’منشیات کے طاقتور سمگلر کا احتساب‘: برسوں تک مطلوب پاکستانی نژاد آصف حفیظ عرف ’سلطان‘ کا امریکہ میں اعتراف

بی بی سی اردو  |  Dec 06, 2024

امریکی محکمۂ انصاف کا کہنا ہے کہ آصف حفیظ، عرف سلطان، نے مینہیٹن کی ایک وفاقی عدالت میں ہیروئن، میتھ اور حشیش سمگل کرنے کی سازش کا اعتراف کیا ہے۔

18 نومبر 2024 کو امریکی اٹارنی ڈیمیئن ولیمز نے بتایا کہ آصف حفیظ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے منشیات سمگل کرنے کا ایک عالمی نیٹ ورک چلا رہے تھے۔ ان کے مطابق اس اعتراف کا مطلب ہے کہ 'دنیا میں منشیات کے سب سے طاقتور سمگلروں میں سے ایک کا احتساب ہوگا۔'

ڈیمیئن ولیمز کا یہ بھی کہنا تھا کہ آصف حفیظ امریکہ اور دنیا بھر میں 'منشیات کی خطرناک مقدار سمگل کر رہے تھے۔'

آصف حفیظ کو 25 اگست 2017 کو لندن سے گرفتار کیا گیا تھا اور 12 مئی 2023 کو ان کی امریکہ حوالگی ہوئی تھی۔ انھیں امریکی ڈسٹرکٹ جج وکٹر مریرو کی عدالت میں سزا سنائی جائے گی۔

’سلطان‘ امریکہ کو چھ سال سے مطلوب تھے

تقریباً نو سال قبل کینیا کے شہر ممباسا میں کولمبیا کے منشیات فروش گروپ کے نمائندوں کے طور پر اپنا تعارف کروانے والے دو افراد کی بکتاش عکاشہ نامی شخص سے ملاقات وہ موقع تھا جس کے بعد لاہور سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نژاد برطانوی شہری محمد آصف حفیظ عرف ’سلطان‘ پر منشیات سمگلنگ کے الزامات کے تحت گھیرا تنگ ہونا شروع ہوا تھا۔

اس ملاقات کے دوران ان افراد نے بکتاش سے کہا کہ ان کا کولمبیئن آرگنائزیشن نامی گروہ سے تعلق ہے اور وہ امریکہ میں سمگلنگ کے لیے اعلیٰ معیار کی ہیروئین خریدنا چاہتے ہیں۔

اس پر بکتاش عکاشہ نے انھیں سو فیصد ’وائٹ کرسٹل‘ یا ملاوٹ سے پاک ہیروئن سپلائی کرنے کا یقین دلایا۔

یہ دونوں افراد کسی منشیات فروش گروہ کے ارکان نہیں بلکہ دراصل انڈر کور ایجنٹس تھے جو انسداد منشیات کے امریکی ادارے ڈی ای اے کے لیے کام کر رہے تھے۔

پاکستانی نژاد آصف حفیظ کو امریکی حکام کی درخواست پر 25 اگست 2017 کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے مرکزی لندن میں واقع ان کے فلیٹ سے گرفتار کیا تھا

ان پر 2013 سے جنوری 2017 کے دوران کینیا میں ہونے والے منشیات سے متعلق واقعات میں مرکزی کردار ادا کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔

اس کیس میں کینیا سے تعلق رکھنے والے دو سگے بھائیوں بکتاش عکاشہ اور ابراہیم عبداللہ عکاشہ، بالی وڈ اداکارہ ممتا کلکرنی کے مبینہ ساتھی اور انڈین شہری وکی گوسوامی اور ایک پاکستانی شخص غلام حسین کو بھی شریک ملزم قرار دیا گیا تھا۔

لاہور کے محمد آصف حفیظ کے خلاف منشیات سمگلنگ کے الزامات کی کہانی کا آغاز ستمبر 2014 میں کینیا میں ہونے والی اس ملاقات سے ہوتا ہے جب بکتاش عکاشہ، ابراہیم عبداللہ عکاشہ، غلام حسین، وکی گوسوامی اور ایک پانچویں نامعلوم شریک ملزم کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔

اس ملاقات میں بتایا گیا کہ ہیروئین سپلائر ’سلطان‘ نے پانچویں نامعلوم شخص کو اپنے نمائندے کے طور پر بھیجا ہے۔

