Getty Images’ضرور تشریف لائیں، آپ ہمارے مہمان ہیں، آئیں اور میرے ساتھ چائے پیئیں‘
یہ ٹھیک دس برس پہلے یعنی 25 دسمبر 2015 کی بات ہے جب پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اپنی بڑی نواسی مہرالنسا کی شادی کے لیے جاتی عمرہ (لاہور) میں اپنے گھر آئے تو اُن کے فون کی گھنٹی بجی۔ فون کال پر دوسری جانب اُن کے انڈین ہم منصب نریندر مودی تھے۔
25 دسمبر کو کرسمس اور بانی پاکستان محمد علی جناح کے یوم پیدائش کی خوشی میں پاکستان بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ اِسی روز سنہ 2015 میں نواز شریف کی 66ویں سالگرہ بھی تھی۔
پاکستان کے اُس وقت کے سیکریٹری خارجہ اعزاز چودھری کے مطابق وزیراعظممودی نے فون پر پہلے انھیں (نواز شریف) سالگرہ کی مبارکباد دی اور پھر پوچھا کہ کیا وہ افغانستان کے سرکاری دورے سے دلی واپس جاتے ہوئے پاکستان میں رُک سکتے ہیں؟
وزیراعظمنوازشریف نے جواب دیا: ’ضرور تشریف لائیں، آپ ہمارے مہمان ہیں، آئیں اور میرے ساتھ چائے پیئیں۔‘
مودی کے پاکستان جانے کے منصوبے کا علم انڈیا میں اُن کے اپنے حلقوں کو بھی اُس وقت ہوا جب مودی نے ٹوئٹر پر نہایت غیر رسمی انداز میں لکھا: ’آج لاہور میں وزیرِاعظم نواز شریف سے ملاقات کا منتظر ہوں، دلی واپسی پر راستے میں رُکوں گا۔‘
دورے سے پہلے اتنا کم وقت تھا کہ اسلام آباد سے نہ تو وزیر خارجہ سرتاج عزیز اور مشیر خارجہ طارق فاطمی اور نہ ہی قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ وقت پر لاہور پہنچ سکے۔
انڈین ہائی کمشنر سیدھا رائیونڈ پہنچےGetty Images'چونکہ ملاقات لاہور میں تھی اور وقت بہت کم تھا، نہ تو سرتاج عزیز اور نہ ہی طارق فاطمی کے لیے ممکن تھا کہ وہ وقت پر پہنچ پاتے‘
سرتاج عزیز نے اپنی کتاب ’بٹوین ڈریمز اینڈ ریئلیٹیز‘ میں لکھا ہے کہ یہ تاثر یکسر غلط ہے کہ ’نوازشریف نے مودی کو لاہور آنے کی دعوت دی تھی۔‘
’اگر ایسا ہوتا تو یا میں، یا طارق فاطمی لاہور پہنچ چکے ہوتے۔ تین گھنٹے اس سفر کے لیے بہت کم تھے لیکن سیکریٹری خارجہ اعزاز چودھری پہلے ہی لاہور میں تھے، سو وہ اس ملاقات میں شامل ہو پائے۔‘
اعزاز چودھری کے مطابق وہ چھٹی کے باعث اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لیے اُس وقت لاہور میں موجود تھے۔
اپنی کتاب ’ڈپلومیٹک فُٹ پرنٹس‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ دن تقریباً 11 بجے وہ گالف کے لیے نکل رہے تھے جب انھیں اسلام آباد میں تعینات انڈیا کے ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون نے فون پر بتایا کہ انھیں مطلع کیا گیا ہے کہ دلی واپس جاتے ہوئے وزیراعظم مودی کا ارادہ لاہور میں تھوڑے سے وقت کے لیے رُکنے (سٹاپ اوور) کا ہے۔
’راگھون نے مجھے بتایا کہ وہ لاہور جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھ چکے ہیں۔ وقت پر ایئرپورٹ نہیں پہنچ پائیں گے، اس لیے سیدھے (لاہور کے جنوبی علاقے) رائیوِنڈ (میں وزیرِ اعظم نواز شریف کی رہائش گاہ) پہنچیں گے۔‘
