جمی لائی: وہ ارب پتی جنھوں نے چین کے صبر کے پیمانے کو آزمایا اور اپنی آزادی گنوا دی

بی بی سی اردو  |  Dec 21, 2025

BBC

سردیوں کی ایک صبح 2022 میں رافیل وونگ اور فیگو چان ہانگ کانگ کی سٹینلی جیل میں داخل ہوئے تاکہ جمی لائی سے ملاقات کریں۔ یہ وہی میڈیا ارب پتی تھے جو دو برس قبل گرفتار ہوئے تھے اور قومی سلامتی کے الزامات میں ان پر مقدمہ چلایا جانا تھا۔

یہ سب 2019 کے ہنگامہ خیز مظاہروں کا حصہ رہے تھے، جب لاکھوں افراد جمہوریت اور آزادی کے مطالبے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ جیل سے باہر وہ اکثر ملاقات کرتے، کبھی پرتعیش کھانوں پر، کبھی ڈِم سُم ڈش، پیزا یا کلے پوٹ رائس پر گپ شپ کرتے۔ جیل میں جمی لائی کو اچار والے ادرک کے ساتھ چاول کھانا پسند تھا، جس پر ان کے دوست حیران رہ گئے۔

لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ان کی ملاقات ایک ہائی سکیورٹی جیل میں ہوگی، مظاہروں پر کریک ڈاؤن ہوگا، دوست اور ساتھی کارکن قید ہوں گے، اور ہانگ کانگ اپنی پرانی رونق کے باوجود بدل چکا ہوگا۔ وہ شخص جسے ’فیٹی لائی‘ کہا جاتا تھا، اب نمایاں طور پر دبلا ہو چکا تھا۔

جمی لائی، جو ستر کی دہائی میں ہیں، وونگ اور چان سے تقریباً چالیس برس بڑے ہیں، لیکن ان سب نے ایک مختلف ہانگ کانگ کا خواب دیکھا تھا۔ جمی لائی کا ان مظاہروں میں ایک کلیدی کردار تھا۔ انھوں نے اپنی سب سے بڑی طاقت، یعنی ایپل ڈیلی اخبار، کو استعمال کرتے ہوئے شہر کو ایک آزاد جمہوریت بنانے کی کوشش کی تھی۔

تاہم یہ سب 2020 میں بیجنگ کی جانب سے نافذ کیے گئے متنازع قومی سلامتی کے قانون کے تحت خطرناک ثابت ہوا۔

جمی لائی ہمیشہ کہتے تھے کہ وہ ہانگ کانگ کے مقروض ہیں۔ برطانوی شہریت کے باوجود وہ شہر چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے۔ انھوں نے گرفتاری سے چند گھنٹے پہلے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے جو کچھ ملا ہے، اسی جگہ کی وجہ سے ملا ہے۔ یہ میری نجات ہے۔‘

ہانگ کانگ کی ہائی کورٹ نے پیر کو اپنے فیصلے میں کہا کہ جمی لائی ’چینی کمیونسٹ پارٹی سے شدید نفرت رکھتے ہیں‘ اور ’اس جنون میں مبتلا تھے کہ پارٹی کی اقدار کو مغربی دنیا کی اقدار میں بدلا جائے‘۔

عدالت کے مطابق جمی لائی کو امید تھی کہ پارٹی کو اقتدار سے ہٹا دیا جائے گا یا کم از کم اس کے رہنما شی جن پنگ کو معزول کر دیا جائے گا۔

جمی لائی ان الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔ ان پر سب سے سنگین الزام ’غیر ملکی قوتوں سے ملی بھگت‘ کا تھا، جس کی زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید ہے۔ اس الزام پر جمی لائی نے عدالت میں صاف انکار کیا اور کہا کہ وہ صرف ان اقدار کی وکالت کرتے رہے ہیں جو ہانگ کانگ کی ہیں یعنی قانون کی حکمرانی، آزادی، جمہوریت کی جستجو، اظہارِ رائے کی آزادی، مذہبی آزادی اور اجتماع کی آزادی۔

فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹو جان لی نے کہا کہ جمی لائی نے اپنے اخبار کے ذریعے ’سماجی تنازعات کو خوب ہوا دی‘ اور ’تشدد کی ترویج کی‘۔ ان کے مطابق قانون کسی کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ انسانی حقوق، جمہوریت یا آزادی کے نام پر ملک کو نقصان پہنچائے۔

Getty Imagesجمی لائی کے خلاف عدالتی فیصلے کے موقع پر ان کی اہلیہ ٹریسا اور بیٹے شن ین عدالت میں موجود تھے

سنہ 2022 میں جب رافیل وونگ اور فیگو چان جیل سے واپس جانے لگے تو جمی لائی نے ان سے کہا وہ ان کے ساتھ مل کر عبادت کریں، جس پر رافیل وونگ حیران رہ گئے۔

حکام کے مطابق جمی لائی نے خود تنہائی میں رہنے کا انتخاب کیا تھا اور اسی دوران ان کا کیتھولک ایمان مزید مضبوط ہو گیا۔ وہ روزانہ چھ گھنٹے عبادت کرتے اور مسیح کی تصاویر بناتے، جنھیں ڈاک کے ذریعے اپنے دوستوں کو بھیجتے۔

رافیل وونگ نے کہا کہ ’اگرچہ وہ تکلیف میں تھے، لیکن نہ شکایت کرتے تھے نہ خوفزدہ ہوتے تھے۔ وہ پرسکون تھے۔‘

جمی لائی اپنی زندگی کا بیشتر حصے سکون کی تلاش میں سرگرداں رہے مگر وہ انھیں کبھی ہاتھ نہ آ سکا۔ وہ بارہ برس کی عمر میں چین سے فرار ہوئے، فیکٹریوں میں سخت محنت کرتے ہوئے آگے بڑھے، وہ ہانگ کانگ کے مشہور ارب پتی بنے، اور پھر ان کی میڈیا سلطنت نے بیجنگ کو للکارا مگر زندگی کے ان تمام مراحل میں دولت کے باوجود انھیں آرام نہ مل سکا۔

جمی لائی کے لیے ہانگ کانگ وہ سب کچھ تھا جو چین نہیں تھا، سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست، مواقع اور دولت سے بھرپور، اور آزاد۔ جب وہ 1959 میں یہاں پہنچے تو یہ شہر تب بھی برطانوی نوآبادی تھا۔ وہیں انھیں کامیابی ملی اور پھر ایک آواز بھی۔

سنہ 1995 میں ایپل ڈیلی کے آغاز کے ساتھ ہی یہ اخبار سب سے زیادہ فروخت ہونے والے اخبارات کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ یہ اخبار یو ایس اے ٹوڈے کے ماڈل پر بنایا گیا تھا، جس نے اخباری ڈیزائن اور لے آؤٹ میں انقلابی تبدیلیاں کیں اور مارکیٹ میں سخت مقابلے کو جنم دیا۔

اس اخبار میں ہر طرح کا مواد شامل تھا، ’ایڈلٹ سیکشن‘ میں جسم فروشی کے رہنما مضامین سے لے کر تحقیقی رپورٹس تک، اور ماہرینِ معاشیات و ناول نگاروں کے کالم تک۔ ہانگ کانگ کی چینی یونیورسٹی کے پروفیسر فرانسس لی کے مطابق یہ ایک ’بوفے‘ تھا جو ہر طرح کے قارئین کو ہدف بناتا تھا۔

سابق ایڈیٹرز اور ملازمین نے بتایا کہ جمی لائی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ ’اگر آپ کچھ کرنے کی ہمت رکھتے، تو وہ بھی روکتے نہیں تھے۔‘ لیکن ان کا مزاج سخت تھا، اور بعض اوقات وہ سخت زبان استعمال کرتے تھے۔

انھیں غیر روایتی اور ایک وسیع النظر شخصیت قرار دیا جاتا ہے، جو تجربات سے نہیں گھبراتے تھے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک ایڈیٹر کے مطابق ’آئی فون کے آنے سے پہلے ہی وہ کہتے تھے کہ موبائل فون مستقبل ہیں۔ وہ خیالات سے بھرے ہوئے تھے، جیسے روز ہمیں ایک نئی ویب سائٹ بنانے کو کہتے ہوں۔‘

