پونچھ کے مدرسہ معلم محمد اقبال جنھیں ہلاکت کے بعد انڈین میڈیا نے ’پاکستانی دہشت گرد‘ بنا دیا

بی بی سی اردو  |  May 26, 2025

فاروق احمد اب بھی اپنے بھائی کی موت کا ذکر کرتے ہوئے غصے سے بھر جاتے ہیں۔

ان کے بھائی محمد اقبال انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پونچھ شہر کے رہائشی تھے اور سات مئی کو ہونے والی گولہ باری میں ہلاک ہو گئے تھے۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب انڈیا نے کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ایک شدت پسند حملے کے جواب میں پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر فضائی حملے کیے۔ واضح رہے کہ پہلگام کے حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے اور انڈیا اس کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے جبکہ پاکستان اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کرتا ہے۔

فاروق احمد کہتے ہیں کہ اقبال کی ہلاکت پونچھ میں واقع اسی مدرسہ ضیاء العلوم میں ہوئی جہاں وہ گذشتہ دو دہائیوں سے درس و تدریس کا کام کر رہے تھے۔

لیکن ان کی موت ان کے خاندان کی مشکلات کا محض آغاز ثابت ہوئی۔

ان کی موت کی خبر پھیلنے کے بعد کئی میڈیا چینلز نے اقبال پر ’دہشت گرد‘ ہونے کا جھوٹا الزام لگایا لیکن پھر پولیس نے ایک بیان جاری کیا جس میں ان دعوؤں کو مسترد کر دیا گیا۔

مسٹر احمد کہتے ہیں کہ ’میرا بھائی ایک معلم تھا، لیکن انھوں نے اس کی داڑھی اور ٹوپی دیکھ کر اسے دہشت گرد قرار دیا۔‘

’یہ زخموں پر نمک چھڑکنے کے مانند تھا۔ ہم اپنے بھائی اقبال کو کھو چکے تھے اور میڈیا نے انھیں بدنام کر دیا تھا۔ مرنے والے تو اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتے۔‘

انڈین حکام کا کہنا ہے کہ فضائی حملوں کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان چار روزہ فوجی تنازع میں سرحد پار گولہ باری کے دوران اقبال سمیت کل 16 افراد ہلاک ہوئے۔

پاکستان نے اپنے 40 شہریوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے اگرچہ یہ واضح نہیں کہ ان میں سے کتنے افراد کی ہلاکت براہ راست گولہ باری سے ہوئی۔

خطے کی ان دو جوہری طاقتوں کے درمیان گذشتہ کئی دہائیوں سے کشیدہ تعلقات ہیں اور اس کی وجہ ہمالیہ کا خطۂ کشمیر ہے جس کے الگ الگ حصوں پر ان کی عملداری ہے لیکن وہ پورے خطے پر اپنا اپنا دعوی پیش کرتے ہیں۔

ان ممالک نے 1947 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سے کشمیر کے لیے تین جنگیں لڑی ہیں اور رواں ماہ کے آغاز میں ایک اور جنگ کے دہانے سے واپس آئے ہیں۔

لیکن جیسے جیسے فوجی تنازع بڑھا سوشل میڈیا پر ایک اور جنگ شروع ہو گئی جو کہ غلط معلومات پر مبنی تھی۔ اور اس طرح دونوں جانب سے دعوے اور جوابی دعوے انٹرنیٹ اور ٹی وی پر گردش کرنے لگے۔

اقبال کی شناخت کے بارے میں افواہوں کی طرح کئی دیگر گمراہ کن اور غلط معلومات بھی کچھ مرکزی دھارے کے نیوز چینلز اور ویب سائٹس پر دیکھی گئیں۔

ان دعوؤں میں یہ بھی شامل تھا کہ انڈیا نے پاکستان کی کراچی بندرگاہ تباہ کر دی ہے، جسے بعد میں حکومت نے غلط دعویٰ قرار دیا۔

