مصری ’سال میں دو بار‘ امام حسین کی ولادت کا جشن کیوں مناتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Oct 22, 2025

BBC

’میں یہاں خود نہیں آتی، جب وہ چاہتے ہیں کہ میں آؤں، میں تب ہی آتی ہوں۔‘

یہ الفاظ شیرین کے ہیں، وہ خاتون جن سے میں قاہرہ میں امام حسین کے روضے کے سامنے ملی تھی۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ پیغمبرِ اسلام کے نواسے کی زیارت صرف ایک خاص قسم کے ’دعوتِ نامے‘ جسِ عرفِ عام میں ’امام کا بلاوا‘ کہتے ہیں، کے ذریعے ہی ممکن ہے جو وہ اپنے چاہنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی ہوں۔

بہت سے مصریوں کا بھی یہی ماننا ہے جس میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ دونوں شامل ہیں۔ ان افراد کا ایمان ہے کہ امام حسین کے روضے کی زیارت صرف ان لوگوں کے نصیب میں ہوتی ہے جنھیں خود امام اس کی اجازت دیتے ہیں۔

وہ اس ’بلاوے‘ کی وضاحت ایسے کرتے ہیں کہ جنھیں امام خود بلاتے ہیں وہ روضے تک ان کے سفر کو آسان بنا دیتے ہیں اور انھیں اپنے روضے کے سامنے کھڑے ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔

شیرین نے بی بی سی عربی کو وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’جس طرح کوئی شخص بغیر دعوت کےکسی دوسرے کے گھر نہیں جا سکتا، یہی حال امام حسین کی زیارت کا ہے۔ اگر وہ نہ چاہیں تو بے شک آپ ان کے روضے کے بالکل سامنے ہی کیوں نہ پہنچ جائیں، زیارت آپ کے نصیب میں نہیں ہو گی۔‘

اس سے مجھے امل زید کی فلم ’دو محلوں کے درمیان‘ والا منظر یاد آ گیا۔ جب وہ سید سے کہتی ہیں کہ ’ہمارے آقا امام حسین نے مجھے بلایا، اور میں نے لبیک کہا۔‘

تاہم شیرین کا یقین ہے کہ ’ان (امام حسین) کی دہلیز پر جو بھی جائے گا، خالی ہاتھ نہیں لوٹے گا‘۔

وہ اُن دنوں میں امام حسین کی زیارت پر نہیں جاتیں جسے مصری ’مولد‘ (ولادت کا جشن) کہتے ہیں، کیونکہ ان دنوں میں بہت زیادہ ہجوم ہوتا ہے اور انھیں مسجد میں داخلے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تاہم وہ وقتاً فوقتاً امام حسین کی زیارت کرتی رہتی ہیں۔

اگرچہ قاہرہ کے قلب میں واقع یہ جگہ اپنے صحنوں سمیت دنیا بھر کے زائرین کے لیے مرکزِ کشش بن چکی ہے مگر سیاح اور شیریں جیسے مقامی شہریوں کے لیے مولد کے جشن کے دوران یہاں پہنچنا مشکل ہو سکتا ہے۔

ان دنوں میں یہ محلہ ’محاسیبِ سیدنا الحُسین‘ (امام حسین کے چاہنے والوں) سے بھر جاتا ہے اور یہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں بچتی۔ اس قدیم علاقے میں سال میں دو مرتبہ امام حسین کی ولادت کا جشن انتہائی شاندار انداز میں منایا جاتا ہے۔

یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ پیغمبرِ اسلام کے نواسے امام حسین بن علی، چوتھے ہجری سال کے ماہ شعبان میں پیدا ہوئے لیکن مصر میں لوگ ان کی پیدائش کا جشن ربیع الثانی کے آخری منگل کو مناتے ہیں اور یہ جشن اصل یوم پیدائش پر منعقد ہونے والے جشن سے بھی بڑا ہوتا ہے۔

اس سال یہ جشن21 اکتوبر کو منایا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟

’مصریوں کے لیے ایک نیا جنم‘BBCمصری صحافی اور مصنفہ نوارہ نجم کہتی ہیں کہ مصر کے لوگ اہلِ بیت سے امام حسین کے ذریعے جُڑے ہیں۔ امام حسین، اہلِ بیت سے محبت کی کنجی ہیں

