Getty Images
سنہ 1977 میں نئے سال کے موقع پر تہران میں ایک سرکاری عشائیہ کے دوران امریکی صدر جمی کارٹر نے ایران کے شاہ کو خطے میں ’آئیلینڈ آف سٹیبیلیٹی‘ یعنی استحکام کا جزیرہ قرار دیا۔
اس کے ساتھ کارٹر نے شاہ کی ذہانت، دانشمندی، حساسیت اور گہری نظر کی بھی تعریف کی۔
اس وقت ایران پر نظر رکھنے والے ماہرین کو شاہ کی اس قدر تعریف نہ صرف غیر ضروری لگی بلکہ ناگوار بھی گزری تھی کیونکہ ان کی نظر میں شاہ ایک ایسا آمر تھا جسے اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے غیر انسانی حربے اختیار کرنے میں کوئی عار نہیں تھا۔
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔
ایروینڈ ابراہیمین اپنی کتاب ’بیٹوین ٹو ریوولوشنز‘ میں لکھتے ہیں: ’ایران کے رضا شاہ پہلوی تہران میں سی آئی اے ایجنٹ کرمٹ روزویلٹ کی مدد سے ایران کے تخت پر بیٹھے تھے۔ پہلوی کے والد نے 1925 میں بغاوت کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا لیکن جب دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنی کی طرف جھکنے لگے تو برطانیہ اور سوویت روس نے انھیں اقتدار سے بے دخل کیا۔
’دوسری جنگ عظیم کے دوران ایران پر اتحادیوں کا کنٹرول تھا۔ انھوں نے ایران کی تیل کی دولت کو ہٹلر کے خلاف جنگ میں استعمال کیا۔‘
رضا شاہ پہلوی کو ان کے والد کی جگہ تخت نشین کیا گيا
نوجوان پہلوی کو ان کے والد کا تخت اس لیے دیا گیا کیونکہ ان کے لیے دنیا کو یہ دکھانا ضروری تھا کہ ایران ایک آزاد ملک ہے۔
رضا شاہ پہلوی نے سوئٹزرلینڈ میں تعلیم حاصل کی تھی اور اپنا وقت ایک امیر پلے بوائے کی طرح گزارا۔
انھیں اقتدار دینے کی ایک بڑی وجہ مغربی ممالک کی ایرانی تیل حاصل کرنے کی خواہش تھی۔
حکومت کے نام نہاد سربراہ ہونے کے باوجود شاہ نے تجویز پیش کی کہ ان کے ملک کو تیل سے نصف منافع رکھنا چاہیے تاکہ ملک خوشحال ہو اور ممکنہ سیاسی تحریکوں کے لیے زمین تیار نہ ہو سکے۔
لیکن طاقتور اینگلو ایرانی تیل کمپنی نے اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا۔
Getty Imagesرضا شاہ پہلوی کی نوجوانی کی تصویرمصدق ایران کے وزیر اعظم بنے
اس کے بعد مشتعل ایرانیوں نے کرشماتی ایرانی رہنما محمد مصدق کی قیادت میں ریلی نکالی۔ مصدق کا تعلق اس خاندان سے تھا جس نے پہلوی خاندان کے اقتدار میں آنے سے پہلے تقریباً دو سو سال تک ایران پر حکومت کی تھی۔
مارک بوڈن اپنی کتاب ’گیسٹ آف دی آیت اللہ‘ میں لکھتے ہیں: ’مصدق کے اقتدار میں آتے ہی انھوں نے وہ کام کیا جو شاہ کبھی کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے۔ انھوں نے تیل کی پوری صنعت کو قومیا (نیشنلائز) لیا اور اس قدم کو ان کے ملک میں بہت سراہا گیا۔‘
ٹائم میگزین نے مصدق کو ’مین آف دی ایئر‘ قرار دیا۔
اقوام متحدہ سے خطاب میں مصدق نے کہا کہ ’ایران کے تیل کے وسائل اسی طرح ایرانی عوام کی ملکیت ہیں جیسے اس کی مٹی، اس کے دریا اور اس کے پہاڑ ان کی ملکیت ہیں۔‘
