Getty Images’یہ 22 خاندان آنے والے وقت میں پاکستانی عوام کے ذہنوں میں امیر ترین طبقے کی علامت بن گئے‘
تقریباً چھ دہائیاں قبل پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے ایک تقریر میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کی 66 فیصد صنعتوں اور بینکاری و انشورنس نظام کے 87 فیصد کے مالک 22 امیر ترین خاندان ہیں۔
پلاننگ کمیشن سے بطور چیف اکانومسٹ منسلک ڈاکٹر محبوب الحق نے اگرچہ اس وقت اِن خاندانوں کی نام لے کر نشاندہی نہیں کی تھی اور اشارہ دیا تھا کہ ’22‘ کی تعداد دراصل ایک علامتی حیثیت رکھتی ہے، یعنی دولت کے ارتکاز کے اُس پورے عمل کی نمائندگی کرتی ہے جس کے تحت دولت چند ہاتھوں میں سمٹتی جا رہی تھی۔
مگر یہ 22 خاندان آنے والے وقت میں پاکستانی عوام کے ذہنوں میں امیر ترین طبقے کی علامت بن گئے اور پھر عرصہ دراز تک پاکستان میں عوامی یا سیاسی سطح پر جب بھی دولت کے چند ہاتھوں تک محدود ہونے کی بات ہوئی تو ان کا حوالہ ہی سامنے آیا۔
محبوب الحق کی اس تقریر کے پس منظر میں محققین نے اپنے تیئں ان 22 خاندانوں کی نشاندہی کی کوشش بھی کی۔
تجزیہ کار اکرام سہگل کے ایک مضمون کے مطابق، اُن کے بیان کردہ 22 امیر ترین خاندان داؤد گروپ، سہگل، آدم جی، کولونی، فینسی، ولیکا، جلیل، باوانی، کریسنٹ گروپ، وزیر علی گروپ، گندھارا گروپ، اصفہانی، حبیب ہاؤس، خیبر گروپ، نشاط گروپ، بیکو گروپ، گل احمد گروپ، اَراگ گروپ، حفیظ گروپ، کریم گروپ، مل والا اور دادا گروپ تھے۔
اسی طرح ایل جے وائٹ کی سنہ 1974 میں شائع ہونے والی کتاب ’انڈسٹریل کنسنٹریشن اینڈ اکنامک پاور اِن پاکستان‘ میں اوپر بیان کردہ خاندانوں کی ہی تفصیل دی گئی ہے جنھیں پاکستان کی معیشت پر غیرمعمولی اثر و رسوخ حاصل تھا۔
اسی موضوع پر محقق اے آر شبلیکی کتاب کا نام تو ’22 خانوادے‘ ہے مگر اِس میں پاکستان کے 30 بڑے کاروباری خاندانوں کا بیان ہے۔ شبلی اِن 30 خاندانوں کے نام احمد داؤد، آدم جی، باوانی، سہگل، امیر علی فینسی، رنگون والا، اصفہانی، نصیر اے شیخ، قاسم دادا، خٹک فیملی، حبیب، میاں محمد امین محمد بشیر، ولیکا، سید واجد علی شاہ، رستم کاوَس جی، ہارون، سی ایم لطیف، رانا خداداد، ریاض خالد، نون، ہوتی ، حاجی دوسا، حاجی دوست محمد، حاجی اے کریم، منوں خاندان، حئی سنز، ظفر الاحسن، مولا بخش، تاجی محمد خانزادہ اور فقیر فیملی بتاتے ہیں۔
خدیجہ حق کی مرتب کردہ کتاب ’اکنامک گروتھ ود سوشل جسٹس: کولیکٹڈ رائٹنگز آف محبوب الحق‘ میں شامل ایک باب میں محبوب الحق نے اپنے 1968 کے بیانپر دوبارہ روشنی ڈالی۔ اس تحریر میں محبوب الحق وضاحت کرتے ہیں کہ ’22 خاندانوں کا نعرہ‘ بہت زیادہ لفظی معنوں میں لے لیا گیا جبکہ اُن کے نزدیک یہ خاندان سبب نہیں بلکہ اُس نظام کی علامت تھے جس نے انھیں پیدا کیا۔
اسی طرح 22 مارچ 1973 کو برطانوی اخبار ’دیٹائمز‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں ڈاکٹر محبوب الحق نے لکھا کہ اب ایک افسانہ سا پھیل گیا ہے کہ پاکستان کی ساری دولت انھی 22 خاندانوں کی ملکیت ہے، جو بالکل درست نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’22 خاندانوں‘ کا نعرہ پاکستان میں حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر لیا گیا ہے اور بعض اوقات یہ نعرہ چند مخصوص صنعت کاروں کے خلاف کارروائی کے لیے ایک آسان بہانہ بن گیا ہے، بجائے اس کے کہ معاشی، سماجی اور سیاسی اداروں کی اصلاح کی جاتی۔۔۔ پاکستان اپنی مشکلات کی جڑوں کو پہچانے، صرف ان کی علامتوں کو نہیں۔
تاہم پاکستان کی تاریخ میں ان مبینہ طور پر 20، 22 یا 30 امیر ترین خاندانوں کا تذکرہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے اور تاحال موجود ہے۔
حال ہی میں پاکستان کے ایک نجی تھنک ٹینک نے اپنی ایک تحقیق شائع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں 35 ایسے خاندان یا کاروباری ادارے ہیں، جو بلین ڈالر (یعنی ایک ارب ڈالر) کی فہرست میں شامل ہیں یا بہت جلد شامل ہو سکتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان 35 خاندانوں یا کاروباری اداروں میں صرف پانچ خاندان وہ ہیں جو گذشتہ دہائیوں میں سامنے آنے والی مبینہ امیر ترین خاندانوں کی فہرست میں شامل تھے۔
تو سوال یہ ہے کہ باقی کے امیر ترین خاندان کہاں گئے؟ اور سوال یہ بھی ہے کہ نجی تھنک ٹینک اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ (ای پی بی ڈی) کی فہرست میں کون سے نئے نام اور کاروباری ادارے شامل کیے گئے ہیں؟
