عمران خان کی جیل میں پُش اپس لگانے کی تصویر کی حقیقت کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Dec 16, 2025

اڈیالہ جیل میں دو برس سے قید سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی کوئی ویڈیو یا تصویر سامنے نہ آنے پر اُن کی صحت اور جیل میں حالات کے بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لیکن چند روز سے سابق وزیرِ اعظم سے منسوب ایک وائرل تصویر کا چرچا ہے، جس میں وہ جیل میں ورزش کرتے دکھائے گئے ہیں۔

عمران خان کی جیل میں موجودگی سے منسوب کئی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آتی رہتی ہیں، جنھیں دیکھ کر آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اصلی ہیں یا جعلی۔ لیکن عمران خان کو ورزش کرنے کی اس مبینہ تصویر سے متعلق اُن کی بہن علیمہ خان نے کہا کہ ’یہ اصلی لگتی ہے۔‘

جو تصویر وائرل ہے، اس میں ایک جنگلے کے پیچھے دوپہر کے وقت ٹی شرٹ اور ٹراؤزر پہنے عمران خان کو پُش اپس لگاتے دکھایا گیا ہے۔ اس دوران وہ پسینے میں شرابور ہیں اور اُن سے کچھ فاصلے پر کچھ پولیس اہلکار کھڑے اُنھیں دیکھ رہے ہیں۔

انسدادِ دہشتِ گردی عدالت راولپنڈی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے یہ تصویر کسی اور کو بھیجی اور چیک کرایا کہ یہ اے آئی سے بنی ہے یا حقیقی ہے، جس کے بعد اُنھیں بتایا گیا کہ یہ ’کچھ ماہ پرانی‘ اور ’گرمیوں کی‘ لگ رہی ہے۔

علیمہ خان نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ تصویر ’عمران خان کی قیدِ تنہائی سے پہلے کی ہے‘ اور عمران خان نے ’وہی جوتے پہن رکھے تھے، جو اُنھوں نے ملاقات کے دوران پہنے ہوتے ہیں۔‘

تاہم بی بی سی کو مختلف ٹولز استعمال کر کے یہ معلوم ہوا ہے کہ عمران خان کی وائرل تصویر آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے بنائی گئی تھی۔

بی بی سی کو معلوم ہوا کہ یہ تصویر سب سے پہلے آٹھ دسمبر کو پاکستان تحریک انصاف کے انصاف لائرز فورم کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے شیئر کی گئی اور پھر یہ تیزی سے وائرل ہو گئی۔

پاکستان تحریک انصاف کے متعدد رہنماؤں کی جانب سے اسے سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا، لیکن ساتھ یہ بحث بھی شروع ہو گئی کہ یہ تصویر اصلی ہے یا جعلی۔

کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کے سینٹر فار ایکسیلینس ان جرنلزم کے پروگرام آئی ویریفائی نے بھی اپنی تحقیقات کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ یہ تصویر جعلی ہے۔

Getty Imagesبی بی سی کو کیسے پتا چلا کہ یہ تصویر جعلی ہے؟

بی بی سی نے عمران خان کی اس وائرل تصویر کی حقیقت جاننے کے لیے گوگل کے ڈیپ مائنڈ کی ٹول ’سنتھ آئی ڈی‘ کی مدد حاصل کی۔

ٹیکنالوجی کمپنی ’گوگل‘ نے اگست 2023 میں گوگل مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ذریعے بنائی گئی تصاویر کا تعین کرنے کے لیے ڈیجیٹل واٹر مارک کا تجربہ کیا۔

گوگل کے مصنوعی ذہانت کے فیچر ’ڈیپ مائنڈ‘ کے تیار کردہ ’سنتھ آئی ڈی‘ کے ذریعے گوگل اے آئی سے بنی تصاویر کا پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ یہ اصلی ہیں یا جعلی۔

بی بی سی نے بھی عمران خان کی اس تصویر سے متعلق ’سنتھ آئی ڈی‘ پر ڈالی اور پوچھا کہ یہ تصویر اصلی ہے یا جعلی۔ اس پر ’سنتھ آئی ڈی‘ نے بتایا کہ یہ تصویر گوگل اے آئی کے ذریعے بنائی گئی ہے۔

گوگل کا یہ فیچر تصاویر کے پکسلز کا انتہائی باریکی سے جائزہ لے کر انسانی آنکھ سے پوشیدہ واٹر مارک کو ڈھونڈ لاتا ہے۔

کارکنوں کے بھیس میں پولیس اہلکاروں کی ’خفیہ‘ میٹنگز میں شرکت: وہ سرکاری گواہ جن کے بیانات نو مئی مقدمات میں سزاؤں کی وجہ بنےعمران خان کی میڈیکل رپورٹ: ’ورٹیگو‘ اور ’ٹائنائٹس‘ کیا ہوتا ہے؟عمران خان کی بہن پر انڈہ پھینکنے کا واقعہ: ’سیاست میں اس طرح کے واقعات کی گنجائش نہیں ہے‘نورین خان کے انڈین میڈیا کو انٹرویوز اور ’آپریشن سندور ٹو‘ کی بازگشت: وائرل کلپ کی حقیقت کیا ہے؟

واٹر مارکس عام طور پر ایک لوگو یا ٹیکسٹ ہوتے ہیں جو کسی تصویر میں ملکیت ظاہر کرنے کے لیے شامل کیے جاتے ہیں اور ساتھ ہی جزوی طور پر تصویر کو کاپی کرنے اور بغیر اجازت کے استعمال کرنے کے لیے اسے مشکل بنا دیتے ہیں۔