یہی انداز ان کے کپڑوں کے برانڈ میں بھی تھا۔ حریف کمپنی کے سابق ڈائریکٹر ہربرٹ چو کے مطابق ’وہ صنعت کو بدلنے سے نہیں ڈرتے تھے، اور دشمن بنانے سے بھی نہیں۔ یہی ان کی کامیابی اور ناکامی دونوں کا سبب بنا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایپل ڈیلی وجود میں نہ آتا، اور شاید وہ آج اس حال میں نہ ہوتے۔‘

ایپل ڈیلی کے ایک ابتدائی ٹی وی اشتہار میں 48 سالہ جمی لائی کو دکھایا گیا تھا، جو ممنوعہ پھل کاٹتے ہیں جبکہ درجنوں تیر ان کی طرف بڑھتے ہیں۔ یہ منظر بعد میں ان کی زندگی کی حقیقت بن گیا۔

Jimmylai.substack.comچین سے فرار

جمی لائی کو بچپن میں پہلی بار چاکلیٹ کا ذائقہ ہانگ کانگ کی طرف کھینچ لایا۔ چین کے ایک ریلوے سٹیشن پر انھوں نے ایک مسافر کا سامان اٹھایا، جس نے انھیں انعام کے طور پر ایک چاکلیٹ دی۔ جمی لائی نے جیسے ہی ایک ٹکڑا چکھا تو حیرت سے پوچھا کہ وہ کہاں سے ہیں۔ جواب ملا، ہانگ کانگ۔ جمی لائی نے کہا کہ ’ہانگ کانگ ضرور جنت ہوگی، کیونکہ میں نے کبھی ایسا ذائقہ نہیں چکھا تھا۔‘ یہ واقعہ انھوں نے سنہ 2007 کی ایک دستاویزی فلم دی کال آف دی انٹرپرینیور میں بیان کیا۔

ماؤ زے تنگ کے دور میں چین مسلسل سخت مہمات کی زد میں رہا، کبھی صنعتکاری کے نام پر، کبھی سرمایہ دار طبقے کے خلاف۔ جمی لائی کا خاندان، جو کاروبار سے وابستہ تھا، بلیک لسٹ کر دیا گیا۔ ان کے والد ہانگ کانگ فرار ہو گئے جبکہ والدہ کو مزدور کیمپ منتقل کر دیا گیا۔

اپنی یادداشتوں میں جمی لائی نے لکھا کہ کس طرح وہ اور ان کی بہنیں بار بار گھروں سے نکالی جاتیں تاکہ اپنی والدہ کو عوامی ہجوم کے سامنے ذلیل ہوتے دیکھیں، جب انھیں گھٹنوں کے بل بٹھا کر دھکے دیے جاتے اور طعنوں کا نشانہ بنایا جاتا۔ جمی لائی نے پہلی بار کے تجربے کو ’خوفناک‘ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’میری آنکھوں سے آنسو بہہ کر قمیص کو بھگو گئے۔ میں ہلنے کی ہمت نہ کر سکا۔ میرا جسم ذلت سے جل رہا تھا۔‘

ان کی دادی ہر کہانی کا اختتام ایک ہی نصیحت پر کرتیں: ’تمھیں کاروباری بننا ہے، چاہے صرف مصالحہ دار مونگ پھلی ہی بیچو۔‘

یوں بارہ برس کی عمر میں جمی لائی نے ہانگ کانگ کا رخ کیا اور ان ان لاکھوں افراد میں شامل ہو گئے جو ماؤ کے سخت دور سے بچنے کے لیے چین چھوڑ گئے تھے۔ وہ ایک ماہی گیر کشتی کے نچلے حصے میں تقریباً 80 مسافروں کے ساتھ یہاں پہنچے۔ ہانگ کانگ پہنچتے ہی انھیں ایک دستانے بنانے والی فیکٹری میں ملازمت مل گئی۔