مصری صحافی اور مصنفہ نوارہ نجم کہتی ہیں کہ مصر کے لوگ اہلِ بیت سے امام حسین کے ذریعے جُڑے ہیں۔ امام حسین، اہلِ بیت سے محبت کی کنجی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ جب بھی انھیں سکون کی طلب ہوتی ہے، وہ امام حسین کی زیارت کرنے پہنچ جاتی ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے مصریوں کا عقیدہ ہے کہ ’امام حسین کے سرِ مبارک‘ کا مصر پہنچنا ایک نئے روحانی آغاز، یا یوں کہیے ’مصریوں کی روحانی پیدائش نو‘ کے مترادف ہے۔ اسی عقیدت کے باعث اس موقع کو ’مولد‘ کہا جاتا ہے، جسے مصری بڑے فخر اور خوشی سے مناتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی جذبہ امام و خطیب مسجدِ حسین، قاہرہ کے ڈاکٹر مؤمن الخلیجی کے الفاظ میں بھی جھلکتا ہے۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ گویا مصریوں کے لیے ایک نئی پیدائش تھی۔ اسی احساس کے تحت مصری اس موقع کو ’مولد‘ کے نام سے مناتے اور اپنی خوشی و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔‘

اگرچہ امام حسین کے سر کے مقام سے متعلق مختلف روایات موجود ہیں، مگر امام سے مصریوں کی گہری عقیدت انھیں ان کے دلوں میں ایک خاص اور ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔

جامعہ عین شمس میں تاریخ و تہذیب کے استاد ڈاکٹر عبدالباقی القطان کے مطابق فاطمیوں اور اُس وقت کے مصریوں نے امام حسین کے سر کے مصر پہنچنے کو ’ایک نئی ولادت‘ یا ’پہلی پیدائش کے بعد دوسرا روحانی آغاز‘ قرار دیا تھا۔

اربعین واک: نجف سے کربلا کا سفرحیدر آباد کے دُلدُل اور ان کے سادات سوارایلی کاٹ: ’غمِ حسین میں اسلام قبول‘ کرنے والے انگریز انسپکٹر جن کے نام سے آج بھی حیدرآباد میں ماتمی جلوس نکلتا ہےحضرت خدیجہ: جن کی کاروباری ذہانت نے دنیا کی تاریخ بدل ڈالی

دلچسپ بات یہ ہے کہ متعدد مورخین کے مطابق امام حسین کا سر اتوار کے روز، آٹھ جمادی الثانی 548 ہجری کو قاہرہ پہنچا تھا تاہم مصری اس واقعے کی یاد مقررہ تاریخ سے دو ماہ قبل مناتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالباقی القطان کے مطابق شاید اس تاریخ کا تعلق اس دن سے ہو جب امام حسین کے سر کو عسقلان سے مصر کے لیے روانہ کیا گیا تھا۔ فاطمی وزیر افضل نے یہ سفر ربیع الثانی کے آخر میں شروع کیا تھا۔

وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ کچھ مؤرخین کے مطابق امام حسین کا سر اگلے سال یعنی ربیع الثانی 549 ہجری میں قاہرہ پہنچا، اسی لیے تاریخ میں فرق پایا جاتا ہے۔

مسجدِ حسینی کے امام ڈاکٹر مؤمن الخلیجی کا کہنا ہے کہ مصریوں نے یہ تاریخ ’استبشار‘ (جس دن انھیں خوشخبری ملی) کے طور پر منانا شروع کی یعنی جب انھیں امام حسین کے سر کے قریب پہنچنے کی خبر ملی تو وہ اسی طرح خوش ہوئے جیسے اہلِ حجاز پیغمبرِ اسلام حضرت محمد کی ولادت سے قبل ظہورِ نبوت کی بشارتوں پر خوشی مناتے تھے۔

دكتور مؤمن الخليجي إمام وخطيب مسجد الإمام الحسينمسجدِ حسینی کے امام ڈاکٹر مؤمن الخلیجی کا کہنا ہے کہ جب انھیں (مصریوں کو) امام حسین کے سر کے قریب پہنچنے کی خبر ملی تو وہ اسی طرح خوش ہوئے جیسے اہلِ حجاز پیغمبرِ اسلام حضرت محمد کی ولادت سے قبل ظہورِ نبوت کی بشارتوں پر خوشی مناتے تھے

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ امام حسین کے روضے پر ہونے والی مولد کی تقریبات پُرسکون ماحول میں منعقد ہوتی ہیں، جن میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی تلاوت، احادیث کی محافل، پیغمبرِ اسلام کی سیرت اور اہلِ بیت سے محبت پر درس شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن کی تلاوت اور نعت و مناجات کی روح پرور محفلیں بھی سجتی ہیں۔

شیخ مؤمن الخلیجی کے مطابق ان ایام کے دوران نعتیہ کلام، مداح خوانی اور مٹھائی کی تقسیم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہی رسومات امام حسین کے ماہِ شعبان والے مولد میں بھی دہرائی جاتی ہیں لیکن ربیع الثانی میں سر کی آمد کی یاد میں ہونے والا اجتماع کہیں زیادہ بڑا اور پرجوش ہوتا ہے۔

’ان کے نورانی چہرے نے مصر کو روشن کر دیا‘BBCقاہرہ میں امام حسین مسجد کا مینار

’حسین سے محبت نیک بختوں کا وسیلہ ہے

ان کا نور ہر طرف پھیل گیا ہے

وہ نواسہِ رسول جن سے نبی مصطفی کی نسل نکلی

ان کے نورانی چہرے نے مصر کو روشن کر دیا‘

یہ وہ الفاظ ہیں جو مشہور قاری اور مناجات خواں شیخ طہ الفشنی نے پڑھے تھے، ان کی وفات ستر کی دہائی کے آغاز میں ہوئی۔

ان اشعار میں اس عقیدے کی جھلک ملتی ہے جو زیادہ تر مصریوں کے دلوں میں رائج ہے کہ پیغمبرِ اسلام کےپیارے نواسے امام حسین کا سر مصر کی سرزمین میں دفن ہے۔

البتہ مصر میں کچھ لوگ، خاص طور پر وہ جو سلفی مکتبِ فکر سے وابستہ ہیں، اس روایت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔

یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ امام حسین کا جسدِ مبارک عراق میں دس محرم، 61 ہجری (10 اکتوبر 680 عیسوی) کو کربلا میں ہونے والی جنگ کے بعد معروف مقام ’عتبہ حسینیہ‘ میں دفن کیا گیا اور اس پر مؤرخین کا اتفاق ہے۔

تاہم سر کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے۔ مؤرخین کے مطابق واقعہِ کربلا کے بعد ابن زیاد (یزید بن معاویہ کے دور میں عراق کے گورنر) کے فوجی، امام کے سر کو عراق سے شام تک مختلف شہروں سے گھماتے ہوئے لے کر گئے۔

کچھ روایات کے مطابق سرِ حسین چالیسویں دن ان کے جسدِ خاکی کے ساتھ کربلا میں ملا۔ شیعہ فقہا اور راویوں نے بھی یہی بیان کیا ہے، جن میں الشریف المرتضی (چوتھی صدی ہجری)، ابن الفتال النیسابوری (پانچویں صدی ہجری)، ابن شہر آشوب (پانچویں و چھٹی صدی ہجری) اور سید ابن طاووس (چھٹی صدی ہجری) شامل ہیں۔

دوسری روایات کے مطابق امام حسین کا سر مدینہ منورہ واپس گیا اور اپنی والدہ فاطمہ الزہرا کے پاس البقیع میں دفن ہوا، جیسا کہ ابن سعد (دوسری صدی ہجری) کی الطبقات الكبرى اور ابن تیمیہ (ساتویں و آٹھویں صدی ہجری) میں لکھا گیا ہے۔

BBCمؤرخین کے مطابق واقعہِ کربلا کے بعد ابن زیاد (یزید بن معاویہ کے دور میں عراق کے گورنر) کے فوجی امام کے سر کو عراق سے شام تک مختلف شہروں سے گھماتے ہوئے لے کر گئے

کچھ روایات کے مطابق، امام حسین کا سر یزید بن معاویہ کے زمانے سے دمشق کے اسلحہ خانے میں دفن تھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ ’باب الفرادیس‘ میں رکھا گیا تھا، جو دمشق کے قدیم تاریخی دروازوں میں سے ایک ہے۔ ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں یہی ذکر کیا۔