یہ بی بی سی اُردو کی ویب سائٹ پر استعمال ہونے والی تصاویر میں بھی ہے، جس میں عام طور پر نیچے، دائیں کونے میں کاپی رائٹ واٹر مارک شامل ہوتا ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے واٹر مارکس تصاویر کی شناخت کے لیے موزوں نہیں ہیں، کیونکہ ان میں آسانی سے ترمیم کی جا سکتی ہے۔

گوگل کا سسٹم ایک مؤثر طریقے سے ایک نہ نظر آنے والا واٹر مارک بناتا ہے، جس سے لوگ اس کے سافٹ ویئر کو استعمال کرتے ہوئے فوری طور پر یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ تصویر اصلی ہے یا اے آئی کے ذریعے بنائی گئی ہے۔

جعلی تصویر کا مزید کن طریقوں سے پتا چلایا جا سکتا ہے؟

بی بی سی نے تو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ایک جدید ٹول کا استعمال کر کے یہ تصدیق کی کہ عمران خان کی یہ تصویر جعلی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے طریقوں سے یہ پتا چلایا جا سکتا ہے کہ تصویر اصلی ہے یا جعلی۔

ایسی ہی تحقیق آئی بی اے کے آئی ویریفائی نے بھی کی ہے، جس میں عمران خان کے قریب کھڑے پولیس اہلکاروں، اڈیالہ جیل کے بلڈنگ ڈیزائن اور دیگر عوامل کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ یہ تصویر جعلی ہے۔

آئی ویریفائی نے ’فیکٹ چیک‘ اور اس تصویر کا بغور جائزہ لیا، جس میں مختلف تضادات سامنے آئے۔ جو پولیس اہلکار قریب کھڑے تھے، اُن کی وردی پر اُن کے نام کا ٹیگ دکھائی نہیں دے رہا تھا، جو اس تصویر کے اے آئی ہونے کا اشارہ ہے۔

اس کے علاوہ ایک تصویر میں ایک پولیس اہلکار جو وردی پہنے ہوئے ہے، اس پر روایتی پولیس وردیوں کی طرح کوئی جیب نہیں ہے۔ جبکہ عمران خان نے جو ٹراؤزر پہن رکھا ہے، اس کے برانڈ کا نام بھی دُھندلا ہے۔

جب اس تصویر کی ’کی ورڈز‘ کے ذریعے سرچ کی گئی تو پاکستان کے کسی مستند نیوز چینل نے اس تصویر سے متعلق کوئی خبر نہیں چلائی اور نہ ہی پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں نے باضابطہ طور پر اس کے درست ہونے کی تصدیق کی۔

جو تصاویر اب تک جاری کی گئی ہیں

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے گذشتہ برس جون میں سپریم کورٹ میں عمران خان کو جیل میں فراہم کی جانے والی سہولیات سے متعلق رپورٹ پیش کی تھی، جس میں کچھ تصاویر بھی تھیں۔

بی بی سی کو آزادانہ ذرائع سے ان تصاویر کی تصدیق نہیں ہوئی تھی، تاہم پاکستان تحریک انصاف نے ان تصاویر کو اصل قرار دیا تھا۔

ایکس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پی ٹی آئی کے آفیشل پیج پر جاری ہونے والے ایک پیغام میں حکومتی دستاویزات میں موجود ایک کمرے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ 'پاکستان کے سابق وزیراعظم کو جیل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھا گیا ہے، جہاں انھیں کوئی سہولت میسر نہیں۔'

اگر اس تصویر کا جائزہ لیں تو یہ ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جس میں ایک جانب بستر موجود ہے جبکہ دوسری جانب ایک میز اور کرسی موجود ہیں۔

تصویر میں دکھائی دینے والے کمرے کے آخر میں دیوار پر ایک ٹی وی سکرین نصب ہے جبکہ ساتھ ہی ایک کولر بھی موجود ہے۔

تاہم اسی کمرے میں بستر کے عقب میں موجود چھوٹی دیواروں والا ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جس کے ساتھ نصب واش بیسن کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بیت الخلا ہے۔

حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ عمران خان کے لیے جیل میں الگ کچن موجود ہے۔

تاہم دستاویز میں موجود ایک تصویر جس کے نیچے یہ عبارت درج ہے، اس میں ایک الماری کو دیکھا جا سکتا ہے اور دستاویز میں دعوی کیا گیا ہے کہ اس میں عمران خان کے لیے مختص کھانے پینے کی اشیا رکھی گئی ہیں۔

دستاویزات میں موجود ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس الماری میں کولڈ ڈرنکس، دلیہ اور اسپغول سمیت کھانے پینے کی دیگر چیزیں موجود ہیں۔

دستاویز میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کھانے کے مینیو کا فیصلہ خود عمران خان ہی کرتے ہیں۔

حکومتی دستاویزات کے مطابق اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زندگی کیسی ہے؟عظمیٰ خان کی اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات: ’اسی طرح چلتے رہیں گے تو آئندہ پابندی نہیں لگے گی‘پنجاب پولیس پر عمران خان کی بہنوں اور کارکنان پر تشدد کا الزام: اڈیالہ جیل کے باہر کیا ہوا؟پی ٹی آئی کو ’مشکل وقت میں‘ چھوڑنے والے رہنما عمران خان کی رہائی کے لیے سرگرم: ’سیاسی درجہ حرارت کم کرنا ہوگا‘نو مئی 2023: احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور کریک ڈاؤن کی پسِ پردہ کہانی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More