سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں مستقبل میں کشیدگی بڑھنے کی صورت میں کیا پاکستان نیوٹرل رہ پائے گا؟

بی بی سی اردو  |  Dec 31, 2025

Getty Images

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے مابین یمن میں علیحدگی پسند گروہوں کی پشت پناہی کے معاملے پر شروع ہونا والا تنازع بظاہر امارات کی جانب سے یمن سے اپنی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد کسی حد تک ختم ہوتا نظر آ رہا ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی وقتی ہو سکتی جو مستقبل میں کسی اور معاملے کے تناظر میں دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے۔

گذشتہ روز سعودی عرب کی سربراہی میں قائم اتحاد کی جانب سے یمن میں کیے گئے ایک فضائی حملے میں متحدہ عرب امارات سے آنے والے مبینہ ہتھیاروں اور فوجی گاڑیوں کو نشانہ بنانے کے بعد سعودی عرب نے مطالبہ کیا تھا کہ یو اے ای یمنی حکومت کی درخواست پر عمل کرتے ہوئے 24 گھنٹے میں اپنی افواج یمن سے واپس بُلائے۔

اس پر ردعمل دیتے ہوئے اگرچہ یو اے ای نے تمام الزامات کی تردید کی تھی تاہم اپنی افواج واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔

مبصرین کے مطابق حالیہ چند برسوں کے دوران سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سٹریٹجک اور اقتصادی مفادات اب ایک دوسرے سے کسی حد تک مختلف ہو گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے ان دو اہم ممالک کے مابین مختلف معاملات پر خاموش رقابت اب کُھل کر سامنے آ رہی ہے۔

یمن میں خانہ جنگی ہو یا پھر افریقی ممالک میں بندرگاہیں اور عسکری اڈوں کا قیام، متحدہ عرب اپنے اقصادی مفادات کے حصول کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں نظر آتا ہے۔

بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب سعودی عرب علاقائی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے سرمایہ کاری کا مرکز بننے پر زور دے رہا ہے تو متحدہ عرب امارات افریقہ اور بحیرہ احمر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے اپنی طاقت اور ذرائع کا استعمال کر رہا ہے۔

اس کی ایک مثال یو اے ای کا ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونا تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے کے معاملے پر مسلمان ممالک سعودی عرب کی جانب دیکھ رہے تھے، متحدہ عرب امارات نے آگے بڑھ کر اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔

بین الااقومی اُمور کے ماہرین کے مطابق گذشتہ چند برسوں کے دوران متحدہ عرب امارات متعدد مواقع پر خلیجی ممالک اور مسلم دنیا میں سعودی عرب کی مرکزیت کو بظاہر چیلنج کرتا نظر آیا ہے۔ مسلم دنیا کے واحد جوہری طاقت پاکستان کے تعلقات روایتی طور پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ دیرینہ اور دوستانہ رہے ہیں۔

لاکھوں پاکستانی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ملازمتوں کے سلسلے میں مقیم ہیں اور حال ہی میں پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ سٹریٹجک دفاعی معاہدہ کیا ہے۔

ایسے میں مشرقِ وسطیٰ کے دو اہم ترین ممالک کے درمیان پنپتی کشیدگی اور اختلاف بڑھنے سے پاکستان سمیت مسلم دنیا پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے؟

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرے گا لیکن تنازع بڑھنے کی صورت میں پاکستان غیر جانبدار نہیں رہ سکے گا۔

بی بی سی اُردو نے تجزیہ کاروں سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ مستقبل میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے مابین کشیدگی بڑھنے کا امکان کیوں ہے اور یہ پاکستان پر کیسے اثرانداز ہو سکتی ہے؟

ریاض، ابوظہبی کشیدگی اور پاکستان

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی کشیدگی ایسے وقت پر سامنے آئی جب یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان نجی دورے پر پاکستان کے شہر رحیم یار خان میں موجود ہیں۔

حالیہ کشیدگی کے فوراً بعد پاکستان نے دونوں ممالک سے رابطہ کیا ہے۔

منگل کو پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی رحیم یار خان میں شیخ محمد بن زید النہیان سے ملاقات کی اور اس کے بعد جاری ہونے والی سرکاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس ملاقات میں دوطرفہ اُمور اور مختلف شعبوں میں تعاون پر بات چیت ہوئی ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے منگل کی شام سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان سے رابطہ کیا تھا۔