مارک باؤڈن نے لکھا: ’اینگلو-ایرانی آئل کمپنی کے مالی مفادات کو نقصان پہنچایا جا رہا تھا، اور امریکہ نے اس ڈر سے بغاوت کی حوصلہ افزائی کی کہ مصدق کا سوشلسٹ جھکاؤ وہاں سوویت اثر و رسوخ کا باعث بنے گا۔
’اس بغاوت کی حمایت اس وقت کے امریکی صدر آئزن آور اور برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے کی۔‘
Getty Images1950 کی دہائی میں محمد مصق ایران کے وزیرِ اعظم بنےشاہ کی تہران واپسی
سی آئی اے کے ایجنٹ روزویلٹ نے ایرانی پریس میں مصدق کے خلاف جھوٹی خبریں شائع کروائيں اور سڑکوں پر احتجاج کا اہتمام کیا۔
ان کی شہ پر فوجی حکام نے مصدق کو غداری کے جھوٹے الزام میں گرفتار کر لیا۔
تین سال جیل میں رہنے کے بعد انھیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا جہاں 1967 میں ان کی موت ہو گئی۔
اس فوجی بغاوت کے دوران شاہ اپنی بیوی کے ساتھ روم فرار ہو گئے۔ جب سب کچھ معمول پر آگیا تو شاہ واپس آئے اور دوبارہ تخت نشین ہوئے۔
امریکہ نے شاہ کی مکمل حمایت کی۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ کمیونسٹوں کو روکنے اور تیل کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔
شاہ نے اپنے ہم وطنوں سے وعدہ کیا کہ وہ اپنی زندگی میں ایران کو مالی اور ثقافتی طور پر مغربی ممالک کے برابر کر دیں گے۔
Getty Imagesاپنے اقتدار کے 20 ویں سال تک شاہ کی عوام میں مقبولیت میں کمی آنے لگی اور انھیں 'امریکہ کی کٹھ پتلی' کہا جانے لگا۔'امریکہ کی کٹھ پتلی'
شاہ نے یہ وعدہ بھی کافی حد تک پورا کیا۔
سٹیفن کنزر نے اپنی کتاب ’آل دی شاز مین‘ میں لکھا: ’شاہ کے دور میں ایران خوشحال ہوا، خواتین کو بااختیار بنایا گیا اور اس نے اپنے ملک کو قرآن کی تعلیمات سے دور کر دیا، امریکی مدد سے وہ کھلم کھلا متکبر بادشاہ بن گیا، اس نے اپنے مخالفین کو کچلنے پر فخر کرنا شروع کیا۔
’اس نے ایک ایسی فوج کی قیادت کی جو تعداد اور جدت میں اسرائیل سے ٹکر لے سکتی تھی۔‘
سلطنتِ فارس یعنی دنیا کی پہلی سُپر پاور: ایک پہاڑی قبیلے کا گمنامی سے نکل کر دنیا کی تقریباً آدھی آبادی پر حکومت کرنے کا سفرریجیم چینج سے سلطنتوں کے قبرستان تک: مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے معاملات میں مداخلت امریکہ کو عموماً مہنگی کیوں پڑتی ہے؟دیرینہ شراکت سے ازلی دشمنی تک: جب ایرانی اور اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں ’ساواک اور موساد‘ مل کر کام کرتی تھیں ’خطروں کا سوداگر‘: پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام ایران کے جوہری پروگرام سے کیوں جوڑا جاتا ہے؟
کنزر لکھتے ہیں: ’لیکن دوسری طرف، شاہ نے کھربوں ڈالر ایسی اقتصادی سکیموں پر ضائع کیے جن کا کوئی جواز نہیں تھا۔ نتیجتاً، ایران کی زیادہ تر آبادی غریب ہی رہی۔ سنہ 1970 کی دہائی تک ایران کی 40 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار تھی۔‘
