’ٹانگیں ٹھنڈ کی وجہ سے بےحس ہو گئی تھیں‘: سمندر میں گرنے والا ماہی گیر 26 گھنٹے تک کیسے زندہ رہا

بی بی سی اردو  |  Nov 06, 2025

Getty Imagesشیو موروگن نے بتایا کہ وہ کشتی کے ایک کونے میں پیشاب کرنے گئے تھے کہ ایک ہچکولے میں گر گئے

یہ 20 ستمبر 2025 کی بات ہے۔ رات 1 بج کر 15 منٹ کا وقت تھا۔ شیو مورگن سمندر میں بڑی لہروں کی زد میں تھے۔

ظاہر ہے کہ وہ ساحل کے قریب نہیں بلکہ انڈیا کی کے جنوب ترین حصے کنیا کماری کے ساحل سے تقریباً 16 ناٹیکل میل (یعنی تقریباً 29 کلومیٹر) دور سمندر کی لہروں سے زندگی کی جنگ لڑ رہے تھے۔

انھیں 26 گھنٹے بعد کسی معجزے کے طور پر بچا لیا گیا۔

شیو مورگن ایک ماہی گیر ہیں۔ وہ اپنے دوستوں اور بھائی کے ساتھ کھلے سمندر میں مچھلیاں پکڑنے گئے تھے کہ اچانک کشتی سے پھسل کر نیچے گر گئے اور کشتی پر سوار لوگ انھیں تلاش کر رہے تھے۔

شیو مورگن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لوگ مجھے تلاش کر رہے تھے، وہ مجھ سے صرف ایک ناٹیکل میل (تقریباً 1.8 کلومیٹر) کے فاصلے پر تھے۔ میرا گلا سمندری پانی کی نمکیات سے سوج گیا تھا۔‘

’میں مدد کے لیے چیخ بھی نہیں سکتا تھا۔ اندھیرا کافی تھا اور میں سمندر میں انھیں دیکھ نہیں پا رہا تھا۔ چند گھنٹوں بعد کشتیاں واپس ساحل کی طرف لوٹ گئیں۔ میں سمندر میں تنہا تیرتا رہا۔‘

35 سالہ شیو مورگن تمل ناڈو کے ضلع تیروونل ویلی کے قریبی ساحلی گاؤں چیٹیکولم کے رہائشی ہیں۔

کنیا کماری کے ایک ماہی گیر اور مصنف پالین نے کہا ’جب شیو مورگن کے سمندر میں گم ہونے کی خبر ساحل تک پہنچی اور جب بچانے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں تو ہم نے سمجھا کہ اس کے بچنے کے امکانات نہیں رہے۔‘

’اگر کوئی شخص تمل ناڈو کے جنوبی سمندر میں کھو جائے تو اس کے بچنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔‘

کلچل میری ٹائم پولیس کے اہلکاروں نے بتایا کہ ’جیسے ہی شیو مورگن کے لاپتہ ہونے کی خبر ملی، پولیس نے تلاش شروع کر دی، مگر وہ نہیں ملا۔‘

پھر کوٹانکولی گاؤں کے کچھ ماہی گیر جب مچھلیاں پکڑنے سمندر میں گئے تو انھوں نے شیو مورگن کو دیکھا۔ انھوں نے اسے 22 ستمبر کی صبح بچایا اور ساحل پر لے آئے۔ بعد میں ان کا علاج کیا گیا۔

BBCشیو اپنے دوستوں اور بھائی کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے گئے تھے کہ اچانک کشتی سے پھسل کر نیچے گر گئےشیو مورگن کے ساتھ کیا ہوا؟

حادثے سے دو ہفتے پہلے شیو مورگن نے سمندر میں مچھلیاں پکڑنا شروع کیا تھا۔

شیو مورگن نے بتایا کہ ’ہم عام طور پر چیٹیکولم سے دوپہر 2 بجے نکلتے ہیں۔ چنمٹم پہنچنے کے بعد تقریباً 4 بج کر 30 منٹ پر کشتی کے ذریعے مچھلیاں پکڑنے نکلتے ہیں۔‘

’ہفتے کے دن 20 ستمبر کو بھی ہم اسی طرح گئے، جال ڈالا اور مچھلیاں پکڑیں۔ پھر تقریباً 6 بجے ہم واپس ساحل کی طرف روانہ ہوئے۔‘

شیو مورگن نے مزید بتایا کہ ’رات 8 بجے میں کشتی کے ایک کنارے پر پیشاب کرنے گیا۔ اس وقت جب میں نے جی پی ایس پر اپنی پوزیشن دیکھی تو ہم کنیا کماری کے ساحل سے 15 ناٹیکل میل دور تھے۔‘

’میں پیشاب کر رہا تھا کہ اچانک ایک بڑی لہر کشتی سے ٹکرائی۔ کشتی ہل گئی اور میں پھسل کر سمندر میں گر گیا۔ میں نے تیر کر کشتی تک پہنچنے کی کوشش کی، بہت چیخا مگر میری آواز کشتی کے شور میں دب گئی۔‘

’جب میں 10 سے 15 منٹ میں واپس نہیں آیا تو میرا بھائی باہر آیا اور تلاش کرنے لگا۔ جب اسے سمجھ آیا کہ کیا ہوا تو وہ چیخنے لگا اور سب کو جمع کر لیا۔‘

’انھوں نے جی پی ایس کی مدد سے کشتی موڑ کر میری تلاش شروع کی لیکن لہریں مجھے بہت دور لے جا چکی تھیں۔‘

شیو مورگن نے بتایا کہ ’گہرے سمندر اور رات کا وقت ہونے کی وجہ سے وہ مجھے دیکھ نہیں سکے۔ میں ہاتھ ہلا ہلا کر چیخ رہا تھا لیکن کشتی میں ڈیزل کم ہونے لگا تو وہ ساحل کی طرف واپس جانے لگے۔‘

’بعد میں وہ مزید کشتیوں کو ساتھ لے کر آئے تاکہ مجھے ڈھونڈ سکیں۔ میں نے ان کشتیوں کی روشنی دیکھی، چیخا، ہاتھ ہلائے، کئی گھنٹے تک ایسا کرتا رہا مگر وہ سب ناکام واپس چلے گئے۔‘

Getty Imagesشیو نے بتایا کہ وہ چیختے رہے، ہاتھ ہلاتے رہے لیکن اندھیرا ہونے کی وجہ سے کسی کی ان پر نظر نہیں پڑی (فائل فوٹو)’میں پورا دن پوری رات تیرتا رہا‘

شیو مورگن نے بتایا کہ سمندر کی لہریں مسلسل ان کے چہرے پر پڑ رہی تھیں جس سے ان کی جلد بھی اترنے لگی۔ سمندر کا نمکین پانی ان کی آنکھوں اور منھ میں بھی جا رہا تھا، جس سے ان کا گلا سوج گیا۔

’میرے ذہن میں صرف ایک ہی خیال تھا کہ کسی طرح ساحل تک پہنچ جاؤں۔ اگر میں یہاں مر گیا تو میرے گھر والوں کا کیا ہوگا؟‘

’میں نے ٹی شرٹ اتار دی تاکہ وزن کم ہو جائے۔ اس سے تیرنا آسان ہو گیا۔ پھر اچانک میرے جسم پر کچھ کاٹنے لگا۔‘

طاقتور سمندری لہریں جو پوری دنیا کی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کر سکتی ہیںسمندری لہروں پر دنیا گھومنے کا خواب جس کے لیے صارفین نے ہزاروں ڈالر ادا کیے مگر یہ سفر کبھی شروع نہ ہو سکاچار سال قبل سمندر میں لاپتا ہونے والی برطانوی خاتون اور سی سی ٹی وی میں آخری منظر کا معمہسمندری مچھلیوں کی خوراک بننے والے پاکستانیوں کے نام

