BBCپنجابی میں ستر سے زائد کتابیں لکھنے والے نیندر گھگیانوی مسلسل مالی مشکلات کا شکار رہے
نیندر گھگیانوی وہ پنجابی مصنف ہیں جن کی نہ صرف ادب کے شعبے میں خدمات ہیں، بلکہ اُن کی زندگی لوگوں کے لیے بہترین مثال ہے۔
دسویں جماعت فیل نیندرکی عمر 50 برس سے زائد ہے اور وہ اب تک 70 کتابیں لکھ چکے ہیں۔ اُن کی کتابیں، بعض یونیورسٹیز کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔
جج کا کلرک ہونے سے لے کر ایک معروف مصنف بننے تک ان کا سفر کافی کٹھن رہا ہے۔
نیندر کا تعلق ضلع فرید کوٹ کے گاؤں گھوگیانہ کے ایک سادہ ہندو خاندان سے ہے۔
ان کے والد گاؤں میں دکان چلاتے تھے اور تھوڑی سی زمین بھی کاشت کاری بھی کرتے تھے۔
نیندر گھگیانوی دیہی زندگی کو اپنے سفر کی جڑ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں فن کی تحریک ان لوک گلوکاروں کی آوازوں سے ملی جو انھوں نے گاؤں میں بجنے والے سپیکر اور گراموفون کے ذریعے سنی۔
اُنھیں گانا گانے کا شوق بچپن سے ہی تھا لیکن ان کے گھر والے اس کے خلاف تھے۔
مالی ذمہ داریوں کی وجہ سے گھر والے چاہتے تھے کہ وہ تعلیم حاصل کریں اور نوکری حاصل کریں، لیکن نیندر گھگیانوی اپنے وقت کے مشہور لوک گلوکار لال چند یملا جٹ کے طالب علم کے طور پر گانا چاہتے تھے۔
آخر کار، خاندان نے ان کی ضد کو تسلیم کر لیا اور نیندر کے والد نے خود انھیں استاد یملا جٹ کے پاس چھوڑ دیا۔
یہ جون 1988 کی بات تھی جب نیندر کے والد نے اُنھیں لدھیانہ کے جواہر نگر میں لال چند یملا کے کیمپ میں بس سے اتارا۔
یملا جٹ کا شاگرد بننے کے بعد نیندر نے گھگیانوی گانا اور تمبی بجانا شروع کیا۔ نیندر نے چھوٹی عمر میں ہی گاؤں یا آس پاس کے علاقوں میں خاندانی تقریب میں گانا شروع کر دیا۔
دسویں میں فیل ہونا ایک پہچان بن گیا
نیندر گھگیانوی پہلے پنجابی مصنف ہیں جنھیں سنٹرل مہاتما گاندھی ہندی یونیورسٹی مہاراشٹر میں ’رائٹر ان ریذیڈنٹ‘ کے باوقار عہدے پر مقرر کیا گیا ہے۔
وہ پنجاب سنٹرل یونیورسٹی، بھٹنڈہ میں ’پروفیسر آف پریکٹس‘ بن گئے، محض اس لیے کہ وہ ایک مصنف تھے۔
نیندر گھگیانوی کی شناخت ان کی لکھی ہوئی کتابوں سے زیادہ اس حقیقت سے ہے کہ یہ کتابیں دسویں جماعت کے طالب علم نے لکھی ہیں۔
نیندر کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے دسویں جماعت کے امتحان میں شرکت کی تھی لیکن اس میں ناکام رہے۔
اس کے بعد جب موسیقی اور ادب میں دلچسپی بڑھی تو پڑھائی سے توجہ ہٹ گئی۔
خاندان کی مالی حالت زیادہ مضبوط نہ ہونے کے باوجود وہ گلوکاری کے ذریعے پیسہ کمانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے اُنھوں نے گاؤں کے فنکشنز کے علاوہ ٹی وی اور ریڈیو پر گانا شروع کیا اور پڑھائی پر توجہ نہیں دی۔
دسویں جماعت میں فیل ہونے کے بارے میں نیندر نے کہا کہ ایک دن سردار سنگھ جوہل نے کہا کہ آپ کی کتابیں طلبہ کے نصاب میں شامل ہیں، اب آپ پی ایچ ڈی بھی کر لیں تو آپ کی پہچان یہ ہے کہ آپ دسویں جماعت میں فیل ہو گئے۔
’جوہل نے یہ بات ابھی چند سال پہلے کہی تھی، لیکن میں نے رسمی تعلیم بہت پہلے چھوڑ دی تھی۔‘
گھگیانوی کا بطور ادیب سفرBBC
گلوکاری کا شوق بھی لکھنے کی طرف ان کے جھکاؤ کا باعث بنا۔ اُنھوں نے ایک اخبار کے لیے مضامین لکھنا شروع کیے اور بعد میں کتابیں لکھیں۔
نیندر گھگیانوی کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جن کی تحریریں بہت متنوع ہیں۔
اُںھوں نے پنجاب کی لوک موسیقی اور لوک گلوکاروں سے لے کر اپنے سفرناموں اور زندگی کے تجربات تک ہر چیز کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں۔
اُنھوں نے لال چند یملا جٹ پر تین کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی پہلی کتاب ’ٹبی دے وارث‘ 1994 میں شائع ہوئی۔
اُنھوں نے پنجاب کے کئی مشہور لوک گلوکاروں کی سوانح عمری لکھی، جن میں شاعر کرنیل سنگھ پارس اور بی بی سریندر کور شامل ہیں جس کے لیے انھوں نے گلوکاروں کے ساتھ ایک طویل وقت گزارا۔
