کریڈٹ سوئس: کس طرح بینکنگ کے ’شاہ‘ کے زبردست زوال نے سوئٹزرلینڈ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے

بی بی سی اردو  |  Mar 22, 2023

Getty Images

الوداع کریڈٹ سوئس۔

1856 میں قائم کیا جانے والا بینک کریڈٹ سوئس شروع سے ہی سوئس مالیاتی شعبے کا ایک اہم ستون رہا ہے۔ اگرچہ یہ بینک بھی 2008 کے مالیاتی بحران کا شکار ہوا تھا، لیکن اس نے اپنے حریف بینک یو بی ایس کے برعکس، حکومتی بیل آؤٹ کے بغیر اس طوفان کا مقابلہ کیا۔ تاہم یو بی ایس نے اب اسے 3.24 ارب ڈالر میں خریدا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے تک کریڈٹ سوئس برانڈ کا چہرہ سوئٹزرلینڈ کے ٹینس کے دیوتا راجر فیڈرر رہے ہیں۔ وہ سوئس ہوائی اڈوں پر لگے بل بورڈز پر مسکراتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو ایک علامت ہے طاقت کی، عمدگی کی، موجود رہنے کی طاقت کی اور اعتماد کی۔

لیکن شاندار پروموشن کے پیچھے کچھ بڑے مسائل بھی تھے۔ تقسیم کرنے والی مینجمنٹ، مالیاتی کمپنی گرینسل کیپٹل کے ساتھ مہنگا تعلق، جو 2021 میں بیٹھ گئی تھی، منی لانڈرنگ کے سنگین معاملات اور حالیہ مہینوں میں صارفین کے اعتماد میں کمی، جس کی وجہ سے بینک سے اربوں ڈالر نکالے گئے۔

ان شکوک و شبہات کو مزید بگاڑنے میں سعودی نیشنل بینک، جو کریڈٹ سوئس کے تقریباً 10 فیصد کا مالک ہے، کی طرف سے بظاہر غیر معمولی تبصرہ تھا، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ اس میں مزید سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔

کریڈٹ سوئس کے حصص گرتے چلے گئے، یہاں تک کہ سوئس نیشنل بینک کا پر اعتماد بیان اور 50 ارب ڈالر کی مالی مدد کی پیشکش بھی صورتحال کو مستحکم کرنے میں ناکام رہی۔

Getty Imagesراجر فیڈرر کریڈٹ سوئس کے برانڈ کو پروموٹ کرتے رہے ہیںیہ کیسے ہو سکتا ہے؟

15 سال پہلے مالیاتی بحران کے بعد، سوئٹزرلینڈ نے اپنے سب سے بڑے بینکوں کے لیے سخت قوانین متعارف کرائے تھے تاکہ وہ ناکام نہ ہو سکیں۔ انھوں نے کبھی نہیں سوچا تھا سوئس ٹیکس دہندگان کو سوئس بینک کو بیل آؤٹ کرنا ہوگا، جیسا کہ یو بی ایس نے کیا تھا۔

لیکن کریڈٹ سوئس ایک ’ٹو بگ ٹو فیل‘ بینک ہے۔اس کے پاس اس ہفتے کی تباہی سے بچنے کے لیے سرمایہ تھا۔

اس کے علاوہ، نظریہ میں، سوئس مالیاتی ریگولیٹرز اور سوئس نیشنل بینک ان بڑے بینکوں پر نظر رکھتے ہیں اور تباہی کے حملوں سے پہلے مداخلت کر سکتے ہیں۔

پچھلے ہفتے یہ دیکھنا بڑا عجیب تھا کہ باقی دنیا نے کریڈٹ سوئس کے حصص ڈوبنے پر حقیقی تشویش کا اظہار کیا لیکن سب سے پہلے سوئٹزرلینڈ میں اس کے متعلق کچھ نہیں سنا گیا۔

