’ایک بھی پروجیکٹ وقت پر پورا نہیں ہوا‘: ففتھ جنریشن فائٹر جیٹس کی خواہاں انڈین فضائیہ کو دفاعی منصوبوں میں تاخیر پر تشویش کیوں؟

بی بی سی اردو  |  Jun 01, 2025

Getty Images

انڈین فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل امر پریت سنگھ نے ملک میں دفا‏عی ساز وسامان کے حصول اور ڈلیوری میں ہونے والی تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

گزشتہ دنوں ایک خطاب کے دوران ایئر چیف مارشل امر پریت سنگھ نے کہا کہ ایک بھی دفاعی منصوبہ کبھی وقت پر پورا نہیں ہوتا۔

ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ نے کہا ہے کہ ’ہم کسی ایسی چیز کا وعدہ ہی کیوں کریں جو حاصل نہیں کی جا سکتی؟ کئی بار کسی معاہدے پر دستخط کرتے وقت ہی ہمیں یقین ہوتا ہے کہ یہ وقت پر نہیں ہو پائے گا لیکن ہم اس کے باوجود یہ کنٹریکٹ کرتے ہیں۔‘

فضائیہ کے سربراہ نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان فوجی کشیدگی ابھی جاری ہے اور انڈیا کی حکومت نے ملکی صلاحیت سے ففتھ جنریشن سٹیلتھ فائٹر جیٹ بنانے کی منظوری دی ہے۔

اس فائٹر جیٹ کا پروٹو ٹائپ یا تجرباتی ماڈل 2029 میں متوقع ہے اور پرواز کے سبھی تجربوں کی کامیابی کے بعد اب سے دس برس بعد سنہ 2035 سے یہ سٹیلتھ جہاز باضابطہ طور پر بننا شروع ہوں گے۔

یہ ففتھ جنریشن کا جنگی جہاز ہے۔ اس طرح کے جہاز امریکہ روس اور چین نے پہلے ہی بنا رکھے ہیں۔ چین کا دعوی ہے کہ اس نے مزید ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی کا سکستھ جنریشن فائٹر جیٹ بھی بنا لیا ہے اور اس کی پرواز کا تجربہ کیا گیا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان سنگین کشیدگی کو زیادہ دن نہیں گزرے، انڈین فضائیہ کے چیف کی دفاعی منصوبوں میں تاخیر کے بیان کو کافی اہمیت دی جا رہی ہے اور اسے ملکی صلاحیت سے ففتھ جنریشن سٹیلتھ فائٹر جیٹ بنانے کی منظوری سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔

تاہم ماہرین کے مطابق اس وقت اوسطاً کسی پروجیکٹ میں سات سے دس برس لگہی جاتے ہیں اور جسے فوجی اہلکار اور دفاعی ماہرین اسے ایک بڑی کمی مانتے ہیں۔

ماہرین کی اس حوالے سے رائے شامل کرنے سے قبل پہلے جان لیتے ہیں کہ انڈین فضائیہ کے سربراہ امر پریت سنگھ کے مذید خدشات کیا تھے۔

Getty Images’کسی پروجیکٹ میں اوسطاً سات سے دس برس لگ جاتے ہیں‘

انڈین فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل امر پریت سنگھ نےجمعرات کو دلی میں کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کی سالانہ بزنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’وقت پر جنگی ساز و سامان کی تیاری اور حصول دفاعی تیاری میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جہاں تک مجھے یاد آتا ہے ایک بھی دفاعی پروجیکٹ وقت پر پورا نہیں ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ہمیں فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے ملک کی پرائیویٹ کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ آگے آئیں اور سرکاری کمپنیوں کے ساتھ عالمی معیار کے دفاعی جنگی ساز و سامان کی تیاری میں اپنا کردار ادا کریں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب انڈیا کی فضائیہ کے سربراہ نے دفاعی ساز و سامان کی خریداری، ڈیلیوری اور دفاعی تحقیق کے ادارے ڈی آر ڈی او کے پروجیکٹس میں ہونے والی تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس سے پہلے وہ فروری میں انڈیا کے ایئرشو کے دوران بھی اس کے بارے میں بات کر چکے ہیں۔ انھوں نے ماضی میں کئی بار دفاعی ساز و سامان کی خریداری اور تیاری کے عمل میں ہونے والی تاخیر کا ذکر کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں دفاعی ساز و سامان حاصل کرنے کا جو عمل ہے اسے ڈیفنس پروکیورمنٹ پروسیجر کہا جاتا ہے جس کے ضابطوں کے تحت ساز و سامان حاصل کرنے کے لیے 10 سے زیادہ منظوریاں حاصل کرنی ہوتی ہیں۔

