6.8 شدت کا زلزلہ آنے کے باوجود پاکستان تباہی سے کیسے محفوظ رہا؟

بی بی سی اردو  |  Mar 22, 2023

Getty Images

پاکستان میں منگل کی شب 6.8 شدت کا زلزلہ آیا جس کے بعد صوبہ خیبرپختونخوا میں کم سے کم نو افراد ہلاک جبکہ 46 زخمی ہوئے۔

اس زلزلے کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی ویڈیوز بھی نظر آئیں جن میں اس وقت کے مناظر دکھائی دیے جب زلزلے کے جھٹکوں نے عمارات کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور لوگ خوف کے عالم میں گھروں سے باہر نکل آئے۔

دوسری جانب متعدد افراد نے ایسی ویڈیوز بھی شیئر کیں جن میں ان کے گھروں کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ ان میں اسلام آباد کی ایک رہائشی عمارت بھی شامل تھی تاہم اس زلزلے کے بعد، جس کا مرکز افغانستان میں ہندوکش سلسلہ میں بتایا گیا، بہت سے افراد یہ سوال کرتے دکھائی دیے کہ زلزلے کب اور کیوں زیادہ نقصان کرتے ہیں؟

یہ سوال اس تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جون 2022 میں افغانستان کے مشرقی حصے میں چھ اعشاریہ ایک شدت کا زلزلہ آیاتھا جس میں کم از کم ایک ہزار افراد ہلاک اور 1500 سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔

دوسری جانب منگل کی شب پاکستان اور افغانستان میں آنے والے زلزلے کی شدت اس سے زیادہ ریکارڈ کی گئی لیکن جانی نقصان کہیں کم ہوا۔

تو آخر ایسا کیوں ہے کہ کسی زلزلے کے نتیجے میں ہزاروں لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن کبھی زلزلے کے بعد بہت کم نقصان ہوتا ہے؟

ماہرین کے مطابق کئی عوامل اس بات کو طے کرتے ہیں کہ زلزلے کے بعد جانی اور مالی نقصان کس قدر ہوتا ہے۔

ان عوامل میں سے پہلا زلزلے کی شدت ہے۔

EPAجون 2022 میں افغانستان کے مشرقی حصے میں 6.1 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس میں کم از کم ایک ہزار افراد ہلاک اور 1500 سے زیادہ زخمی ہو گئے تھےزلزلے کی شدت

زلزلے کی شدت کو ریکٹر سکیل پر ناپا جاتا ہے اور کسی زلزلے کے بعد کتنی سسمک توانائی خارج ہوتی ہے اس کے لیے سائنس دان ایک نمبر کا استعمال کرتے ہیں۔

سیکٹر میگنیٹیوڈ سکیل کے ذریعے ہر نمبر تونائی میں اضافے کی نمائندگی کرتا ہے۔

کسی زلزلے کے بعد جتنی زیادہ تونائی کا اخراج ہو گا، وہ اتنا ہی تباہ کن ثابت ہو گا۔

سنہ 2005 میں جس زلزلے نے پاکستان میں وسیع پیمانے پر تباہی مچائی، ریکٹر سکیل پر اس کی شدت سات عشاریہ چھ ریکارڈ کی گئی تھی۔

زلزلے کی گہرائی

کسی بھی زلزلے کی گہرائی بھی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ اس کے نتیجے میں کتنا نقصان ہو گا۔ زلزلہ زمین کی سطح سے سات کلومیٹر تہہ تک کی گہرائی کا حامل ہو سکتا ہے۔

عام طور پر زلزلے کی گہرائی جتنی زیادہ ہو گی، اس سے نقصان اتنا ہی کم ہو گا کیوںکہ سطح تک پہنچتے پہنچتے زلزلے سے خارج ہونے والی توانائی میں کمی آتی رہتی ہے۔

Getty Imagesزلزلے کے مرکز سے فاصلہ

کسی زلزلے کا مرکز زمین کی سطح پر وہ مقام ہوتا ہے جہاں سے زلزلے کا آغاز ہوتا ہے۔

اس مرکز پر زلزلے کی شدت سب سے زیادہ ہوتی ہے اور جیسے جیسے مرکز سے فاصلہ بڑھتا جاتا ہے، زلزلے کی شدت میں کمی آتی جاتی ہے۔

آبادی

ایک اہم چیز، جو زلزلے کے بعد ہونے والے نقصان کا تعین کرتی ہے وہ یہ کہ جس مقام پر زلزلہ آیا، وہاں آبادی کتنی گنجان ہے۔

جب زلزلہ کسی ایسے مقام پر آتا ہے جو گنجان آباد ہوتا ہے تو یقینا اس سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے جبکہ کسی غیر گنجان آباد علاقے میں جہاں عمارات کم ہوں یا جیسے سمندر کے وسط میں آنے والا زلزلہ کم نقصان کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں زلزلہ: کیا زلزلوں کی پیشگوئی کرنا ممکن ہے؟

تاریخ کا سب سے شدید زلزلہ، جس نے زمین کا جغرافیہ بدل کر رکھ دیا

ملبے میں پھنسے افراد کی تلاش کیسے کی جاتی ہے؟

Getty Imagesمقامی عوامل

ایک اور اہم چیز یہ بھی ہے کہ جس مقام پر زلزلہ آیا، وہاں پر زمین کی کیا کیفیت ہے۔

اگر ریتلی زمین یو یا پھر گیلی زمین ہو، تو زوردار اور طویل جھٹکوں کے نتیجے میں زمین سرک سکتی ہے اور ایسی زمین کی سطح پر موجود عمارات کو بھی زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔

زلزلے کا وقت

زلزلے کا وقت بھی اس حساب سے اہمیت رکھتا ہے کہ نقصان زیادہ ہوتا ہے یا کم۔ اگر زلزلہ رات کے ایسے وقت میں آئے جب لوگ نیند میں ہوں تو ان کے پاس ابتدائی جھٹکوں کے بعد عمارت سے نکلنے کا وقت کم ہوتا ہے اور ایسے زلزلے زیادہ جانی نقصان کرتے ہیں۔

دوسری جانب دن کے وقت آنے والے زلزلے کے دوران لوگ جلد باہر نکل کر محفوظ مقامات پر پہنچ سکتے ہیں۔

عمارات کی مضبوطی

یہ چیز بھی اہمیت کی حامل ہے کہ کسی بھی مقام پر عمارات کی تیاری میں زلزلے کو ملحوظ خاطر رکھا گیا یا نہیں اور یہ عمارتیں کس قدر مضبوط اور زلزلے کے جھٹکوں کو سہنے کی طاقت رکھتی ہیں یا نہیں۔

کمزور عمارات یا ناقص طریقے سے تیار ہونے والی عمارات کسی زلزلے کے بعد جلد گر سکتی ہیں اور اس کے نتیجے میں زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔

اسی کے ساتھ ساتھ ایک چیز یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں، جہاں مضبوط معیشت ہو، زلزلے سے نمٹنے کے لیے بہتر وسائل موجود ہوتے ہیں اور نقصان کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More