طویل کام کے اوقات کے باوجود وہ اسے ’بہت خوشگوار وقت‘ قرار دیتے ہیں کیونکہ انھیں یقین تھا کہ ان کے سفر کا آغاز یہی تھا۔ اسی دوران ایک ساتھی نے انھیں انگریزی سکھائی، اور برسوں بعد وہ عدالت میں روانی سے انگریزی میں گواہی دینے لگے۔

20 برس کی عمر تک وہ ایک ٹیکسٹائل فیکٹری کے منیجر بن گئے۔ سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری سے منافع کمایا اور پھر اپنی کمپنی کومیٹکس نِٹرز قائم کی۔ اس وقت وہ 27 برس کے تھے۔

Getty Imagesجمی لائی سنہ 1993 میں ہانگ کانگ میں واقع اپنے گھر میں موجود

کاروبار کے سلسلے میں جمی لائی اکثر نیویارک جاتے تھے۔ انھی دوروں میں ایک بار انھیں نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات فریڈرک ہائیک کی ایک کتاب ’دی روڈ ٹو سفدم‘ پڑھنے کو ملی جس نے ان کی سوچ کا زاویہ بدلا۔

فریڈرک ہائیک آزاد منڈی کے بڑے حامی تھے۔ جمی لائی نے اس کتاب سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’لوگوں کا فطری ردِعمل اور معلومات کا تبادلہ دنیا کی بہترین چیزیں سامنے لاتا ہے‘ اور یہی ہانگ کانگ کی اصل طاقت تھی۔

اس کتاب نے ان میں مطالعے کا شوق پیدا کیا۔ وہ ایک ہی کتاب بار بار پڑھتے اور پسندیدہ مصنفین کی ہر کتاب حاصل کرتے۔ سنہ 2009 کے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ مصنف کے خیالات کو اپنے باغ میں بدل دوں۔ میں باغ خریدنا چاہتا ہوں، کٹے ہوئے پھول نہیں۔‘

دس برس تک مینوفیکچرنگ میں کام کرنے کے بعد وہ ’بوریت‘ کا شکار ہو گئے اور سنہ 1981 میں کپڑوں کا برانڈ جیورڈانو قائم کیا، جو فاسٹ فیشن کی دنیا میں بڑا نام بن کر اُبھرا۔ یہ اتنا کامیاب ہوا کہ جاپانی برانڈ یونیکلو کے بانی تداشی یانائی نے اپنی دکانیں کھولنے کے وقت جمی لائی سے مشورہ لیا۔

جمی لائی نے چین میں بھی سٹورز کھولے، جو ملک اب ماؤ کی موت کے بعد آزاد معیشت کی طرف سفر کر رہا تھا۔ وہ پرجوش تھے اور کہتے تھے کہ ’چین مغرب کی طرح بدلنے والا ہے۔‘ لیکن 1989 میں بیجنگ نے تیانانمن سکوائر میں جمہوریت نواز مظاہروں کو کچل دیا۔ یہ جمی لائی اور ہانگ کانگ کے لیے ایک تلخ حقیقت تھی، خاص طور پر اس وقت جب شہر 1997 میں چین کے حوالے ہونے والا تھا۔

جیورڈانو نے اس وقت ٹی شرٹس پر تیانانمن کے رہنماؤں کی تصاویر اور بیجنگ مخالف نعرے چھاپے، اور ہانگ کانگ بھر میں جمہوریت نواز بینرز لگائے۔ ایک ملین افراد نے بیجنگ کے طلبہ مظاہرین کے ساتھ یکجہتی میں مارچ کیا۔ سنہ 2020 تک ہانگ کانگ میں اس واقعے کی سب سے بڑی یادگاری شمع بردار تقریب کا انعقاد ہوتا رہا۔

بعد میں جمی لائی نے کہا کہ انھیں چین کے بارے میں کبھی کوئی خاص احساس نہیں تھا، لیکن تیانانمن کے بعد ’اچانک ایسا لگا جیسے اندھیرے میں میری ماں مجھے پکار رہی ہو۔‘

Getty Imagesجمی لائی ہانگ کانگ میں ہر سال منعقد ہونے والی ان تقریبات میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے جو 1989 کے تیانانمن سکوائر میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں منعقد کی جاتی تھیںانتخاب ہی آزادی ہے

