اولڈ سٹی کراچی کے مکینوں کو بے گھر ہونے کا خدشہ، ’ہم جائیں تو کہاں جائیں؟‘

اردو نیوز  |  Jul 26, 2025

کراچی کے ضلع جنوبی میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی کارروائیوں نے یہاں کے رہائشیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ روشنیوں کے شہر کے قدیم علاقے کے رہائشی ان دنوں ایک نئے بحران سے دوچار ہیں۔ 

یہ وہ علاقہ ہے جہاں کی گلیاں، چھوٹی چھوٹی دکانیں اور پرانی عمارتیں کئی نسلوں کی یادیں اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔

محمد فراز گذشتہ 42 سال سے اولڈ سٹی ایریا میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ مقیم ہیں۔ ان کی آنکھوں میں اب صرف سوال ہیں کہ ’کل تک سب ٹھیک تھا، اور آج ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ہمارا گھر ’مخدوش‘ ہے اور ہم تین دن میں اسے خالی کریں۔ آخر ہم جائیں کہاں؟‘

انہوں نے بتایا کہ ’علاقے میں کئی عمارتوں کو سیل کر دیا گیا ہے، کچھ کو نوٹس ملے ہیں، لیکن کوئی نہیں بتا رہا کہ متبادل کیا ہوگا؟ کیا حکومت ہمیں کوئی رہائشی جگہ دے گی؟ یا ہم خود ہی اپنی قسمت کا فیصلہ کریں؟‘

ان کا کہنا تھا کہ ساری عمر کی جمع پونجی اس گھر پر لگا دی تھی۔ یہ مکان ان کے والد نے خریدا تھا، اور آج اچانک ایک نوٹس کی وجہ سے یہ سب کچھ چھننے والا ہے۔

52 سالہ نعیم احمد کی کہانی بھی فراز سے کچھ مختلف نہیں۔ وہ کہتے ہیں ’ادارے والے آئے، نوٹس دیا اور چلے گئے۔ اب ہم کہاں جائیں؟ تین دن زندگی کو سمیٹنے کے لیے بہت کم ہوتے ہیں۔‘

ان کی بلڈنگ بظاہر ٹھیک ہے، کوئی بڑی دراڑ، یا جھکاؤ نظر نہیں آتا، لیکن پھر بھی اسے خطرناک قرار دے دیا گیا۔ نعیم احمد کا شکوہ ہے کہ ’کوئی کمیٹی نہیں، کوئی واضح پالیسی نہیں، بس اچانک آ کر خالی کرنے کا حکم دے دیا جاتا ہے۔‘

ان کے بچے اسی علاقے کے سکول میں پڑھتے ہیں، ان کا روزگار یہیں ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ ’کیا صرف عمارتوں کا جائزہ لینا کافی ہے؟ کیا انسانوں کی زندگی، جذبات اور معصوم بچوں کے خوابوں کی کوئی قیمت نہیں؟‘

ہمارے لیے انسانی زندگی اہم ہے

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ضلع جنوبی کے ڈائریکٹر آرکیٹیکٹ راشد علی ناریجو اس تمام صورت حال کو ایک انسانی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہماری اولین ترجیح انسانی جان ہے۔ لوگ خطرناک عمارتوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن یہ نہیں سوچتے کہ کل اگر عمارت گر گئی تو جانیں جائیں گی۔‘

ضلع جنوبی کے رہائشی اب پریشان ہیں کہ وہ کہاں جائیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی

ان کے مطابق لیاری میں حالیہ سانحہ اس بات کی دلیل ہے کہ فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’9 جولائی سے اب تک 62 عمارتوں کو خالی کرا کے سیل کیا جا چکا ہے، اور مزید عمارتیں بھی فہرست میں شامل ہیں۔ زیادہ تر عمارتیں قیام پاکستان سے بھی پہلے کی ہیں، جنہیں مکمل خالی کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘

لیکن سوال یہی ہے: متبادل کیا ہوگا؟

یہاں معاملہ صرف ’عمارت‘ کا نہیں، بلکہ ان لوگوں کی ’زندگی‘ کا ہے جو ان عمارتوں میں کئی دہائیوں سے آباد ہیں۔

یہ پرانی گلیاں، چھوٹی چھوٹی بالکونیاں، ان میں سوکھتے کپڑے، بچوں کی آوازیں، محلے کی رونق سب کچھ ان ہی دیواروں کے سائے میں زندہ تھا۔

اب جب ان عمارتوں کو خطرناک قرار دے کر خالی کرایا جا رہا ہے، تو رہائشی سوال کرتے ہیں کہ کیا حکومت نے متبادل کی کوئی پالیسی بنائی ہے؟ کیا ہمیں کیمپوں میں رکھا جائے گا؟ کیا عارضی رہائش دی جائے گی؟ کیا ہم کرایے کے گھر لے سکتے ہیں؟ اور اگر ہاں، تو اخراجات کون دے گا؟

راشد ناریجو کا کہنا ہے کہ ’حکومت ایک پالیسی پر کام کر رہی ہے۔ تین ماہ کا کرایہ دینے کی تجویز زیر غور ہے۔ پگڑی سسٹم اور آنرشپ کے مسائل کو بھی دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن ابھی تک سب کچھ ’زیر غور‘ ہے، کوئی بھی چیز حتمی نہیں ہے۔‘

عوام کی بے چینی

اس غیریقینی صورتحال نے پورے اولڈ سٹی ایریا میں خوف پھیلا دیا ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں سو نہیں پا رہے، ہر کسی کو ڈر ہے کہ کل اس کی عمارت پر بھی ’نوٹس‘ چسپاں ہو جائے گا۔

حکام کے مطابق اب تک 62 عمارتوں کو مخدوش قرار دے کر خالی کرایا جا چکا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ایک مقامی خاتون نے بتایا کہ ’میرے شوہر مزدور ہیں، دو بیٹیاں ہیں۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ تین دن میں گھر خالی کریں، لیکن ہمیں کوئی جگہ نہیں دی گئی۔ کیا ہم سڑک پر رہیں؟‘

حل کیا ہے؟

اولڈ سٹی ایریا کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک  مشکل سوال ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسی پالیسی ترتیب دے جس میں انسانی ہمدردی، شفافیت، اور منصوبہ بندی شامل ہو۔‘

’متبادل رہائش گاہوں کا بندوبست، کرائے کی ادائیگی اور پگڑی مکانات سمیت تمام مسائل فوری طور پر حل کیے جانے چاہییں۔ اگر عمارتیں واقعی خطرناک ہیں تو یقینا انہیں خالی کرانا ضروری ہے، لیکن اس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے شہریوں کی ضروریات کو بھی مدِنظر رکھا جائے۔‘

کراچی کا یہ پرانا علاقہ صرف اینٹوں اور پتھروں سے نہیں بنا، بلکہ یہ صدیوں پرانی تہذیب، ثقافت، اور لوگوں کی محنت کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ اسے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ترقی، تحفظ اور انسانی وقار ان تینوں کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ ورنہ ’مخدوش عمارتیں‘ گرانے کے ساتھ ہم ایک پوری تہذیب، ایک پوری شناخت اور ان گنت خوابوں کو بھی مسمار کر دیں گے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More