ان دونوں ملاقاتوں کے بعد جاری ہونے والے سرکاری اعلامیوں میں یمن کا ذکر نہیں ہے لیکن مبصرین کے خیال میں دونوں ممالک سے رابطے کا مقصد ممکنہ طور پر کشیدگی کو کرنا ہو سکتا ہے۔

یمن میں سعودی عرب کی سربراہی میں قائم اتحاد میں پاکستانی افواج براہ راست شامل نہیں ہیں لیکن اس اتحاد میں پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف اعلیٰ عہدے پر ہیں۔

قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر قندیل عباس کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ان دونوں ممالک سے اچھے رواسم اور اقتصادی مفادات ہیں اور دونوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی میں پاکستان متاثر ہو سکتا ہے۔

متحدہ عرب امارات: ابوظہبی کے حکمران خاندان نے اپنی اور خطے کی قسمت کیسے بدلی؟سعودی تیل کی کہانی، یہ دولت کب آئی اور کب تک رہے گی؟یو اے ای کی جانب سے سعودی الزامات کی تردید اور یمن میں اپنی افواج کے آپریشنز ختم کرنے کا اعلان: ’بندرگاہ پر اُتارے گئے سامان میں اسلحہ نہیں تھا‘سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان پنپتی وہ خاموش رقابت جسے یمن میں پیش آئے حالیہ واقعے نے تازہ کر دیا

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر قندیل نے بتایا کہ مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات کی موجودگی کے سبب سعودی عرب اپنے آپ کو اسلام کا مرکز سمجھتا ہے اور ماضی میں مسلم دنیا کے کئی اہم فیصلے سعودی عرب نے کیے ہیں لیکن سنہ 2015 کے بعد سے سعودی عرب کی مرکزیت کم ہو رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس کی واضح مثال خلیج تعاون کونسل میں شامل ممالک کے مابین اختلافات ہیں، لیکن متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے معاملے میں یہ اتفاق ضرور تھا کہ ایک دوسرے کو لاحق خطرات کا مل کر مقابلے کریں گے۔

ڈاکٹر قندیل عباس کا کہنا ہے کہ اب دونوں ممالک میں مفادات کی تقسیم کے معاملے پر اختلاف ہے۔

عمر کریم سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں گنگ فیصل سینٹر فار ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز میں ریسرچ فیلو ہیں

اُن کے بقول پاکستان دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا کیونکہ پاکستان اقتصادی طور پر دونوں ممالک پر انحصار کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر یمن میں اماراتی حمایت یافتہ گروہ ایس ٹی سی کے خلاف کارروائی سے کشیدگی بڑھتی ہے تو پاکستان نیوٹرل نہیں رہ سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے کے تحت پاکستان کو سعودی عرب کا ساتھ دینا پڑے گا۔

ڈاکٹر قندیل عباس نے کہا کہ پاکستان نے حالیہ کشیدگی کے بعد دونوں ممالک سے رابطہ ضرور کیا ہے اور پاکستان کی کوشش ہے کہ یہ تناؤ کم ہو لیکن ان کے بقول یو اے ای نے اہم معاملات میں پاکستان کے بجائے انڈیا کو زیادہ اہمیت دی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگرچہ 21 لاکھ پاکستانی ورکر متحدہ عرب امارات میں موجود ہیں، اسی لیے پاکستان نے کبھی یو اے ای کی پالیسی پر کُھل کر بات نہیں کی۔

قندیل عباس نے کہا کہ ماضی میں پاکستان کی شکایت رہی ہے کہ دبئی پورٹ اپنے اقتصادی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے پاکستان کی گوادر پورٹ کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔

کیا مستقبل میں کشیدگی بڑھنے کا امکان ہے؟AFPمکلا، جنوبی یمن۔ اس تصویر میں سعودی حملے میں تباہ ہونے والی یو اے ای کی فوجی گاڑیاں دکھائی دے رہی ہیں

حالیہ یمن تنازع یہ ظاہر کرتا ہے کہ جغرافیائی، سیاسی اور جیو اکنامک اُمور پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے مابین فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ ان دونوں خلیجی ریاستوں کے اوپیک میں کیے گئے فیصلوں اور سوڈان، یمن اور دیگر سرحدی تنازعات پر مؤقف ایک دوسرے سے مختلف ہے۔