اگلے ہی برس جمی لائی نے نیکسٹ نامی میگزین کا آغاز کیا اور سنہ 1994 میں چین کے رہنما لی پینگ کو ایک کھلا خط لکھا، جنھیں ’بیجنگ کا قصاب‘ کہا جاتا تھا اور جو تیانانمن قتلِ عام میں مرکزی کردار تھے۔ اس خط میں جمی لائی نے انھیں ’زیرو عقل رکھنے والے کچھوے کی اولاد‘ قرار دیا۔

بیجنگ شدید برہم ہوا۔ 1994 سے 1996 کے درمیان جمی لائی کے برانڈ جیورڈانو کا بیجنگ میں مرکزی سٹور اور شنگھائی میں 11 فرنچائزز بند کر دیے گئے۔ اس کے بعد جمی لائی نے اپنے حصص فروخت کر دیے اور بطور چیئرمین استعفیٰ دے دیا۔

سنہ 2007 کی ایک دستاویزی فلم میں انھوں نے کہا کہ ’اگر میں صرف پیسہ کماتا رہوں تو اس کا کوئی مطلب نہیں۔ لیکن اگر میں میڈیا کے شعبے میں آتا ہوں تو معلومات فراہم کرتا ہوں، اور معلومات ہی انتخاب ہے، اور انتخاب ہی آزادی ہے۔‘

اس کے بعد وہ ہانگ کانگ کی جمہوریت نواز تحریک میں ’انتہائی سرگرم‘ ہو گئے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے سابق رکن اسمبلی لی وِنگ ٹاٹ کے مطابق وہ رہنماؤں سے ملاقات کر کے حکمتِ عملی پر بات کرتے تھے۔

جمی لائی کمیونسٹ پارٹی کے کھلے ناقد بن گئے۔ سنہ 1994 میں انھوں نے لکھا کہ ’میں کمیونسٹ پارٹی کی مکمل مخالفت کرتا ہوں کیونکہ مجھے ہر وہ چیز ناپسند ہے جو ذاتی آزادی کو روکے۔‘ اسی دوران انھوں نے سنہ 1997 میں برطانیہ سے چین کو ہانگ کانگ کی منتقلی پر بھی خدشات ظاہر کیے۔

انھوں نے لکھا کہ ’ایک صدی سے زیادہ نوآبادیاتی حکمرانی کے بعد ہانگ کانگ کے لوگ فخر محسوس کرتے ہیں کہ وہ مادرِ وطن کی آغوش میں واپس جا رہے ہیں۔ لیکن کیا ہمیں مادرِ وطن سے محبت کرنی چاہیے اگر اس میں آزادی نہ ہو؟‘

تاہم منتقلی کے وقت چین کے اس وقت کے صدر جیانگ زمین نے وعدہ کیا کہ ہانگ کانگ کے لوگ خود شہر پر حکومت کریں گے اور اگلے 50 برس تک اسے اعلیٰ درجے کی خودمختاری حاصل رہے گی۔

Getty Imagesاکتوبر 2014 میں جمی لائی ہانگ کانگ کے علاقے ایڈمرلٹی میں ہونے والے ’آکوپائی سنٹرل‘ احتجاج میں شریک ہوئے، یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے تھے جب بیجنگ نے ہانگ کانگ میں مکمل آزاد انتخابات کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا

سنہ 2014 میں ہانگ کانگ میں شروع ہونے والی امبریلا موومنٹ، جو بیجنگ کی جانب سے مکمل آزاد انتخابات کی اجازت نہ دینے پر ابھری، جمی لائی کی زندگی کا ایک اور اہم موڑ ثابت ہوئی۔ مظاہرین نے شہر کے بڑے تجارتی علاقوں پر 79 دن تک قبضہ کیے رکھا۔

جمی لائی روزانہ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک وہاں موجود رہتے، حتیٰ کہ ایک شخص نے ان پر جانوروں کے آنتیں پھینکیں تب بھی وہ ڈٹے رہے۔ سابق رکن اسمبلی لی نے ایک واقعہ سنایا کہ ’جب پولیس نے آنسو گیس چلانا شروع کی، میں فیٹی (جمی لائی) کے ساتھ تھا۔‘