مگر ان سوالوں کا جواب جاننے سے قبل یہ پڑھ لیتے ہیں کہ نجی تھنک ٹینک ’ای پی بی ڈی‘ نے پاکستان کے امیر ترین کاروباری خاندانوں اور شخصیات کا تعیّن کیسے کیا ہے؟
35 ارب پتی خاندانوں اور اداروں کا تعیّن کیسے کیا گیا؟Getty Images
واضح رہے کہ پاکستان میں سرکاری یا غیر سرکاری طور پر ایسے اعداد و شمار موجود نہیں جن کی مدد سے باآسانی یہ جانا جا سکے کہ پاکستان میں سب سے امیر ترین خاندان یا کاروباری گروپ کون سے ہیں۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے مطابق پاکستان ہر سال 9.4 کھرب روپے کی آمدنی کرتا ہے لیکن ملک کی 50 فیصد سے زیادہ معیشت دستاویزی حالت میں نہیں ہے، یعنی سادہ الفاظ میں 50 فیصدی معیشت کے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ پاکستان میں یہی حال زمین کی ملکیت اور نجی کاروباروں کی تفصیلات کا بھی ہے۔
ماضی میں امیر ترین خاندانوں سے متعلق جو فہرستیں سامنے آتی رہی ہیں محققین کی ذاتی کاوشوں اور تعلقات کی مرہون منت تھیں۔ پچھلے چند برسوں میں کچھ اور لوگوں نے یہی کام کرنے کی کوشش کی جن میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کے چیئرمین ڈاکٹر ندیم الحق بھی شامل ہیں۔
پائیڈ کی تحقیق کے دوران پاکستان سٹاک ایکسچینج کا ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے ملکی سرمایہ کاری میں سب سے بڑے حصہ داروں کا حساب لگایا گیا اور اس میں کمپنیوں کی سالانہ رپورٹس، شیئر ہولڈنگ اور کراچی سٹاک ایکسچینج ہنڈرڈ انڈیکس کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
پائیڈ کی رپورٹ میں تحقیقی طریقہ کار کو تفصیل سے بیان بھی کیا گیا تھا۔ اگرچہ ای پی بی ڈی کی حالیہ رپورٹ میں تحقیقی طریقہ کار کے بارے میں زیادہ تفصیل فراہم نہیں کی گئی تاہم رپورٹ کو پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں استعمال ہونے والا زیادہ تر ڈیٹا سٹاک ایکسچینج سے لیا گیا ہے اور اضافی طور کچھ خفیہ معلومات کی بنیاد پر ایسے افراد کو بھی فہرست میں شامل کیا گیا جن کے کاروبار سٹاک ایکسچینج پر موجود نہیں۔
ای پی بی ڈی نے اپنی رپورٹ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے جس میں پہلے حصے میں 20 ایسے کاروباری گروپ شامل ہیں جن کے پاس سب سے زیادہ پیسہ یا سرمایہ ہے۔ دوسرے حصے میں 20 ایسے گروپ یا خاندان ہیں جو ممکنہ یعنی پراسپیکٹیو ڈالر ارب پتی کیٹگری میں آتے ہیں۔
اس فہرست میں کچھ ایسی کمپنیاں بھی ہیں جو کسی خاندان یا گروپ کی ملکیت میں نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر پہلے نمبر پر فوجی فاونڈیشن ہے۔ ’دی پرافٹ‘ میگزین کی جانب سے 2024 میں فوجی فاونڈیشن کے سی ای او کا انٹرویو کیا گیا جس کے مطابق فوجی فاؤنڈیشن ایک فلاحی ادارہ ہے جو مختلف کمپنیاں چلاتا ہے اور اُن کے منافع سے ’شہدا‘ اور اُن کے خاندانوں کی فلاح و بہبود کا کام کیا جاتا ہے۔ اُن کے مطابق اس ادارے کا کوئی مالک نہیں اور نہ ہی اس کا کسی گروپ سے تعلق ہے۔
اسی طرح اس فہرست میں یونی لیور اور برٹش ٹوبیکو نامی دو ملٹی نیشنل یا کثیر القومی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فہرست میں شامل میزان بینک کی ملکیت ایک کویتی ہولڈنگ کمپنی کے پاس ہے جبکہ حبیب بینک لمیٹڈ یعنی ایچ بی ایل آغا خان فنڈ فار اکنامک ڈویلپمنٹ کی ملکیت ہے۔
ان پانچ کمپنیوں کو نکال کر پیچھے 35 خاندان یا گروپ رہ جاتے ہیں جو دو مختلف فہرستوں میں بٹے ہیں یعنی ایک وہ جو ممکنہ طور پر ارب پتی ہیں یا آئندہ کچھ عرصے میں ارب پتی بن سکتے ہیں۔
ای پی بی ڈی رپورٹ میں پبلک لسٹڈ کمپنیوں کی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن اور گروپ ایکویٹی ویلیو کا استعمال کیا گیا ہے۔ مارکیٹ کیپیٹلائزیشن کسی بھی کمپنی کی مالیت کا حساب لگانے کے لیے ایک آسان طریقہ ہے جس میں کمپنی کے تمام حصوں کی تعداد نکال کر ہر حصے کی قیمت سے ضرب دیتے ہیں۔ ایکویٹی ویلیو بھی ایسا ہی ایک حساب ہے لیکن اس میں کمپنی کے ذمہ واجب الادا قرض کو ویلیو میں سے نکال دیا جاتا ہے۔
فہرست کا دوسرا حصہ پیچیدہ ہے جس میں کچھ ایسے افراد ہیں جیسے جنگ گروپ کے میر شکیل الرحمان یا لیک سٹی کے مالک گوہر اعجاز جن کی کوئی پبلک لسٹڈ کمپنی نہیں، لیکن اس تحقیق نے اُن سے بات کر کے یا پھر اندازہ لگا کر ان کو ممکنہ ارب پتییوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
ای پی بی ڈی کی حالیہ رپورٹ میں کچھ نام تو جانے پہچانے ہیں اور ماضی کی امیر ترین خاندانوں کی فہرست میں موجود رہے ہیں۔
حبیب خاندان: جناح کی درخواست اور آٹھ کروڑ کا چیک