شیو مورگن نے بی بی سی کو اس کے بعد کی روداد بتائی: ’مجھے جیلی فِش کاٹ رہی تھی۔ اسی وقت مجھے یاد آیا کہ گاؤں والوں نے بتایا تھا کہ اگر جیلی فِش جسم سے چپک جائے تو وہ جلد میں سوراخ کر دیتی ہے۔‘

’میں نے انھیں ایک ایک کر کے الگ کیا۔ میں ہاتھ پاؤں چلاتے ہوئے تیرتا رہا لیکن میرا جسم تھک گیا تھا۔ کبھی ڈوبنے لگتا، پھر اوپر آ جاتا۔‘

’اگلی صبح، 21 ستمبر کو جب میں نے سورج دیکھا تو میرے اندر امید جاگی۔ میں نے سوچا، کسی طرح ساحل تک پہنچ سکتا ہوں۔‘

پھر شیو مورگن نے تیرنا شروع کیا مگر سمندر کی لہریں پریشان کر رہی تھیں۔ وہ جس سمت بھی تیرتے، لہریں اور ہوا انھیں دوسری سمت دھکیل دیتی۔

ان کے پاس سہارا لینے کے لیے کوئی لکڑی یا چیز نہیں تھی۔ لہروں کی طاقت دور دھکیلتی رہی، آخرکار انھوں نے تیرنے کی کوشش ترک کر دی۔

Getty Imagesکنیا کماری کے ایک ماہی گیر اور مصنف پالین کا کہنا ہے کہ جنوب کا سمندر زیادہ خطرناک ہے اور وہاں سے زندہ بچ پانا مشکل ہوتا ہے’ہمت ٹوٹنے لگی‘

شیو مورگن نے کہا کہ ’میں تیرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا کہ میں کتنا ہی تیروں، مجھے ایسا لگا جیسے میں ایک جگہ پھنس گیا ہوں۔ میری ٹانگیں ٹھنڈک کی وجہ سے بے حس ہو گئی تھیں۔‘

’پھر سورج غروب ہوا اور اندھیرا ہونے لگا۔ میرے جسم کی ساری طاقت اور میری ہمت ختم ہونے لگی۔‘

’مجھے احساس ہوا کہ آخر لوگ کیوں کہتے ہیں کہ جنوبی سمندروں میں کھویا ہوا کوئی بھی زندہ نہیں رہتا۔ میں مزید درد برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی وجہ سے میں موت کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گیا۔ تب تک گاؤں کے لوگ بھی یہ سوچ رہے تھے کہ میں زندہ نہیں رہوں گا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’میں ڈوبتے ہوئے سانس نہیں لے سکتا تھا لیکن میں اوپر آتا رہا۔ میں نے بہت سا سمندر کا پانی پی لیا تھا۔ اب مجھے ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ میں ضرور ڈوبنے والا ہوں لیکن اسی دوران مجھے دور سے ایک روشنی نظر آئی۔‘

پولین نے کہا کہ ’یہ کسی معجزے سے کم نہیں کہ شیو مورگن زندہ بچ گئے۔ جنوبی سمندر دوسرے سمندروں سے زیادہ خطرناک ہے۔‘

تمل ناڈو کا جنوبی سمندر رامناتھ پورم میں چیٹوکرائی اور کیجکارائی سے کماریکرائی تک پھیلا ہوا ہے۔

BBCشیو موروگن اپنے پانچ سالہ بیٹے کے ساتھ

جب شیومورگن نے روشنی دیکھی تو انھوں نے سوچا کہ یہ ’کشتی کی ہیڈلائٹ‘ ہے۔

’جب میں نے وہ روشنی دیکھی تو میں نے اپنے جسم میں ساری طاقت جمع کی اور اپنے ہاتھ ہوا میں لہرائے۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر کشتی کا رخ میری طرف موڑ لیا۔ میں بھی کشتی کی طرف تیرنے لگا۔‘

