پاکستان کا اضافی بجلی سے بٹ کوائن کی مائننگ کا منصوبہ کتنا قابلِ عمل ہے؟

بی بی سی اردو  |  May 26, 2025

Getty Images

حکومت پاکستان نے بٹ کوائن کی مائننگ اور مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز کے لیے دو ہزار میگاواٹ بجلی مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ ملک میں کرپٹو کرنسی کو تاحال قانونی حیثیت یا فریم ورک حاصل نہیں ہے تاہم یہ اقدام اس سمت میں پہلا بڑا قدم سمجھا جا رہا ہے۔

وزارتِ خزانہ کے مطابق اس اقدام کا مقصد سرپلس یا اضافی بجلی کو منافع بخش اثاثے میں تبدیل کرنا، جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر روزگار کے مواقع پیدا کرنا، اربوں ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو ملک میں لانا اور قومی خزانے کے لیے خطیر زرمبادلے کا حصول ہے۔

بیان کے مطابق پاکستان میں جو بجلی ضائع ہو رہی تھی یا پوری طرح استعمال نہیں ہو رہی تھی، اب اُسے بٹ کوائن مائننگ اور اے آئی ڈیٹا سینٹرز میں استعمال کیا جا سکے گا۔ ’یہ مراکز مسلسل اور زیادہ مقدار میں بجلی استعمال کرتے ہیں، اس سے اضافی بجلی کا مؤثر استعمال ممکن ہوگا اور حکومت کو زرمبادلہ کمانے کا موقع ملے گا۔‘

خیال رہے کریپٹو مائننگ، خاص طور پر بٹ کوائن مائننگ ایک ایسا ڈیجیٹل عمل ہے، جس میں طاقتور کمپیوٹرز ڈیجیٹل حساب کتاب کے ذریعے نئی کرپٹو کرنسی بناتے اور ٹرانزیکشنز کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس کے لیے بڑی مقدار میں بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔

Getty Images

ہر دس منٹ میں نیا بلاک بنانے کے لیے کمپیوٹرز کو تیز رفتاری سے کام کرنا پڑتا ہے اور بٹ کوائن کی قدر بڑھنے کے ساتھ مائنرز اور بجلی کی کھپت بھی بڑھتی ہے۔ اس کا مقصد نیٹ ورک کو محفوظ اور مضبوط بنانا ہوتا ہے تاکہ کسی بھی قسم کا حملہ انتہائی مشکل ہو جائے۔

بٹ کوائن مائننگ پولینڈ جیسے ایک چھوٹے ملک جتنی توانائی استعمال کرتی ہے۔ سنہ 2021 میں کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ بٹ کوائن مائننگ میں سالانہ تقریباً 121.36 ٹیرا واٹ آور توانائی استعمال ہوتی ہے جو ارجنٹینا کی سالانہ بجلی کی کھپت کے برابر ہے۔

کیمرج کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق بٹ کوائن نیٹ ورک اس وقت تقریباً 21.35 گیگا واٹ بجلی استعمال کر رہا ہے جو سالانہ 187.13 ٹیرا واٹ آور بنتی ہے۔یہ ارجنٹینا، نیدرلینڈز اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کی سالانہ توانائی کھپت سے بھی زیادہ ہے۔

اس مضمون میں ہم نے کرپٹو اور توانائی کے شعبوں سے وابستہ ماہرین سے بات کرکے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ حکومت کا یہ منصوبہ کس حد تک قابلِ عمل ہے، اس پر عمل درآمد میں کن رکاوٹوں کا سامنا ہو سکتا ہے اور اس سے ممکنہ طور پر کیا فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

مگر اس سے پہلے جانتے ہیں کہ حکومت نے کیا کہا ہے اور پاکستان کا اضافی بجلی کو ڈالروں میں تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے کیا۔

پاکستان کا اضافی بجلی کو ڈالروں میں تبدیل کرنے کا منصوبہ کیا ہے؟

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ کہ بٹ کوائن مائننگ اور اے آئی ڈیٹا سینٹرز کے لیے 2000 میگاواٹ اضافی بجلی دی جائے گی، پاکستان کی ڈیجیٹل ترقی کی جانب ایک اہم قدم ہے جس سے اضافی بجلی کو ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری اور زرمبادلہ میں بدلا جا سکے گا۔

وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کرپٹو کونسل (پی سی سی) کی قیادت میں شروع کیا جا رہا ہے جو وزارتِ خزانہ کے ماتحت ایک سرکاری ادارہ ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان جغرافیائی اور اقتصادی لحاظ سے ایک منفرد مقام رکھتا ہےجو ایشیا، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ایک ڈیجیٹل پل بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی عالمی کمپنیاں یہاں کرپٹو مائننگ اور ڈیٹا سینٹرز میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہی ہیں۔

بیان کے مطابق ضائع ہونے والی بجلی کو اب بٹ کوائن مائننگ اور اے آئی ڈیٹا سینٹرز میں استعمال کر کے اس سے فائدہ اٹھایا جائے گا اور حکومت کو زرمبادلہ کمانے کا موقع ملے گا۔

پاکستان کرپٹو کونسل کے سی ای او بلال بن ثاقب کا کہنا ہے کہ اگر اس شعبے کو قانون سازی، شفافیت اور عالمی تعاون کے ساتھ فروغ دیا جائے تو پاکستان کرپٹو اور اے آئی کا عالمی مرکز بن سکتا ہے۔ ان کے مطابق یہ قدم نہ صرف سرمایہ کاری کے دروازے کھولتا ہے بلکہ حکومت کو امریکی ڈالر میں آمدنی حاصل کرنے کا موقع بھی دیتا ہے۔ مستقبل میں حکومت بٹ کوائن کو 'نیشنل والیٹ' میں محفوظ کر کے قیمتی ڈیجیٹل اثاثے جمع کر سکتی ہے جو ایک بڑی معاشی تبدیلی ثابت ہو سکتی ہے۔

’جھاڑیوں میں بٹ کوائن مائننگ‘ لیکن گاؤں میں رہنے والوں کو ہزاروں ڈالر کے بٹ کوائن میں دلچسپی نہیںپاکستان میں کرپٹو کونسل کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی اور یہ ملک کے لیے کتنا فائدہ مند ثابت ہو گا؟’کرپٹو کی دنیا کو ہلا دینے والا‘ اربوں ڈالر کا فراڈ جس میں ایک ملک کے صدر بھی ملوث ہیںایک بٹ کوائن کی قیمت 69 ہزار ڈالر سے زیادہ: بٹ کوائن کیا ہے اور یہ ڈیجیٹل کرنسی کیسے کام کرتی ہے؟

وزارت کے مطابق پاکستان میں بجلی کی قیمت انڈیا اور سنگاپور جیسے ممالک کے مقابلے میں کم ہے جہاں مہنگی بجلی اور زمین کی قلت اس شعبے کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ پاکستان کے پاس سستی بجلی، دستیاب زمین اور افرادی قوت جیسے وسائل موجود ہیں جو اسے اس شعبے میں آگے بڑھنے کا نایاب موقع فراہم کرتے ہیں۔

یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ حال ہی میں دنیا کی سب سے بڑی انٹرنیٹ سب میرین کیبل (افریقہ ٹو کیبل پراجیکٹ) پاکستان پہنچی ہے جو انٹرنیٹ کی رفتار، ڈیٹا سیکیورٹی اور کنیکٹیویٹی کو بہتر بنائے گی اور یہی عوامل ڈیٹا سینٹرز کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔

وزارت کے مطابق پاکستان کی 25 کروڑ سے زائد آبادی اور چار کروڑ سے زیادہ کرپٹو صارفین اسے خطے کی بڑی ڈیجیٹل طاقت بنا سکتے ہیں۔ مقامی اے آئی ڈیٹا سینٹرز سے نہ صرف ڈیٹا پر خودمختاری بڑھے گی بلکہ آئی ٹی، انجینیئرنگ اور ڈیٹا سائنسز میں ہزاروں نئی نوکریاں بھی پیدا ہوں گی۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکومت آئندہ مرحلے میں قابلِ تجدید توانائی سے چلنے والے ڈیٹا سینٹرز، عالمی شراکت داری، فِن ٹیک ہبز اور دیگر ڈیجیٹل منصوبے متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ مختلف مراعات بھی دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