ماہرین کےمطابق ہر مرحلے پر منظوری کے لیے چھ سے آٹھ مہینے لگ جاتے ہیں۔ جبکہ ضابطوں کے مطابق کسی پراجیکٹ کے شروع ہونے سے لے کر ختم ہونے تک تین سال سے زیادہ وقت نہیں لگنا چاہیے۔

یہ تیزی سے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ نئی ٹیکنالوجی پہلے کی ٹیکنالوجی کو بیکار کر دیتی ہے۔ اس پسِ منظر میں فیصلہ سازی سے لے کر ضابطے کی خانہ پوری میں تاخیر سے مسلح افواج کی مؤثر جنگی تیاروں کے عمل کو نقصان پہنچتا ہے۔

انڈیا نے 2007/08 میں روس کے ساتھ ففتھ جنریشن ایئر کرافٹ بنانے کا ایک مشترکہ پراجیکٹ شروع کیا تھا۔ اس کے لیے انڈیا نے تقریباً ڈھائی سو ملین ڈالر بھی خرچ کیے لیکن وہ پراجیکٹ آگے نہیں چل سکا اور گیارہ برس بعد انڈیا 2018 میں اس سے الگ ہو گیا۔

اب خود انڈیا اپنا جہاز بنانے جا رہا ہے۔ سنہ 2035 میں یہ جہاز بن کر فضائیہ میں شامل ہوں گے۔ دس سال بعد ٹیکنالوجی میں کافی تبدیلیاں آ ئیں گی۔ فضائیہ کے چیف نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ سٹیلتھ جہاز جب بن کر آئے گا تو وہ اس وقت کی ٹیکنالوجی کے مطابق ایڈوانسڈ ہو گا۔ یہ پراجیکٹ انڈین دفاعی کمپنیوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہو گا۔

’انڈین حکومت مسئلے کا حل نکالتی تو شاید اتنا نقصان نہ ہوتا‘

انڈیا کے تجزیہ کار سوشانت سنگھ کہتے ہیں کہ 'فضائیہ کے چیف نے کئی بار یہ بات کہی ہے کہ انڈین فضائیہ ایک بڑے مسئلے سے گزر رہی ہے اور اس مسئلے کا حل نکالنا ہو گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر فضائیہ کے سربراہ کھل کر اس مسئلے کا ذکر کر رہے ہیں تو انڈیا کی حکومت کو اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے تھا۔ اگر ان کی بات پر دھیان دیا جاتا تو جو پاکستان کے ساتھ حالیہ لڑائی میں ہوا اتنا نقصان بھی نہیں ہوا ہوتا جتنا ہوا۔ انڈین فضائیہ نے یہ تو مانا ہے کہ اس کا نقصان ہوا ہے۔ شاید اس نقصان میں کچھ کمی ہوتی۔‘

سوشانت سنگھ کا کہنا ہے کہ ’دفاعی ٹیکنالوجی تیزی سے بدل رہی ہے۔ یوکرین جیسا ملک ایک برس میں چالیس لاکھ ڈرون بنا رہا ہے۔ روس جو ڈرون یوکرین میں استعمال کر رہا ہے وہ ریموٹ کنٹرول سے نہیں بلکہ آپٹیکل فائبر سے چل رہے ہیں۔ ایران بڑے پیمانے پر ڈرون بنا رہا ہے۔ چین سے تو میں موازنہ ہی نہیں کر رہا ہوں۔ انڈیا شاید ایک ہزار ڈرون بھی نہیں بنا رہا ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ صحیح ہے کہ ماڈرن ہتھیاروں اور ماڈرن پلیٹ فارمز کی ٹیکنالوجی کی جو صلاحیت انڈیا میں اس وقت ہونی چا ہیے تھی وہ اس کے پاس نہیں ہے۔‘

’قابل سکالرز انڈیا سے باہر جا رہے ہیں‘

پراجیکٹس میں تاخیر ہونے کے بارے میں سوشانت سنگھ کہتے ہیں کہ ’ایسا نہیں ہے کہ یہاں ہمیشہ یہی صورتحال تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہائی ٹیکنالوجی انٹینسیو پراجیکٹ میں تھوڑی بہت تاخیر ہو جاتی ہے۔ امریکہ کے سب سے بڑے جہاز ایف-35 میں اتنی تاخیر ہوئی کہ اس کی قیمت بیس سے پچیس گنا زیادہ ہو گئی۔‘

ان کے مطابق یہ بات سچ نہیں ہے کہ انڈیا میں ہمیشہ تاخیر ہوتی رہی ہے۔ انڈیا نے پہلے اس طرح کے ہتھیار اور ساز و سامان کامیابی سے بنائے ہیں۔