یہ تحریک اس وقت ختم ہوئی جب عدالت نے احتجاجی مقامات کو خالی کرنے کا حکم دیا، لیکن حکومت اپنی پالیسی پر قائم رہی۔ پانچ برس بعد سنہ 2019 میں ہانگ کانگ ایک بار پھر بھڑک اٹھا۔ اس بار وجہ وہ متنازع منصوبہ تھا جس کے تحت ملزمان کو چین کے حوالے کیا جا سکتا تھا۔

پراُمن مارچ جلد ہی پرتشدد مظاہروں میں بدل گئے اور شہر چھ ماہ تک میدانِ جنگ بنا رہا۔ سیاہ لباس میں مظاہرین نے اینٹیں اور پٹرول بم پھینکے، پارلیمان پر دھاوا بولا اور آگ لگائی، جبکہ پولیس نے آنسو گیس، ربڑ کی گولیاں، واٹر کینن اور براہِ راست فائرنگ کی۔

ان مظاہروں میں جمی لائی سب سے آگے تھے۔ انھیں چار غیر قانونی اجتماعات میں شرکت پر 20 ماہ کی سزا سنائی گئی۔ ایک مظاہر نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ جمی لائی کو دیکھ کر حیران ہوئے۔ ان کے مطابق ’میرے لیے وہ ایک مصروف بزنس مین ہیں، لیکن وہ وہاں موجود تھے۔‘

چین کے ’پانچ سالہ منصوبے‘ جنھوں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیاکیا ٹرمپ کا چین کو نظر انداز کر کے معدنیات کی عالمی صنعت پر قابض ہونے کا خواب پورا ہو پائے گا؟’دولت کی دیوی‘: چینی خاتون نے فراڈ کے ذریعے اربوں ڈالر کی کرپٹو کرنسی کیسے حاصل کی اور ان کی گرفتاری کیسے عمل میں آئی؟نایاب معدنیات: کیا چین کے ہاتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی دُکھتی رگ لگ چکی ہے؟Getty Imagesجمی لائی سنہ 2019 کے جمہوریت نواز مارچ کے موقعے پر

ایپل ڈیلی نے ہانگ کانگ میں مظاہروں کی بھرپور کوریج کی، جسے ناقدین حکومت مخالف تحریک کا پلیٹ فارم قرار دیتے ہیں۔ حکومتی مشیر رونی ٹونگ کے مطابق جمی لائی مظاہروں میں ’اہم کردار‘ ادا کر رہے تھے کیونکہ ایپل ڈیلی نے ’مکمل طور پر غلط‘ نعرہ، چین کو ملزمان کی حوالگی کے خلاف، شائع کیا، جو ان لوگوں کے لیے پرکشش ثابت ہوا جو ہانگ کانگ میں انتشار چاہتے تھے۔

یہ سوال کہ ایپل ڈیلی نے بغاوت میں کردار ادا کیا یا نہیں، اور اس کے مؤقف پر جمی لائی کا کتنا کنٹرول تھا، ان کے 156 روزہ قومی سلامتی کے مقدمے کا مرکزی نکتہ رہا۔ سابق چیف ایگزیکٹو چیونگ کم ہنگ، جو بعد میں وعدہ معاف گواہ بنے، کے مطابق جمی لائی نے ادارتی ٹیم کو ہدایت دی کہ ’لوگوں کو سڑکوں پر آنے کی ترغیب دیں‘۔ قومی سلامتی قانون کے نفاذ کے بعد اخبار پر دو بار چھاپے مارے گئے اور بالآخر سنہ 2021 میں اسے بند کر دیا گیا۔

مظاہروں کے دوران جمی لائی امریکہ گئے جہاں انھوں نے اس وقت کے نائب صدر مائیک پینس سے ہانگ کانگ کی صورتحال پر بات کی۔ قومی سلامتی قانون کے نفاذ سے ایک ماہ قبل انھوں نے ایک متنازع مہم شروع کی، جس میں ایپل ڈیلی کے قارئین کو کہا گیا کہ وہ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خطوط لکھ کر ’ہانگ کانگ کو بچائیں‘۔