دونوں ممالک افریقہ میں علاقائی طاقت اور اثر و رسوخ کے لیے بھی آمنے سامنے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب سعودی عرب علاقائی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے سرمایہ کاری کا مرکز بننے پر زور دے رہا تھا تو متحدہ عرب امارات افریقہ اور بحیرہ احمر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے اپنی طاقت اور ذرائع کا استعمال کر رہا ہے۔

مبصرین کا ماننا ہے کہ دونوں ممالک کے اقتصادی مفادات کی سمت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں گنگ فیصل سینٹر فار ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز میں ریسرچ فیلو عمر کریم کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے لیے اپنے دفاعی معاملات بہت اہمیت کے حامل ہیں اور ریاض کے لیے یہ برداشت کرنا ممکن ہے کہ بحیرہ احمر کے اُس پار وہ گروہ سرگرم ہوں جو سعودی عرب کی سکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ریاض کے مقابلے میں ابوظہبی قرونِ آفریقہ کے ممالک میں مختلف گروہوں کو سپورٹ کر رہا ہے اور اُس کے پاس ایسے کئی کارڈز موجود ہیں جو سعودی عرب کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔

عمر کریم کے مطابق سوڈان، صومالی لینڈ، ایتھوپیا اور خلیج عدن کے معاملے پر دونوں ممالک کے مابین اختلافات بہت نمایاں ہیں۔

تجزیہ کار ڈاکر قندیل عباس کے مطابق متحدہ عرب امارات خطے اور افریقی ممالک میںتجارتی راہداریاں اور اڈے حاصل کرنا چاہتا ہے اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک بھی خاصا سرگرم ہے۔

انھوں نے کہا کہ سوڈان لیبیا اور فلسطین کے معاملے پر دونوں خلیحی ممالک کے موقف میں تبدیلی اور اختلاف پوری اسلامی دنیا پر اثرانداز ہو رہا ہے۔

ڈاکٹر قندیل عباس کے مطابق موجود حالات کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں تناؤ مزید بڑھنے کا خدشہ موجود ہے لیکن اُن کے بقول ایک حد تک تو یہ معاملات چلتے رہیں گے لیکن اگر تناؤ شدت اختیار کر گیا تو پھر عالمی طاقتیں اپنا کردار ادا کریں گی۔

انھوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں ایران اور اسرائیل کے سبب ویسے ہی بہت کشیدگی ہے اور امریکہ اس وقت یہ نہیں چاہیے گا کہ عرب ممالک بھی آپس لڑنے لگیں۔

اس لیے اُن کے بقول ’امریکہ کے دونوں کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں اور وہ دونوں عرب ممالک کو اختلافات سے دور رکھے گا۔‘

یمن کے معاملے پر گذشتہ روز ہونے والی نوک جھونک کے بعد امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ سے ٹیلی فون پر بات کی تھی۔

تـجزیہ کار عمر کریم کا کہنا ہے کہ اگر کشیدگی اس حد تک بڑھی تو امریکہ کے بجائے دونوں ممالک روایتی عرب قبائل کے مطابق ایک دوسرے کے اختلافات جاری رکھیں گے کیونکہ اُن کے بقول قطر اور خلیجی ممالک کے مابین لڑائی میں بھی امریکہ کوئی خاص کردار ادا نہیں کر پاتا تھا۔

یو اے ای کی جانب سے سعودی الزامات کی تردید اور یمن میں اپنی افواج کے آپریشنز ختم کرنے کا اعلان: ’بندرگاہ پر اُتارے گئے سامان میں اسلحہ نہیں تھا‘سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان پنپتی وہ خاموش رقابت جسے یمن میں پیش آئے حالیہ واقعے نے تازہ کر دیامتحدہ عرب امارات: ابوظہبی کے حکمران خاندان نے اپنی اور خطے کی قسمت کیسے بدلی؟سعودی تیل کی کہانی، یہ دولت کب آئی اور کب تک رہے گی؟صومالی لینڈ کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان: اسرائیل کی حکمت عملی اور متحدہ عرب امارات کی خاموشی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More