اس فہرست میں سب سے جانا پہچانا نام حبیب خاندان کا ہے، جو کہ بمبئی کا تجارتی خاندان تھا۔ حبیب گروپ کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق گجرات کے جام نگر کے اسماعیل علی، جنھوں نے بمبئی میں ایک برتنوں کے کارخانے سے کاروبار کا آغاز کیا تھا، کے بیٹے حبیب اسماعیل نے ہاؤس آف حبیب کی بنیاد رکھی تھی۔
ویب سائٹ کے مطابق کم عمری میں ہی والد کی وفات کے بعد حبیب کو اپنے انکل قاسم محمد، جو پیتل اور تانبے کے برتن بناتے تھے، کے ساتھ اُن کے کاروبار میں شامل ہونا پڑا جو کھوجا مٹھابائی ناتھو کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے اُن کا نام بھی سیٹھ حبیب مٹھا مشہور ہو گیا۔
ویب سائٹ کے مطابق 1912 میں حبیب خاندان ویانا اور جنیوا میں دفاتر کھول چکا تھا اور 1941 میں 25 ہزار روپے سے حبیب بینک لمیٹڈ بمبئی نے کام کرنا شروع کیا۔ اس گروپ کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان کے قیام کے بعد محمد علی جناح کی ذاتی درخواست پر حبیب بینک کو کراچی منتقل کیا گیا اور جب ریزرو بینک آف انڈیا نے پاکستان کے واجب الادا 90 کروڑ روپے ادا نہیں کیے تو حبیب خاندان کے محمد علی حبیب نے محمد علی جناح کو ایک خالی چیک تھما دیا جس پر بانی پاکستان نے آٹھ کروڑ روپے کی رقم لکھی۔
آج حبیب خاندان حبیب بینک لمیٹڈ کا مالک تو نہیں ہے جس کو بیچے ہوئے انھیں ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس کے باوجود ای پی بی ڈی رپورٹ میں حبیب خاندان کے دو نام نظر آتے ہیں جن میں سے پہلا ہاؤس آف حبیب کے مالک رفیق حبیب کا ہے، جن کے کاروباری گروپ میں حبیب میٹرو بینک بھی شامل ہے۔
ہاؤس آف حبیب کی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن 1.2 ارب ڈالر ہے۔ اُن کے علاوہ عباس حبیب، جو الحبیب بینک کے مالک ہیں، بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ اس بینک کی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن 743 ملین ڈالر ہے۔ ہاؤس آف حبیب کی ویب سائٹ کے مطابق الحبیب بینک، جس کی شروعات سنہ 1992 میں ہوئی تھی، کی دنیا بھر میں 600 سے زیادہ شاخیں ہیں اور اس کے سرمایے کا تخمینہ 750 ارب پاکستانی روپے ہے۔
داؤد خاندان
داؤد خاندان بھی حبیب خاندان کی طرح ایک پرانا نام ہے جس نے وقت کے ساتھ اپنا مقام نہیں کھویا۔ وہ اِس وقت اینگرو کارپوریشن کے مالک ہیں جس کی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن لگ بھگ 2.39ارب ڈالر ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سنہ 1968 میں یہ خاندان 22 امیر خاندانوں کی فہرست میں ایک جونیئر رُکن تھا۔ اُس وقت نہ تو اینگرو وجود رکھتی تھی اور نہ ہی داؤد خاندان کے کاروباری مفادات اتنے وسیع تھے جن میں اب خوراک سمیت توانائی اور کھاد وغیرہ کے کاروبار شامل ہیں۔
داؤد فاونڈیشن کی ویب سائٹ کے مطابق احمد داود نے کاروبار کا آغاز مسالوں کی تجارت سے شروع کیا لیکن جلد ہی کپڑے کا کام شروع کیا اور پھر مدراس میں ایک آئل مل جبکہ کلکتہ میں بناسپتی گھی کا پلانٹ لگایا۔ سنہ 1947 کے بعد داؤد خاندان نے اپنا کاروبار پاکستان منتقل کر لیا۔
پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک ’داؤد فیملی‘ کون ہے؟ وہ امیر مسلم ریاست جہاں کے شہری نہ تو انکم ٹیکس دیتے ہیں اور نہ ہی اس ملک پر کوئی قرضہ ہےدنیا کے 14 امیر ترین افراد کون ہیں اور ان کی دولت میں مسلسل اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟دنیا کے 10 ’امیر ترین خاندان‘ لیکن ان کے پاس اتنا پیسہ آیا کہاں سے؟
17 جنوری 1969 کو نیویارک ٹائمز نے اپنی اشاعت میں احمد داؤد فیملی کو پاکستان کا دوسرا سب سے امیر خاندان قرار دیا، جس کے اثاثوں کی مالیت اس وقت 200 ملین ڈالرز تھی۔ اُن کی ملکیت میں کاٹن، وولن، ٹیکسٹائل، یارن، کیمکلز، مائننگ، بینکنگ، انشورنس، پیپر اور فرٹیلائزر کے کارخانے تھے۔
سنہ 1971 میں بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہوا تو بہت سے دیگر کاروباری خاندانوں کی طرح داؤد خاندان کو بھی ایک جھٹکا لگا، جسے مڈل ایسٹ ریسرچ اینڈ انفارمیشن کی تحقیق کے مطابق کرنافلی پیپر مل، کیمیکل مل، داؤد جوٹ مل اور داؤد شپنگ سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ مصنف عثمان باٹلی والا لکھتے ہیں کہ اُن دنوں اُن کے نقصان کا تخمینہ 30 سے 35 کروڑ روپے لگایا گیا تھا۔