تیل سے حاصل ہونے والی رقم کو شہروں میں رہنے والے پڑھے لکھے، مغرب زدہ لوگوں نے پسند کیا لیکن امیر طبقے اور غریب ایرانیوں کے درمیان معاشی خلیج بڑھتی ہی چلی گئی۔
اپنے اقتدار کے 20ویں سال تک شاہ کی عوام میں مقبولیت میں کمی آنے لگی اور انھیں ’امریکہ کی کٹھ پتلی‘ کہا جانے لگا۔
ایرانی عوام شاہ کے خلاف ہو گئے
شاہ کے خلاف سڑکوں پر مظاہروں کا سلسلہ جو 1970 کی دہائی کے وسط میں شروع ہوا تھا تھم نہ سکا۔
سنہ 1978 تک شاہ کا تخت ہلنا شروع ہو گیا۔ پھر بھی بیرونی دنیا کو یہ احساس تھا کہ شاہ اس بحران کا مقابلہ کریں گے لیکن 1979 کے اسلامی انقلاب نے مذہبی طور پر منظم قوتوں کو اقتدار میں پہنچا دیا۔
مارک باؤڈن لکھتے ہیں: ’بیرونی دنیا کو یہ احساس نہیں تھا کہ روایتی اسلام ایران میں دوبارہ سر اٹھا رہا ہے اور جدید، سیکولر اقدار کے خلاف بغاوت کے لیے تیار ہو رہا ہے۔ تبدیلی کی حمایت کالج کے کیمپس، یہاں تک کہ شاہ کی فوجی بیوروکریسی میں بھی بڑھ رہی تھی، لیکن علما اور معاشرے کے دیگر طبقات میں اس بات پر کوئی اتفاق رائے نہیں تھا کہ آگے کیا کرنا ہے۔‘
جب شاہ نے 16 جنوری کو مصر جانے کا فیصلہ کیا تو کسی نے ان کے لیے آنسو نہیں بہائے۔
Getty Imagesجب شاہ نے 16 جنوری کو مصر جانے کا فیصلہ کیا تو کسی نے ان کے لیے آنسو نہیں بہائے۔آیت اللہ خمینی پیرس سے تہران پہنچے
جیسے ہی شاہ نے ایران چھوڑا، مذہبی رہنما آیت اللہ خمینی نے ملک واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے قبل وہ فرانس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔
یکم فروری 1979 کی صبح 1 بجے ایک خصوصی چارٹرڈ بوئنگ 747 طیارہ تہران کے لیے روانہ ہوا۔ جہاز میں آیت اللہ روح اللہ خمینی تھے، جو شاہ کے سخت مخالف تھے اور 16 سال سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔
بی بی سی کے نامہ نگار جان سمپسن طیارے میں سوار 168 مسافروں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری 'نیوز فرام نو مینز لینڈ' میں لکھا: 'خمینی کے ساتھ تہران جانا ایک خوفناک تجربہ تھا۔ ہمارے ساتھ سفر کرنے والے مسافروں کو یقین تھا کہ ایرانی فضائیہ ہمارے طیارے کو مار گرائے گی۔
’ہم نے پرواز کے دوران خمینی سے چند منٹ بات کی، وہ زیادہ بات کرنے والے شخص نہیں تھے۔ جب میں ان سے کوئی سوال پوچھتا تو وہ جہاز کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتے۔‘
Getty Imagesجیسے ہی شاہ نے ایران چھوڑا، مذہبی رہنما آیت اللہ خمینی نے ملک واپس آنے کا فیصلہ کیا۔امریکہ اور اسرائیل سے دشمنی
جب خمینی تہران پہنچے تو لاکھوں لوگ ان کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ ایران اب بادشاہت کی بجائے اسلامی جمہوریہ بن چکا تھا۔
خمینی کو سپریم لیڈر کا عہدہ دیا گیا اور انھوں نے اسلامی قوانین کے مطابق ایران پر حکومت کرنا شروع کی۔
خمینی نے امریکہ کو ’بڑا شیطان‘ قرار دیا اور اسرائیل کو فلسطینی سرزمین پر ناجائز قبضہ کرنے والا کہہ کر مخاطب کیا۔