بعض جعلسازیوں اور غلط بیانیوں کو پہچاننا زیادہ مشکل تھا کیونکہ وہ مصنوعی ذہانت سے تیار کی گئی تھیں۔ ایسی ہی ایک فیک ویڈیو میں ایک پاکستانی فوجی جنرل کا دعویٰ پیش کیا گیا کہ پاکستان نے جنگ میں دو طیارے کھو دیے ہیں۔

آزاد نیوز پلیٹفارم ’نیوز لانڈری‘ کی مینیجنگ ایڈیٹر منیشا پانڈے کہتی ہیں کہ ’میڈیا کی طرف سے غلط معلومات اور بے بنیاد دعوے نشر کرنا چونکا دینے والا تھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ ریٹنگ کی دوڑ میں کچھ حد تک سنسنی خیزی کی توقع کی جاتی ہے لیکن اس تنازع کی ’جارحانہ وطن پرستی اور غیر ذمہ دارانہ کوریج‘ اپنی شدت میں بے مثال تھی اور یہ کہ انھوں نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

اور اس چیز کو مسٹر فاروق احمد سے بہتر کوئی اور نہیں جان سکتا۔

فاروق احمد کہتے ہیں: ’مجھے نہیں معلوم کہ نیوز چینلز کو میرے بھائی کے بارے میں معلومات کہاں سے ملیں۔‘

وہ اس کے متعلق یہ سوال کرتے ہیں کہ ’انھوں نے کس سے بات کی؟ ان کے پاس کیا شواہد تھے کہ میرا بھائی دہشت گرد تھا؟‘

ہفتوں بعد بھی ان کا خاندان ابھی تک اس سانحے سے سنبھل نہیں پایا ہے۔

مودی کی کشمیر پالیسی پر اُٹھتے سوالات: پہلگام حملے کو حکومت اور سکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی کیوں کہا گیا؟انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را کی فنڈنگ‘: راولپنڈی میں کشمیری کمانڈر کو قتل کرنے والے شاہزیب تک پولیس کیسے پہنچی؟انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں شیلز کا خوف اور ٹوٹے پھوٹے مکان: ’میری بیٹی تو اب رات کو ستاروں سے بھی ڈرنے لگی ہے‘’پورٹر میری والدہ کو اپنی پیٹھ پر لاد کر نیچے لایا‘: پہلگام حملے کے بعد کشمیر کے مسلمانوں نے کس طرح سیاحوں کی مدد کی؟

فاروق احمد کہتے ہیں کہ سات مئی کی صبح ان کے بھائی معمول کے مطابق مدرسے کے لیے گھر سے نکلے تھے لیکن پھر ان کی لاش ہی واپس آئی۔ دوپہر تک انھیں قریبی قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔

کچھ وقت تک تو ان کے خاندان کو علم ہی نہیں تھا کہ کچھ میڈیا ادارے جھوٹ پر مبنی خبریں پھیلا رہے ہیں جبکہ وہ اقبال کے آخری رسومات میں مصروف تھے۔

کچھ گھنٹوں کے بعد ان کے ایک رشتہ دار کو واٹس ایپ پر ایک ویڈیو کلپ موصول ہوا۔ یہ ایک معروف نیوز چینل کی رپورٹ تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انڈین فوج نے ایک دہشت گرد کو ہلاک کر دیا ہے اور سکرین پر اقبال کی تصویر دکھائی جا رہی تھی۔

Getty Imagesانڈیا نے سات مئی کو پاکستان کے مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا

اقبال کے بھائی فاروق احمد کہتے ہیں کہ ’ہم سکتے میں آ گئے۔ جلد ہی ہمیں لوگوں کی طرف سے مزید فون آنے لگے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور میڈیا اقبال کو دہشت گرد کیوں کہہ رہا ہے۔‘

زی نیوز، اے بی پی اور نیوز 18 جیسے کئی معروف نیوز چینلز پر اقبال کے متعلق دعویٰ نشر کیا گيا۔ بی بی سی نے ان چینلز سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا ہے۔

ایک چینل نے دعویٰ کیا کہ اقبال پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ’ایک دہشت گرد کیمپ پر انڈین حملے‘ میں مارا گیا اور یہ کہ ’وہ پاکستان میں قائم شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ سے تعلق رکھتا تھا۔‘