داؤد خاندان کو ایک اور جھٹکا اُس وقت لگا جب ذوالفقار علی بھٹو سوشلزم کے نعرے کے ساتھ برسرِ اقتدار آئے اور انھوں نے امیر خاندانوں کی نشاندہی کی اور متنبہ کیا کہ اِس وقت پاکستان کو سرمائے کی ضرورت ہے، لہذا یہ خاندان اپنا سرمایہ واپس لائیں ورنہ انھیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ بعد میں انھوں نے داؤد فیملی سمیت کئی خاندانوں کی املاک کو قومی تحویل میں لے لیا، یعنی انھیں نیشنلائز کر دیا۔ اس عرصے میں سیٹھ داؤد کو نظر بند کر دیا گیا اور جب وہ رہا ہوئے تو امریکہ چلے گئے۔
جب پاکستان میں جنرل ضیا الحق برسراقتدار آئے تو احمد داؤد واپس پاکستان آ گئے اور اُن کی صنعتوں اور سرمایہ کاری کا دوبارہ آغاز ہو گیا۔ خیال ہے کہ اُن کے جنرل ضیا الحق کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ سنہ 1997 میں داؤد خاندان نے اینگرو خرید لی جو امریکی کمپنی ایگزون نے 1977 میں شروع کی تھی۔
داؤد فاونڈیشن کے سربراہ اِس وقت احمد داؤد کے بیٹے حسین داؤد ہیں۔
پاکستان میں داؤد خاندان کا ایک اور معروف نام رزاق داؤد ہیں جو سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں مشیر تجارت رہے اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بھی وزارت تجارت کا قلمدان اُن کے پاس تھا۔
رزاق داؤد سلیمان داؤد کے بیٹے ہیں جو احمد داؤد کے بھائی تھے۔ رزاق داؤد ڈسکن انجینیئرنگ کمپنی کے مالک ہیں۔ دوسری جانب شہزادہ داؤد کے والد حسین داؤد اور اُن کا خاندان اینگرو کارپوریشن اور داؤد ہرکولیس کارپوریشن کے مالک ہیں۔ ٹائٹن حادثے میں ہلاک ہونے والے شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین تھے۔
نشاط گروپGetty Imagesمیاں منشا دو بینکوں کے مالک ہیں جن میں مسلم کمرشل بینک اور ایم سی بی اسلامک شامل ہیں
اس فہرست میں ایکنام نشاط گروپ کا بھی ہے جس کے سربراہ میاں منشا ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میاں منشا نے اُسی سال نشاط گروپ کی سربراہی سنبھالی تھی جس سال ڈاکٹر محبوب الحق نے پہلی مرتبہ 22 خاندانوں کا ذکر کیا تھا، یعنی 1968 میں۔
نشاط ملز کا مالک یہ گروپ اب متنوع کاروباری دلچسپیاں اور مفادات رکھتا ہے جس میں توانائی، بینکاری اور ٹیکسٹائل سمیت ہوٹلنگ وغیرہ بھی شامل ہیں۔
میاں منشا دو بینکوں کے مالک ہیں جن میں مسلم کمرشل بینک اور ایم سی بی اسلامک شامل ہیں۔ نشاط گروپ پاکستان میں نشاط موٹرز کا مالک بھی ہے جو کورین کمپنی ہونڈائی کی گاڑیاں اسمبل کرتا اور بیچتا ہے۔
سہگل خاندان
ویسے تو سہگل خاندان کی اہمیت سنہ 1968 کے مقابلے میں کم ہو چکی ہے تاہم اب بھی یہ ایک بڑا کاروباری گروپ ہے۔ اس خاندان کا بڑا کاروبار سیمنٹ بنانا ہے اور یہ کوہ نور مل ٹیکسٹائل اور میپل لیف سیمنٹ کے مالک بھی ہیں۔
سہگل خاندان کے سربراہ طارق سعید سہگل نے سنہ 2013 میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سنہ 1958 میں پنجاب کے سرمایہ کار اس بات سے تنگ تھے کہ انھیں کراچی کے سرمایہ کاروں کی طرح بینکوں سے باآسانی قرضہ نہیں ملتا اور اسی وجہ سے سہگل خاندان نے یونائیٹڈ بینک کی بنیاد رکھی جو یو بی ایل کی شکل میں آج بھی موجود ہے۔
سہگل خاندان کو بھی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں نیشنلائزیشن پالیسی سے نقصان اٹھانا پڑا جب یونائیٹد بینک اُن کے ہاتھ سے نکل گیا۔ آج سہگل خاندان کسی بینک کا مالک نہیں اور طارق سہگل نے اپنے اس انٹرویو میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ سنہ 2002 میں جب حکومت یو بی ایل بیچ رہی تھی تب انھوں نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔
آج یو بی ایل بیسٹ وے گروپ کی ملکیت میں ہے اور اس کی مارکیٹ کپیٹلائزیشن 4.53 ارب ڈالر ہے۔ میاں منشا کا سہگل خاندان سے تعلق رشتہ ازدواج کی وجہ سے ہے۔
سید بابر علی
امیر ترین خاندانوں کی ابتدائی فہرستوں میں سید واجد علی کے خاندان کا ذکر تھا جو سید بابر علی کے بڑے بھائی تھے۔ اس وقت سید واجد علی زیادہ اہم شخصیت تھے جنھیں کاروباری حلقوں میں جانا جاتا تھا۔
سید بابر علی اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ اُن کے والد سید مراتب علی ہندوستان کی تقسیم سے پہلے لاہور کے سب سے بڑے تاجر تھے اور ان کے پاس انگریز فوج کی کینٹینوں اور جوتے بنانے کا کام تھا۔
سید واجد علی کا خاندان آج تک ٹریٹ کارپوریشن کا مالک ہے جو بیٹریاں اور ریزر بلیڈ بناتے ہیں مگر سید بابر علی کا نام اب اُن سے آگے نکل چکا ہے کیوںکہ وہ پیکیجز گروپ کے مالک ہیں جس کے علاوہ اُن کے کئی اور کاروبار بھی ہیں۔
پاکستان میں نیسلے کی بنیاد بھی انھوں نے ہی رکھی تھی اور لاہور میں لمز یونیورسٹی کے بانی بھی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سید بابر علی کے خاندان کا تعلق ایک اور بہت بڑی اور مشہور پاکستانی کمپنی سے ہے جس کا نام مچلز ہے۔