انڈیا کے سرکاری ادارے ہندوستان ایرونا ٹکس لمیٹیڈ نے 1950-60 کے عشرے میں ’ماروت‘ نام کا ایک جنگی جہاز بنایا تھا۔

وہ تاخیر کا ایک اہم سبب بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’انڈیا میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد جب سے دائیں بازو کے مذہبی قوم پرستوں کا عروج ہوا ہے تب سے ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے مطالعے پر توجہ کم ہوئی ہے اور میتھولوجی اور جھوٹی تاریخ وغیرہ پر توجہ زیادہ دی گئی ہے۔‘

Getty Imagesسنہ 2019 کی انڈیا-پاکستان کشیدگی کے بعد انڈیا نے فرانسیسی کمپنی ڈسالٹ ایوی ایشن سے رفال طیارے جبکہ پاکستان نے چین سے جے 10 سی جنگی طیارے حاصل کیے

ان کے مطابق ’اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اداروں سے جو معیاری اور ہنرمند ماہرین پیدا ہو رہے تھے وہ اب کم ہو گئے ہیں اور جو اچھے سکالر نکل رہے ہیں وہ لبرلائزیشن کے بعد غیر ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ وہ امریکی خلائی ادارے ناسا، گوگل اور میٹا جیسی عالمی کمپنیوں میں اپنا کام کر رہے ہیں۔ وہ انڈیا کے لیے بڑے کام نہیں کر رہے۔‘

تجزیہ کار سوشانت سنگھ کہتے ہیں کہ 'تاخیر کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ انڈیا کی مسلح افواج کو جو دفاعی ساز وسامان چاہیے ہوتا ہے وہ اکثر اسے تبدیل کر دیتی ہیں اور ایسے سامان کی مانگ کرتی ہیں جن کا ملنا مشکل ہوتا ہے۔

انڈین فضائیہ کی جو کمیاں ہیں وہ صرف ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ کے پروجیکٹس میں تاخیر کی وجہ سے ہی نہیں ہیں۔

’دفاعی خریداری میں تاخیر کی ایک اور مثال رفال ہے‘

اسی معاملے پر دفاعی ماہر راہل بیدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وزارت دفاع میں جو نظام چل رہا ہے اس سے مسلح افواج میں بھی مایوسی پھیلی ہوئی ہے کیونکہ وقت کی مقررہ حد پر منصوبے مکمل نہیں ہو پا رہے۔‘

راہل بیدی کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی دفاعی معاہدے کے عمل میں واضح طور پر کہا جاتا ہے کہ معاہدہ شروع ہونے کے بعد پروجیکٹ 36 سے 40 ماہ میں مکمل ہونا چاہیے۔ تاہم مختلف مرحلوں میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ اور تاخیر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پروجیکٹس میں اوسطاً سات سے دس سال لگتے ہیں۔‘

انھوں نے جدید ترین ایڈوانسڈ میڈیم کمبیٹ ایئر کرافٹ (AMCA) کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’جسے منظور تو ابھی کیا گیا ہے لیکن اس کا پہلا پروٹو ٹائپ 2035 میں آئے گا اور اس کی تیاری میں مزید تین سال لگیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے فضائیہ میں شامل ہونے میں لگ بھگ 13 سال لگیں گے، وہ بھی اگر سب کچھ ٹھیک ہو گیا۔‘

پاکستان کا انڈین براہموس میزائل ’ہدف سے بھٹکانے‘ کا دعویٰ: کیا تیز رفتار میزائلوں کو ’اندھا‘ کیا جا سکتا ہے؟رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںانڈیا کا ’سٹیلتھ‘ جنگی طیارے بنانے کا منصوبہ کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟امریکی ایف 35 کے پائلٹ کی 911 کو کال: ’ایک لڑاکا طیارہ کریش ہو گیا ہے۔۔۔ میں اُس کا پائلٹ ہوں‘

راہل بیدی کہتے ہیں کہ انڈیا نے پانچویں جنریشن کے لڑاکا طیارے AFGFA تیار کرنے کے لیے 2007-08 میں روس کے ساتھ بات چیت شروع کی تھی۔ جو 11 سال تک جاری رہی اور اس پر تقریباً 240 ملین امریکی ڈالر بھی خرچ کیے گئے، لیکن 2018 میں اسے ناکام سمجھ کر چھوڑ دیا گیا اگر ہم اس پر قائم رہتے تو ہمارے پاس سٹیلتھ لڑاکا طیارہ ہوتا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ دفاعی خریداری میں تاخیر کی ایک اور مثال رفال ہے، جس کے معاہدے پر بات چیت 2007-08 میں شروع ہوئی تھی اور 2016 میں اسے گرین سگنل مل گیا تھا جب پی ایم مودی نے فرانس کا دورہ کیا تھا۔ پھر اس کی ترسیل 2018 سے شروع ہوئی۔

