ضلع باجوڑ میں مقامی جرگہ اور عسکریت پسندوں کے درمیان جاری 10روزہ مذاکرات مکمل طور پر ناکام ہوگئے، جس کے بعد صوبائی حکومت نے دہشتگردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کر لیا ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کو باجوڑ کی تازہ صورتحال پر پولیس اور متعلقہ سکیورٹی حکام کی جانب سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ عسکریت پسندوں کے مطالبات ناقابلِ قبول ہیں جبکہ علاقے میں دہشتگردوں کی سرگرمیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ حکام کے مطابق اس وقت باجوڑ کے تقریبا 20فیصد حصے میں دہشتگردوں کی فعال موجودگی ہے، جن میں سے 60 فیصد کا تعلق افغانستان سے ہے، جن کا مقصد باجوڑ کے راستے مہمند اور ملاکنڈ میں دوبارہ منظم ہونا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند جنہیں ریاستی ادارے خوارج قرار دے رہے ہیں مقامی آبادی کے درمیان چھپ کر کارروائیاں کر رہے ہیں جس سے سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں مزید پیچیدہ ہوگئی ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر حکومت اور سکیورٹی اداروں نے قبائلی عمائدین کے سامنے تین نکات پر مشتمل متبادل حکمت عملی رکھی ہے۔ مقامی قبائل ان خارجیوں خاص طور پر افغان عناصر کو خود علاقہ بدر کریں، اگر ممکن نہ ہو تو ایک یا دو دن کے لیے علاقے کو خالی کر دیں تاکہ سکیورٹی فورسز ٹارگٹڈ آپریشن کر سکیں۔ اگر یہ دونوں اقدامات ممکن نہ ہوں تو کارروائی ہر صورت کی جائے گی، تاہم حتی الامکان شہری نقصانات سے گریز کیا جائے گا۔
سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان عسکریت پسندوں یا ان کے سہولت کاروں سے ریاستی سطح پر کسی قسم کی بات چیت ممکن نہیں جب تک وہ مکمل طور پر ریاست کے سامنے سر تسلیم خم نہ کر دیں۔ قبائلی جرگہ کو ایک آخری عوامی کوشش قرار دیا گیا تاکہ آپریشن سے قبل مقامی لوگوں کے تحفظ کو ممکن بنایا جاسکے۔
حکام نے واضح کیا ہے کہ باجوڑ کی صورتحال میں وفاقی حکومت کا کردار بھی ناگزیر ہے، اور اس معاملے میں مرکزی سطح پر رابطے تیز کر دیے گئے ہیں۔ باجوڑ کی تحصیل ماموند میں کشیدگی اور دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کے باعث مقامی آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کاسلسلہ جاری ہے۔
امدادی رضاکاروں کے مطابق ضلع سے اب تک پانچ سو سے زائد خاندان رجسٹر ہوچکے ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں متاثرین بغیر رجسٹریشن کے کیمپوں سے روانہ ہوچکے ہیں۔