ٹرمپ، شی جن پنگ یا ’20 سال تک جاری رہنے والے تنازع‘ کا خوف: پوتن یوکرین جنگ ختم کرنے پر کیسے مجبور ہو سکتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Dec 17, 2025

BBC

روس کے صدر ولادیمیر پوتن کو بعض حلقے ایک سخت گیر آمر اور بین الاقوامی سیاست کے ماہر کھلاڑی کے طور پر جانتے ہیں۔ لیکن ایک چیز جو پوتن کے اختیار میں نہیں ہے اور وہ ہے ان کا ’پوکر فیس‘ یعنی تاثرات سے عاری چہرہ۔

امریکہ کے آنجہانی سینیٹر جان مکین اکثر طنزاً کہا کرتے تھے کہ جب وہ پوتن کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں تو انھیں تین حروف نظر آتے ہیں: کے، جی، بی۔۔۔ یہ ان کے ماضی کی طرف اشارہ تھا جب وہ سوویت انٹیلی جنس افسر کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دیتے تھے۔

یہی بات ذہن میں آئی جب میں نے کریملن میں امریکی نمائندوں کے سامنے بیٹھے روسی صدر کی فوٹیج دیکھی۔ وہ اپنی جذباتی کیفیت چھپا نہ سکے اور ان کے چہرے سے غیر معمولی اعتماد جھلک رہا تھا۔

صدر پوتن سمجھتے ہیں کہ سفارتی حالات اب ان کے حق میں ہیں، امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں اور میدانِ جنگ میں بھی انھیں کامیابیاں ملی ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پوتن کے پاس اپنی شرائط سے پیچھے ہٹنے کی کوئی وجہ نہیں۔ ان شرائط میں شامل ہے کہ یوکرین دونتسک کے باقی 20 فیصد حصے سے دستبردار ہو، تمام مقبوضہ علاقے بین الاقوامی سطح پر روسی تسلیم کیے جائیں، یوکرین کی فوج کو اس حد تک کمزور کر دیا جائے کہ وہ بے اثر ہو جائے اور نیٹو کی رکنیت کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں۔

حالیہ صورتحال میں چند ممکنہ منظرنامے ہیں۔

پہلا یہ کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین کو ایک ایسے جنگ بندی معاہدے پر مجبور کرنے کی کوشش کریں جو عوام کے لیے ناقابلِ قبول ہو، جس میں علاقہ روس کے حوالے کر دیا جائے اور مستقبل میں روسی جارحیت روکنے کے لیے خاطر خواہ ضمانتیں نہ ہوں۔

اگر یوکرین انکار کرے یا روس ویٹو کر دے تو صدر ٹرمپ نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس جنگ سے ہاتھ کھینچ سکتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے انھوں نے کہا تھا کہ ’کبھی کبھی آپ کو لوگوں کو لڑنے دینا پڑتا ہے۔‘

AFP via Getty Images

پوتن امریکہ کی وہ اہم انٹیلی جنس ختم کر سکتے ہیں جس کی مدد سے یوکرین روسی ڈرونز کا سراغ لگاتا ہے اور روسی توانائی کے مراکز کو نشانہ بناتا ہے۔

ایک اور امکان یہ ہے کہ جنگ اسی طرح جاری رہے اور روسی افواج مشرقی یوکرین میں آہستہ آہستہ پیش قدمی کرتی رہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کی نئی قومی سلامتی حکمتِ عملی میں اشارہ دیا گیا کہ روس اب امریکہ کے ’وجود کے لیے خطرہ‘ نہیں رہا اور امریکہ کو روس کے ساتھ ’سٹریٹجک استحکام دوبارہ قائم‘ کرنے کی ضرورت ہے۔

ایسے میں جب یوکرین کے لیے امریکی حمایت پر سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں، تو کیا کوئی چیز پوتن کا موقف بدل سکتی ہے؟ اور یوکرین، یورپ حتیٰ کہ چین کو کیا مختلف کرنا چاہیے؟

یورپ مزید کیا کچھ کر سکتا؟

فی الحال یورپی براعظم جنگ بندی کی تیاری کر رہا ہے۔ ’کولیشن آف دی ولنگ‘ کے بینر تلے ایک بین الاقوامی فوجی دستہ تیار کیا جا رہا ہے تاکہ یوکرین کو مستقبل میں روسی حملے سے باز رکھا جا سکے، ساتھ ہی جنگ سے تباہ حال ملک کی تعمیرِ نو کے لیے مالی امداد بھی فراہم کی جا رہی ہے۔

