بلوچستان میں قومی شاہراہوں پر کالعدم مسلح تنظیموں کی جانب سے ناکہ بندیوں اور مال بردار گاڑیوں کو نذرِآتش کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ عام مسافروں کے علاوہ ٹرانسپورٹرز اور تاجر اس صورت حال سے پریشان ہیں۔ ٹرک اونرز ایسوسی ایشن نے مسلسل حملوں کے بعد قیمتی پتھروں، لوہے،کرومائٹ اور دیگر معدنیات کی سپلائی معطل کر دی۔
مستونگ، بولان، قلات، نوشکی، پنجگور، کیچ، گوادر اور دوسرے علاقوں میں گذشتہ چند ماہ کے دوران مال بردار گاڑیوں اور معدنیات لے جانے والے ٹرکوں پر حملوں، انہیں جلانے اور نقصان پہنچانے کے درجنوں واقعات ہوچکے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر واقعات کی ذمہ داری کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں کی جانب سے قبول کی گئی۔ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ مسلح افراد اچانک سڑک پر آکر راستے بند کر دیتے ہیں اور نہ صرف مسافر بسوں اور مال بردار ٹرکوں کو روکتے ہیں بلکہ ڈرائیوروں اور مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں۔ اس دوران مسافروں اور ڈرائیوروں کے قتل کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔مئی میں نوشکی میں ایران سے ایل پی جی گیس لانے والے چار باؤزر ٹینکرز کو ناکہ بندی کے دوران مسلح افراد نے اغوا کرلیا اور پھر چند روز بعد اُن کے ڈرائیوروں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں سڑک کنارے سے ملیں۔ بلوچستان گڈز ٹرک اونرز ایسوسی ایشن کے صدر نور احمد شاہوانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس صورت حال میں ڈرائیور انتہائی خوف زدہ ہیں اور جان کے خوف سے ٹرک چلانے پر تیار نہیں۔‘’مسلح افراد کی جانب سے بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر آئے روز مال بردار ٹرکوں پر حملے ہو رہے ہیں، جمعرات کو بھی مستونگ کے علاقے کھڈ کوچہ میں تین ٹرکوں پر فائرنگ کی گئی۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’صرف رواں سال نوشکی، مستونگ، قلات اور بلوچستان کے دیگر علاقو ں میں 15 ٹرکوں کو جلایا جا چکا ہے جبکہ 30 سے زائد مال بردار گاڑیوں کو فائرنگ کرکے نقصان پہنچایا گیا اور اُن کے ٹائر برسٹ کر دیے گئے۔‘’ٹرکوں پر مسلسل حملوں کے بعد ہم نے بلوچستان کے ضلع چاغی، نوشکی اور قلعہ سیف اللہ سے سنگِ مرمر سمیت قیمتی پتھروں،کرومائٹ، لوہے، ریت اور دیگر معدنیات کی کراچی اور ملک کے دیگر حصوں کے لیے ترسیل بند کر دی ہے۔‘انہوں نے بتایا کہ ’پہلے روزانہ تقریباً 100 ٹرک معدنیات لے کر کراچی اور دوسرے شہروں کو جاتے تھے، اب پانچ جولائی سے سپلائی بند ہے۔‘’حملہ آوروں کا شاید حکومت یا مائنز مالکان کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوگا، ہمیں اس کا علم نہیں لیکن یہ حکومت کا کام ہے کہ ہمیں تحفظ دے کیونکہ ہم اُسے ٹیکس دیتے ہیں۔‘ٹرک اونر زایسوسی ایشن کے صدر کا کہنا تھا کہ ’ایک ٹرک کی قیمت دو سے تین کروڑ روپے ہوتی ہے لیکن حکومت تبادہ شدہ ٹرک کے ازالے کے لیے آٹھ نو لاکھ روپے دیتی ہے اور وہ رقم بھی آٹھ دس ماہ بعد ملتی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ عجیب نظام ہے کہ حملہ آور حملہ ہمارے ٹرکوں کو نقصان پہنچا کر چلے جاتے ہیں۔حملے کے بعد متاثرہ ٹرک کو مالِ مقدمہ قرار دے کر پولیس تھانے میں بند کر دیا جاتا ہے۔ مہینوں عدالت میں کیس چلتا ہے اپنا ٹرک تھانے سے نکلوانا عذاب بن جاتا ہے۔‘حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کی جانب سے قومی شاہراہوں کی ناکہ بندیوں اور شہروں میں آکر سرکاری عمارات اور تنصیبات پر حملوں کے بعد حکومت کی جانب سے سکیورٹی انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند کا کہنا ہے کہ ’حکومت صوبے میں امن وامان کو برقرار رکھنے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے نیا سکیورٹی پلان تیار کر رہی ہے۔‘قومی شاہراہوں پر سفر کو محفوظ بنانے کے لیے حکومت نے ایف سی، پولیس اور لیویز کی مشترکہ رسپانس سینٹر بھی بنائے ہیں، تاہم ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ ’ان چیک پوسٹوں کے باوجود واقعات میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی۔‘معدنیات کی برآمد کا کام کرنے والے ایک تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’بلوچستان میں مال بردار ٹرکوں پر حملوں کی وجہ سے نہ صرف سپلائی متاثر ہوئی ہے بلکہ کرایوں اور اخراجات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’بیشتر ٹرک مالکان اب معدنیات بلوچستان سے کراچی لانے پر تیار نہیں اور جو لاتے ہیں وہ بہت زیادہ کرایہ مانگتے ہیں۔‘’سکیورٹی صورت حال ہمارے کاروبار پر بُری طرح اثر انداز ہو رہی ہے، حکومت کو قومی شاہراہوں پر اپنی رٹ برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔‘