جب بانی پاکستان محمد علی جناح نے عید کی نماز پچھلی صفوں میں ادا کی

بی بی سی اردو  |  Apr 10, 2024

پچھلی صفوں پر عید کی نماز ادا کرتے نمازیوں کو سلام پھیرتے ہی پہلے تو حیرت ہوئی کہ بانی پاکستان اور پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح ان کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔

پھر وہ اچانک نعرے لگانے لگے: ’قائد اعظم زندہ باد‘۔

اگلے چند لمحوں میں 25 اکتوبر 1947 کی صبح تب پاکستان کے دارالحکومت کراچی کے بندر روڈ پر مولوی مسافر خانہ کے نزدیک مسجد قصاباں کی عید گاہ ان نعروں سے گونج رہی تھی۔

عقیل عباس جعفری کی تحقیق ہے کہ بانی پاکستان کو نماز کے وقت سے مطلع کر دیا گیا تھا لیکن وہ بروقت عید گاہ نہیں پہنچ پائے۔

’اعلیٰ حکام نے (نماز کے امام) مولانا ظہور الحسن درس کو مطلع کیا کہ قائد اعظم راستے میں ہیں اور چند ہی لمحات میں عید گاہ پہنچنے والے ہیں۔ انھوں نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ نمازکی ادائی کچھ وقت کے لیے موخر کر دیں۔‘

مولانا ظہور الحسن درس 1940 سے 1947 تک آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے رکن اور اہم عہدوں پر فائز رہے۔ بانی پاکستان انھیں سندھ کا ’بہادر یار جنگ‘ کہا کرتے تھے۔( حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے بہادر یار جنگ مفکّر، سیاست دان، ماہرِ ِاقبالیات، جناح کے دستِ راست، خطیب، ادیب اور دانشور تھے۔)

لیکن مولانا ظہور الحسن درس نے کہا کہ ’میں قائد اعظم کے لیے نماز پڑھانے نہیں آیا ہوں بلکہ خدائے عزوجل کی نماز پڑھانے آیا ہوں۔‘

چناںچہ انھوں نے صفوں کو درست کر کے تکبیر کہہ دی۔ ’ابھی نماز عید کی پہلی ہی رکعت شروع ہوئی تھی کہ قائد اعظم بھی عید گاہ پہنچ گئے۔‘

ان کے منتظر اعلیٰ حکام نے قائد سے درخواست کی وہ اگلی صف میں تشریف لے چلیں مگر قائد اعظم نے یہ درخواست مسترد کر دی اور کہا کہ ’میں پچھلی صف میں ہی نماز ادا کروں گا۔‘

عقیل عباس جعفری لکھتے ہیں کہ ’چناںچہ ایسا ہی ہوا اور قائد اعظم نے پچھلی صفوں میں نماز ادا کی۔ قائد اعظم کے برابر کھڑے نمازیوں کو بھی نماز کے بعد علم ہوا کہ ان کے برابر میں نماز ادا کرنے والا ریاست کا کوئی عام شہری نہیں بلکہ ریاست کا سربراہ تھا۔‘

نماز کے بعد جب نمازیوں کے علم میں یہ بات آئی تو پوری عیدگاہ ’قائد اعظم زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔‘

’قائد اعظم نمازیوں سے گلے ملنے کے بعد آگے تشریف لائے۔‘

انھوں نے مولانا ظہور الحسن درس کی تعریف کی اور کہا کہ ’ہمارے علما کو ایسے ہی کردار کا حامل ہونا چاہیے۔‘

ویسے دیر کا یہ واقعہ انوکھا تھا کیوںکہ بانی پاکستان وقت کے پابند تھے۔

وہ اور دیگر سرکاری عمائدین 18 اگست 1947 کو عیدالفطر کی نماز اسی عید گاہ میں مولانا درس ہی کی امامت میں ادا کر چکے تھے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی کے والد میاں عطا ربانی تب گورنر جنرل محمد علی جناح کے پہلے ایڈ ڈی کیمپ (اے ڈی سی) تھے۔