ویسے تو مچلز کی بنیاد سنہ 1935 میں فرانسس مچلز نے رکھی لیکن تقسیم کے بعد انگریز سرمایہ کاروں کی بھی واپسی ہوئی اور سنہ 1953 میں فرانسس مچلز نے زمین سید مراتب علی کو بیچ دی جنھوں نے اسے اپنے داماد ایس ایم محسن کے نام کر دیا۔
یہ تمام تفصیلات 2008 میں شائع ہونے والی کتاب 'دی سٹوری آف مچلز' میں قلمبند ہیں جس کے مصنفین فرانسس مچلز کے بیٹے رابرٹ اور خود ایس ایم محسن ہیں۔ بعد میں ایس ایم محسن کے داماد نجم سیٹھی نے اس کمپنی کی کمان سنبھال لی۔
سقوط ڈھاکہ، بھٹو کی نیشنلائزیشن اور وراثتی تقسیم: ماضی کے امیر ترین باقی 17 خاندان کہاں گئے؟Getty Images’سقوط کے فوری بعد ذوالفقار علی بھٹو کے نیشنلائزیشن کے فیصلے نے 22 خاندانوں میں سے زیادہ تر کی کمر توڑ کر رکھ دی‘
گذشتہ دہائیوں میں سامنے آنے والے 22 خاندانوں میں سے پانچ کا ذکر تو ای پی بی ڈی کی حالیہ رپورٹ میں ہے مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ باقیکے 17 خاندان کہاں ہیں؟ اس سوال کا جواب ای پی بی ڈی کی رپورٹ میں نہیں ہے لیکن 2021 میں پائیڈ کی تحقیق سے علم ہوتا ہے کہ اگرچہ ان خاندانوں کا شمار امیر طبقے میں ہوتا ہے لیکن اب وہ پاکستانی معاشرے میں اتنے زیادہ اہم نہیں رہے۔
یاد رہے کہ ابتدائی طور پر 22 خاندانوں کی فہرست اس وقت بنی تھی جب مغربی اور مشرقی پاکستان اکھٹے تھے۔ پھر 1971 کے نتیجے میں بنگلہ دیش الگ ملک بن گیا اور ان 22 خاندانوں میں بہت سے ایسے تھے جن کے کارخانے ڈھاکہ اور چٹاگانگ میں موجود تھے۔
محمد صدیق بلوانی اپنی کتاب 'میں نے دیکھا سقوط ڈھاکہ' میں ان خاندانوں کا ذکر کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق تقسیم کے وقت کراچی میں بہت سی برادریاں ایسی تھیں جو کاروبار میں آگے نکل چکی تھیں جن میں کھوجا، بوہرا، میمن اور پارسی شامل تھے۔
اُن کے مطابق سنہ 1950 کے بعد اِن برادریوں نے مشرقی پاکستان میں کارخانے لگانے شروع کر دیے تھے۔ 'انٹرنیشنل جرنل آف ریسرچ اینڈ انوویوشن ان سوشل سائنسز' نامی میگزین میں اگست 2018 میں شائع ہونے والے ایک مقالے کے مطابق چٹاگانگ اور ڈھاکہ میں موجود کارخانوں کی اکثریت مغربی پاکستانی سرمایہ کاروں کی تھی اور سقوط سے انھیں بہت نقصان پہنچا۔
کتاب کے مطابق 16 خاندانوں بشمول داؤد، آدم جی، اصفہانی، عباس خلیلی زیادہ نقصان اٹھانے والوں میں سے تھے جن میں سے آدم جی کو چھ چائے کے باغات سمیت چھ کارخانوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور اس میں ایشیا کی سب سے بڑی جوٹ مل بھی شامل تھی۔ اٹلس گروپ کا موٹرسائیکل بنانے والا پلاںٹ بھی مشرقی پاکستان میں تھا۔
شاہد الرحمان کی کتاب کے مطابق بنگلہ دیش حکومت نے 206 انڈسٹریل یونٹ مقامی لوگوں کو دیے جن میں سے ہر ایک کی انفرادی مالیت تقریبا ایک کروڑ سے زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ سینکڑوں چھوٹے انڈسٹریل یونٹ بھی شامل تھے۔
شاہد الرحمان کی کتاب 'ہو اونز پاکستان' میں لکھا ہے کہ سقوط کے فوری بعد ذوالفقار علی بھٹو کے نیشنلائزیشن کے فیصلے نے 22 خاندانوں میں سے زیادہ تر کی کمر توڑ کر رکھ دی۔
سید رسول رضا اپنی کتاب ’ذوالفقار علی بھٹو: دی آرکیٹیکٹ آف پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ نیشنلائزیشن بڑے پیمانے پر شروع کی گئی جس کا پہلا قدم ملک کی 31 میگا کارپوریشنز کو حکومت کی ملکیت میں لانا تھا۔ سنہ 1992 میں نسیم سہگل نے انڈین اخبار بزنس ٹوڈے کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان میں بھی برلا اور ٹاٹا جیسے نام آج موجود ہوتے، اگر نیشنلائزیشن نہیں ہوتی۔
شاہد الرحمان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ نسیم سہگل نے ان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سہگل خاندان نے اپنے 70فیصد اثاثے بھٹو کی نیشلائزیشن میں کھو دیے۔
شاہد الرحمان کی کتاب میں ایسی 31 انڈسٹریز کا ذکر ہے جنھیں بھٹو دور حکومت میں قومیا لیا گیا تھا۔ اِن میں جعفر خاندان کی علی آٹو موبائلز، پاکستان فرٹیلائزر کارپوریشن اور جعفر سٹیل ورکس وغیرہ شامل تھے۔ یاد رہے کہ جعفر خاندان نے فینسی خاندان کے ساتھ مل کر کراچی الیکٹرک بھی خرید رکھا تھا جسے بھٹو حکومت نے نیشنلائزیشن میں قومیا لیا۔ فینسی خاندان سٹیل کارپوریشن آف پاکستان، کراچی گیس اور کامرس بینک لمیٹڈ سمیت نیو جوبلی انشورنس کا بھی مالک تھا، جو نیشنلائزیشن کی زد میں آئے۔