تاہم بعض حکام کا کہنا ہے کہ یورپ کو اس کے بجائے اس امکان کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ جنگ اسی طرح جاری رہے۔

ان کے مطابق یوکرین کو نہ صرف ’آج کی جنگ جیتنے‘ کے لیے مزید ڈرونز اور رقم فراہم کی جائے بلکہ طویل المدتی تعاون بھی دیا جائے اور روس کے ساتھ 15 سے 20 سال تک جاری رہنے والی جنگ کے لیے تیاری کی جائے۔

BBC

یورپ یوکرین کے فضائی دفاع کو مزید مضبوط بنانے کے لیے بھی اقدامات کر سکتا ہے تاکہ ڈرونز اور میزائلوں سے تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے پہلے ہی ایک منصوبہ موجود ہے جسے ’یورپین سکائی شیلڈ انیشی ایٹو‘ کہا جاتا ہے، اور اسے وسعت دے کر مغربی یوکرین کے دفاع کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپی فوجی مغربی یوکرین میں تعینات کیے جا سکتے ہیں تاکہ سرحدوں کی نگرانی کریں اور یوکرینی فوجیوں کو محاذِ جنگ پر لڑنے کے لیے کھلی چھوٹ دے دیں۔ تاہم ایسے بیشتر منصوبے اس خدشے کے باعث مسترد کر دیے گئے ہیں کہ کہیں روس کو اشتعال نہ دلایا جائے یا جنگ مزید نہ بڑھے۔

چیتھم ہاؤس تھنک ٹینک کے روس اور یوریشیا پروگرام کے سینیئر فیلو کیئر جائلز کا کہنا ہے کہ یہ خدشات ’بے تُکے‘ ہیں کیونکہ مغربی فوجی پہلے ہی گراؤنڈ پر موجود ہیں اور سکائی شیلڈ کو مغربی یوکرین میں تعینات کرنے سے روسی فضائیہ کے ساتھ کسی تصادم کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

ان کے مطابق یورپی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ اس تنازع میں اس انداز سے شامل ہوں جس سے حقیقی فرق پڑے۔

کیئر جائلز کا کہنا ہے کہ ’روس کی جارحیت کو حتمی اور یقینی طور پر روکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ جہاں روس حملہ کرنا چاہتا ہے وہاں اتنی مضبوط مغربی افواج موجود ہوں اور یہ عزم بھی ظاہر ہو کہ انھیں دفاع کے لیے استعمال کیا جائے گا۔‘

یقیناً اس حکمتِ عملی کے ساتھ بڑے سیاسی مسائل بھی جڑے ہیں کیونکہ مغربی یورپ کے کچھ ممالک روس کے ساتھ براہِ راست تصادم کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

چند تجزیہ کاروں کو توقع نہیں کہ یوکرین جنگ کا رخ پلٹ سکے گا یا اپنا علاقہ واپس لے سکے گا۔ حالیہ ہفتوں میں یوکرین میں قیام کے دوران مجھے کسی ’موسم بہار میں جارحانہ کارروائی‘ کا ذکر سننے کو نہیں ملا، صرف یہ کہ روس کی پیش قدمی کو سست کیا جائے اور اسے جانی و مالی نقصان زیادہ سے زیادہ پہنچایا جائے۔

کچھ مغربی سفارتکاروں کا دعویٰ ہے کہ روسی جنرل صدر پوتن کو اصل صورتحال سے آگاہ نہیں کر رہے اور وہ زمینی حالات کو بہتر بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ایک دانستہ حکمتِ عملی ہے تاکہ روسی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر دکھایا جائے اور یہ تاثر دیا جائے کہ یوکرین پسپا ہو رہا ہے اور اسے امن کے لیے مذاکرات کرنے چاہییں۔

فارِن افیئرز میں تھامس گراہم کے مطابق رواں سال روس نے صرف یوکرین کے ایک فیصد علاقے پر قبضہ کیا ہے اور اس کے بدلے میں اسے دو لاکھ سے زائد لاشیں اور زخمی ملے ہیں۔

AFP via Getty Images

فِیونا ہل بروکنگز انسٹیٹیوٹ میں سینیئر فیلو ہیں اور صدر ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں قومی سلامتی کونسل کی رکن رہ چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پوتن کے حق میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یوکرین جنگ ہار رہا ہے۔