Getty Imagesچیلنجز کیا ہیں اور یہ منصوبہ کتنا قابلِ عمل ہے؟

ماہرِ اقتصادیات عمار حبیب خان کا کہنا ہے کہ کرپٹو مائننگ کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ سستی بجلی کیسے فراہم کی جائے، یعنی وہ قیمت کیا ہو جس پر یہ منصوبہ مالی طور پر فائدے مند ہو۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کرپٹو مائننگ اُس وقت ہی منافع بخش ہوتی ہے جب بجلی کی قیمت 4-5 سینٹ فی یونٹ ہو جبکہ پاکستان میں جو سرپلس بجلی موجود ہے وہ زیادہ تر جنوبی علاقوں میں درآمدی کوئلے سے پیدا ہو رہی ہے جس کی فیول لاگت ہی 5 سے 6 سینٹ فی یونٹ بنتی ہے۔ ’جب اس میں ترسیل اور تقسیم کے اضافی اخراجات شامل کیے جائیں تو کل لاگت تقریباً 7 سے 8 سینٹ فی یونٹ ہو جاتی ہے، جو کرپٹو مائننگ کے لیے منافع بخش نہیں۔‘

عمار کے مطابق دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ اگر حکومت کرپٹو منصوبوں کے لیے رعایتی نرخ پر بجلی فراہم کرتی ہے تو پھر وہی نرخ دیگر صنعتوں کو بھی دینے ہوں گے، کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کسی بھی شعبے کے ساتھ امتیازی سلوک یا سبسڈی کی اجازت نہیں ہے۔

Getty Images

عمار حبیب خان کا کہنا ہے کہ یہ صرف کرپٹو کے حوالے سے نہیں بلکہ کسی بھی شعبے کے لیے ایک اصولی معاشی پالیسی ہونی چاہیے کہ اگر اضافی بجلی دستیاب ہے تو اسے ایسی صنعتوں کے استعمال میں لایا جائے جن سے برآمدات میں اضافہ ممکن ہو اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔

ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے آئی ایم ایف کی منظوری لینا ضروری ہے۔

پاکستان میں آج بھی شدید گرمی کے دنوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے، حالانکہ ملک بجلی کی پیداوار میں خود کفیل ہو چکا ہے اور مجموعی پیداوار ملکی طلب سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود، بجلی کی بندش اور مہنگے نرخ عام صارفین کے لیے دو بڑے مسائل بنے ہوئے ہیں۔

عمار کا کہنا ہے کہ اگر گرمیوں کے دوران بھی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پیک آورز (مصروف ترین اوقات) میں سرپلس بجلی دستیاب نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے دن کے وقت بجلی کی پیداوار طلب سے زیادہ ہو، لیکن شام کے وقت ایسا نہ ہو، جس کا مطلب یہ ہے کہ کرپٹو مائننگ کے لیے 24 گھنٹے بلا تعطل بجلی کی فراہمی ممکن نہیں۔ ’اگر ممکن ہو بھی، تو کم قیمت پر اس کی فراہمی یقینی نہیں بنائی جا سکتی۔‘

’اگر چارجز کم کرنا اتنا آسان ہوتا تو حکومت پچھلے سال میں ہی کر دیتی‘

پاکستان میں کتنی بجلی پیدا ہوتی ہے، اس بارے میں عارف حبیب لمیٹڈ میں توانائی کے شعبے میں ڈپٹی ہیڈ آف ریسرچ راؤ عامر علی کے مطابق پاکستان کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 45 ہزار میگاواٹ ہے جبکہ گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ طلب 24 ہزار اور سردیوں میں صرف 7 سے 8 ہزار میگاواٹ ہوتی ہے۔

ان کے مطابق بجلی کی سپلائی تو وافر ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ طلب کم ہے کیونکہ مہنگی بجلی کے باعث استعمال کم جاتا ہے جس کی وجہ سے حالیہ برسوں میں سولر توانائی کی طرف رجحان بڑھا ہے۔

راؤ عامر کا کہنا ہے کہ 2015 کے بعد کئی پاور پلانٹس تو لگے مگر انڈسٹری اتنی نہیں بڑھی جتنی توقع تھی اور بجلی استعمال نہ ہونے کے باوجود حکومت کو ہر حال میں آئی پی پیز کو معاہدے کے تحت ادائیگیاں کرنا پڑتی ہیں۔