لیکن مصر میں مقبول روایت کے مطابق امام کا سر دمشق (جہاں اموی خلیفہ کا محل تھا) سے فلسطین کے شہر عسقلان منتقل کیا گیا۔

’مصر میں امام حسین کے سر کی موجودگی کے بارے میں سب سے قدیم تاریخی نسخہ‘BBCابن الازرق نے اپنی کتاب تاریخ میافارقین میں دو مشہور روایات درج کی ہیں جن کی تصویری نقل بی بی سی کے پاس موجود ہے

’سب سے قدیم تاریخی نسخہ‘ امام حسین کے سر کے عسقلان سے مصر منتقل ہونے کی روایت پیش کرتا ہے۔ یہ نسخہ مورخ احمد بن یوسف بن علی المعروف ابن الازرق الفارقی کا ہے، جو میافارقین (آج ترکی میں دیار بکر کے مشہور شہر) کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور قاضی بھی تھے۔

بی بی سی نے اس حوالے سے معلومات حاصل کرنے کے لیے برٹش لائبریری سے رابطہ کیا۔

ابن الازرق کے دادا کا تعلق امرا اور اہم شخصیات سے تھا اور خود ابن الازرق بھی بہت سفر کرتے تھے، خاص طور پر صالحین کی قبروں اور مزارات کی زیارت کے لیے۔ وہ تقریباً تین بار بغداد گئے جہاں انھوں نے خلفا، وزرا اور قاضیوں سے ملاقات کی اور شہر کے بڑے علما سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے دمشق اور دیگر ممالک کا سفر بھی کیا۔

ابن الازرق نے اپنی کتاب تاریخ میافارقین میں دو مشہور روایات درج کی ہیں جن کی تصویری نقل بی بی سی کے پاس موجود ہے (اوپر دی گئی تصویر)۔

پہلی روایت کے مطابق عسقلان کے لوگ دمشق آئے اور امام حسین کا سر مانگا، جو انھیں دے دیا گیا۔ انھوں نے اسے عسقلان لے جا کر ایک عظیم زیارت بنائی اور اس پر بے شمار رقم خرچ کی۔

دوسری روایت عراق کی طرف اشارہ کرتی ہے، ’ذکر ولاية یزید بن معاویہ ومقتل الحُسین‘ میں لکھا گیا ہے کہ امام کا سر کربلا لے جا کر ان کے جسد کے ساتھ دفن کیا گیا۔

ابن الازرق کے مطابق امام کا سر عسقلان میں 549 ہجری تک رہا۔ پھر جب صلیبیوں نے عسقلان پر حملہ کیا تو خلیفہ ظافر نے اسے صندوق میں لپیٹ کر اپنے سینے پر رکھ کر عسقلان سے مصر منتقل کیا اور وہاں ایک عظیم روضہ بنایا اور اس پر بے شمار خرچ کیا۔

انھوں نے مزید لکھا کہ عسقلان کی مسجد میں جو کچھ بھی تھا یعنی سونا، چاندی، برتن، قالین، پردے وغیرہ سب مصر منتقل کیا گیا اور تین دن بعد صلیبیوں نے عسقلان پر قبضہ کر لیا۔

اس نسخے کی اہمیت اس لیے ہے کہ ابن الازرق نے اس دور کو قریب سے دیکھا، وہ 1116 یا 1117 عیسوی (یعنی 510 ہجری) میں پیدا ہوئے۔ برٹش لائبریری کے مطابق انھوں نے اپنی کتاب 572 ہجری میں لکھی، یعنی اس واقعے کے تقریباً 20 سال بعد جس سے یہ نسخہ وقت کے لحاظ سے اس واقعے کے قریب ترین مانا جاتا ہے۔

نویں صدی ہجری کے مصری مورخ ابن ایاس کہتے ہیں ’جب سرِ سید حسین عسقلان سے قاہرہ لایا گیا تو یہ چمڑے میں لپیٹ کر لایا گیا۔‘