’میں نے فوراً وزیراعظم کے ملٹری سیکریٹری کو فون کیا جنھوں نے وزیراعظم سے پوچھنے کے بعد بتایا کہ مودی چند گھنٹے میں آ رہے ہیں اور مجھے ملاقات میں شامل ہونے کا کہا گیا۔‘
’چونکہ یہ ملاقات لاہور میں تھی اور وقت بہت کم تھا، نہ تو سرتاج عزیز اور نہ ہی طارق فاطمی کے لیے ممکن تھا کہ وہ وقت پر پہنچ پاتے۔‘
نواز شریف نے مودی کو گلے لگایاGetty Imagesلاہور میں ملاقات کے دوران نواز شریف اور مودی نے ایک دوسرے کو گلے لگایا
تقریباً چار گھنٹے بعد مودی لاہور میں اُتر چکے تھے۔ نواز شریف نے لاہور کے ہوائی اڈے پر اُن کا استقبال کیا۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کی ایک خبر کے مطابق نواز شریف نے نریندر مودی کو گلے لگایا تھا۔
اعزاز چودھری لکھتے ہیں کہ یہ کوئی ’رسمی دورہ تو تھا نہیں اور وقت بھی بہت کم تھا۔ ریڈ کارپٹ ہی بچھا پائے اور گارڈ آف آنر بھی متحرک نہ ہو سکا۔‘
وزارت خارجہ کے ایک اہلکار کے حوالے سے روئٹرز نے لکھا کہ نواز شریف نے مودی سے کہا: ’تو آپ آخرکار آ ہی گئے۔‘
مودی نے جواب دیا: ’جی، بالکل۔ میں آ گیا ہوں۔‘
دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، مسکراتے ہوئے آگے بڑھے۔ وہ ایک ہیلی کاپٹر سے رائیونڈ کے فارم ہاؤس چلے گئے۔
اعزاز چودھری کے مطابق رائیونڈ جانے سے پہلے دو ہیلی کاپٹروں، جن میں سے ایک میں وہ خود بھی سوار تھے، میں وفد کو لاہور کا فضائی دورہ کروایا گیا۔ ’ڈھلتے دن میں لاہور بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ وفد کے کچھ ارکان تو اتنے خوش تھے کہفضا سے تصویریں بھی لیں، خاص طور پر لاہور کے جنوب میں بحریہ ٹاؤن میں آئفل ٹاور کی نقل کی۔‘
پاکستان کا یہ دورہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں کسی انڈین وزیرِ اعظم کے لیے پہلا دورہ تھا۔
’جنگ کو زنگ لگ گیا ہے‘Getty Images
نواز شریف کی سالگرہ تو تھی ہی، لیکن اُن کی خاندانی رہائش گاہ اگلے روز اُن کی نواسی کی شادی کے لیے روشنیوں سے سجی تھی۔
اعزاز چوہدری کے مطابق سٹنگ روم میں وفود کی ملاقات کے لیے صوفوں کی ترتیب بدلی گئی۔ ’وزیراعظم کے ساتھ اُن کے دو بیٹے اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف، تب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور میں تھے۔ مودی کے ساتھ ان کے مشیر برائے قومی سلامتی اجیت دوول، سیکریٹری خارجہ جے شنکر اور ہائی کمشنر راگھون تھے، جو تب تک لاہور پہنچ چکے تھے۔‘
’پہلے دونوں وزرائے اعظم نے تعلقات کو معمول پر لانے کی ضرورت پر زور دیا۔ دونوں نے اپنے وفود کا تعارف کروایا۔‘
’وزیراعظم کے کہنے پر میں نے دوطرفہ مذاکرات کی بحالی کے لیے حالیہ دو طرفہ رابطوں کے بارے میں بتایا اور کہا کہ اُن کی پائیداری کے لیے دونوں جانب کی تشویش دور کرنے، تناؤ کم کرنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔‘
سرتاج عزیز نے اپنی کتاب میں اس دور میں مذاکرات کے بنتے بگڑتے ماحول کے بارے میں یوں لکھا ہے: ’مئی 2014 میں مودی نے اپنی حلف برداری میں شریک نواز شریف کے ساتھ اگست میں خارجہ سیکریٹریز کی ملاقات طے کی۔ لیکن پاکستانی سفیر کے نئی دہلی میں کشمیر کے حریت رہنماؤں کے ساتھ ملاقات پر احتجاج کرتے انڈیا نے یہ ملاقات منسوخ کر دی۔‘
’پھر جولائی 2015 میں روس کے شہر اوفا میں سربراہی ملاقات میں طے پانے والی قومی سلامتی مشیروں کی ملاقات بھی منسوخ کر دی گئی۔‘
’مرشد، امریکی سفارتخانہ جل رہا ہے۔۔۔‘ کعبہ کا محاصرہ اور جنرل ضیا کا سائیکل پر راولپنڈی کا دورہ1971 کی جنگ: وہ پائلٹ جس نے راشد منہاس کا طیارہ ہائی جیک کیاابھینندن ورتھمان: پاکستان کی تحویل میں انڈین پائلٹ کی موجودگی کے دوران پسِ پردہ کیا ہوتا رہا؟اسلام آباد میں مصری سفارتخانے پر ہونے والا خودکش حملہ جس کا سراغ ٹرک کے انجن نمبر سے ملا
سرتاج عزیز لکھتے ہیں کہ ’پھر نومبر 2015 میں، شاید بین الاقوامی دباؤ کے تحت، پیرس ماحولیاتی کانفرنس کی سائیڈلائنز میں مودی نے نوازشریف سے کہا کہ ’آئیے ہم ایک نئی ابتدا کریں۔‘
’نوازشریف نے اتفاق کیا اور کہا کہ وہ نو دسمبر کو اسلام آباد میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں انڈین وزیر خارجہ سشما سوراج کا خیرمقدم کریں گے۔ مودی نے کہا کہ ایسا ممکن ہے اگر دونوں ممالک کے سلامتی مشیر اس سے پہلے مل لیں۔ دونوں مشیر چھ دسمبر کو بنکاک میں ملے اور سوراج اسلام آباد کانفرنس میں شریک ہوئیں۔‘
سرتاج عزیز کے مطابق تند و تیز بحث کے بعد دو طرفہ ملاقات میں ’ہم نے آٹھ نکات کے تحت تمام مسائل پر جامع مذاکرات پر اتفاق کیا۔ اس دورے سے ملنے والے مثبت اشارے مزید مستحکم ہو گئے جب 16 دن بعد وزیراعظم مودی لاہور آئے۔‘
اعزاز چودھری لکھتے ہیں کہ لاہور میں مودی کے وفد میں شریک سیکریٹری خارجہ جے شنکر نے ’میری بریفنگ سے اتفاق کیا اور کہا کہ مذاکرات کا عمل شروع کرنے کے لیے وہ جنوری کے وسط میں اسلام آباد آنے کو تیار ہیں۔‘
ان کے مطابق ’جب تک ہماری بریفنگز ختم ہوئیں مودی وفود کے درمیان پڑی میز پر دیکھتے ہوئے کچھ سوچ میں تھے۔ پھر انھوں نے سر اٹھایا اور ہمارے وفد کی جانب دیکھتے ہوئے بولے: ’جنگ کو جنگ (زنگ) لگ گیا ہے، اب جنگ نہیں ہو گی۔‘
’شہباز شریف بولے کہ جنگوں نے غربت اور وسائل کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں دیا۔ نواز شریف نے بھی کہا کہ جنگوں نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔‘
’مودی نے ڈیزاسٹر مینیجمنٹ جیسے شعبوں میں سارک فورم کے مؤثر استعمال پر زور دیا۔ شہباز شریف نے کہا علاقائی تعاون کے لیے ہم یورپی تجربے سے سیکھ سکتے ہیں۔‘
