نیپال میں بدھ کے روز نوجوانوں کی قیادت میں بدعنوانی کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں ہلاک ہونے والے 73 افراد کی یاد میں یوم سوگ کے موقع پر سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یوم سوگ ان 73 افراد کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے منایا گیا جو نوجوانوں کی قیادت میں ہونے والے کرپشن کے خلاف مظاہروں کے دوران مارے گئے تھے۔وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ عبوری حکومت نے ان افراد کی یاد میں یومِ سوگ منانے کا اعلان کیا ’جنہوں نے مظاہروں کے دوران اپنی جانیں قربان کیں۔‘
یہ مظاہرے 8 ستمبر کو شروع ہوئے، جب حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی لگائی، لیکن اصل اشتعال بدعنوانی اور طویل معاشی مسائل پر تھا۔
احتجاج کے پہلے ہی دن کریک ڈاؤن میں کم از کم 19 مارے گئے۔ان ہلاکتوں پر عوامی غم و غصہ مزید بھڑک اٹھا، جس کے بعد ملک بھر میں شدید ردِ عمل دیکھنے میں آیا۔ عوام نے سرکاری دفاتر، ایک ہلٹین ہوٹل اور دیگر عمارتوں کو نذر آتش کر دیا۔مظاہروں میں سرگرم ایک اہم تنظیم ’ہامی نیپال‘ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’ہم جو تبدیلیاں آج دیکھ رہے ہیں، وہ ان لوگوں کی ہمت اور قربانی کے بغیر ممکن نہ تھیں، جنہوں نے مظاہروں کے دوران اپنی جانیں دیں۔‘نیپال کی نئی عبوری حکومت 73 سالہ سابق چیف جسٹس وزیراعظم سشیلہ کارکی کو سونپا گیا ہے تاکہ وہ ملک میں نظم و ضبط بحال کریں اور مظاہرین کے بدعنوانی سے پاک مستقبل کے مطالبات پر عمل کریں، جبکہ آئندہ چھ ماہ میں انتخابات ہونے ہیں۔سشیلہ کارکی نے مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والوں کو ’شہید‘ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ان کی آخری رسومات ریاستی اعزازات کے ساتھ ادا کی جائیں گی۔پوجا شریسٹھا نامی 22 سالہ دکاندار نے کہا کہ ’سوگ کا دن لوگوں کو یکجا کرے گا۔ سب کو اس پر افسوس ہے کہ کیا ہوا، زندگیاں ضائع ہو گئیں، وہ سب بھی ہماری ہی عمر کے نوجوان تھے۔‘احتجاج کے پہلے ہی دن کریک ڈاؤن میں کم از کم 19 مارے گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے مزید کہا کہ ’اب حالات بہتر ہو چکے ہیں، اور ہمیں امید ہے کہ نئی حکومت وہ تبدیلیاں لائے گی جن کی ہمیں ضرورت ہے۔‘عالمی بینک کے مطابق، نیپال میں 15 سے 24 سال کی عمر کے ہر پانچ میں سے ایک نوجوان بے روزگار ہے، جب کہ فی کس آمدنی صرف 1,447 امریکی ڈالر ہے۔اگرچہ مظاہروں کے بعد سڑکیں دوبارہ معمول کے مطابق مصروف ہو گئی ہیں، لیکن بدھ کو عوامی تعطیل ہونے کی وجہ سے کچھ سناٹا چھایا رہا۔