ملاقات کے دوران وکی گوسوامی نے ’سلطان‘ کے نمائندے کو ہیروئین کا ایک کلو گرام سیمپل مہیا کرنے کو کہا۔

اس ملاقات کے چند دن بعد آصف حفیظ نے وکی گوسوامی اور کینیا میں موجود اپنے نمائندے سے ہیروئین کے سودے کے بارے میں فون پر بات کی اور اگلے ماہ ہی ابراہیم عکاشہ نے کولمبیا ڈرگ مافیا کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے ایجنٹ سے نیروبی میں ملاقات کی اور اسے تقریباً ایک کلو گرام ہیروئین مہیا کی۔

جبکہ اسی سال نومبر میں ابراہیم عکاشہ اور ’سلطان‘ کے نمائندے نے کولمبیئن آرگنائزیشن سے تعلق ظاہر کرنے والے دونوں انڈر کور ایجنٹس سے ملاقات کی اور انھیں 98 کلو گرام ہیروئین فراہم کی۔

جبکہ 2015 میں آصف حفیظ عرف سلطان نے وکی گوسوامی کے ساتھ مل کے افریقی ملک موزمبیق کے شہر مپوٹو کے مضافات میں میتھ تیار کرنے والی ایک فیکٹری لگانے کا منصوبہ بنایا تاکہ اسے امریکہ سمیت دیگر ممالک سمگل کیا جا سکے۔

اس سلسلے میں اپریل 2016 کو ایک شخص کو افریقہ سے انڈیا بھیجا گیا تاکہ مپوٹو کے مضافات میں قائم ہونے والی فیکٹری میں استعمال کے لیے ایفیڈرین کی ایک ملٹی ٹن کھیپ کی روانگی کا بندوبست کیا جا سکے جبکہ بعد میں انڈین حکام نے سولاپور میں ایک فیکٹری پر چھاپہ مار کر 18 ٹن ایفیڈرین قبضے میں لے لی تھی۔

ان تمام واقعات کا حوالہ 2017 میں محمد آصف حفیظ عرف ’سلطان‘ کی گرفتاری کے موقع پر جاری کی گئی ایک چارج شیٹ میں کیا گیا ہے۔

اور اب تقریباً نو برس بعد آخر کار امریکی انسداد منشیات کا ادارہ ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی اپنے دیرینہ ہدف کو چھ سالہ عدالتی جنگ جیتنے کے بعد برطانیہ سے امریکی جیل منتقل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔

امریکی حکومت نے آصف حفیظ پر امریکہ میں ہیروئین، میتھ اور حشیش کی سمگلنگ کی منصوبہ بندی کے الزامات پر امریکہ کے حوالے کرنے کی درخواست کی تھی۔

ان پر امریکہ میں سمگل کرنے کے لیے ہیروئین کی پیداوار میں جانتے بوجھتے مدد فراہم کرنے کا بھی الزام ہے۔

Getty Imagesیورپی کورٹ کا فیصلہ

محمد آصف حفیظ، جنھیں عدالتی کاغذات میں ’سلطان‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کی امریکہ حوالگی سے متعلق تقریباً چھ سال پر محیط عدالتی جنگ گذشتہ ماہ اس وقت ختم ہوئی جب انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں سات ججوں پر مشتمل بینچ نے ان کی اپیل کو مسترد کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی حکومت کی طرف سے انھیں امریکہ کے حوالے کرنے کے خلاف آخری رکاوٹ بھی دور ہو گئی۔

اپنی اپیل میں آصف حفیظ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کی امریکہ حوالگی سے انھیں عالمی کنونشن کے تحت حاصل انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی کیونکہ انھیں امریکی جیلوں میں غیر انسانی اور تحقیر آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا اور انھیں جس طرح کے الزامات کا سامنا ہے امریکی عدالتوں میں انھیں عمر قید جیسی نوعیت کی سزا سنائی جا سکتی ہے اور جس میں پیرول پر رہائی کا کوئی امکان نہیں ہو گا۔

تاہم جج گیبرئیلا ککسکو شٹاڈلمائر کی سربراہی میں قائم انسانی حقوق کی یورپی عدالت کے سات رکنی بینچ نے ان کی اپیل کو مسترد کر دیا۔