فاروق احمد کہتے ہیں کہ ’ہمارے خاندان کے افراد نسلوں سے پونچھ میں رہ رہے ہیں۔ وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میرا بھائی پاکستان میں رہتا تھا؟ انھیں (میڈیا) شرم آنی چاہیے۔‘

اقبال پر الزام اس قدر تیزی سے پھیل گیا کہ آٹھ مئی کو پونچھ پولیس نے ایک بیان جاری کیا جس میں واضح کیا گیا کہ اقبال کی موت مدرسے میں گولہ باری سے ہوئی۔

پولیس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ’پونچھ پولیس ایسے جھوٹے بیانیے کو سختی سے مسترد کرتی ہے۔ مرحوم مولانا محمد اقبال مقامی کمیونٹی میں ایک معزز دینی شخصیت تھے اور ان کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘

اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ جھوٹی خبر پھیلانے والے کسی بھی میڈیا ادارے یا فرد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ لیکن مسٹر احمد کے لیے یہ بیان بہت دیر سے آیا۔

BBCانڈین حکام کا کہنا ہے کہ فضائی حملوں کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان چار روزہ فوجی تنازع میں سرحد پار گولہ باری کے دوران اقبال سمیت کل 16 افراد ہلاک ہوئے (فائل فوٹو)

وہ کہتے ہیں کہ بیان کے آنے تک تو ’جھوٹا دعویٰ انڈیا کے کروڑوں لوگوں تک پہنچ چکا تھا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ صرف ایک چینل نیوز 18 نے ان سے یا اپنے ناظرین سے سرعام معافی مانگی۔

فاروق احمد کہتے ہیں کہ وہ ان چینلز کے خلاف قانونی کارروائی کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ عمل فی الحال ملتوی کرنا پڑے گا کیونکہ خاندان مالی مشکلات کا شکار ہے۔

اقبال کی دو بیویاں اور آٹھ بچے ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے۔

مسٹر احمد کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے ملنے والا چند لاکھ روپے کا معاوضہ بمشکل ایک یا دو سال چلے گا اور انھیں مستقبل کی تیاری ابھی سے شروع کرنا ہوگی۔

فاروق احمد کہتے ہیں کہ ’پورا خاندان میرے بھائی پر منحصر تھا۔ وہ خاموش طبع اور شفیق انسان تھے، جنھیں بچوں کو پڑھانے سے محبت تھی۔‘

’لیکن یہ دنیا کو کون بتائے گا؟ بہت سے لوگوں کے لیے میرا بھائی اب بھی ایک دہشت گرد ہے، جس کا مارا جانا جائز تھا۔ وہ ہمارے دکھ کو کیسے سمجھیں گے؟‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سرینگر سے عاقب جاوید کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ

’پورٹر میری والدہ کو اپنی پیٹھ پر لاد کر نیچے لایا‘: پہلگام حملے کے بعد کشمیر کے مسلمانوں نے کس طرح سیاحوں کی مدد کی؟کشمیر میں مذہب، سیاست اور ثقافت کی علامت چنار کا درخت جس کا بچاؤ اب ’جیو ٹیگِنگ‘ سے ہو گاپہلگام حملہ: کیا انڈین حکومت کو اپنی سکیورٹی حکمت عملی تبدیل کرنا ہو گی؟’یہ ہمارا سات اکتوبر ہے‘: پہلگام حملے کے بعد انڈین میڈیا میں ’جنگ کے نعرے‘، پاکستان میں فالس فلیگ آپریشن کی گونجپہلگام حملے کے بعد ’سکیورٹی ناکامی‘ پر انڈیا میں اٹھنے والے سوال جن کے جواب اب تک نہیں مل پائےانڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں شیلز کا خوف اور ٹوٹے پھوٹے مکان: ’میری بیٹی تو اب رات کو ستاروں سے بھی ڈرنے لگی ہے‘ایل او سی کے دونوں اطراف رہنے والوں کا مشترکہ دکھ: ’اب چاہے جنگ ہو یا سیز فائر ہمارے بچے واپس نہیں آئیں گے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More