Foto cedida por la comunidad Kaiptach
یہ 29 نومبر کی بات ہے جب ایکواڈور کی ایک قبائلی برادری ایچور سے تعلق رکھنے والی یوا سامپا پوار الیگزینڈرا اپنی ایک ماہ کی بچی کی لاش ایک گتے کے ڈبے میں تھامے ہوئے تھیں۔
اس دل دہلا دینے والے منظر نے ایکواڈور کے صحت کے نظام میں سنگین کوتاہیوں کو بے نقاب کیا۔
بچی کو پچھلی رات مورونا سانتیاگو صوبے میں ماکاس کے ایک جنرل ہسپتال میں سانس کی تکلیف کے باعث داخل کیا گیا تھا مگر چند گھنٹوں بعد بچی نے دم توڑ دیا۔
ہسپتال کے عملے نے ماں کو تابوت لانے کا کہا لیکن وہ نہ زبان جانتی تھیں اور نہ ہی ان کے پاس پیسے تھے۔
مجبوراً ہسپتال سے واپسی پر انھیں اپنی بچی کی لاش ایک گتے کے ڈبے میں لانی پڑی۔
وہ یہ ڈبہ پہلے شہر کے مرکزی پارک تک لے گئیں۔ پھر تین گھنٹے کا سفر طے کر کے تائشا پہنچیں جہاں سے چھوٹے جہاز قبائلی علاقے کی طرف جاتے ہیں۔
آخرکار تائشا کی بلدیہ نے تابوت اور واپسی کی پرواز کا انتظام کیا۔
لیکن اس تصویر پر پورے ملک میں غم و غصہ ظاہر کیا گیا۔
Foto cedida por la comunidad Kaiptachگتے کے ڈبے کو ٹیپ سے بند کیا گیا تھا اور اس پر نیلے رنگ میں ایک پیغام تھا جس میں لکھا تھا ’ہینڈل ود کیئر‘
اس دوران ایچور برداری سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے اس ماں کی مدد کی تھی۔ انھوں نے ہی یہ تصویر کھینچی جو بعد میں بی بی سی منڈو تک پہنچی۔ ان کا کہنا تھا کہ 'یہ کیسے ممکن ہے کہ انھوں نے اسے یوں جانے دیا، ایک مردہ بچی کو گتے کے ڈبے میں اٹھائے ہوئے؟
’یہ دیکھنا تکلیف دہ ہے کہ ڈاکٹر ہمارے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں۔ یہ شرمناک اور انتہائی افسوسناک ہے کیونکہ ہم بھی انسان ہیں۔‘
اخبار ایل مرکوریو سے وابستہ صحافی کرسچن سانچیز مینڈیٹا نے اس بارے میں بتایا کہ ’تابوت لانا خاندان کی ذمہ داری ہے۔ ہسپتال یہ فراہم نہیں کرتے۔ یہ پورے ملک میں معمول ہے۔‘
’لیکن یہ درست ہے کہ ہسپتالوں پر لازم ہے کہ وہ بلدیات یا ضلعی دفاتر سے عطیات کا انتظام کریں اور اس مقصد کے لیے ہسپتالوں میں سماجی خدمات کا شعبہ موجود ہوتا ہے۔‘
گذشتہ اپریل اس اخبار کی ٹیم مورونا سانتیاگو گئی تھی جب دس بچے لیپٹوسپائروسس سے ہلاک ہوئے تھے۔ یہ بیماری چوہوں کے فضلے اور پیشاب سے پھیلتی ہے لیکن اگر بروقت اینٹی بائیوٹکس دی جائیں تو مریض بچ سکتا ہے۔
سانچیز مینڈیٹا مزید کہتے ہیں ’یہ وہ لوگ ہیں جن کے رسم و رواج بالکل مختلف ہیں اور جو غیر صحت مند حالات میں رہتے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ ان کے ساتھ ایک طرح کا نسلی امتیاز برتا جا رہا ہے۔‘
جب ماں اور گتے کے ڈبے میں بچی کی لاش کی تصویر عوامی سطح پر سامنے آئی تو ایکواڈور کی وزارتِ صحت نے بیان جاری کیا کہ ’متعلقہ عملے کے خلاف کارروائی پر اس واقعے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ضروری اقدامات کیے گئے ہیں۔‘
مگر یہ تصویر صرف ایک لمحے کی عکاسی نہیں تھی بلکہ یہ ملک میں صحت عامہ کے نظام میں موجود خامیوں کے لیے علامت بن گئی۔
Getty Imagesپراسیکیوٹر کے دفتر نے قلیل عرصے میں متعدد نوزائیدہ بچوں کی موت کے بعد ایک ہسپتال میں تحقیقات کا آغاز کیاسیاسی مسئلہ