یہاں تک کہ سوئس میڈیا بھی فنانشل ٹائمز کی شہ سرخیوں سے غافل نظر آیا اور اسے جاری بحث میں زیادہ دلچسپی دکھائی دی کہ غیر جانبدار سوئٹزرلینڈ کو یوکرین کو کتنی حمایت کرنی چاہیے۔

جب تک لوگوں کو احساس ہوا کہ کیا ہورہا ہے، اتنا نقصان ہو چکا تھا کہ کریڈٹ سوئس کو مزید بچایا نہیں جا سکتا تھا۔ اس کے نتائج سے نہ صرف سوئٹزرلینڈ بلکہ یورپ کے پورے مالیاتی شعبے کو بھی خطرہ لاحق ہونا شروع ہو گیا تھا۔

جب حکومت نے ہنگامی اجلاس میں کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کی، تو آپ کو برن میں صاف گھبراہٹ محسوس ہو سکتی تھی۔

Getty Images

بینک کے ٹیک اوور کا اعلان کرتے ہوئے سوئس صدر ایلین بیرسیٹ نے کہا کہ ’کریڈٹ سوئس کی بے قابو تباہی کے ملک اور بین الاقوامی مالیاتی نظام کے لیے ناقابلِ حساب نتائج ہوں گے۔‘

کچھ سوئس باشندے اب کہتے ہیں کہ اس نتیجے سے نجات مشکل ہے جن لوگوں کو کریڈٹ سوئس کے خاتمے کو روکنے کے لیے کام کرنا چاہیے تھا وہ اس وقت سو رہے تھے۔

سوئٹزرلینڈ کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے

توجہ کا یہ فقدان بہت مہنگا پڑے گا۔ یو بی ایس کا تین ارب ڈالر کا معمولی حصول، کریڈٹ سوئس کے لیے ایک مکمل ذلت کے علاوہ، اس کے شیئر ہولڈرز کو تھوڑا غریب بھی کر سکتا ہے۔

ملازمتوں کے نقصانات بھی ہوں گے، شاید ہزاروں لوگوں کی نوکریاں جائیں۔ تقریباً ہر سوئس شہر میں کریڈٹ سوئس اور یو بی ایس کی شاخیں ہیں۔ جیسے ہی ٹیک اوور مکمل ہو جاتا ہے تو یو بی ایس کے لیے انھیں کھلا رکھنا ضروری نہیں ہے۔

لیکن شاید سب سے بڑا نقصان سرمایہ کاری کے لیے محفوظ جگہ کے طور پر جانے والے سوئٹزرلینڈ کی ساکھ کا ہو سکتا ہے۔

ڈی فیکٹو حکمرانوں کے خفیہ بینک اکاؤنٹس (بشمول فلپائن کے فرڈینینڈ مارکوس، کانگو کے موبوتو سیسی سیکو اور کئی دیگر) کے سکینڈلز کے باوجود، یا ڈرگ لارڈز اور ٹیکس چوروں کے ذریعے منی لانڈرنگ، سوئس بینکوں نے اپنی ساکھ اسی طرح رکھی جیسا کہ راجر فیڈرر کا بل بورڈ بتا رہا ہے: مضبوط اور قابل اعتماد۔

لیکن اب کیا ہو گا؟ ایسے نظام کا کیا کیا جائے جو 167 سال پرانے بینک کو چند دنوں میں تباہ ہونے سے نہ بچا سکے، اور اس میں بہت سی ملازمتیں بھی جائیں اور حصص کی قیمت میں بڑے پیمانے پر گراوٹ بھی ہو؟

اس سے شہرت کو بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سوئس بینکنگ سیکٹر، سوئٹزرلینڈ کے مالیاتی ریگولیٹرز اور اس کی حکومت کا کہنا ہے کہ بینک کی اکویزیشن یا حصول ہی بہترین حل ہے۔

آخری لمحات میں شاید یہ ہی واحد حل تھا. اگلے چند دنوں میں کچھ مشکل سوالات کے جوابات دینا ہوں گے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More