ان کے مطابق ’سب یوکرین کو شکست خوردہ قرار دے رہے ہیں، حالانکہ اس وقت یوکرین یورپ کی سب سے طاقتور فوج رکھتا ہے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’سوچیں کہ یوکرین نے روس کے ساتھ کیا کیا ہے۔ یہ حیران کن ہے کہ وہ اتنے عرصے تک ڈٹے رہے، وہ بھی اس حال میں کہ جیسے ایک ہاتھ پیچھے باندھ کر لڑ رہے ہوں۔‘

تجارت، پابندیاں اور روس کی معیشت

روس کو روکنے کے لیے پابندیوں کا رستہ بھی موجود ہے۔ بلاشبہ روس کی معیشت مشکلات کا شکار ہے۔ مہنگائی 8 فیصد، سود کی شرح 16 فیصد، ترقی کی رفتار سست، بجٹ خسارہ بڑھتا ہوا، حقیقی آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے اور صارفین پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔

’پیِس اینڈ کانفلکٹ ریزولوشن ایویڈنس‘ پلیٹ فارم کی ایک رپورٹ کے مطابق روس کی جنگی معیشت کا وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس شائع ہونے والی رپورٹ کے مصنفین کے مطابق ’روس کی معیشت اب جنگ کی مالی معاونت کرنے کے قابل نہیں رہی جتنی کہ وہ 2022 کے آغاز میں تھی۔‘

تاہم اب تک اس سب کا کریملن کی سوچ پر کوئی خاص اثر نظر نہیں آیا، خاص طور پر اس لیے کہ کاروباری ادارے پابندیوں سے بچنے کے طریقے ڈھونڈ چکے ہیں، جیسے کہ تیل کو غیر رجسٹرڈ سمندر جہازوں ’گھوسٹ شپ‘ کے ذریعے منتقل کرنا۔

ٹام کیٹنگی ’روسی‘ (آر یو ایس آئی) میں سینٹر فار فنانس اینڈ سکیورٹی کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مغرب کی جانب سے پابندیوں کے بارے میں پیغام رسانی پیچیدہ ہے اور اس میں بہت زیادہ خلا موجود ہیں۔

ان کے مطابق روس حالیہ امریکی پابندیوں کو بھی باآسانی نظرانداز کر سکتا ہے جو دو بڑی روسی آئل کمپنیوں، لوک آئل اور روزنیفٹ، پر عائد کی گئی ہیں۔ روس صرف برآمدی تیل کو غیر پابندی یافتہ کمپنیوں کے نام سے دوبارہ لیبل کر کے یہ پابندیاں توڑ سکتا ہے۔

ٹام کیٹنگی کا کہنا تھا کہ اگر مغرب واقعی روس کی جنگی معیشت کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے تو اسے روسی تیل پر مکمل پابندی لگانی ہوگی اور ان ممالک پر ثانوی پابندیاں نافذ کرنی ہوں گی جو اب بھی روسی تیل خرید رہے ہیں۔ ان کے الفاظ میں: ’ہمیں چالاکیاں چھوڑ کر مکمل پابندی لگانی ہوگی۔ ہمیں پابندیوں کے نفاذ کو اتنی ہی سنجیدگی سے لینا ہوگا جتنی سنجیدگی سے کریملن ان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔‘

تصوراتی طور پر پابندیاں روسی عوامی رائے پر بھی اثر ڈال سکتی ہیں۔ اکتوبر میں ریاستی ادارے ’پبلک اوپینین ریسرچ سینٹر‘ کے ایک سروے میں 56 فیصد افراد نے کہا کہ وہ اس جنگ سے ’انتہائی تھک چکے ہیں‘، جو گذشتہ سال کے 47 فیصد سے زیادہ ہے۔

تاہم کریملن کے ماہرین کا عمومی خیال ہے کہ روسی عوام کی بڑی تعداد اب بھی پوتن کی حکمتِ عملی کی حمایت کرتی ہے۔

Reutersیورپی یونین تقریباً 200 ارب یورو کے منجمد روسی اثاثے استعمال کر کے یوکرین کے لیے ’معاوضے‘ کی مد میں قرض فراہم کرنے پر غور کر رہی ہے

یورپی یونین تقریباً 200 ارب یورو کے منجمد روسی اثاثے استعمال کر کے یوکرین کے لیے ’معاوضے‘ کی مد میں قرض فراہم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ یورپی کمیشن کی تازہ تجویز ہے کہ دو برسوں میں 90 ارب یورو اکٹھے کیے جائیں۔