نیندر گھگیانوی کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کی صحبت میں رہنا اپنے آپ میں ایک کارنامہ تھا اور ان عظیمشخصیات نے نیندر گھگیانوی کی شخصیت پر اثر ڈالا۔
ان کی سوانح عمری ’میں ساں جج دا آرڈرلی‘ بے حد مقبول ہوئی اور اس کتاب کا انگریزی سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
ناکامی کو کامیابی میں بدلنے والی قوت ارادی کیسے حاصل کی جائے؟انڈیا میں سول سروس کے امتحان میں کامیابی پانے والے مسلمان طلبہ: ’سخت محنت کا کوئی نعم البدل نہیں‘شیریں شاہانہ جنھیں ویل چیئر اور کمزور یادداشت بھی مقابلے کا امتحان پاس کرنے سے روک نہ پائیانڈیا میں سول سروسز کے امتحان میں ٹاپ کرنے والی ایشیتا کشور، جو پہلے ’دو بار فیل ہوئیں‘’میں ساں جج دا آرڈرلی‘
چھوٹی عمر میں، نیندر نے پہلے وکیل کے کلرک اور بعد میں عدالتی اہلکار کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔
کتاب ’میں ساں جج دا آرڈرلی‘ گھگیانوی نے بطور ملازم کام کرنے کے اپنے تجربات کے بارے میں لکھی تھی۔ کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہونے کے علاوہ 2005 میں اس پر مبنی ٹیلی فلم بھی بنائی گئی۔
نیندر گھگیانوی نے کہا کہ کام کے دوران انھیں گھٹن محسوس ہوئی کیونکہ فنکار کا ذہن آزادی چاہتا تھا۔ نیندر کا کہنا ہے کہ وہ کبھی کبھی جھوٹ بولتے تھے اور ریڈیو پروگرام کرنے جاتے تھے۔
آخر کار، نیندر گھگیانوی نے فن کی خاطر اپنی ملازمت چھوڑ دی، حالانکہ اس ملازمت نے ان کے خاندان کو مالی مدد فراہم کی۔
نیندر گھگیانوی نے ملازمت کے دوران اپنے تجربات اور ’کالے کوٹ کا درد‘ نامی کتاب کے ذریعے ایک جج کی زندگی کے بارے میں بھی لکھا۔
گھگیانوی کے سفرنامے
نیندر گھگیانوی نے ملک اور بیرون ملک سفر کرتے ہوئے اپنے سفرنامے بھی شائع کیے۔
ان میں ’مائی ٹرپ ٹو امریکہ‘، ’دنیا کے مختلف رنگ‘، ’سی یور ورلڈ‘ اور ’کولڈ ارتھ، ہاٹ پیپل‘ شامل ہیں۔
گھگیانوی نے اپنے لوگوں کی زندگیوں کو بھی قریب سے جاننے کی کوشش کی جو بیرون ملک نقل مکانی کر گئے تھے۔ اُنھوں نے محسوس کیا کہ بیرون ملک جا کر ہمارے لوگوں نے بہت کچھ حاصل کیا اور بہت کچھ کھو دیا۔
لندن کا ایک واقعہ سناتے ہوئے گھگیانوی نے کہا کہ ایک بار وہ ایک بزرگ کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے جو ایک بہت بڑے گھر میں اکیلے رہتے تھے۔
’جب وہ گھر سے نکلتے تو وہ ٹی وی بند نہیں کرتا تھے تاکہ جب گھر واپس آ کر خالی گھر کا دروازہ کھولیں تو ٹی وی کی آواز ایسے آئے جیسے گھر والے بات کر رہے ہوں۔‘
’نیندر گھگیانوی نے اپنی کتابوں میں تارکین وطن کی تنہا زندگی کی ایسی بہت سی کہانیاں لکھی ہیں۔‘
’ادیبوں کے لیے حکومت کی کوئی پالیسی نہیں‘
فن سے لگاؤ کی وجہ سے نیندر گھگیانوی مسلسل لکھتے رہے جبکہ معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے وہ یونیورسٹیز میں بھی پڑھاتے رہے۔
گھگیانوی کہتے ہیں کہ ’پنجابی میں لکھنا آپ کو فخر دیتا ہے، کیونکہ یہ ہماری مادری زبان ہے، لیکن آپ کو معاوضہ نہیں ملتا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ لکھنے والوں کی کوئی مقررہ آمدنی نہیں ہوتی۔ جس طرح دوسرے لوگوں کے لیے پالیسیاں ہیں، حکومت کے پاس ادیبوں کے لیے کوئی پالیسی نہیں ہے۔
نیندر کا کہنا ہے کہ انھیں پیسہ ملے یا نہ ملے، لکھنے والے لکھتے رہتے ہیں کیونکہ انھیں حوصلہ ملتا ہے.
وہ خوبیاں جن کی وجہ سے سٹیو جابز نے ایک منفرد مقام بنایادنیا کے امیر ترین شخص کی کامیابی کے چھ راز’خاندان کو 45 سال دیے، اب اپنا شوق پورا کرنا چاہتی ہوں‘: خاتون جو جیب خرچ جمع کر کے سکوٹر پر تنہا سیاحت کرتی ہیںڈا ونچی کی ’پہلی‘ مونا لیزا کا معمہہیئر سٹائلسٹ جاوید حبیب کے خلاف فراڈ کے 32 مقدمات: ’ہم نے سوچا اتنا بڑا آدمی جھوٹ نہیں بولے گا‘ہماری ناکامیوں میں چھپے کامیابیوں کے راز