شیومورگن نے کہا کہ ’تقریباً 30 منٹ تک، میں سمجھ نہیں پایا کہ مجھے سمندر سے کس نے بچایا یا وہ کیا کہہ رہے ہیں۔‘

’میں چائے اور بسکٹ کھانے کے بعد ہی آنکھیں کھول سکا۔‘

یہ کوٹنکوجی گاؤں کے ارولپن کی کشتی تھی۔ ان کی ٹیم نے مچھلیاں پکڑنے کے لیے سمندر میں جال ڈالے تھے۔

شیومورگن کا ساحل پر پہنچ کر طبی علاج کیا گيا۔ شیومورگن شادی شدہ ہیں اور ان کا ایک پانچ سالہ بیٹا ہے۔

شیومورگن نے کہا کہ ’میں نے پچھلے مہینے سے سمندر میں قدم نہیں رکھا۔ میرے بیٹے اور میرے خاندان نے اب مجھے سمندر میں جانے سے منع کر دیا۔ میں اب بھی سکون سے نہیں سو سکتا۔ اس واقعے کے بعد میرا بھائی کام کے لیے بیرون ملک چلا گیا۔‘

انھوں نے اپنی ذہنی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’میں کبھی کبھی سمندر پر کھڑا ہو کر سمندر کو دیکھتا ہوں۔ مجھے اس رات کا منظر اب بھی یاد ہے۔ میرے جسم پر جیلی فش تھیں، سمندری حشرات میرے سر کے گرد رینگ رہے تھے۔ مجھے یہ سب یاد ہے۔ جب تک میں وہ واقعہ، وہ منظر نہیں بھولتا، میں سمندر میں قدم نہیں رکھ سکتا۔‘

Getty Imagesسمندر میں گرنے کے بعد پرسکون رہنا بہت اہمیت کا حامل ہےسمندر میں گر جائیں تو کیا کریں

شیو مورگن جیسی صورتحال سمندر میں جانے والے کسی بھی شخص کے ساتھ کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں انسان کو صبر و تحمل سے حالات کو سنبھالنا چاہیے۔

برطانیہ کے رائل نیشنل لائف بوٹ انسٹی ٹیوشن نے مشورہ جاری کیا ہے کہ اگر آپ پانی میں گر جائیں یا ڈوبنے کا خطرہ ہو تو کیا کریں۔

مشورے کے مطابق ’کسی بھی پانی میں تیرتے رہنا ضروری ہے۔ پانی میں رہتے ہوئے آہستہ سانس لیں۔ اگر ضروری ہو تو، آپ تیرتے رہنے کے لیے اپنے بازوؤں اور پیروں کو آہستہ سے حرکت دے سکتے ہیں۔ پانی میں مستحکم رہنے کے لیے اپنے بازوؤں اور پیروں کو پھیلائیں۔‘

’اگرچہ آپ کا پورا جسم پانی پر تیر رہا ہو، تب بھی آپ کو اپنے سر کو پیچھے کی طرف اور اپنے چہرے کو آسمان کی طرف، پانی پر ہی رکھے رہنا چاہیے۔‘

سمندری مچھلیوں کی خوراک بننے والے پاکستانیوں کے نامبھوک، پیاس اور سمندر میں پھینکے جانے کا خوف: پاکستانی تارکین وطن کے لاوارث کشتی پر گزرے 13 دنسرد موسم، بے رحم سمندر اور ایجنٹس کا ڈسکاؤنٹ: پاکستانیوں کا یورپ پہنچنے کا غیرقانونی سفر موسمِ سرما میں مزید خطرناک کیوں ہو جاتا ہے؟اندھے قتل کا معمہ: وہ ’لاپتہ‘ لڑکی جس کی لاش قاتل نے قالین میں لپیٹ کر دفنا دی تھی’ارینج میرج‘ کے لیے بوائے فرینڈ کو قتل کرنے والی خاتون کو سزائے موت: ’لڑکے نے بسترِ مرگ پر کہا کہ لڑکی سے کوئی شکایت نہیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More