کئیو میں حکام پہلے ہی اس رقم کے ملنے کی امید کر رہے ہیں، تاہم یورپی یونین اب بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ بیلجیئم، جہاں زیادہ تر روسی اثاثے موجود ہیں، طویل عرصے سے روس کی جانب سے قانونی چارہ جوئی کے خدشے کا اظہار کرتا رہا ہے۔ جمعے کو روسی مرکزی بینک نے ماسکو کی ایک عدالت میں ’بیلجین بینک یوروکلئیر‘ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا اعلان بھی کیا۔

بیلجیئم کا کہنا ہے کہ وہ اس قرض پر اس وقت تک اتفاق نہیں کرے گا جب تک قانونی اور مالی خطرات کو دیگر یورپی ممالک کے ساتھ واضح طور پر بانٹا نہ جائے۔

فرانس کو بھی خدشات لاحق ہیں کیونکہ اس کے اپنے قرضے بہت زیادہ ہیں اور اسے اندیشہ ہے کہ منجمد اثاثوں کو استعمال کرنے سے یورو زون کی مالیاتی استحکام متاثر ہو سکتا ہے۔

یورپی رہنما 18 دسمبر کو برسلز میں کرسمس سے قبل ہونے والی اپنی آخری سربراہی اجلاس میں اس معاملے پر دوبارہ اتفاق رائے کی کوشش کریں گے، لیکن سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں۔

ایک اختلاف یہ بھی ہے کہ اس رقم کو کس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے: یوکرین کی ریاست کو فی الحال دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے یا جنگ کے بعد اس کی تعمیرِ نو کے لیے۔

یوکرین میں جبری فوجی بھرتی کا مسئلہ

یوکرین کے لیے ایک امکان یہ بھی ہے کہ وہ اپنی مسلح افواج کو مزید متحرک کرے۔ یہ یورپ کی دوسری سب سے بڑی فوج ہے (روس کے بعد) اور تکنیکی اعتبار سے سب سے زیادہ جدید، لیکن اس کے باوجود وہ 800 میل طویل محاذِ جنگ کا دفاع کرنے میں مشکلات کا شکار ہے۔

تقریباً چار برس کی جنگ کے بعد بہت سے فوجی تھکن کا شکار ہیں اور بھگوڑوں یعنی فرار ہونے والوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔

Getty Imagesچار برس کی جنگ کے بعد یوکرین بہت سے فوجی تھکن کا شکار ہیں اور بھگوڑوں یعنی فرار ہونے والوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے

یوکرین میں فوجی بھرتی کرنے والے اہلکاروں کو اب خالی آسامیاں پُر کرنا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ کچھ نوجوان مرد جبری بھرتی سے بچنے کے لیے چھپ جاتے ہیں یا ملک چھوڑ دیتے ہیں۔ تاہم یوکرین اپنی جبری فوجی بھرتی کے قوانین کو مزید وسیع کر سکتا ہے۔

فی الحال صرف 25 سے 60 برس کے مردوں کو لڑائی کے لیے دستیاب ہونا لازمی ہے۔ یہ کئیو کی ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے تاکہ یوکرین کے آبادیاتی مسائل کو سنبھالا جا سکے۔

کم شرحِ پیدائش اور لاکھوں افراد کے بیرونِ ملک رہنے والے ملک کے لیے ’مستقبل میں والد‘ کہلائے جانے والے افراد کو کھونا ممکن نہیں۔

یہ بات بیرونی مبصرین کو حیران کرتی ہے۔ ایک برطانوی فوجی اہلکار نے کہا کہ ’مجھے ناقابلِ یقین لگتا ہے کہ یوکرین نے اپنے نوجوانوں کو متحرک نہیں کیا۔ میرا خیال ہے یوکرین شاید تاریخ کے ان چند ممالک میں سے ہے جو وجودی خطرے کا سامنا کر رہے ہیں لیکن پھر بھی اپنے 20 سالہ نوجوانوں کو جنگ لڑنے کے لیے نہیں بھیج رہے۔‘

فِیونا ہل کا کہنا ہے کہ یوکرین نے محض تاریخ سے سبق سیکھا ہے اور پہلی عالمی جنگ کے تباہ کن اثرات کو یاد رکھا ہے، جس نے یورپی سلطنتوں کو کمزور کر دیا تھا کیونکہ وہ دوبارہ آبادی میں اضافہ نہ کر سکے جو ان کی معاشی ترقی کا باعث بنا تھا۔