انھوں نے حکومت کے کرپٹو مائننگ کے لیے بجلی فراہم کرنے کے حالیہ اعلان کو خوش آئند قرار دیا مگر ان کا کہنا ہے کہ بجلی کی پیداواری لاگت 12 سینٹ فی یونٹ ہے اور ترسیل و تقسیم کے اخراجات نکال بھی دیے جائیں تو 10 سینٹ سے کم پر بجلی دینا مشکل ہوگا۔

اس سوال کےجواب میں کیا ترسیل اور تقسیم کے اضافی اخراجات بآسانی نکالے جا سکتے ہیں؟ عامر راؤ کہتے ہیں کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ بٹ کوائن کے سینٹر یا ڈیٹا سینٹر کہاں بنائے جا رہے ہیں۔ ’اگر تو ڈیٹا سینٹر کسی پاور پلانٹ کے قریب ہے، تو مارجنز ہٹائے جا سکتے ہیں۔‘

وہ ہب، پورٹ قاسم اور ساہیوال کے 1320 میگا واٹ پاور پلانٹس کی مثال دیتے ہیں جہاں چیلنج یہ ہے کہ بجلی شمال کی جانب ڈیمانڈ سینٹر کی جانب لے کر جانا پڑتی ہے۔ مگر ٹرانسمیشن کنسٹرینٹ کی وجہ سے بجلی کی وہاں تک ترسیل ممکن نہیں ہو پا رہی۔

راؤ عامر کے مطابق اگر ڈیٹا سینٹر ساؤتھ میں بنا کر اسے براِ راست گریڈ سے جوڑ دیتے ہیں تو یقیناً ترسیل اور تقسیم کے اضافی اخراجات ہٹائے جا سکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر حکومت واقعی 'کاسٹ تو کاسٹ' لاگت کے مطابق بجلی بیچتی ہے تو گردشی قرضے بھی کم ہو سکتے ہیں، کیونکہ قرضے تب بڑھتے ہیں جب بجلی پیدا تو ہو مگر فروخت نہ ہو۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر ایسا واقعی ممکن ہو جاتا ہے تو لوڈ شیڈنگ کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔

راؤ عامر کے مطابق ’کچھ پلانٹس حکومت کے اپنے ہیں اور کچھ پر حکومت نے اپنا پی پی اے ختم کر دیا ہے، حکومت وہاں سے کم نرخ پر بجلی دے سکتے ہیں مگر جو موجودہ پلانٹس ہیں وہاں سے 10 سینٹ سے کم پر بجلی دینا ممکن نہیں ہو گا۔‘

وہ کہتے ہیں اگر چارجز کم کرنا اتنا ہیں آسان ہوتا تو حکومت پچھلے سال میں ہی کر دیتی۔

راؤ عامر بھی عمار حبیب خان سے اتفاق کرتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ اگر کرپٹو کے لیے بجلی سستی دی گئی تو پھر دیگر ایکسپورٹ انڈسٹریز کو بھی یہی رعایت دینا پڑے گی، جو حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

Getty Images

برطانیہ میں مقیم علی فرید خواجہ ’کے ٹریڈ‘ انویسمنٹ بینک کے چیئرمین ہیں۔ وہ پاکستان میں سرپلس بجلی کو کرپٹو مائننگ اور اے آئی ڈیٹا سینٹرز کے لیے استعمال کرنے کو خوش آئند قرار دیتے ہیں تاہم ان کے مطابق اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بجلی کی قیمت ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’اگر بجلی کی قیمت پانچ سینٹ سے اوپر ہو تو کرپٹو مائننگ منافع بخش نہیں رہتی۔‘

ان کے مطابق حکومت نے تاحال کرپٹو مائننگ کے لیے بجلی کی قیمت کا اعلان نہیں کیا مگر یہ پیش رفت اہم ہے کیونکہ یہ پہلا موقع ہے جب حکومت نے اس شعبے کے لیے بجلی مختص کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