عدالت نے قرار دیا کہ یہ سب کچھ کسی غیر ملکی حکومت کو ہانگ کانگ کے داخلی معاملات میں مداخلت کی عوامی اپیل کے مترادف تھا۔ رونی ٹونگ نے کہا کہ ’کوئی بھی سمجھدار شخص یہ نہیں سوچ سکتا کہ کم از کم بنا بیجنگ کی خاموش حمایت حاصل کے ہانگ کانگ کسی سیاسی اصلاحات سے گزر سکتا ہے۔‘ ان کے مطابق سنہ 2014 اور سنہ 2019 کے مظاہرے ’مکمل طور پر غیرمنطقی‘ تھے۔

Getty Images24جون 2021 کا ایپل ڈیلی کا آخری شمارہ

بیجنگ کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی قانون اور ’صرف محبِ وطن‘ پارلیمان کی بدولت ہانگ کانگ اب ’افراتفری سے حکمرانی‘ اور پھر ’زیادہ خوشحالی‘ کی طرف بڑھ چکا ہے۔ لیکن ناقدین، جن میں وہ لاکھوں ہانگ کانگرز بھی شامل ہیں جو شہر چھوڑ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ اختلافِ رائے کو دبایا گیا ہے اور شہری آزادیوں کو سختی سے محدود کر دیا گیا ہے۔

سابق رکن اسمبلی لی بھی انھی میں شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں پہلی بار برطانیہ آیا تو مجھے ڈراؤنے خواب آتے تھے۔ مجھے احساس ندامت تھا۔ ہم دوسرے ملکوں میں آزاد زندگی گزار سکتے ہیں، لیکن ہمارے اچھے دوست جیل میں ہیں۔‘

جمی لائی کے اہلِ خانہ برسوں سے ان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں، خاص طور پر ان کی صحت کے حوالے سے کیونکہ وہ ذیابیطس کے مریض ہیں۔ لیکن اب تک یہ مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے ہیں۔ حکومت اور جمی لائی کی قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ ان کی طبی ضروریات پوری کی جا رہی ہیں۔

جمی لائی کی بہو کارمین سانگ، جو اپنے خاندان کے ساتھ ہانگ کانگ میں رہتی ہیں کا کہنا ہے کہ ان کے بچے دادا کو یاد کرتے ہیں اور وہ بڑے خاندانی کھانے بھی جن کا وہ اکثر اہتمام کرتے تھے۔ ان کی اونچی آواز کبھی بیٹی کو ڈرا دیتی تھی، لیکن ’انہیں دادا کے گھر جانا بہت پسند تھا۔۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک مزاحیہ شخصیت ہیں۔‘

کارمین سانگ کو یقین نہیں کہ آج کا ہانگ کانگ جمی لائی کے لیے کوئی جگہ رکھتا ہے۔ ان کے الفاظ میں ’اگر آنکھ میں ذرے بھر گرد آ جائے تو آپ اسے نکال دیتے ہیں، ہے نا؟‘

دھوکہ، اغوا اور تشدد: چین کے وہ سکول جہاں ’باغی‘ نوجوانوں کی تربیت کی جاتی ہےفوجیان: کیا چین کا جدید ترین طیارہ بردار بحری جہاز امریکہ کے ساتھ بحری ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا آغاز ہو سکتا ہے؟گمنام بیڑے اور امریکی پابندیاں: سمندر میں پھنسے ایرانی خام تیل کے ’تیرتے ذخائر‘ چین تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے؟انڈین خاتون کو شنگھائی ایئرپورٹ سے واپس بھیجنے پر چین اور انڈیا آمنے سامنے: ’مجھے کہا گیا کہ اروناچل پردیش چین کا حصہ ہے‘’ایسا مالیاتی نظام جو دنیا نے کبھی نہیں دیکھا‘: امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں چین ’سینکڑوں ارب ڈالر‘ کیوں خرچ کر رہا ہے؟نایاب معدنیات: کیا چین کے ہاتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی دُکھتی رگ لگ چکی ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More