ان کے مطابق ’یوکرین صرف اپنے آبادیاتی مستقبل کے بارے میں سوچ رہا ہے۔‘

حملے، سفارتکاری اور ٹرمپ

اگر یوکرین مزید طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل درآمد اور تیار کر سکے تو وہ روس کو زیادہ سخت اور شدید حملوں کا نشانہ بنا سکتا ہے۔

اس سال یوکرین نے اپنے فضائی حملوں میں اضافہ کیا ہے، جو مقبوضہ علاقوں اور روس دونوں اہداف پر کیے گئے۔ رواں ماہ کے آغاز میں یوکرینی فوجی کمانڈروں نے ریڈیو لبرٹی کو بتایا کہ انھوں نے خزاں کے دوران روس میں 50 سے زائد ایندھن اور فوجی صنعت سے متعلق تنصیبات کو نشانہ بنایا۔

کارنیگی روس۔یوریشیا سینٹر کے ڈائریکٹر الیگزینڈر گابویف کے مطابق اس سال کے اوائل میں کچھ روسیوں کو ایندھن کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مطابق ’اکتوبر کے آخر تک یوکرینی ڈرونز نے روس کی 38 بڑی ریفائنریوں میں سے نصف سے زیادہ کو کم از کم ایک بار نشانہ بنایا۔‘

ان کے مطابق پیداوار میں رکاوٹیں کئی علاقوں میں پھیل گئیں اور کچھ روسی پٹرول پمپوں نے ایندھن کو ذخیرہ کرنا شروع کر دیا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ روس پر مزید گہرے حملے کس حد تک اثر ڈالیں گے، جب کہ کریملن اور روسی عوامی رائے دونوں اس پر بظاہر بے اثر دکھائی دیتے ہیں۔

AFP via Getty Images

آسٹریلیا کے ریٹائرڈ میجر جنرل اور اس وقت سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے فیلو مِک رائن کا کہنا ہے کہ گہرے حملے کوئی ’جادوئی حل‘ نہیں۔ ان کے مطابق ’یہ غیر معمولی طور پر اہم فوجی کوشش ہے، لیکن صرف اپنے بل بوتے پر نہ پوتن کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کافی ہے اور نہ ہی جنگ جیتنے کے لیے۔‘

ڈاکٹر سدھارتھ کوشل، جو رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ (روسی) تھنک ٹینک میں فوجی علوم کے سینیئر ریسرچ فیلو ہیں کا کہنا ہے کہ مزید گہرے حملے یقیناً روس کی توانائی اور فوجی ڈھانچے کو نقصان پہنچائیں گے اور اس کے فضائی دفاعی میزائل بھی استعمال ہو جائیں گے۔ لیکن انھوں نے خبردار کیا کہ اس حکمتِ عملی کے منفی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔

ان کے مطابق ’یہ روسی قیادت کے اس مؤقف کو مزید تقویت دے سکتا ہے کہ ایک آزاد یوکرین ایک بڑا فوجی خطرہ ہے۔‘

یوکرین میں قیام امن کا امریکی منصوبہ ’لیک‘: روس کو عالمی تنہائی سے نکالنے اور یوکرینی فوج کی تعداد کم کرنے کی تجاویزسستے تیل کے بدلے بڑا امتحان: روسی تیل انڈیا کے لیے کتنا اہم ہے؟سفارتی کامیابی اور مغرب کو دھمکی: پوتن کا یوکرین جنگ پر سخت موقف جو دباؤ کے باوجود برقرار رہافائبر آپٹک ڈرون: یوکرین جنگ کو تیزی سے بدلنے والا یہ خوفناک نیا ہتھیار کیا ہے؟

اب بھی ایک سفارتی راستہ موجود ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر پوتن کو جنگ سے نکلنے کا کوئی راستہ دیا جائے تو وہ اس رستے پر چل سکتے ہیں۔

وہ ایک ایسا معاہدہ ہو سکتا ہے جس میں دونوں فریق فتح کا دعویٰ کر سکیں۔ مثال کے طور پر رابطے کی لکیر پر جنگ بندی، کچھ علاقوں کو غیر فوجی بنایا جائے، اور کسی قسم کی باضابطہ علاقائی تسلیم نہ ہو۔ یوں ہر طرف سے سمجھوتے کیے جائیں۔