قیمت کے حوالے سے علی فرید خواجہ کہتے ہیں کہ فرض کر لیں آپ آٹھ سینٹ کے ریٹ پر مائننگ کے لیے بجلی لے رہے ہیں تو یہ قیمت اس سے زیادہ ہے جس پر آپ مارکیٹ سے بٹ کوائن خرید سکتے ہیں۔ مگر اگر آپ کو بٹ کوائن کی قیمت ہزاروں میں بڑھنے کی توقع ہے تو پھر بھی آپ بہت پیسہ بنا رہے ہیں اور اگر حکومت خود مائننگ کر رہی ہے تو بجلی کی قیمت مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ ویسے بھی پاور پانٹس کے لیے ادائیگی کر رہی ہے۔

علی فرید خواجہ کا ماننا ہے کہ اگر حکومت دوسری صنعتوں کے مقابلے میں بٹ کوائن مائننگ کے لیے رعایتی نرخ دیتی ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر یہ پوچھا جائے کیا کرپٹو اور اے آئی کے شعبے میں حکمتِ عملی کے لحاظ سے کوئی ایسی اہم چیز ہے جس کی بنیاد پر حکومت اس شعبے کو دیگر شعبوں کے مقابلے میں ترجیحی نرخ دینے کو جائز قرار دے سکتی ہے؟‘ تو میرا خیال ہے کہ یہ ممکن ہے کیونکہ ہم نے ماضی میں آٹو سیکٹر اور دیگر کئی صنعتوں کو بھی ایسی مراعات دی ہیں۔‘

اور ایسا اس لیے بھی ممکن ہے کیونکہ کرپٹو مائننگ میں ہمیں ڈالروں میں پیسے کمانے کا موقع ملے گا اور حکومت اس کو ایکسپورٹ انڈسٹری کے طور پر ٹریٹ کر سکتی ہے اور اے آئی کے ڈیٹا سینٹرز کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔

علی فرید خواجہ کا کہنا ہے کہ صحت، تعلیم سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں اے آئی کا استعمال ہو رہا ہے اور اس کے لیے آپ کو مقامی طور پر بنائے گئے ڈیٹا سینٹرز کی ضرورت ہے جہاں آپ کے پاس ڈیٹا پراسسنگ پاور موجود ہو اور جہاں کمپنیاں آ کر ان ڈیٹا سینٹروں میں انویسٹ کر سکیں۔

وہ یو اے ای اور سعودی عرب کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں ہر ملک یہی چاہ رہا ہے مقامی طور پر ڈیٹا سینٹرز لگائے جائیں۔

علی کہتے ہیں اگر ایکسپورٹ بڑھیں گی تو نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا بلکہ ڈیفالٹ کا خطرہ کم، قرضوں کا انحصار محدود اور سود کی شرح نیچے آ سکتی ہے، جس سے حکومت کے پاس عوامی فلاح و بہبود اور روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے زیادہ وسائل ہوں گے۔

Getty Imagesکیا پاکستان میں عام لوگ بھی اب مائننگ کر پائیں گے؟

اس کے جواب میں علی فرید کہتے ہیں کہ آج سے دس بارہ سال پہلے جب مائننگ شروع ہوئی تھیں، اس کی پیچیدگی اتنی کم تھی اور اسے موبائل، کمپیوٹر پر کیا جا سکتا تھا مگر اب یہ اتنا پیچیدہ ہو چکا ہے کہ اس کے لیے ڈیٹا سینٹروں کی ضرورت ہے۔

یعنی عام لوگ تو نہیں مگر حکومت خود، بڑی کمپنیاں اور باہر سے سرمایہ کار آ کر مائننگ کر پائیں گے۔

راؤ عامر کی طرح علی فرید کا بھی ماننا ہے کہ پاکستان میں موجود اضافی بجلی استعمال کرکے مائننگ سے ناصرف گردشی قرضے کم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ لائن لاسز کم کرکے بجلی کی ترسیل ممکن بنا کر لوڈ شیڈنگ کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔

BBCقانونی مشکلات اور ماحولیاتی اثرات

خیال رہے اگرچہ حکومت ڈیجیٹل کرنسی میں اب کافی دلچسپی لیتی ہوئی نظر آ رہی ہے جس کا ثبوت ملک میں کرپٹو کونسل کا قیام ہے تاہم ابھی تک ملک میں کرپٹو کرنسی کو کوئی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کرپٹو کو تسلیم نہیں کرتا۔