وہ پہلے پائلٹ بھی تھے جنھیں رائل انڈین ایئر فورس سے پاکستان کی نوزائیدہ ریاست میں رائل پاکستان ایئر فورس میں منتقل کیا گیا۔ ربانی ہی بانی پاکستان اور ان کی بہن فاطمہ جناح کے ساتھ 7 اگست 1947 کو نئی دہلی کے پالم ہوائی اڈے سے ماڑی پور ہوائی اڈے کراچی گئے۔

پاکستان بننے کے بعد بانی پاکستان کی پہلی عید کے بارے میں اے ڈی سی ربانی لکھتے ہیں کہ ’قائداعظم صبح سویرے تیار ہو گئے اور سیڑھیاں اتر رہے تھے جب میں ان سے ملا۔‘

انھوں نے کہا ’میں تیار ہوں! ہمیں دیر نہیں کرنی چاہیے۔‘

جناح، کریم رنگ کی شیروانی اور سفید پاجامے میں ملبوس اور سرمئی رنگ کی قراقلی جناح کیپ پہنے ہوئے تھے۔

’وہ خوشگوار موڈ میں تھے۔ وہ تیز تیز چلتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھے اور ہم عید گاہ بندر روڈ، جو اب ایم اے جناح روڈ ہے، عید کی نماز پڑھنے کے لیے روانہ ہوئے۔‘

’عیدگاہ جاتے ہوئے میں نے قائد کا ایک اور رخ دیکھا۔‘

’اب تک ہم انھیں ایک لیڈر، ایک سیاست دان، ایک قانون ساز، ایک وکیل اور ایک خوش لباس اور آداب والے ایک مغربی شخص کے طور پر جانتے تھے لیکن آج جب انھوں نے مجھے رمضان المبارک کا فلسفہ اور اہمیت بتائی تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’جب ان کی لیموزین گورنر جنرل ہاؤس سے نکلی تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ نے رمضان کے کتنے روزے رکھے۔‘

’میں نے کہا پندرہ۔ کہنے لگے آپ تو جوان اور صحت مند ہیں، آپ نے پورا مہینہ روزے کیوں نہیں رکھے؟‘

’میں نے کہا: جناب، میں سفر میں تھا۔‘

’اس پر انھوں نے کہا کہ اب آپ سکونت پذیر ہو گئے ہیں، روزے پورے کریں۔‘

پھر کہنے لگے کہ ’مذہبی جذبے اور روح کی تطہیر کے علاوہ، روزہ انسان کو تنظیم، اپنے آپ پر کنٹرول، قربانی اور لگن سکھاتا ہے۔‘

عیدگاہ پہنچنے پر مسجد کے نگراں نے بانی پاکستان کا استقبال کیا جو انھیں نماز گاہ تک لے گئے۔

ممتاز رہنما جیسے ایم اے کھوڑو، مسٹر آئی آئی چندریگر، راجا غضنفر علی خان اور محمد ہاشم گذدر پہلے سے موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیے’مسٹر جناح نے مجھے اغوا نہیں کیا، میں نے انھیں اغوا کیا ہے‘کرنسی نوٹ پر بانی پاکستان کی تصویر پر علما معترض کیوں ہوئے؟محمد علی جناح: معاملہ ایک روپیہ تنخواہ اور دو بار نمازِ جنارہ کا

لکھاری رافعہ ذکریا کے مطابق رمضان کا اختتام خوشیوں بھرا رہا تھا۔ ’پاکستان بنا اور ملک کی پیدائش کے فوری بعد پہلی عید آ گئی لیکن فسادات کی خبریں بھی آرہی تھیں۔‘

’عید گاہ پر جمع ہونے والے لوگوں نے بڑے تحمل اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ۔ان کی آنکھوں سے ان کے دلوں میں محبت اور احترام کا اظہار ہو رہا تھا۔‘