اور المقریزی کے مطابق ’امام کا سر جب عسقلان سے نکالا گیا تو اس کا خون خشک نہیں ہوا تھا اور اس سے خوشبو آ رہی تھی۔ اسے ’عشاری‘ (نیل میں اناج لے جانے والی کشتی) پر رکھ کر نیل کے راستے بستان ’کافوری‘ کے باغ میں پہنچایا گیا۔‘

اس کے بعد سر کو سرداب میں قصر الزمرد تک لے جایا گیا، پھر قبة الديلم بباب دہلیز الخدمة (موجودہ مقامِ ضریح) میں دفن کیا گیا۔ یہ مقام بعد میں امام حسین کے روضے کے طور پر معروف ہوا اور جو بھی وہاں آتا، قبر کے سامنے زمین کو چومتا۔

’حسین ہماری مصری ثقافت کا حصہ ہیں‘BBCاہلِ بیت کی محبت میں ایک نظم جو 1773 کی ایک تاریخی تختی پر نقش ہے، امام حسین کی ضریح کے اوپر قاہرہ میں ان کی مسجد میں موجود ہے

تاریخی پس منظر سے ہٹ کر مصری ثقافت میں امام حسین کا نام اور ان کی یاد مختلف طریقوں سے نمایاں ہے: یہ عبد المطلب، صباح، علی الحجار اور محمد منیر کے گانوں میں بھی موجود ہے اور القہلاوی کی نعتوں اور شیخ النقشبندی و شیخ طہ الفشنی کی عبادات میں بھی نظر آتی ہے۔

آپ امام حسین کو طہ حسین کی تحریروں، نجيب محفوظ کے ناولوں، یوسف وهبی اور عمر شریف کی فلموں میں ان کے کرداروں کے حوالے سے، اور فواد حداد، احمد فواد نجم، امل دنقل، عبد الرحمن الشرقاوی اور دیگر شعرا کی شاعری میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

مصری عوام ’امام حسین کی ولادت کی رات‘ کا جشن کیسے مناتے ہیں؟ اسی تجسس سے مجبور میری مسیحی دوست ماریان (جو آئرلینڈ سے مصر چھٹی منانے آئی تھی)نے واپس لوٹنے سے قبل مجھ سے مقامِ حسین کی زیارت کروانے کا کہا۔

اس کے پاس حجاب یا سر ڈھانپنے کے لیے کوئی کپڑا نہیں تھا لیکن اس کے باوجود وہ میرے ساتھ اندر داخل ہوئی اور کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ جتنی دیر وہ امام حسین کی زیارت کے لیے کھڑی رہی، کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔

ماریان نے اس زیارت کے کافی عرصے بعد مجھے بتایا کہ ’حسین مصری ثقافت کا حصہ ہیں اور مجھے تجسس تھا کہ میں ضریح اور وہاں لوگوں کے اعمال کو دیکھوں۔‘

اس نے مزید کہا ’جب میں نے اندر داخل ہوئی تو مجھے ایسا لگا کہ میں لوگوں کو اس سے مختلف نقطہ نظر سے دیکھ رہی ہوں جس کا میں نے پہلے تصور کیا تھا۔ میں نے ٹوٹے ہوئے لوگوں کو دیکھا جو امید اور یقین سے بھرے ہوئے تھے۔ میں نے عقیدت میں ڈھلے لوگوں کو اپنے دل کی گہرائیوں سے خدا کو پکارتے دیکھا اور جیسے خدا ان کی دعائیں سن رہا تھا۔‘

ایک مصری پادری فادر دومادیس امام حسین کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’ان کی روح نے انسانیت کو ایثار، قربانی اور سخاوت کی توانائی بخشی اور انھوں نے اپنے خون سے انسانیت کی عظمت لکھی۔‘

’نانا کے دین کے لیے اپنی گردن قربان کر دی‘BBCنوارہ کے مطابق امام حسین میں ایسی روحانی طاقت تھی کہ وہ وہ برداشت کر سکتے تھے جو عام لوگ نہیں کر سکتے

نوارہ نجم بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ جب زائرین مقام امام حسین میں داخل ہوتے ہیں تو وہ انھیں ’یا شہید‘ کہہ کر پکارتے ہیں کیونکہ مصری لوگ شہادت کو بلند مقام دیتے ہیں۔ ان کے شعور میں یہ قربانیوں کا ایک سلسلہ ہے جو ہر اس شخص اور نوجوان کی قربانی سے جڑی ہے۔۔۔ چاہے وہ قدیم مصریوں کی اوزورِیس کی کہانی ہو، حضرت عیسیٰ، یا امام حسین کی۔