خمینی کے سپریم لیڈر کا عہدہ سنبھالنے کے چند ہی دنوں بعد ان کے طلبہ حامیوں نے تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر لیا اور 66 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ امریکہ میں کینسر کا علاج کروانے والے شاہ کو ان کے 'جرائم' کا سامنا کرنے کے لیے ایران واپس بھیجا جائے۔
امریکہ اور اسرائیل کی دشمنی ایرانی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ بن گئی۔
سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے کچھ ہی عرصہ بعد صدام حسین کی قیادت میں عراق نے ایران پر حملہ کر دیا۔
یہ جنگ نو سال تک جاری رہی۔ جلد ہی لوگ خمینی سے مایوس ہونے لگے۔
کون کفلن نے اپنی کتاب ’خمینیز گھوسٹ‘ یعنی خمینی کے بھوت میں جمہوریت کے حامی ایک کارکن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’میں سمجھتا تھا کہ خمینی ایران میں جمہوریت لانے والے تھے۔ لیکن اب ہمیں احساس ہو رہا ہے کہ ہم نے ایک آمر کی جگہ دوسرے آمر کو سر پر بٹھا لیا ہے۔‘
Getty Imagesخمینی کو سپریم لیڈر کا عہدہ دیا گیا اور انھوں نے اسلامی قوانین کے مطابق ایران پر حکومت کرنا شروع کی۔سلمان رشدی کے خلاف فتویٰ
جب انڈین نژاد برطانوی مصنف سلمان رشدی نے سنہ 1989 میں ’سیٹینک ورسز‘ یعنی شیطانی آیات نامی کتاب لکھی تو دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس کی شدید مخالفت کی۔
14 فروری 1989 کو آیت اللہ خمینی نے فتویٰ جاری کیا کہ سلمان رشدی کی یہ کتاب اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن کے خلاف ہے اور انھوں نے اعلان کیا کہ ’اس کتاب سے وابستہ ہر شخص کو موت کی سزا سناتا ہوں۔ میں پوری دنیا کے مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ یہ افراد جہاں بھی ملیں، انھیں قتل کر دیا جائے۔‘
ایران کی ایک تنظیم نے سلمان رشدی کے سر کی قیمت دو کروڑ 60 لاکھ ڈالرز رکھی۔ پرتشدد ہجوم نے برطانیہ، اٹلی اور امریکہ میں ان تمام کتابوں کی دکانوں کو نشانہ بنایا جہاں ’شیطانی آیات‘ فروخت کی جا رہی تھی۔ اس کے بعد کئی یورپی ممالک نے تہران سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا۔
علی خامنہ ای امام خمینی کے جانشین بنے
جیسے جیسے خمینی بوڑھے ہوتے گئے ان کے جانشین کے نام پر غور کیا جانے لگا۔ اس کے لیے خمینی نے انقلاب اسلامی کے بڑے حامی اور ان کے پیروکار آیت اللہ محمد منتظری کا انتخاب کیا۔
اگرچہ خمینی ان کے مذہبی علم کے بارے میں اعلیٰ خیال رکھتے تھے لیکن وہ ملک کے محافظ کے طور پر ان کی قابلیت پر شک کرنے لگے۔
کون کوفلن لکھتے ہیں: ’مارچ 1989 میں خمینی نے منتظری کو کئی صفحات کا ایک خط لکھا جس میں انھوں نے ایران کے عوام کو آزادی پسندوں کے حوالے کرنے کا الزام لگایا۔ منتظری نے اس لمبے خط کا پانچ سطروں میں جواب دیا اور اعلان کیا کہ وہ خمینی کے جانشین بننے کی دوڑ سے دستبردار ہو رہے ہیں۔