’مودی نے انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش کے 1857 کی جنگ آزادی، جو ان تینوں ملکوں کے لوگوں نے اکٹھے لڑی تھی، کی سالانہ تقریب مشترکہ طور پر منانے کی تجویز پیش کی۔ نواز شریف نے سر ہلایا لیکن کہا کچھ نہیں۔‘
’پھر مودی براہ راست نواز شریف سے مخاطب ہوئے: آپ کے واجپائی جی سے بھی تو اچھے تعلقات بن گئے تھے۔ کیوں ایسا ہی ہے نا!‘
’نوازشریف نے اقرار میں سر ہلایا اور یاد کیا کہ کیسے 1999 کے آغاز میں واجپائی کے لاہور دورے نے دو طرفہ تعاون کی نئی روح پھونک دی تھی۔‘
’انڈیا میں لوگوں کو مودی کے دورے کے بارے میں ٹویٹس سے پتا چلا‘Getty Images
اس موقع پر ہائی ٹی کے تمام لوازمات موجود تھے۔
اعزاز چودھری لکھتے ہیں کہ جب چائے پیش کی جا رہی تھی تو نواز شریف نے کہا کہ ’ہمیں دو طرفہ تعلقات میں پیشرفت کے لیے ٹھوس اور نتیجہ خیز فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔‘
’مودی نے اتفاق میں سر ہلایا اور کہا ہمسایوں کے درمیان تعلقات کو معمول کی بات ہونا چاہیے۔ ’آئیے ہم ہائپ کو کرش کریں اور لوگوں کے درمیان تعلق کو بڑھاوا دیں۔‘
’پھر مودی نے انڈیا کے چین کے ساتھ تعلقات کا حوالہ دیا اور کہا کہ مسائل بھی موجود تھے مگر کاروباری رابطے بھی ہو رہے تھے، ایسا ہی پاکستان کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔‘
اعزاز چودھری کے مطابق یہ میٹنگ تقریباً چالیس منٹ طویل تھی۔ ’پھر مودی ساتھ والے کمرے میں نواز شریف کی نواسی کو ان کی شادی کی مبارکباد دینے گئے۔‘
’چند منٹ بعد سب پھر سے ہیلی کاپٹرز پر سوار ہو کر علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے۔ وزیراعظم مودی کو الوداع کہنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے مجھ سے کہا کہ میں ذرائع ابلاغ یا میڈیا کو بتاؤں کہ یہ خیر سگالی دورہ تھا۔ میں نے جو بات چیت ہوئی تھی اس کا خلاصہ میڈیا کے سامنے پیش کر دیا۔‘
’لیکن میڈیا نے اس سے پہلے ہی یہ قیاس آرائی کرنا شروع کر دی تھی کہ مودی کا یہ دورہ نواز شریف کے ساتھ ان کے کسی خفیہ سمجھوتے کا نتیجہ ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ دورہ اچانک تھا۔‘
منصور ملک کی ڈان اخبار کے لیے خبر کے مطابق ایک سوال کے جواب میں سیکریٹری خارجہ نے بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت متحد ہے اور اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں جنھیں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شریک 44 وفود نے متفقہ طور پر تسلیم کیا ہے۔
انڈیا پہنچ کر وزیراعظم مودی نے کئی ٹویٹس میں لاہور میں ’وارم ایوننگ‘ کو یاد کیا۔
اپنی ایک ٹویٹ میں انھوں نے لکھا کہ ’ذاتی طور پر نواز شریف صاحب کے اس محبت بھرے رویّے سے بے حد متاثر ہوا ہوں کہ انھوں نے لاہور ایئرپورٹ پر میرا استقبال کیا اور روانگی کے وقت بھی خود ہوائی اڈے تک آئے۔‘