لیکن اس معاہدے کے لیے ضروری ہوگا کہ امریکہ روس کے ساتھ سنجیدگی سے بات کرے، مذاکراتی ٹیمیں تشکیل دے اور اپنی طاقت استعمال کر کے معاہدے کو آگے بڑھائے۔

تھامس گراہم کے مطابق ’امریکہ کو اپنی وہ نفسیاتی قوت استعمال کرنی ہوگی جو اس کے پاس روس کے خلاف ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’روس کو ایک بڑی طاقت اور پوتن کو ایک عالمی رہنما کے طور پر تسلیم کرنے میں امریکہ اور ذاتی طور پر ٹرمپ کا کردار حد سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔‘

چین کا اثر و رسوخ

اس معاملے میں چین ایک غیرمتوقع فریق ہے۔ صدر شی جن پنگ ان چند عالمی رہنماؤں میں سے ہیں جن کی بات پوتن سنتے ہیں۔

جب شی نے جنگ کے آغاز میں روس کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکیوں پر خبردار کیا تو کریملن فوراً پیچھے ہٹ گیا۔

روس کی جنگی مشین چین کی دوہرے استعمال کی اشیا پر بھی بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، جیسے الیکٹرانکس یا مشینری جو شہری اور فوجی دونوں مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں۔

لہٰذا اگر بیجنگ یہ فیصلہ کر لے کہ جنگ کا جاری رہنا اب چین کے مفاد میں نہیں تو اس کے پاس کریملن کی سوچ پر اثر انداز ہونے کے لیے نمایاں طاقت موجود ہوگی۔

فی الحال امریکہ ایسا کوئی عندیہ نہیں دے رہا ہے کہ وہ چین کو ماسکو پر دباؤ ڈالنے کے لیے آمادہ کرے یا مجبور کرے۔ سوال یہ ہے کہ آیا صدر شی اپنی مرضی سے کوئی اثر و رسوخ استعمال کرنے پر تیار ہوں گے۔

فی الحال چین خوش دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ کی توجہ بٹی ہوئی ہے، بحرِ اوقیانوس کے دونوں کناروں پر اتحادی تقسیم ہیں اور باقی دنیا چین کو استحکام کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھ رہی ہے۔

لیکن اگر روس کا حملہ مزید بڑھ گیا، عالمی منڈیاں متاثر ہوئیں، یا امریکہ نے سستے روسی توانائی کے استعمال پر چین کے خلاف ثانوی پابندیاں عائد کر دیں، تو بیجنگ کی سوچ بدل سکتی ہے۔

ابھی پوتن کو یقین ہے کہ قسمت ان کے ساتھ ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جتنا یہ تنازع طول پکڑے گا، اتنا ہی یوکرین کا حوصلہ کمزور ہوگا، اس کے اتحادی زیادہ تقسیم ہوں گے اور روس دونتسک میں مزید علاقے حاصل کرے گا۔

پوتن نے گذشتہ ہفتے کہا کہ ’یا تو ہم ان علاقوں کو طاقت کے زور پر آزاد کریں یا یوکرینی فوجی ان علاقوں کو چھوڑ دیں۔‘

فِیونا ہل نے مجھے بتایا کہ ’ان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، جب تک وہ خود منظر سے الگ نہ ہو جائیں۔ پوتن اس وقت یہ شرط لگا رہے ہیں کہ وہ جنگ کو اتنی دیر تک جاری رکھ سکتے ہیں کہ حالات بالآخر ان کے حق میں ہو جائیں۔‘

ٹرمپ اب تک پوتن کو یوکرین جنگ ختم کرنے پر آمادہ کیوں نہیں کر سکے؟یوکرین میں قیام امن کا امریکی منصوبہ ’لیک‘: روس کو عالمی تنہائی سے نکالنے اور یوکرینی فوج کی تعداد کم کرنے کی تجاویزیورپ کی فضاؤں میں منڈلاتے ’پراسرار ڈرون‘ جن کے خلاف ہزاروں کلومیٹر طویل ’دفاعی دیوار‘ بنائی جا رہی ہےروس کے نئے جوہری ہتھیار، حقیقی خطرہ یا پوتن کی خالی خولی دھمکی؟سستے تیل کی ’سازش‘ جس نے سرد جنگ میں سوویت یونین کو نقصان پہنچایا، کیا ٹرمپ اسے دہرا سکتے ہیں؟یوکرین کو امریکہ سے ٹوماہاک ملنے کا امکان: کیا یہ میزائل روس کے خلاف جنگ میں گیم چینجر ثابت ہوں گے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More