’وہ اس عہدہ کو حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس کے بعد خمینی نے اس وقت کے صدر علی خامنہ ای کا انتخاب کیا۔‘
ایران میں مذہبی طاقت کے لحاظ سے خامنہ ای درجہ میں بہت چھوٹے تھے اور ان کا تجربہ اتنا نہیں تھا کہ انھیں اعلیٰ ترین مذہبی عہدے کے لائق سمجھا جائے۔
خمینی نے اپنی خراب صحت کے پیش نظر پارلیمنٹ کا ایک خصوصی اجلاس بلایا جس میں خامنہ ای کو اپنا جانشین بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کی گئی لیکن اس سے قبل خمینی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کی موت کے بعد بھی ایران اپنا جوہری پروگرام جاری رکھے اور مغرب کے خلاف ان کی محاذ آرائی کی پالیسی بھی جاری رہے۔
Getty Imagesخمینی کے بعد علی خامنہ ای ایران کے سپریم لیڈر بنے۔9/11 کے بعد امریکہ سے ہمدردی
خمینی کی وفات کے بعد علی خامنہ ای نے ان کی جگہ لی اور رفسنجانی ایران کے نئے صدر بن گئے۔ خامنہ ای نے امریکہ مخالف پالیسی پر عمل کیا لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے امریکہ کا ساتھ بھی دیا۔
جب 11 ستمبر2001 کو القاعدہ نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا تو ایران نے صدر بش اور امریکی عوام کو تعزیت کا پیغام بھیجا تھا۔
کینتھ پولک اپنی کتاب ’دی پرشین پزل: دی کنفلکٹ بٹوین امریکہ اینڈ ایران‘ میں لکھتے ہیں: ’ایک ایسا ملک جو 90 کی دہائی میں پوری دنیا سے الگ تھلگ تھا، اپنے سب سے بڑے دشمن سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوا دیکھا گیا، جسے وہ ہمیشہ ’شیطان‘ قرار دیتا تھا۔ تہران میں ہزاروں لوگوں نے شمع جلا کر مرنے والوں سے تعزیت کی تھی اور وہ مشرق وسطیٰ میں واحد ملک تھا جہاں ایسا کیا گيا تھا۔‘
Getty Imagesخاتمی تبدیلی کی علامت بن گئے
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ محمد خاتمی کے ایران کے پانچویں صدر منتخب ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا۔
اس الیکشن میں خامنہ ای نے بنیاد پرست رہنما علی اکبر نوری کی حمایت کی تھی لیکن اس کے باوجود خاتمی جیت گئے۔
کون کفلن لکھتے ہیں: ’اس کی وجہ یہ تھی کہ 1997 تک ایرانی عوام اسلامی حکومت سے مایوس ہو چکے تھے اور انھیں ایران کی بگڑتی ہوئی معیشت اور بیرونی دنیا سے الگ تھلگ ہونے کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا۔ مہنگائی 40 فیصد تک بڑھ گئی تھی۔
’ایرانی کرنسی ریال کی قدر آدھی رہ گئی تھی اور بیروزگاری کی شرح 30 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ اگرچہ خاتمی اس وقت تک ایران کی سیاست میں کوئی بڑا نام نہیں تھے لیکن جیسے جیسے انتخابی مہم زور پکڑتی گئی، ان کا نام تبدیلی کی علامت بن گیا۔‘
خاتمی نے الیکشن جیتتے ہی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی بڑی پہل کی۔
یہی نہیں بلکہ ستمبر 1998 میں سلمان رشدی کے خلاف جاری کیا گیا فتویٰ بھی واپس لے لیا۔
Getty Imagesایران کے پانچویں صدر محمد خاتمی خامنہ ای کے خلاف حزب اختلاف متحد نہ رہا