اٹھارہ صفحات پر محیط اپنے فیصلے میں سات یورپی ججوں نے آصف حفیظ کے وکلا کی طرف سے پیش کیے گئے تمام دلائل پر تفصیل سے بحث کی تاہم انسانی حقوق کی یورپی عدالت کے اس بینچ نے ان کے استدلال سے اتفاق نہیں کیا۔

کولمبیا کے انتہائی مطلوب منشیات سمگلر فوجی آپریشن میں گرفتارمنشیات کی دنیا کی طاقتور تنظیم جس کو امریکہ، گرفتاریاں اور اندرونی لڑائیاں بھی کمزور نہیں کر سکےآبدوز کے ذریعے منشیات سمگلنگ: ’خوفناک لہروں کے بیچ محسوس ہوا کہ آخری وقت قریب آ گیا‘ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ میں کارروائی

اس سے پہلے سنہ 2018 کے وسط میں آصف حفیظ کی امریکہ حوالگی کی درخواست کی سماعت ہوئی تھی۔ اس موقع پر انھوں نے امریکہ میں اپنے ممکنہ ٹرائل سے پہلے اور دوران اپنے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔

اس موقع پر انھوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انھیں اپنے ساتھی قیدیوں کی طرف سے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑے گا اور انھیں ایک مخبر کے طور پر دیکھا جائے گا۔

اس سلسلے میں ان کے وکلا نے مختلف حکومتی اداروں سے ان کے روابط کے ثبوت پیش کیے جن میں انھوں نے ان اداروں کو ایسی خفیہ معلومات فراہم کی تھیں جن کی بنیاد پر بھاری مقدار میں منشیات کو قبضے میں لیا گیا۔

سماعت کے دوران امریکی اٹارنی مسٹر ایم کے نے ان کے حق میں گواہی دی۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ٹرائل سے پہلے آصف حفیظ کو مین ہیٹن میں واقع میٹروپولیٹن کوریکشن سنٹر یا بروکلین کے میٹروپولیٹن حراستی مرکز میں رکھا جائے گا جہاں ان کے لیے متعدد مشکلات ہو سکتی ہیں۔

ایک اور امریکی اٹارنی مس ڈی سی نے بھی آصف حفیظ کے حق میں گواہی دی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ انھیں جس نوعیت کے الزامات کا سامنا ہے ان میں سے ہر ایک کے لیے انھیں ممکنہ طور پر دس سال قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ان کے لیے یہ خطرہ موجود ہے کہ ان کی مجموعی سزا عمر قید ہو۔

انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکی فیڈرل سسٹم کے تحت پیرول پر رہائی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

اپنے فیصلے میں برطانوی ڈسٹرکٹ جج جان ذانی نے ان دلائل کو مسترد کر دیا تھا اور قرار دیا تھا کہ انھیں چاہے مین ہیٹن کی جیل میں رکھا جائے یا بروکلین کے حراستی مرکز میں دونوں صورتوں میں حالات اس حد سے اوپر نہیں جاتے کہ انھیں انسانی حقوق کے کنونشن کے آرٹیکل تین کے تحت حاصل حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جا سکے۔

ڈسٹرکٹ جج نے آصف حفیظ کے وکلا کے اس مؤقف کو بھی رد کر دیا تھا کہ انھیں دیگر قیدیوں کی طرف سے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ آصف حفیظ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے روابط کسی طرح سے اعلیٰ اخلاقی وجوہات کے سبب قائم کر رکھے تھے۔

انھوں نے کہا کہ حفیظ نے ان لوگوں کے بارے خفیہ معلومات قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فراہم کیں جو جرائم کی دنیا میں ان کے وسیع کاروبار میں ان کے مخالفین میں سے تھے۔

جج جان ذانی نے امریکہ حوالگی کی صورت میں آصف حفیظ کی صحت پر ہونے والے ممکنہ اثرات کے بارے میں دئیے گئے دلائل بھی مسترد کر دیے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی جیل حکام کو آصف حفیظ کی صحت کو درپیش مسائل کے بارے میں خبردار کر دیا گیا ہے اور انھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کی علاج معالجے کی ضروریات کو اچھے طریقے سے پورا کیا جائے گا۔