عمار حبیب خان کا کہنا ہے ہے کرپٹو مائننگ کو قانونی حیثیت دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ کرپٹو کو سب سے پہلے ایک کموڈیٹی یا اثاثہ (ایسیٹ) کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا، اس کے بعد ہی اس حوالے سے کوئی عملی قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔

علی فرید خواجہ کے مطابق تین مہینے پہلے تو پاکستان میں کرپٹو کے حوالے سے کوئی بات چیت بھی نہیں ہو رہی تھی لیکن گذشتہ تین ماہ میں بہت تیزی سے کام ہوا ہے، پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی قائم ہو چکی ہے اور قوانین پر کام ہو رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کرپٹو کے بہت بڑے بڑے نام پاکستان آ کر سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ کسی ضابطے یا احتیاط کے بغیر بڑے پیمانے پر بٹ کوائن مائننگ قومی توانائی گریڈ پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔

وہ قازقستانکی مثال دیتے ہیں جہاں 2020-2021 میں بٹ کوائن مائننگ کے عروج کے باعث ملک میں بجلی کی کھپت سات فیصد تک بڑھ گئی تھی جس کے بعد حکومت نے سخت اقدامات لے کر اس صنعت کی رفتار کم کر دی۔

امریکہ، جو اب بٹ کوائن مائننگ کا نیا مرکز بن چکا ہے وہاں مائنرز، مقامی افراد اور رہائشیوں کے درمیان بجلی کے بڑھتے ہوئے استعمال پر تنازعات عام ہیں۔

حکام نے کچھ بڑی مائننگ کمپنیوں کے ساتھ ایسے معاہدے کیے ہیں جن کے تحت انھیں بجلی کے بحران کے وقت اپنے کمپیوٹرز سے بھرے گیراج بند کرنے پڑتے ہیں تاکہ قومی گریڈ کو متوازن رکھا جا سکے۔ مثال کے طور پر نیویارک میں گرینیج گیس پاور پلانٹ جو بٹ کوائن مائننگ کے لیے تیار کیا گیا تھا، کو جنوری میں شدید سردی کے دوران بجلی کی فراہمی کے لیے اپنی مائننگ بند کرنا پڑی۔

امریکہ کی 21 ریاستوں میں کم از کم 137 بٹ کوائن مائنز موجود ہیں اور رپورٹس کے مطابق کئی اور مائننگ سینٹرز کی منصوبہ بندی بھی کی جا رہی ہے۔ امریکی میں توانائی کی انتظامیہ کے تخمینے کے مطابق بٹ کوائن مائننگ ملک کی مجموعی بجلی کا تقریباً 2.3 فیصد استعمال کر رہی ہے۔

بجلی کے اس قدر زیادہ استعمال اور اس کے ماحولیاتی اثرات پر یقینی طور پر تشویش پائی جاتی ہے۔

ماحولیاتی اثرات یقیناً ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ اندازہ ہے کہ بٹ کوائن مائننگ پولینڈ جیسے ایک چھوٹے ملک جتنی توانائی استعمال کرتی ہے۔ تاہم کیمرج یونیورسٹی کے محققین جو ہر سال بٹ کوائن کی توانائی کھپت کا تخمینہ لگاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ مائننگ توانائی کے زیادہ پائیدار ذرائع کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔

’کرپٹو کی دنیا کو ہلا دینے والا‘ اربوں ڈالر کا فراڈ جس میں ایک ملک کے صدر بھی ملوث ہیںپاکستان میں کرپٹو کونسل کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی اور یہ ملک کے لیے کتنا فائدہ مند ثابت ہو گا؟’جھاڑیوں میں بٹ کوائن مائننگ‘ لیکن گاؤں میں رہنے والوں کو ہزاروں ڈالر کے بٹ کوائن میں دلچسپی نہیںایک بٹ کوائن کی قیمت 69 ہزار ڈالر سے زیادہ: بٹ کوائن کیا ہے اور یہ ڈیجیٹل کرنسی کیسے کام کرتی ہے؟کرپٹو کرنسی اور مصنوعی ذہانت سمیت سال 2025 میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں کیا کچھ ہو گا؟وہ پانچ کرپٹو کرنسیاں جنھیں ٹرمپ ’امریکی ڈیجیٹل ذخیرے‘ کا حصہ بنانا چاہتے ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More