لیکن 2005 میں محمد احمدی نژاد کے اقتدار میں آنے کے بعد ایران اپنی پرانی پالیسیوں پر واپس چلا گیا۔ خامنہ ای نے خود انحصاری، مضبوط دفاعی صلاحیت اور چین روس کی طرف جھکاؤ کو اپنی اہم پالیسی بنایا۔
امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت ان کی خارجہ پالیسی کا حصہ رہی لیکن جب بھی ایران کو کوئی سنگین خطرہ لاحق ہوا تو اس نے لچک دکھانے سے گریز نہیں کیا۔
امین صیقل اپنی کتاب 'ایران رائزنگ: دی سروائیول اینڈ فیوچر آف اسلامک ریپبلک' میں لکھتے ہیں: ’خمینی کے پاس بے پناہ آئینی اور مذہبی طاقت ہے۔ انھوں نے ایران میں ریاست کی طاقت کو بڑھانے کے بہت سے ذرائع کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جیسے کہ پاسداران انقلاب اور اس کی نیم فوجی شاخ 'باسیج'۔
’لیکن اب بھی بہت سے لوگ ایرانی حکومت سے مطمئن نہیں ہیں لیکن ان میں کوئی ایسا رہنما ابھر کر سامنے نہیں آیا جو قوم کو متحد کر سکے۔‘
Getty Imagesشاہ کے بیٹے کے چیلنج پر سوال
ایران کے سابق شاہ کے بیٹے رضا پہلوی حالیہ دنوں عوام میں کچھ حد تک مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر حالیہ بیانات میں انھوں نے اپنے ہم وطنوں سے اپیل کی ہے کہ ’46 سال سے جاری جنگ کو ختم کریں۔ ایران کے حکمرانوں کی اپنے ہی لوگوں کو کچلنے کی سازش ناکام ہو رہی ہے۔
’اس ڈراؤنے خواب کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے ایک ملک گیر تحریک کی ضرورت ہے۔‘
Getty Imagesسوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر حالیہ بیانات میں ایران کے سابق شاہ کے بیٹے رضا پہلوی نے اپنے ہم وطنوں سے اپیل کی ہے کہ '46 سال سے جاری جنگ کو ختم کریں
اپنے والد کو عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے وہ امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن امریکہ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات نے یہ سوال اٹھائے ہیں کہ ایران میں انھیں کتنی سنجیدگی سے لیا جائے گا۔
یہاں تک کہ اگر وہ کبھی امریکی مدد سے اقتدار میں واپس آتے ہیں تو انھیں سیاسی جواز کا وہی مسئلہ درپیش ہوگا جو ان کے والد کو پیش تھا۔
ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کون ہیں اور ان کا خاندان کتنا بااثر ہے؟پینٹاگون نے جوہری تنصیبات پر حملے سے پہلے کیسے ’ٹاپ سیکرٹ‘ پروازوں کے ذریعے دنیا کی نظریں ایران سے ہٹا کر ایک جزیرے پر مرکوز کروا دیں’سات منٹ میں تل ابیب‘ تک پہنچنے کا دعویٰ کرنے والا ایرانی سجیل میزائل کتنا خطرناک ہے؟زیر زمین خفیہ عمارتوں، جوہری جزیرے اور یورینیم کانوں پر مشتمل ایران کی ایٹمی صلاحیت اور تنصیبات کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟حادثہ، قتل یا تخریب کاری: ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت جو ایک سال بعد بھی سازشی نظریات کا مرکز ہےایران کے کرائے کے قاتلوں کا بین الاقوامی نیٹ ورک جسے ایک سزا یافتہ مجرم چلا رہا ہے