نماز کے بعد جناح خاموشی سے بیٹھ کر خطبہ سنتے رہے۔ خطبے کے اختتام پر انھوں نے سب سے پہلے امام صاحب (مولانا ظہور الحسن درس) سے سلام کا تبادلہ کیا۔ اس کے بعد انھوں نے اردگرد موجود رہنماؤں سے ملاقات کی اور عید کی مبارکباد دی۔

'کچھ لوگوں نے مصافحہ کرتے ہوئے ان کے ہاتھ چومنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے جھنجھلاہٹ اور اونچی آواز میں ’نہیں‘ کہہ کر اسے واپس لے لیا۔ یہ سلسلہ جاری تھا کہ جناح کے گرد ہجوم لگنا شروع ہو گیا۔ ’میں نے باہر نکلنے کا مشورہ دیا۔ قائد نے آسانی سے مان لیا۔‘

ان کی کتاب میں مزید لکھا ہے کہ ’گاڑی میں بیٹھتے ہی قائد اعظم نے ڈرائیور کو ہدایت کی کہ اسلامی روایت کے مطابق واپسی کے لیے کوئی دوسرا راستہ اختیار کریں۔‘

گورنر جنرل ہاؤس کی طرف جاتے ہوئے اچانک گلیوں سے لوگ انھیں دیکھنے کے لیے نکل آئے۔ انھوں نے ’اللہ اکبر‘ اور ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے اور جناح نے خوش دلی سے ان کا جواب دیا۔

’گورنر جنرل اور فاطمہ جناح کو عید کی مبارکباد دینے والے تمام لوگوں کے لیے دو گھنٹے اوپن ہاؤس رہا۔ وزیراعظم نے بیگم لیاقت علی خان کے ساتھ، کابینہ کے وزرا نے اپنی بیویوں، سفیروں، اعلیٰ سول و فوجی افسران، سیاستدانوں اور شہر کے اشرافیہ کے ساتھ گورنر جنرل سے ملاقات کی اور انھیں اور مس جناح کو عید کے پُرمسرت موقع پر مبارکباد دی۔‘

بعد ازاں ایک وزیٹر بُک ہال میں رکھی گئی تاکہ دیر سے آنے والے اپنے ناموں کے ساتھ دستخط کر سکیں۔

رافعہ ذکریا لکھتی ہیں کہ ’ایک دانے دار بلیک اینڈ وائٹ ویڈیو میں پہلے سے کمزور قائداعظم کو ملک میں پہلی عید کی نماز میں جھکتے اور نماز ادا کرتے ہوئے دکھایا گیا۔‘

شیرخوار پاکستان سے اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ ’آزاد خود مختار پاکستان کے قیام کے فوراً بعد یہ ہماری پہلی عید ہے۔‘

’پوری مسلم دنیا میں خوشی کا یہ دن ہماری قومی ریاست کے قیام کے بعد فوری طور پر آتا ہے اور اس لیے یہ ہم سب کے لیے ایک خاص اہمیت اور خوشی کی بات ہے۔‘

جناح نے اس عید کے پہلے خطاب کا اختتام ایک پرجوش آواز کے ساتھ کیا: ’اب حقیقی، ٹھوس کام کا وقت آگیا ہے۔‘

پاکستان میں عید کی یہی دو پہلی اور آخری نمازیں تھیں جو بانی پاکستان محمد علی جناح ادا کرسکے۔ اگلے سال عید الفطر آئی تو وہ شدید بیمار تھے اور جب عید الاضحیٰ آئی تو جناح کی وفات ہوئے ایک ماہ ہو چکا تھا۔

محمد علی جناح کو ’انڈیا‘ کے نام پر کیا اعتراض تھا اور انھوں نے اسے ’گمراہ کُن‘ کیوں قرار دیا؟اسلام آباد کا نام تجویز کرنے والے سکول ٹیچر جن سے کیا گیا وعدہ پورا نہ ہو سکاکیا علم الدین نے راج پال کو قتل کرنے کے الزام سے انکار کیا تھا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More