’مسئلہ ایچ اے ایل اور ملکی کمپنیوں کا نہیں بلکہ سیاسی ہے‘

سوشانت سنگھ نے اس تاخیر کا ذمہ دار کسی حد تک ’سیاست‘ کو قرار دیا۔

'مودی حکومت نے گذشتہ دس برس میں جو جنگی جہاز، جو پلیٹ فارمز خریدنے چاہیے تھے وہ نہیں خریدے۔ آج پاکستان کے پاس انڈیا سے زیادہ ایویکس طیارے ہیں۔ انڈیا گذشتہ پندرہ برس سے مڈ ایئر ریفیولر جہاز نہیں خرید پا رہا۔ مسئلہ سیاسی ہے۔'

'یہ مسئلہ ایچ اے ایل اور ملکی کمپنیوں کا نہیں ہے۔ انڈیا کی وزارت دفاع اور فضائیہ کو اس کی ضرورتوں کے بارے میں معلوم تھا لیکن فضائیہ کو ماڈرنائز کرنے کے لیے جو اقدامات کیے جانے چاہیے تھے وہ گذشتہ دس برس میں نہیں کیے گئے۔'

ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا کے دفاعی منصوبوں بالخصوص سٹیلتھ فائٹر جیٹ کے پروجیکٹ کو انڈین پرائیوٹ کمپنیوں کے لیے کھولنے سے لانگ ٹرم میں تو فائدہ ہو گا لیکن فوری طور پر کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ انھیں جنگی جہاز یا اس طرح کے پلیٹ فارم وغیرہ بنانے کا تجربہ نہیں ہے۔

پاکستان سے کشیدگی کے اس ماحول میں انڈیا کو اس وقت غیر ممالک سے ایس یو 57 اور ایف 35 جیسے سٹیلتھ جہاز اور ایڈوانسڈ وارننگ دینے والے ایویکس طیارے اور ساز وسامان خریدنے کی فوری ضرورت ہے کیونکہ یہ ساز وسامان فی الحال انڈیا میں نہیں بنائے جا سکتے لیکن اس کا فیصلہ بہت جلد سیاسی سطح پر لینا ہو گا۔

Getty Imagesانڈین فضائیہ کے پاس کل 2,229 طیارے ہیں جن میں 513 لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں فوجی طاقت کے لحاظ سے انڈیا 145 ممالک میں چوتھے نمبر پر

گلوبل فائر پاور(عالمی سطح پر مختلف ممالک کے درمیان دفاعی صلاحیتوں کا جائزہ لینے والی تنظیم) کے مطابق 2025 کی فوجی طاقت کی درجہ بندی میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان آٹھ درجے کا فرق ہے۔

سال 2025 میں عالمی فوجی طاقت کے لحاظ سے انڈیا 145 ممالک میں چوتھے نمبر پر جبکہ پاکستان 12 ویں نمبر پر ہے۔

انڈین فضائیہ کے پاس تین لاکھ 10 ہزار ایئر مین اور کُل 2,229 طیارے ہیں جن میں سے 513 لڑاکا طیارے اور 270 ٹرانسپورٹ طیارے شامل ہیں۔ مجموعی طیاروں میں 130 لڑاکا، 351 ٹرینرز اور چھ ٹینکر فلیٹ طیارے شامل ہیں۔انڈین فوج کے پاس ہیلی کاپٹروں کی کل تعداد 899 ہے جن میں سے 80 لڑاکا ہیلی کاپٹر ہیں۔لاجسٹک کے لحاظ سے انڈین فوج کے پاس 311 ہوائی اڈے، 56 بندرگاہیں اور 63 لاکھ کلومیٹر سڑک اور 65 ہزار کلومیٹر ریلوے کوریج ہے۔انڈیا کا ’سٹیلتھ‘ جنگی طیارے بنانے کا منصوبہ کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںامریکی ایف 35 کے پائلٹ کی 911 کو کال: ’ایک لڑاکا طیارہ کریش ہو گیا ہے۔۔۔ میں اُس کا پائلٹ ہوں‘پاکستان کا انڈین براہموس میزائل ’ہدف سے بھٹکانے‘ کا دعویٰ: کیا تیز رفتار میزائلوں کو ’اندھا‘ کیا جا سکتا ہے؟ایف 35 سی: چین اور امریکہ میں سمندر میں گرنے والے لڑاکا طیارے تک پہلے پہنچنے کی دوڑچین کا چینگدو اور انڈیا کا رفال: کون سا طیارہ زیادہ جدید ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More