16 نومبر کو ماکاس میں اس بچی کی موت سے صرف 13 دن پہلے ایک ریفرنڈم ہوا جس میں صدر ڈینیئل نوبوا نے عوام سے چار سوالات پوچھے۔ ان سوالوں میں آئین ساز اسمبلی بلانے سے لے کر ملک میں غیر ملکی فوجی اڈوں کی واپسی تک سے متعلق سوالات شامل تھے۔ عوام نے چاروں سوالات کا جواب ’نہیں‘ دیا۔
یہ نوبوا کے لیے حیران کن ناکامی تھی کیونکہ اکتوبر میں کیے گئے سروے کے مطابق ان کی مقبولیت 52.7 فیصد تھی اور صرف آٹھ ماہ پہلے وہ 55 فیصد ووٹ لے کر دوبارہ صدر منتخب ہوئے تھے۔
لیکن اس شکست کی ایک غیر متوقع وجہ سامنے آئی۔ ملک میں عموماً صرف سکیورٹی بحران اور پُرتشدد اموات پر بات ہوتی تھی مگر اب صحت کا بحران زیرِ بحث تھا۔
ستمبر کے آخر تک ادویات اور طبی سامان کی قلت خطرناک حد تک پہنچ چکی تھی، حتیٰ کہ انسولین، مورفین، اموکسی سلین اور کینسر کی ادویات جیسی بنیادی چیزیں بھی ناپید ہو گئیں۔
حکومت کو مجبوراً ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی۔
گذشتہ 20 ماہ میں پانچ وزیر صحت تبدیل ہوئے۔ اب یہ وزارت نائب صدر کے پاس ہے۔
ڈاکٹروں کی قومی فیڈریشن کے صدر سانتیاگو کاراسکو کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ تکنیکی قیادت کی کمی اور ناقص انتظامی صلاحیت ہے کیونکہ فیصلہ ساز اس شعبے کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
صحت کے بجٹ میں بھی شدید کٹوتی ہوئی جبکہ ورلڈ بینک کے مطابق 2021 اور 2022 میں ہسپتالوں کے روزمرہ اخراجات جیسے عملے کی تنخواہیں، ادویات، بجلی اور پانی کے لیے مختص فنڈز کم کر دیے گئے ہیں۔
لیکن سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ جو فنڈز موجود ہیں وہ بھی استعمال نہیں ہو رہے۔ جولائی 2025 تک صرف 34.6 فیصد سرمایہ کاری کا بجٹ خرچ ہوا جس کا مطلب ہے کہ ہسپتال اور صحت کے مراکز انتہائی محدود وسائل پر چل رہے ہیں۔
عمران خان کی جیل میں پُش اپس لگانے کی تصویر کی حقیقت کیا ہے؟بونڈائی ساحل پر حملہ: ’دوست نے بتایا تمہاری تصویر وائرل ہے، تمہیں حملہ آور کہا جا رہا ہے‘35 سالہ شخص کی موت جو ویڈیوز وائرل ہونے پر مشتبہ ہو گئی: سابق وزیر والدہ اور سابق پولیس افسر والد کے خلاف بیٹے کے مبینہ قتل کا مقدمہ درجپرچہ حل کرتی طالبہ کے بچے کو دودھ پلانے والے ’وائرل‘ افغان استادادویات کی قلت، تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور اموات
ایکواڈور میں اپوزیشن جماعت سِٹیزن ریولوشن کی رکن اسمبلی ماریا ورونیکا اینیگیز گایاردو بتاتی ہیں ’ادویات اور طبی سامان کی کمی پورے ملک میں عام ہے۔ ستمبر میں سرکاری ہسپتالوں میں صرف 45 فیصد ادویات دستیاب تھیں۔‘
گوایاکیل شہر کے بڑے ہسپتالوں میں یہ کمی 80 فیصد تک پہنچ چکی۔ یونیورسٹی ہسپتال میں تو صورتحال اس قدر سنگین ہے کہ 18 نومولود بچے مر گئے کیونکہ آلودہ کینولا دوبارہ استعمال کیے گئے۔ ان کی قیمت صرف ایک ڈالر تھی۔
مونٹے سینائی ہسپتال کے ایک ماہر، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، بتاتے ہیں ’اگر کسی مریض کو آپریشن کے لیے لایا جائے تو اسے سب کچھ خود لانا پڑتا ہے۔ سوئیاں، کینولا، ٹانکے، درد کش ادویات، حتی کہ روئی اور بستر کی چادریں بھی نہیں ہوتیں۔‘