نوارہ کے مطابق امام حسین میں ایسی روحانی طاقت تھی کہ وہ وہ برداشت کر سکتے تھے جو عام لوگ نہیں کر سکتے۔

مصری لوگ اس حسینی قربانی کو ’فدى دِين جده برقبته‘ یعنی ’اپنے نانا کے دین کے لیے اپنی گردن قربان کر دی‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ نوارہ بتاتی ہیں کہ امام حسین وہ ہیرو ہیں جو غریب اور مستحق لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوئےاور ان کے لیے قربانی دی۔

نوارہ نے اپنے والد اور مصر کے مشہور شاعر احمد فواد نجم کی شاعری کا بھی ذکر کیا، جس میں ان کی امام حسین سے محبت ظاہر ہوتی ہے۔ نجم نے اپنی نظم میں حسین کی گلی اور علاقے کا ذکر کیا، جہاں انھوں نے زندگی کا اہم حصہ گزارا:

اے (ہوش قدم)، اے ہمارا گھر

اے ہمسایہ کی گود کے رہنے والے

ہمارے آقا امام حسین، مبارک ہو

انسانیت کے شہید

ہمارے آقا اور ہمارے شہید مدد کریں

آپ کے کہنے سے ہمارے کام بن جاتے ہیں

آپ کی عید ہماری عید ہو

اس دن جب سورج دوبارہ طلوع ہو گا

اگرچہ امام حسین کا قتل ایک دردناک واقعہ تھا لیکن مصریوں کے دلوں میں ان کا ذکر دکھ نہیں بلکہ خوشی کے ساتھ جڑا ہے۔ نوارہ کہتی ہیں کہ وہ جب بھی امام حسین کے بارے میں بات کرتی ہیں تو مسکراتی ہیں۔

شیرین بھی یہی محسوس کرتی ہیں اور انھیں ان لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں جن کا ماننا ہے کہ شریعت میں مقبروں کی زیارت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب آپ اہلِ بیت کی زیارت کریں تو آپ کا چہرہ بدل جاتا ہے اور اس پر نور آ جاتا ہے۔‘

یہ خوشی خاص طور پر ان مصری خواتین میں نظر آتی ہے جب وہ ضریح کی زیارت کرتی ہیں۔ نوارہ نجم کے مطابق، مصری امام حسین کو ’دولہا، امید اور سورج‘ سمجھتے ہیں اور ان کی شہادت کو ایک خوشخبری کے طور پر دیکھتے ہیں۔

’ہمارے محافظ‘AFP via Getty Imagesامام حسین کو ان کے چاہنے والوں میں ’مصر کے روحانی حکمران‘ کے طور پر جانا جاتا ہے

’تم وہ عظیم محبت ہو، پہلی اور آخری اور تمہارے سوا کوئی نہیں، اے میرے محبوب، میرا دل تمہاری محبت میں گرفتار ہے‘۔۔۔ یہ مصر کے مشہور گلوکار راغب علامة کے گانے کا ایک حصہ ہے۔ نوارہ نے کسی زائر کو امام حسین کے روضے کی زیارت کے دوران گاتے سنا جو اس کے ذریعے اپنی محبت کا اظہار کر رہے تھے۔

نوارہ کہتی ہیں کہ ان کی امام حسین سے محبت کچھ ایسی ہے کہ اسے لفظوں میں سمجھایا نہیں جا سکتا۔ اس میں تھوڑا سا راز اور پہیلی ہے اور ساتھ ہی امام حسین کی شہادت، قربانی، جابر حاکم کے خلاف کھڑے ہونا، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے اور دنیا کے فریب سے لڑنے جیسی خصوصیات بھی شامل ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ شاید یہ موروثی محبت ہے جو انھیں اپنی والدہ اور والد سے وراثت میں ملی اور اب وہ اپنی بیٹی کو بھی امام حسین سے محبت سکھا رہی ہیں۔ ان کی بیٹی چھوٹی سی عمر کے باوجود امام حسین کی زیارت کی خواہش رکھتی ہے حالانکہ وہ تاریخ کے تمام واقعات کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتی۔