اسی طرح کالونی خاندان کے تین مختلف سیمنٹ یونٹس قومیا لیے گئے اور اُن سے ملتان الیکٹرک کمپنی اور آسٹریلیشیا بینک کی ملکیت بھی لے لی گئی جبکہ ولیکا خاندان ولیکا سیمنٹ اور یونائیٹڈ انشورنس سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
کریسنٹ گروپ، آدم جیز، بیبو جیز اور حئی سنز کی بھی ایسی ہی کہانی ہے۔ اُن کے کاروبار میں تنوع کم تھا جس کی وجہ سے چند کمپنیاں قومیائے جانے سے ہی اُن کا کافی نقصان ہوا۔
ہم نے اوپر ان پانچ خاندانوں کا تذکرہ کیا ہے جو نیشنلائیزیشن کے دھچکے سے نکلنے میں کامیاب ہوئے لیکن باقی 17 کو پہلے سقوط ڈھاکہ اور پھر بھٹو کی پالیسی نے ایسا نقصان پہنچایا جس سے وہ نکل نہیں پائے۔
شاہد الرحمان کے مطابق ’کئی بڑی شخصیات جیسے رنگون والا، ہارون، جعفر، سہگلز نے پاکستان چھوڑ دیا۔۔۔ کچھ نے ہمیشہ کے لیے۔‘ گل احمد، آدم جی، بوانی، دادا بھائی اور داداز اگلے 25 سال تک ایک بھی بڑا صنعتی منصوبہ شروع نہ کر سکے۔
فینسی گروپ کے اراکین نے اپنے باقی ماندہ اثاثہ جات فروخت کر دیے جیسے کوٹری ٹیکسٹائل ملز، نیو جوبلی انشورنس اور پاکستان کریڈٹ اور انوسٹمنٹ کارپوریشن میں حصہ داری جو صدر الدین ہاشوانی نے خرید لی۔ فینسی گروپ نے پچھلی دو دہائیوں کے دوران جو ایک واحد بڑا پراجیکٹ لگایا وہ ایک بسکٹ فیکٹری تھی۔
ولیکا سٹیل ایک بڑا یونٹ تھا جو بعد میں دیوالیہ ہونے کے قریب جا پہنچا لیکن پھر اسے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کے حوالے کر دیا گیا۔
شاہد الرحمان کی کتاب میں اس بات کا تذکرہ بھی موجود ہے کہ ان خاندانوں کی قدر کم ہونے میں وراثتی تقسیم کا بھی حصہ تھا۔ اُن کے مطابق پاکستان کے بڑے کاروباری خاندان مل کر چل رہے تھے مگر بھٹو کی حکومت کے دوران انھوں نے بٹوارے کر دیے۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ کاروبار بانٹ کر چھوٹا ہو جائے اور حکومت اس پر دعوی نہ کر سکے۔ کچھ خاندان اس بٹوارے میں سے نکل کر اپنے پیروں پر پھر کھڑے ہوئے مگر چند کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔
ان نقصانات کے علاوہ ان خاندانوں کے آپس کے تنازعات بھی سامنے آتے رہے۔ آدم جی خاندان کی مثال دیکھیں جو ڈاکٹر محبوب الحق کی فہرست میں تیسرے نمبر پر تھے۔ سنہ2004تک بھی یہ خاندان پاکستان کے امیر خاندانوں میں شمار ہوتا تھا جو آدم جی انشورنس کا مالک تھا۔ اسی سال اُن کا کاروبار سٹاک ایکسچینج میں ہوسٹائل ٹیک اوور کا شکار ہوا۔
سنہ 2004 کی ایک رپورٹ کے مطابق میاں منشا کا بینک، ایم سی بی، آدم جی انشورنس میں 29.5 فیصد حصہ رکھتا تھا اور نو فیصد حصہ میاں منشا اپنے ملازمین کی پنشن اور پراویڈنٹ فنڈ کے ذریعے کنٹرول کرتے تھے۔
رپورٹ کے مطابق میاں منشا نے آدم جی کے آٹھ فیصد شیئرز خریدے اور باقی پانچ فیصد چھوٹے حصہ داروں کی حمایت حاصل کرنے کے بعد بورڈ کے الیکشن میں میاں منشا گروپ نے نو میں سے چھ سیٹیں حاصل کر لیں۔ آدم جی خاندان، جن کا نام کمپنی کا نام تھا، اب تین سیٹوں کا مالک رہ گیا تھا اور یوں یہ خاندان امیر خاندانوں کی فہرست سے نکل گیا۔
نئے ارب پتی کون ہیں؟
اب بات رہ جاتی ہے ای پی بی ڈی کی فہرست میں کون کون سے نئے خاندانوں یا ناموں نے اپنی جگہ بنائی ہے۔ ان میں کافی ایسے نام ہیں جو امیر ترین خاندانوں کی ابتدائی فہرستوں میں تو شامل نہیں تھے لیکن پھر بھی بہت عرصہ سے کاروباری دنیا کا حصہ ہیں۔
مثال کے طور پر شیرازی گروپ جس کے بانی یوسف شیرازی نے پاکستان میں ہونڈا اٹلس موٹرز کی بنیاد رکھی۔
اس گروپ کو بھی سنہ 1971 میں دھچکہ پہنچا تھا جس کا موٹر سائیکل بنانے والا کارخانہ مشرقی پاکستان میں تھا۔ شاہد الرحمان کی کتاب کے مطابق یوسف شیرازی نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ اس دھچکے نے انھیں راتوں رات مفلس بنا دیا تھا اور وہ ایک بنگلے سے فلیٹ میں منتقل ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔
لیکن آج شیرازی گروپ کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن 774 ملین ڈالر ہے اور اٹلس گروپ کی ویب سائٹ کے مطابق انجینیئرنگ، پاور جنریشن، ٹریڈنگ سمیت گروپ کی 16 کمپنیاں ہیں جس کی سالانہ سیلز دو ارب ڈالر کے قریب ہیں۔
اسی طرح لیکسن گروپ ہے جو سنہ 1954 میں ایک کمپنی سے شروع ہوا تھا جس نے تمباکو کے کاروبار میں نام بنایا۔ ای پی بی ڈی کی رپورٹ کے مطابق لیکسن گروپ کی مارکیٹ کپیٹلائزیشن 1.2 ارب ڈالر ہے اور ان کے کاروباری مفادات میں فلائی جناح نامی ایئر لائن، پاکستان میں میکڈونلڈز فاسٹ فوڈ چین اور کولگیٹ پالمولیو وغیرہ شامل ہیں۔
