Getty Images
برطانوی حکومت نےبرطانیہ میں سیاسی پناہ کے طریقہ کار میں بڑی تبدیلیاں متعارف کرائی ہیں جن کے تحت پناہ حاصل کرنے والوں کو برطانیہ میں مستقل سکونت کی درخواست دینے کے لیے 20 سال انتظار کرنا ہو گا، اس سے پہلے یہ مدت پانچ برس تھی۔
برطانیہ کی وزیر داخلہ شبانہ محمود نے ان تبدیلیوں کا مسودہ پارلیمان میں پیش کر دیا ہے، لیکن برطانیہ کے ہوم آفس نے اسے اپنی ویب سائٹ پر بھی شائع کر دیا ہے۔
مجوزہ تبدیلیوں میں برطانیہ میں سیاسی پناہ کے خواہشمندوں کو پانچ سال ملک میں رہنے کی اجازت کم کر کے 30 ماہ کر دی گئی ہےاور اس میں اُسی صورت میں توسیع کی جائے گی جب تعین ہو سکے گا کہ مذکورہ شخص کو تحفظ کی ضرورت ہے یا نہیں۔
اگر حکام کو یہ لگے کہ اب اسے اپنے ملک میں کوئی خطرہ نہیں تو اس شخص کو واپس بھجوا دیا جائے گا۔
مجوزہ تبدیلیوں کے تحت مستقبل میں کور پروٹیکشن کے تحت برطانیہ میں پناہ حاصل کرنے والوں کو 20 سال ملک میں گزارنے کے بعد مستقل سکونت کی درخواست دینے کا حق ہو گا۔ پناہ کی درخواست مسترد ہونے پر صرف ایک مرتبہ اپیل کا حق ہو گا اور اگر اپیل منظور نہ ہوئی تو درخواست گزار کو واپس اس کے ملک بھجوا دیا جائے گا۔
PA Mediaبرطانوی وزیر داخلہ شبانہ محمودسیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے پر صرف ایک اپیل کا حق
کور پروٹیکشن کے تحت برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کو حکومت رہائش کے ساتھ ساتھ مالی مدد دیتی ہے جبکہ اُنھیں وہاں کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
لیکن نئی تجاویز میں کہا گیا ہے کہ پناہ گزینوں کو معاشرے میں ضم کرنے کے لیے اُن کی کور پروٹیکشن سے نکلنے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
اُنھیں ملازمت حاصل کرنے یا تعلیم کے حصول کے مواقع فراہم کیے جائیں گے تاکہ وہ اپنے اخراجات خود برداشت کریں۔
مجوزہ تبدیلیوں میں پناہ کی درخواست مسترد ہونے پر درخواست گزار کو اس کے ملک واپس بھیجنے، غیر قانونی طور پر برطانیہ میں کام کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاون میں تیزی اور سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو رکھنے والے ہوٹلز میں کمی کی بھی تجاویز ہیں۔
ہوم آفس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ برطانیہ میں سیاسی پناہ کے خواہش مندوں کو دی جانے والی رہائشی سہولیات ٹیکس دہندگان پر بوجھ بن رہی ہیں، لہذا حکومت اس میں کمی چاہتی ہے۔
برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کے اہلخانہ کو بلانے کے قوانین میں بھی تبدیلیوں کی تجاویز ہیں۔
مجوزہ تبدیلیوں کے تحت اب اگر یہ پناہ گزین کور پروٹیکشن کو چھوڑ کر سٹڈی یا ورک ویزا حاصل کرتے ہیں تو اسی صورت میں وہ اپنے اہلخانہ کو سپانسر کرنے کے اہل ہوں گے۔
برطانیہ نے تین افریقی ممالک انگولا، کانگو اور نمیبیا کو خبردار کیا ہے کہ اگر اُنھوں نے اپنے برطانیہ میں غیر قانونی طور پر مقیم اپنے شہریوں کی واپسی کے لیے اقدامات نہ کیے تو ان ممالک کے شہریوں پر ویزہ پابندی لگ سکتی ہے۔
Getty Images’ٹوٹ پھوٹ کا شکار اسائلم سسٹم ٹھیک کرنا اخلاقی ذمے داری ہے‘
پارلیمینٹ سے اپنے خطاب میں برطانوی وزیرِ داخلہ شبانہ محمود کا کہنا تھا کہ برطانیہ کا ٹوٹ پھوٹ کا شکار اسائلم سسٹم ٹھیک کرنا اُن کی اخلاقی ذمے داری ہے۔ یہ اصلاحات ملک کو متحد کریں گی۔