امام حسین کو ان کے چاہنے والوں میں ’رئیس جمهورية الباطن‘ یعنی مصر کے روحانی حکمران کے طور پر جانا جاتا ہے، اور وہ ’ولی النعم‘ بھی کہلاتے ہیں جو اپنے زائرین کو خیر، نعمتیں اور روشنی عطا کرتے ہیں۔

امام اور خطیب مسجد الحسين ڈاکٹر مومن کہتے ہیں کہ ’مصر میں اولیائے صالحین میں سب سے بڑی نعمت ہمارے لیے سیدنا امام حسین ہیں، اس لیے ہم انھیں ’ولی النعم‘ کہتے ہیں؛ یعنی وہ ہمارے لیے سب سے بہتر ولی ہیں۔‘

انھوں نے مزید وضاحت کی کہ یہ مصر میں امام حسین کے لیے محبت کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ محبت اسی وجہ سے خاص ہے کیونکہ ان کے نانا پیغمبرِ اسلام نے انھیں ایسی خاص محبت دی ہے جو کسی اور کو نہیں ملی، جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے ’جس نے حسین سے محبت کی، اس نے خدا سے محبت کی۔‘

Getty Imagesقاہرہ میں امام حسین مسجد کا دروازہ

جہاں تک امام حسین کو ’رئیس جمهورية الباطن‘ کہنے کا تعلق ہے، جیسا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں، یہ رہنمائی، قیادت اور مثال کے معنوں میں آتا ہے۔ شیخ الازهری کے مطابق مصریوں کا مطلب یہ ہے کہ ’اگر وہ ظاہری طور پر ہمارے صدر نہیں ہیں، تو کم از کم ہماری دل کی قیادت وہ کریں، ہم اخلاق اور آداب میں ان کی پیروی کریں تاکہ وہ ہمیں نبی سے محبت تک لے جائیں۔‘

حقیقت یہ ہے کہ جس شخص کو بھی مصری معاشرہ دیکھنے کا موقع ملے، اسے پتا چلے گا کہ مصریوں نے 800 سال سے امام حسین سے محبت وراثت میں پائی۔ انھوں نے امام کے لیے مختلف القابات رکھے جو ان کی عزت اور مقام کو ظاہر کرتے ہیں اور ان کے سر کو ایک مقدس مرکز سمجھا، جہاں لوگ سکون، خوشی اور برکت پانے کے لیے جاتے ہیں اور انھوں نے اس بات کی پرواہ نہیں کی اس سے کوئی اختلافی مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے یا نہیں۔

اسی لیے بغداد میں پیدا ہونے والے اور چھٹی صدی ہجری میں زندگی گزارنے والے مورخ السبط ابن الجوزي نے کہا کہ ’امام حسین کا سر یا جسد جہاں بھی ہو، وہ دلوں اور ضمیروں میں بسا ہوا ہے، رازوں اور خیالات میں رہتا ہے۔‘

مصریوں کے دل میں امام حسین کی محبت کو زین الدین ابو العباس ابن قطنة النحوی، جو 800 سال سے زیادہ عرصہ پہلے مصر کے عربی زبان کے علما میں سے ایک تھے، نے یوں بیان کیا:

’امام حسین کی محبت تلاش مت کرو۔۔۔ چاہے مشرق کی زمین میں ہو یا مغرب میں

سب کو چھوڑ دو اور میری طرف آؤ کیونکہ ان کا منظر میرے دل میں ہے۔‘

اربعین واک: نجف سے کربلا کا سفرایلی کاٹ: ’غمِ حسین میں اسلام قبول‘ کرنے والے انگریز انسپکٹر جن کے نام سے آج بھی حیدرآباد میں ماتمی جلوس نکلتا ہےحیدر آباد کے دُلدُل اور ان کے سادات سوارحضرت خدیجہ: جن کی کاروباری ذہانت نے دنیا کی تاریخ بدل ڈالیدُلدُل: ذوالجناح سے عقیدت کے اظہار کی منفرد روایتکراچی سے مدینہ تک: مسجدِ نبوی کے پاکستانی خطاط جن پر ایک عربی شیخ کی نظر پڑی اور ان کی زندگی بدل گئی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More