ڈسٹرکٹ جج نے 11 جنوری 2019 کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ان کی رائے میں آصف حفیظ کی امریکہ حوالگی کے سلسلے میں تمام تقاضے پورے ہو رہے ہیں اور اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اپنی ان آرا کے ساتھ انھوں نے معاملہ سیکریٹری آف سٹیٹ برائے داخلہ کو بھیج دیا جنھوں نے پانچ مارچ 2019 کو آصف حفیظ کی امریکہ حوالگی کا حکم دے دیا۔

لندن ہائی کورٹ نے کیا فیصلہ دیا

اس سے پہلے کہ سیکریٹری آف سٹیٹ برائے داخلہ کے حکم پر عمل درآمد ہوتا، آصف حفیظ نے لندن ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا اور سیکریٹری آف سٹیٹ برائے داخلہ کے حکم کے خلاف اپیل کی اجازت مانگی۔

ان کی درخواست پر ابتدائی سماعت 27 ستمبر 2019 کو ہوئی۔ بعد میں اس سلسلے میں باقاعدہ سماعت دسمبر 2019 میں ہوئی۔ سماعت کے دوران درخواست دہندہ نے حراست کے دوران سہولتوں کی عدم دستیابی اور دیگر معاملات سے متعلق نئے شواہد عدالت کے سامنے پیش کرنے کی استدعا کی جسے مسترد کر دیا گیا۔

آصف حفیظ کے مخبر ہونے کے دعوے پر عدالت نے کہا کہ امریکی حکومت انھیں ایک مخبر نہیں سمجھتی اور اس بنیاد پر وہ اس ’اسٹیٹس کا فائدہ حاصل نہیں کر سکتے جو انھیں حاصل ہی نہیں ہے۔‘

کیس کے دیگر پہلوؤں سے متعلق پیش کیے گئے دلائل بھی عدالت کو اس امر پر مطمئن نہ کر سکے کہ آصف حفیظ کو باقاعدہ اپیل کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ لندن ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ 31 جنوری 2020 کو جاری کیا۔

اس کے بعد آصف حفیظ نے انسانی حقوق کی یورپی عدالت سے رجوع کیا جس نے 24 مارچ 2020 کو ایک عبوری حکم امتناع جاری کرتے ہوئے ان کی امریکہ حوالگی کی کارروائی کو روک دیا تھا۔

شریک ملزمان کے ساتھ کیا ہوا؟

آصف حفیظ کے چار شریک ملزمان بکتاش عکاشہ، ابراہیم عبداللہ عکاشہ، وکی گوسوامی کو ابتدائی طور پر نو نومبر سن 2014 کو کینیا میں گرفتار کیا گیا لیکن بعد میں وہ ضمانت پر رہا ہو گئے جبکہ ان کی امریکہ حوالگی کا کیس کینیا کی عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔

تاہم 29 جنوری 2017 کو کینیا کی حکومت نے ان کی ملک بدری کے احکامات جاری جن کی بنیاد پر انہیں حراست میں لے کر امریکہ لے جایا گیا۔

نیویارک کی سدرن ڈسٹرکٹ میں ٹرائل کے بعد بکتاش عکاشہ کو اگست 2019 میں 25 سال قید اور ایک لاکھ ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

بعد میں جنوری 2020 میں اختتام پذیر ہونے والے ایک ٹرائل کے نتیجے میں ابراہیم عبداللہ عکاشہ کو 23 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

ابھی تک امریکی حکومت کی طرف سے دیگر دو شریک ملزمان کے بارے میں کچھ واضح نہیں کیا گیا۔

منشیات کی دنیا کی طاقتور تنظیم جس کو امریکہ، گرفتاریاں اور اندرونی لڑائیاں بھی کمزور نہیں کر سکےکولمبیا کے انتہائی مطلوب منشیات سمگلر فوجی آپریشن میں گرفتارانڈیا میں مبینہ ’پاکستانی کشتی‘ سے 77 کلو گرام ہیروئن برآمد، چھ افراد گرفتارآبدوز کے ذریعے منشیات سمگلنگ: ’خوفناک لہروں کے بیچ محسوس ہوا کہ آخری وقت قریب آ گیا‘’الچاپو گوزمین‘ جیسے کرداروں پر دنیا تنگ کیسے ہوئی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More