوں کو لے کر رنگون گیا، وہاں سے پی آئی اےکا جہاز انھیں پاکستان لے آیا۔

تاہم علی قلی اور ان کے ساتھ موجود پائلٹوں اور دیگر فوجیوں نے چند دن قیام کیا۔ بعد میں ہر ایک پائلٹ کے ساتھ ایک بندوق بردار فوجی ہمراہ ہوا اور انھیں میکٹیلا ایئر بیس لے جایا گیا۔ جہاں سے ایک جہاز انھیں رنگون لے کر گیا۔۔۔ وہ تقریباً تین ہفتے وہاں رہے۔

وہ برما کے لوگوں کے اچھے سلوک کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہاں بہت سے مسلمان تھے جن کے ساتھ وہ گھومتے پھرتے رہتے تھے اور اچھا وقت گزرا۔

پھر ایک دن انھیں بتایا گیا کہ پی آئی اے کا جہاز آئے گا جو رنگون لینڈ کرے گا اور انھیں مغربی پاکستان لے جائے گا۔ یوں تقریباً ایک ماہ بعد وہ مغربی پاکستان پہنچے۔

وہاپنے سارے ہیلی کاپٹر میکٹیلا چھوڑ آئے تھے۔ پھر پاکستان پہنچنے کے دو یا تین ہفتے بعد انھیں حکم ملا کہ واپس جاؤ اور اپنے جہاز لے آؤ۔

واپس جانے والوں میں علی قلی خان شامل نہیں تھے تاہم وہ بتاتے ہیں کہ روانگی سے قبل پائلٹس کو بریفنگ دی گئی تھی کہ ہیلی کاپٹروں کو رنگون سے جہاز کے ذریعے روانہ کیا جائے گا۔ تاہم جب وہ رنگون پہنچے تو صورتحال بدل چکی تھی۔ فوجی اتاشی نے بتایا کہ برمی حکومت پہلے ہی خاصی مخالفت کا سامنا کر چکی ہے اور وہ ہیلی کاپٹروں کو برما سے بھیجنے کی اجازت دے کر معاملے کو مزید متنازع نہیں بنانا چاہتی۔

پائلٹس کو ہدایت دی گئی کہ وہ منڈالے جائیں اور ہیلی کاپٹروں کو چین کے شہر کنمنگ تک اڑانے کی تیاری کریں اور اس کے بعد شنگھائی سے آگے بھیجنے سے متعلق ہدایات کا انتظار کریں۔ شناخت مٹانے کی غرض سے ہیلی کاپٹروں کو پہلے ہی سفید رنگ کیا جا چکا تھا۔

16 جنوری 1972 کی صبح منڈالے میں فضائی جانچ کے بعد تین ایم آئی-8 ہیلی کاپٹر چین کے لیے روانگی کی تیاری کر رہے تھے کہ برمی فضائیہ کا ایک چھوٹا فوجی طیارہ وہاں اترا اور پاکستانی فوجی اتاشی نے اطلاع دی کہ اب ہیلی کاپٹروں کو بنکاک لے جایا جائے گا۔

اسی روز ہیلی کاپٹرز کو رنگون کے قریب برمی فضائیہ کے اڈے ہمبائی لے جایا گیا جہاں ایک رات قیام کے بعد وہ مولمین پہنچے اور پھر بنکاک روانہ ہوئے۔

23 جنوری 1972 کو ان ایم آئی-8 ہیلی کاپٹروں کے پرزے روٹر وغیرہ نکال کر کشتیوں پر رکھے گئے اور اسی روز بحری جہاز کے ذریعے کراچی روانہ کر دیا گیا۔

فورتھ آرمی ایوی ایشن سکوارڈن وہ واحد سکوارڈن تھا جس نے مشرقی پاکستان میں سرینڈر نہیں کیا۔۔۔ علی قلی خان کہتے ہیں کہ ’ہمیں اس بات کی خوشی تھی کہ ہم ہتھیار ڈالنے کی بے عزتی سے بچ گئے۔‘

جنرل نیازی: انڈیا کے سامنے ہتھیار ڈالنے والا جرنیل یا دھرتی کا ’بہادر سپوت‘جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیابنگلہ دیش پاکستان کی جانب سے ماضی میں مانگی گئی ’معافی‘ کو ناکافی کیوں سمجھتا ہے؟مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش: 13 دن کی جنگ کے دوران ڈھاکہ میں کیا ہوتا رہا؟’سی آئی اے سے تربیت یافتہ‘ تبت کے کمانڈو جنھیں انڈیا نے 1971 میں پاکستان کے خلاف استعمال کیابنگلہ دیش کا قیام: جنرل نیازی نے ہتھیار کیوں ڈالے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More