شبانہ محمود کا کہنا تھا کہ اُن کی حکومت بارڈر پر امن و امان بحال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
شبانہ محمود کے بقول حکومت پناہ کے متلاشیوں کو رکھنے والے ہر ہوٹل کو جلد از جلد بند کرنے کے لیے کام کر رہی ہے، لیکن یہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ برطانیہ یورپی کنونشن ان ہیومن رائٹس (ای سی ایچ آر) کو چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ لیکن اس میں اصلاحات کی جائیں گی، خاص طور پر آرٹیکل آٹھ جو رازداری اور فیملی لائف کے حق کا حوالہ دیتا ہے۔
برطانیہ میں اس سے پہلے پناہ کی درخواست کے ضوابط کیا تھے؟
انگلش چینل کے راستے برطانیہ پہنچنے والے تارکین وطن کی اکثریت اس امید پر برطانیہ میں پناہ کی درخواست دائر کرتی ہے کہ انھیں مہاجر کا درجہ مل جائے گا جس کا مطلب ہے کہ وہ یہاں رہ سکیں گے۔ ان کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنے ملک واپس گئے تو انھیں مذہبی، نسلی، قومیت، سیاسی خیالات، صنفی شناخت یا جنسی رجحانات کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تارکین وطن پناہ کی درخواست میں پارٹنر یا آٹھارہ برس سے کم عمر بچوں کو بھی شامل کر سکتا ہے، اگر وہ بھی برطانیہ میں ہی ہیں۔
ان درخواستوں کا فیصلہ کیس ورکر کرتے ہیں۔ پناہ کی درخواستوں پر غور کرتے ہوئے پناہ گزین کی آبائی ملک کے حالات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
پناہ کی درخواست کا فیصلہ چھ مہینوں کے اندر ہونا چاہیے لیکن اکثر اس سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔
جس کسی کو مہاجر کا درجہ مل جائے وہ اپنے خاندان کے ہمراہ پانچ برس تک برطانیہ میں رہ سکتا ہے اور پانچ سال مکمل ہونے پر وہ برطانیہ میں مستقل سکونت کی درخواست کر سکتا ہے۔
اس کے برعکس اگر کسی کو انسانی بنیادوں پر برطانیہ میں رہنے کی اجازت مل جائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مہاجرین کا درجہ تو حاصل نہیں کر سکتے لیکن انھیں واپس اپنے ملک بھیجے جانے پر درج ذیل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے:
موت کی سزاغیر قانونی ہلاکتتشدد اور ذلت آمیز سلوکاور جنگ کے دوران عام شہریوں کی زندگی کو لاحق خطرات
ایسے تارکین وطن جنھیں انسانی بنیادوں پر برطانیہ میں رہنے کی اجازت مل چکی ہے یا مہاجر کا درجہ مل چکا ہو تو وہ برطانیہ سے باہر موجود اپنے زیر کفالت لوگوں کو برطانیہ آنے کی اجازت دینے کی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔
انگلش چینل: غیر قانونی طریقے سے برطانیہ میں داخلے کی کوشش کرنے والوں کے لیے قوانین کیا ہیں؟تارکین وطن نے پولینڈ کی سرحد پر ہلّہ بول دیابرطانیہ کی نئی ویزا پالیسی کا ممکنہ ہدف پاکستان اور نائیجریا جیسے ممالک کیوں ہیں؟امریکی ویزا پابندیاں: پاکستانیوں کا 'امریکی ڈریم' خطرے میں
اس کے علاوہ اور کئی وجوہات کی بنا پر لوگوں کو برطانیہ میں رہنے کی اجازت مل سکتی ہے۔ مثال کے طور اگر کوئی بچہ جس کے ساتھ کوئی سرپرست نہیں یا وہ انسانی سمگلنگ کا شکار ہوا ہو، ایسے افراد کتنا عرصہ برطانیہ میں رہ سکتے ہیں، اس کا انحصار ان کی صورتحال پر ہے۔
اگر پناہ کی درخواست مسترد ہو جائے اور برطانیہ میں رکنے کا کوئی اور جواز بھی قبول نہ ہو تو پناہ کے طالب کو رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے یا طاقت کے ذریعے نکل جانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ ایسے افراد جن کی پناہ کی درخواست مسترد ہو جائے وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔
2004 سے 2020 کے درمیان ایسی تقریباً 30 فیصد اپیلیں کامیاب ہوئی تھیں۔ اپیل دائر ہونے کے دوران درخواست گزار کو برطانیہ میں رہنے کا حق دیا جاتا ہے اور انھیں قانونی معاونت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ ان اپیلوں کے فیصلے میں اکثر برسوں لگ جاتے ہیں۔ اس دوران انھیں مالی اور رہائشی مدد جاری رہتی ہے۔
کیا ان اصلاحات پر عمل درآمد ممکن ہو سکے گا؟
حکومت ان تبدیلیوں کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سیاسی پناہ کے نظام میں سب سے اہم اصلاحات قرار دے رہی ہے۔
برطانوی وزیرِ اعظم کیئر سٹارمر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان اصلاحات سے سیاسی پناہ کی لامحدود اپیلوں کا راستہ رکے گا اور ایسے افراد کو برطانیہ سے جانا پڑے گا جن کے پاس یہاں رہائش کا حق نہیں ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی مائیگریشن آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ ان اصلاحات سے برطانیہ کا امیگریشن نظام یورپ کے سخت ترین ممالک جیسا ہو جائے گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے چھوٹی کشتیوں کی آمد کی تعداد کم ہو جائے گی۔
تنظیم کے ایک سینئر محقق ڈاکٹر پیٹر والش کا کہنا ہے کہ ’یہ اتنا آسان نہیں ہو گا اور میرے خیال میں حکومت بھی یہ تسلیم کرتی ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ اب ان اصلاحات کو نافذ کرنے کے لیے ایک وسیع حکمتِ عملی کی ضرورت ہو گی۔ وہ پوچھتے ہیں کہ کیا لوگوں کو ان پابندیوں کے بارے میں معلوم ہو گا؟ کیا یہ انھیں روکنے کے لیے کافی ہے۔۔۔ اس کے لیے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔
پیٹر والش کا کہنا تھا کہ برطانیہ کو پناہ گزینوں کے لیے کم پرکشش بنانا ایک بہت طویل مدتی لڑائی ہے۔
اس لڑائی میں حکومت کا مقابلہ اُن جدید سمگلنگ گروہوں سے ہے جو وقت اور حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیتے ہیں۔
Getty Imagesتارکینِ وطن کی آمد میں اضافہ ہوا یا کمی؟
بی بی سی ویریفائی کے مطابق برطانیہ میں رواں برس چھوٹی کشتیوں کی آمد میں اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ تعداد ریکارڈ نہیں ہے۔
حکومت چھوٹی کشتیوں کے ذریعے انگلش چینل عبور کرنے والوں کی تعداد کم کرنا چاہتی ہے۔
بی بی سی ویریفائی کے سینئر ڈیٹا جرنلسٹ کرسٹین جیونز نے ان اعداد و شمار کا جائزہ لیا ہے۔
کچھ دنوں تک تارکین وطن کی جانب سے انگلش چینل عبور کرنے کا پتہ نہیں چلا، لیکن گذشتہ ہفتے کے آخر میں یہ تعداد بڑھ گئی۔
جمعے کے روز تقریباً 217 تارکین وطن نے انگلش چینل کو عبور کیا جس سے رواں برس مجموعی تعداد 39 ہزار 292 ہو گئی۔ یہ سنہ 2024 کے مقابلے میں زیادہ ہے، لیکن 2022 کے ریکارڈ سے کم ہے، جب 45 ہزار 774 تارکین وطن نے انگلش چینل عبور کیا تھا۔
’19 لاکھ روپے خرچ کر کے آیا لیکن کالج میں کلاس روم ہے نہ عملہ‘ کینیڈا کے سٹوڈنٹ ویزا پر ایجنٹ کیسے فراڈ کرتے ہیں؟ایچ ون بی: امریکہ کا وہ ویزا پروگرام جس پر ٹرمپ کے حامی آپس میں الجھ رہے ہیں’شینگن ویزا‘ کا حصول کس طرح ’بلیک مارکیٹ‘ میں پیسہ کمانے کا ذریعہ بن رہا ہےبرطانیہ پناہ کے خواہشمند غیر قانونی تارکین وطن کو روانڈا کیوں بھیج رہا ہے؟اُن افراد کی زندگی کیسی ہوتی ہے جو برطانیہ میں پناہ کی تلاش میں آتے ہیں؟