اپوزیشن کانگریس پارٹی کے ترجمان نے اسے ’بدقسمتی‘ قرار دیا کہ لوگوں کو اس دورے کے بارے میں ٹویٹس سے پتا چلا اور کہا کہ پاکستان کے ساتھ انڈیا کے تعلقات ’ایسے خوشگوار نہیں کہ کسی اور ملک سے جاتے جاتے وہاں سٹاپ اوور کر لیا جائے۔‘
نئی دہلی میں کارکنوں نے مودی کے پاکستان دورے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ان کے پوسٹر نذرِ آتش کیے۔
پاکستان میں زیادہ تر سیاسی اپوزیشن نے مودی کے دورے کا خیرمقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ اس سے تعلقات میں بہتری آئے گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے نجی ٹی وی چینل جیو سے گفتگو میں کہا ’آج پاکستان اور انڈیا دونوں کے لیے ایک اچھا دن ہے۔‘
گلابی راجستھانی پگڑی
یہ علامتی قدم جوہری صلاحیت کے حامل ہمسایہ ممالک کے درمیان ابتدائی مفاہمتی عمل میں نئی جان ڈالنے کا باعث بن سکتا تھا۔
تجزیہ کار سی راجا موہن کے مطابق دورے کا مقصد تخریب کار عناصر کو موقع نہ دینا اور مذاکرات کو سیاسی توانائی فراہم کرنا تھا۔
نواز شریف کی سالگرہ نے وزیرِاعظم کو لاہور آنے کے لیے ایک خوشگوار جواز فراہم کیا۔ پاکستانی سرزمین پر انڈین وزرائے اعظم کے دورے یقیناً نایاب رہے ہیں۔ گذشتہ دہائیوں میں یہ صرف آٹھواں موقع تھا اور 11 برس بعد کسی انڈینوزیرِاعظم کا پہلا دورہ۔
اخبارات کے مطابق وزیرِاعظم نواز شریف نے اپنی نواسی کی شادی کے موقع پر مودی کی تحفے میں دی ہوئی گلابی رنگ کی راجستھانی پگڑی پہنی۔ اور کہا گیا کہ یہ علامتی اقدام دونوں رہنماؤں کے درمیان خیرسگالی اور اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔
لیکن امید کی یہ فضا زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔
سرتاج عزیز لکھتے ہیں کہ ’دو جنوری 2016 کو پٹھان کوٹ میں دہشت گردانہ حملہ ہوا اورانڈیا نے ایک بار پھر خارجہ سیکریٹریز کی ملاقات منسوخ کر دی جسے جامع مذاکرات کے لیے شیڈول طے کرنا تھا۔‘
’پھر آٹھ جولائی کو (انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر میں) کشمیری رہنما برہان وانی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جان سے گئے اور وہاں طویل تحریک کی ابتدا ہو گئی۔‘
’اس واقعے اور اگلے سال جنوری میں اڑی حملے نے انڈیا اور پاکستان کے باہمی تعلقات کو نئی دشمنانہ پیچیدگیوں سے دوچار کر دیا۔‘
جب چین کی شمولیت کے خدشے پر امریکہ نے اقوامِ متحدہ کے ذریعے انڈیا اور پاکستان میں جنگ بندی کروائیسکندر اعظم سے امریکی حملے تک: افغانستان ’سلطنتوں کا قبرستان‘ یا ’فتح کی شاہراہ‘؟جب بغداد کے بُرج پر ’خلیفہ کا سر‘ لٹکایا گیا: ہارون الرشید کے بیٹوں کی خانہ جنگی جس سے عباسیسلطنت کے زوال کی ابتدا ہوئیسرینگر پر قبضے کے لیے کشمیر پہنچنے والے پاکستان کے قبائلی جنگجوؤں کو خالی ہاتھ واپس کیوں لوٹنا پڑا؟لیاقت، نہرو معاہدہ: جب پاکستان اور انڈیا نے اقلیتوں کے تحفظ اور پروپیگنڈا سے بچنے کا عہد کیا