’ہم 24 گھنٹے کی ڈیوٹی کرتے ہیں لیکن ہسپتال میں کھانے کی جگہ بھی نہیں کیونکہ کیفے کے عملے کو کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔‘
لیبارٹری ٹیسٹ بند ہیں، خون کے ٹیسٹ نہیں ہو سکتے اور ادویات کی کمی نے خاندانوں کو سود خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ لوگ جان بچانے کے لیے قرض لیتے ہیں اور سود کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ پورا سماج اس بحران کی لپیٹ میں آ گیا۔
انسولین کی کمی نے ذیابیطس کے مریضوں کو احتجاج پر مجبور کر دیا۔ ایکواڈور کی جُوینائل ڈایابیٹس فاؤنڈیشن کی صدر لوسیا مانتیلا کہتی ہیں کہ ’ذیابیطس کے مریض کو روزانہ انسولین چاہیے۔ یہ کوئی ایسی دوا نہیں جو ایک دن چھوڑ کر لی جا سکے لیکن اب لوگ دو یا تین دن تک ایک شیشی کے لیے کئی فارمیسیوں کے چکر لگاتے ہیں۔‘
انسولین نہ ملنے سے مریض کی حالت بگڑ کر کیٹو ایسڈوسس تک پہنچ سکتی ہے، جو بروقت علاج نہ ہونے پر کوما کا سبب بن سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق کووڈ 19 کی وبا نے نظام کو مکمل طور پر ہلا کر رکھ دیا۔ ہزاروں کی تعداد میں طبی عملے کو نکال دیا گیا اور طبی سامان کی خریداری میں کرپشن کے کئی کیس سامنے آئے۔
عالمی بینک کے سابق ماہر مارسلو بورٹمین کہتے ہیں ’ایک مضبوط صحت کا نظام انسانی وسائل، انفراسٹرکچر اور مناسب فنڈنگ کا تقاضا کرتا ہے لیکن جب سالہا سال مرمت اور بہتری پر سرمایہ کاری نہ ہو تو خدمات اور صلاحیتیں دونوں ختم ہو جاتی ہیں۔‘
Foto cedidaمیونسپل حکومت نے تابوت خریدنے کے لیے خاتون کو رقم عطیہ کیآپریشن کیے بغیر مریض ڈسچارج
اگر شہروں میں حالات خراب ہیں تو دیہی علاقوں میں یہ بحران اور بھی سنگین ہے۔ وہاں بنیادی طبی مراکز صرف لکڑی کے ڈھانچے ہیں۔ ان میں بجلی یا لیبارٹری نہیں اور ڈاکٹر اکثر نئے گریجویٹ ہوتے ہیں جو کمیونٹی سروس کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔
اخبار ایل مرکوریو نے حال ہی میں ایک 22 سالہ نوجوان فیلکس اوریلیو سوکی کی کہانی شائع کی۔ وہ دوران ملازمت لفٹ سے 15 میٹر کی اونچائی سے گِر گئے تھے۔
ان کے جسم میں متعدد فریکچر ہیں، تین ریڑھ کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں اور ایک پھیپھڑا کام نہیں کر پا رہا لیکن ہسپتال میں آپریشن کے لیے ضروری سامان موجود نہیں تھا۔
اس لیے انھیں مشورہ دیا گیا کہ گھر جا کر انتظار کریں جب تک ادویات اور سہولیات دستیاب نہ ہو جائیں۔
یہی وجہ تھی کہ یوا سامپا کو اپنی بچی کو ماکاس ہسپتال لے جانا پڑا لیکن جب وہ علاج کی امید لے کر گئیں تو نظام کی ناکامی نے انھیں ایک گتے کے ڈبے کے ساتھ واپس لوٹنے پر مجبور کر دیا۔
بونڈائی ساحل پر حملہ: ’دوست نے بتایا تمہاری تصویر وائرل ہے، تمہیں حملہ آور کہا جا رہا ہے‘عمران خان کی جیل میں پُش اپس لگانے کی تصویر کی حقیقت کیا ہے؟سرکاری کالج پر مریم نواز کی تصویر والا جھنڈا لگانے پر پرنسپل کو وارننگ: ’کِس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں؟‘35 سالہ شخص کی موت جو ویڈیوز وائرل ہونے پر مشتبہ ہو گئی: سابق وزیر والدہ اور سابق پولیس افسر والد کے خلاف بیٹے کے مبینہ قتل کا مقدمہ درجپرچہ حل کرتی طالبہ کے بچے کو دودھ پلانے والے ’وائرل‘ افغان استاد