الائیڈ بینک ابراہیم گروپ کی ملکیت میں ہے۔ اس خاندان کی کاروباری سرگرمیاں سنہ 1986 میں ایک ٹیکسٹائل مل سے شروع ہوئی تھیں جس کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن آج 1.12 ارب ڈالر ہے۔
بینکاری کی دنیا کا ایک اور نام جہانگیر صدیقی کا بھی ہے جو جے ایس گروپ کے مالک ہیں۔ جے ایس بینک کے علاوہ اُن کے گروپ میں جے ایس ایسٹ مینیجمنٹ کمپنی بھی آتی ہے۔ ای پی بی ڈی کی فہرست میں عارف حبیب ایک اور ایسی شخصیت ہیں جنھوں نے اپنے پیسے فنانشل مینیجمنٹ کے کاروبار میں بنائے۔ عارف حبیب گروپ کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن 1.8 ارب ڈالر ہے۔ اس گروپ نے ایک بینک بھی خریدا تھا جس کا نام عارف حبیب بینک تھا۔ بعد میں اسے بیچ دیا گیا اور یہ سمٹ بینک بن گیا۔ اب یہ بینک المکرمہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بینکاری اور فنانس کی دنیا سے باہر ای پی بی ڈی کی فہرست میں دو ایسے نام ہیں جن کے کاروبار کا بڑا حصہ سیمنٹ ہے۔ ان میں سے ایک تو سہگل ہیں جبکہ دوسرا بڑا نام لکی گروپ ہے جس کی کیپٹلائزیشن تقریبا تین ارب ڈالر ہے۔
ایک اور بڑا کاروباری نام فاطمہ گروپ کا بھی ہے جس کی بنیاد 1963 میں رکھی گئی تھی۔ اس گروپ کے اثاثے تقریبا 1.8 ارب ڈالر مالیت کے ہیں۔ یہ فاطمہ فرٹیلائزر کا مالک ہے۔ ان کے اور کاروبار بھی ہیں جن میں فضل کلاتھ، فاطمہ انرجی اور فاطمہ گوبی وینچر شامل ہیں۔
Getty Imagesاسماعیل انڈسٹریز سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے خاندان کی کمپنی ہےنئے شعبوں کا عروج؟
ابھی تک جن کمپنیوں کی بات ہوئی ان میں سے زیادہ تر روایتی کاروبار تھے جیسا کہ بینکاری، ٹیکسٹائل، کیمیکل وغیرہ۔ ای پی بی ڈی کی دوسری فہرست میں 20 ایسے گروپ ہیں جن میں سے زیادہ کی نہ تو سالانہ رپورٹس دستیاب ہیں اور نہ ہی ان کی کمپنیاں پبلک لسٹڈ ہیں۔ تاہم چند کے بارے میں معلومات دستیاب ہیں۔
ایک اہم نام سسٹمز لمیٹڈ کا ہے جو سنہ 1977 میں اعزاز حسین نے قائم کی تھی۔ ای پی بی ڈی کی رپورٹ کے مطابق سسٹمز لمیٹڈ 1990 میں پاکستان کا پہلا سافٹ ویئر ہاؤس بنا جس نے امریکی ریاست نیو جرسی میں کاروباری سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کیا۔
سنہ 2014 میں سسٹمز کمپنی نے اپنا پہلا آئی پی او پیش کیا تھا اور اگلے پانچ سال میں کمپنی کی مارکیٹ ویلیوایشن سو ارب روپے سے تجاوز کر چکی تھی۔ اس وقت اس کی مارکیٹ کپیٹلائزیشن 736 ملین ڈالر ہے۔ یہ واحد پاکستانی آئی ٹی کمپنی ہے جو بلین ڈالر تک پہنچنے کا امکان رکھتی ہے۔
ایک اور دلچسپ نام اسماعیل انڈسٹریز کا بھی ہے جو سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے خاندان کی کمپنی ہے۔ ٹافیاں اور کھانے پینے کی اشیا بنانے والے کینڈی لینڈ برانڈ کے لیے شہرت رکھنے والی کمپنی کیمیکلز کا کام بھی کرتی ہے اور بینک آف خیبر کی مالک بھی ہے۔ یہ اس فہرست میں شامل واحد کمپنی ہے جس کا کام فاسٹ موونگ کنزیومر گوڈز کی کیٹگری میں آتا ہے۔
بشیر جان محمد ڈالڈا کے مالک ہیں جنھوں نے ایک کمپنی میں بطور اکاوئنٹنٹ کام شروع کیا تھا۔ ای پی بی ڈی کی رپورٹ کے مطابق 1980 میں انھوں نے محدود وسائل کے ساتھ اس کاروبار میں قدم رکھا تھا لیکن پھر انھیں ملائشیا کے ایک گروپ سے سرمایہ کاری ملی جس کے بعد انھوں نے پورٹ قاسم پر ڈھائی لاکھ ٹن کی سٹوریج بنائی اور آج ان کے پاس خوردنی تیل کا سب سے بڑا کارخانہ ہے۔
سنہ 1980 سے 2004 تک وہ پاکستان میں خوردنی تیل کے سب سے بڑے تاجر بن چکے تھے۔ اُسی سال، سنہ 2004 میں، انھوں نے یونی لیور سے ڈالڈا برانڈ خرید لیا تھا۔
Getty Imagesگوہر اعجاز اور علیم خان زمینوں کی خرید و فروخت اور تعمیراتی شعبے سے منسلک جبکہ جہانگیر ترین جمال دین والی شوگر ملز کے مالک ہیں جو پاکستان میں چینی بنانے والے سب سے بڑے کارخانوں میں سے ایک ہےریئل سٹیٹ
زمینوں کی خرید و فروخت اور تعمیراتی شعبے سے منسلک دو نام بھی اِس فہرست میں شامل ہیں۔ پہلا نام گوہر اعجاز کا ہے جو بنیادی طور پر تو ٹیکسٹائل شعبے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن پچھلی ایک دہائی میں انھوں نے ریئل سٹیٹ کا کاروبار بھی کیا۔
سنہ 2024 میں گوہر اعجاز نگران وفاقی وزیر بھی بنے تھے اور یہ ای پی بی ڈی کے بھی روح رواں ہیں جس کی رپورٹ کا یہاں تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق لیک سٹی نامی منصوبے سے گوہر اعجاز نے پیسہ کمایا جو لاہور میں رہائشی منصوبہ ہے۔ لیک سٹی2500ایکڑ پر پھیلا منصوبہ ہے جس کی مالیت ڈھائی ارب ڈالر بتائی گئی ہے۔
اسی شعبے سے وابستہ ایک اور نام علیم خان کا ہے جو خود بھی وفاقی وزیر ہیں اور پارک ویو سٹی نامی رہائشی منصوبے کے مالک ہیں۔ حالیہ دنوں میں یہ سوسائٹی سیلاب کی زد میں آئی جس کے بعد بہت سے لوگوں نے یہ نجی منصوبہ راوی دریا کے قریب بنانے پر اعتراض اٹھایا۔ علیم خان سما نیوز کے مالک بھی ہیں۔
حیران کن طور پر رئیل سٹیٹ شعبے کا ایک بڑا نام اس فہرست سے غائب ہے۔ یہ نام ہے بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض کا جنھوں نے اگست 2010 میں سی این این کے ایک پروگرام میں دعوی کیا تھا کہ ان کے اثاثوں کی مجموعی مالیت دو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ انھوں نے اس سے قبل اسی انٹرویو کے دوران دعوی کیا تھا کہ وہ اپنی75فیصد دولت سیلاب سے متاثرہ افراد کو عطیہ کرنا چاہتے ہیں جس پر رچرڈ کویسٹ نے پوچھا کہ 75 فیصد کتنا ہو گا؟ اس سوال پر ملک ریاض نے دو ارب ڈالر کا ہندسہ دیا تھا۔
تاہم ایک حکومتی انکوئری کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2010 میں ملک ریاض نے اپنی باضابطہ آمدن تقریبا تین کروڑ، 2011 میں ساڑھے تین کروڑ اور2012 میں تقریبا 750 کروڑ روپے بتائی تھی۔ ملک ریاض، جنھوں نے ایک وقت میں بطور کلرک نوکری کرنے کا دعوی بھی کیا، گذشتہ کچھ عرصے سے بیرون ملک مقیم ہیں جبکہ پاکستان میں اُن کے اور ان کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے خلاف متعدد الزامات کے تحت تحقیقات جاری ہیں۔ لگ بھگ تین مقدمات میں ملک ریاض کو اشتہاری قرار دیا گیا ہے جبکہ حال ہی میں نیب نے بحریہ ٹاؤن کی ملکیتی اربوں روپے مالیت کی چند جائیدادوں کی نیلامی کا انعقاد بھی کیا ہے۔
اسی فہرست میں ایک اور سابق سیاست دان جہانگیر ترین بھی شامل ہیں جو جمال دین والی شوگر ملز کے مالک ہیں جو پاکستان میں چینی بنانے والے سب سے بڑے کارخانوں میں سے ایک ہے۔ ترین خاندان کی رشتہ داریاں جنوبی پنجاب اور سندھ کے اہم ترین سیاسی خانوادوں سے ہیں۔ وہ رحیم یار خان کے مخدوموں کے داماد اور ملتان کے گیلانیوں اور سندھ کے پگاڑا کے سسرالی رشتہ دار ہیں۔ جہانگیر خان ترین کے کزن ہمایوں اختر خان اور ان کے برادر نسبتی مخدوم احمد محمود پہلے سے سیاست میں متحرک تھے۔
جے ڈی ڈبلیو گروپ کا کاروبار چینی کے علاوہ زراعت، توانائی کے شعبوں میں بھی ہے۔ ان کے بیٹے علی ترین آموں کے باغات سمیت پاکستان سپر لیگ کی فرنچائز ملتان سلطانز کے مالک بھی ہیں۔ خاندان پیپسی کو کے لیے بوتلیں بھی بناتا ہے۔
ریئل سٹیٹ کے علاوہ ٹیسکٹائل کی دنیا کا بڑا نام یو ایس اپیریل گروپ ہے جس کے مالک میاں احسن ہیں۔ یو ایس گروپ پانچ دہائیوں میں پاکستان کے سب سے متحرک گروپس میں سے ایک بن چکا ہے جس کی سالانہ آمدن 500ملین ڈالر سے زیادہ ہے اور اس کے ملازمین کی تعداد 25 ہزار سے زیادہ ہے۔
پچھلی ایک دہائی کے دوران اس گروپ نے تین ارب ڈالر سے زیادہ برآمدات کے ذریعے کمائی کی جس میں امریکہ اور یورپ جیسی منڈیاں شامل تھیں۔ سورتی خاندان بھی اس فہرست میں شامل ہے لیکن ان کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن کے بارے میں معلومات موجود نہیں۔
پاکستان کی معیشت پر لگا سوالیہ نشان
پاکستان کی ایک نامور کاروباری شخصیت، جن کا نام اس فہرست میں شامل ہے، نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ کی تحقیق میں پاکستان کے امیر طبقے کی کافی حد تک جانچ کی ہے تاہم اس طرح کی تمام کوششیں اعداد و شمار کی غیر موجودگی میں مکمل نہیں ہو سکتیں۔
اُن کے مطابق یہ فہرست اندازہ لگانے کے لیے تو اچھی ہے اور محدود وسائل میں کافی کچھ بتا گئی ہے لیکن اس کا معاملے کا مکمل جائزہ لینا ممکن نہیں ہے اور اسی لیے اس فہرست کو تسلیم کرنا مناسب نہیں ہو گا۔
یہ واقعی ایک سنگین مسئلہ ہے اور پاکستان کی معاشی تاریخ پر ایک سوالیہ نشان بھی کہ آج تک ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان کے سب سے امیر لوگ کون ہیں؟ ان کے نام کس ترتیب میں آتے ہیں اور ان کے پاس کتنی دولت اور کتنے اثاثے ہیں۔
اضافی رپورٹنگ: وقار مصطفیٰ
پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک ’داؤد فیملی‘ کون ہے؟ دنیا کے 14 امیر ترین افراد کون ہیں اور ان کی دولت میں مسلسل اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟شاہد خان تقریباً آٹھ ارب ڈالر کے ساتھ امریکہ کے 66ویں امیر ترین شخصدولت کی عظیم منتقلی جو نوجوانوں کو ’کچھ کیے بغیر‘ ارب پتی بنا رہی ہےوہ امیر مسلم ریاست جہاں کے شہری نہ تو انکم ٹیکس دیتے ہیں اور نہ ہی اس ملک پر کوئی قرضہ ہےدنیا کے 10 ’امیر ترین خاندان‘ لیکن ان کے پاس اتنا پیسہ آیا کہاں سے؟