Getty Images
فضا میں نمک اور تربوز کی خوشبو تھی جب ہماری کشتی تھوڈو نامی جزیرے پر رکی۔ 12 سال قبل جب میں بی بی سی کے ٹریول شو کی ایک قسط کی شوٹنگ کے لیے یہاں آیا تھا تو مالدیپ ایک ایسی افسانوی جگہ تھی جہاں کے نجی جزیرے اور آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتیں زیادہ تر سیاحوں کو دور رہنے پر مجبور کر دیتی تھی۔ لیکن اب سیاحوں کے خاندان کندھوں پر بیک پیک لٹکائے کشتیوں سے اتر رہے تھے نا کہ امیر لوگ جن کا سامان اٹھانے کے لیے ملازمین کھڑے ہوتے تھے۔ یہ وہ مالدیپ نہیں جو میں نے دیکھا تھا۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران یہاں ایک خاموش انقلاب برپا ہوا ہے۔ حکومتی اصلاحات نے مقامی لوگوں کے لیے آباد جزیروں پر گیسٹ ہاؤس کھولنا ممکن بنا دیا ہے۔ اس سے قبل سیاحت صرف کم آباد جزیروں پر واقع مہنگے ریزورٹس تک محدود تھی۔
اس کا نتیجہ واضح ہے۔ ملک کی وزارت سیاحت کے مطابق اب 90 جزیروں پر تقریبا 1200 ایسے مہمان خانے موجود ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سیاح حقیقی معنوں میں ملک کی ثقافت کا تجزبہ حاصل کر سکتے ہیں اور پہلی بار مقامی خاندان براہ راست اس شعبے سے مالی طور پر مستفید ہو سکتے ہیں جو ان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
میرے ساتھ میرے تین بچے بھی تھے اور میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس تبدیلی کا اثر کیا ہے۔ ہم نے تھوڈو کے جزیرے پر ایک گھر میں پکا کھانا بھی کھایا اور ایک درمیانے درجے کے ریزورٹ میں قیام بھی کیا جو عیش و آرام کی نئی اور سستی شکل پیش کرتا ہے۔ یہ اس ملک کی کہانی سناتے ہیں جو خاموشی سے جنت کی نئی شکل پیش کر رہا ہے۔
مقامی جزیرے پر زندگی
تھوڈو کے جزیرے پر قدم رکھتے ہی ایسا لگتا ہے کہ آپ اس دنیا سے بہت دور آ گئے ہیں جو کسی پرآسائش ریزورٹ پر نظر آتی ہے۔ مالے سے ایک سپیڈ بوٹ 90 منٹ میں آپ کو یہاں پہنچا دیتی ہے اور کسی ریزورٹ کے سمندی جہاز سے بہت سستی بھی پڑتی ہے۔
ہم نے پہنچنے کے بعد دیکھا کہ یہاں زندگی کی رفتار بہت مختلف تھی۔ کوئی گاڑیاں نہیں تھیں، صرف سائیکل یا اکا دکا بجلی سے چلنے والی بگھیاں دکھائی دیں۔ ہم ’سریرنا سکائی‘ میں رکے جو اس جزیرے کا پہلا گیسٹ ہاؤس ہے۔ اس کے مالک احمد کرام ہیں جو مالدیپ میں گیسٹ ہاوس ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہیں۔
یہ سادہ لیکن نہایت صاف جگہ تھی۔ تکیے کسی مہنگے ڈیزائنر کے نہیں تھے اور باتھ روم بھی سادہ سا تھا لیکن ہمیں نہایت خلوص سے خوش آمدید کہا گیا اور گھر پر پکے کھانے، جن میں چند گھنٹوں قبل پکڑی جانے والی مچھلی بھی شامل تھی، بہت عمدہ تھے۔
احمد نے بتایا کہ ’کمیونٹی سیاحت نے یہاں سب کچھ بدل دیا ہے۔ اب مقامی لوگ براہ راست سیاحت کے ڈالروں سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن ہمیں اس بات کا احساس بھی ہوا ہے کہ ہمیں ان جزیروں، جنگلی حیات کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ لوگ یہی سب دیکھنے آتے ہیں۔‘
میرے بچوں کو اس جزیرے پر موجود آزادی بہت پسند آئی۔ ہم نے مقامی لوگوں کے ساتھ سنورکلنگ کی اور اس دوران پہلی بار سمندری کچھووں کو دیکھنے کا جادوئی تجربہ ہوا۔ بعد میں ہم نے ’بکنی ساحل‘ پر آرام کیا جو مختلف جگہوں پر غیر ملکیوں کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں تاکہ وہ مغربی طرز پر نہا سکیں اور سورج کی روشنی کا لطف اٹھا سکیں۔ مالدیپ میں اکثریت کا تعلق اسلام سے ہے اور یہاں لباس کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔
دنیا کے ’محفوظ ترین ممالک‘ جہاں لوگ گھروں کے دروازے بند نہیں کرتے اور پولیس ہتھیار نہیں رکھتی’لندن روڈ‘: یورپی سیاحوں کے لیے پاکستان کا دروازہ سمجھی جانے والی سڑک جو ’ڈنکی روٹ‘ بن گئیناران سے رتّی گلی کا پیدل ٹرِپ جس نے کراچی کے ایک ٹیلی کام انجینیئر کو ٹریول سٹارٹ اپ کا بانی بنا دیاعطا آباد: قدرتی آفت سے جنم لینے والی پاکستان کی مشہور جھیل جس کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے
ہماری ملاقات اینڈی انیس سے ہوئی جو مقامی کاشت کار تھے۔ انھوں نے ہمیں اپنے باغ میں مدعو کیا اور تازہ تربوز کھلائے۔ بعد میں ہم نے ناریل آءس کریم کھائی اور سورج کو ڈھلتے ہوئے دیکھا۔
سستی آسائش
ہمارے سفر کا دوسرا مرحلہ ہمیں بلکل مختلف دنیا میں لے گیا۔ ’سن سیام‘ نامی ریزورٹ میں بھی گرمجوشی سے استقبال ہوا لیکن یہ کسی حد تک ڈرامائی بھی تھا کیوں کہ ڈھول کے ساتھ مسکراتا ہوا عملہ ٹھنڈے تولیے لے کر کھڑا تھا۔ تاہم مجھے جو چیز نمایاں لگی وہ سادگی تھی۔ رائل، جو ہمارے میزبان تھے، سب کچھ واٹس ایپ کی مدد سے چلا رہے تھے۔
ہم نے دو کمروں والا ولا لیا جو ساحل سمندر پر واقع تھا۔ ہم نے جو پلان لیا تھا اس میں تین جزیروں پر واقع دس ریسٹورنٹس اور بارز تک رسائی بھی شامل تھی جبکہ دیگر سرگرمیاں بھی اس میں شامل تھیں جس کی وجہ سے ہمارے پاس وقت بھی تھا اور آزادی بھی۔
ایسے خاندان جو بہت مہنگی جگہوں سے کتراتے ہیں ان کے لیے سن سیام بہت مفید سہولت فراہم کرتے ہیں۔ میرے بچوں نے ساحل پر شارکس دیکھیں اور میں پانیوں میں ڈائیونگ کرتا رہا۔ یہاں چھ سوئمنگ پول بھی تھے۔
ایسے مقامات مالدیپ کی نئی حکمت عملی کا چہرہ ہیں اور ’سن سیام کیئر پروگرام‘ کے تحت سیاح ساحل کی صفائی میں بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ جب میں نے ایک پلاسٹک بیگ مانگا تو مجھے مسکراہٹ کے ساتھ جواب ملا کہ ’اب ہم انھیں استعمال نہیں کرتے۔‘
یہ اسی حکمت عملی کا حصہ ہے جو یہاں سیاحت کو سستا اور پائیدار بناتی ہے۔ سیاحت اور ماحولیات ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور ضوابط اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ پلاسٹ کا استعمال کم ہو اور سمندری حیات کا تحفظ ہو۔ نئے صدر محمد معیزو کی حکومت نے 33 فیصد بجلی رینیوبل ذرائع سے بنانے کا منصوبہ رکھا ہے جسے 2028 تک مکمل ہونا ہے۔
یقینا مالدیپ بدل رہا ہے اور سب کچھ خاموشی سے بھی نہیں ہو رہا۔ گیسٹ ہاؤس اور خاندانی مہمان خانے مقامی زندگی کے براہ راست اور معنی خیز تجربے کو ممکن بنا رہے ہیں جہاں آسائش اور ضمیر ایک ساتھ رہ سکیں۔
مہنگی جنت سے دور رہنے والے سیاحوں کے لیے اب ان جزیروں پر تنہائی میں چھپی آسائش سے بڑھ کر کچھ موجود ہے اور وہ چیز ہے ایک مستند تجربہ۔ جو جگہ کبھی ہنی مون منانے والوں کے لیے ایک افسانوی حیثیت رکھتی تھی اب کئی خاندان یہاں پہنچنے کا خواب پورا کر سکتے ہیں۔
’لندن روڈ‘: یورپی سیاحوں کے لیے پاکستان کا دروازہ سمجھی جانے والی سڑک جو ’ڈنکی روٹ‘ بن گئیناران سے رتّی گلی کا پیدل ٹرِپ جس نے کراچی کے ایک ٹیلی کام انجینیئر کو ٹریول سٹارٹ اپ کا بانی بنا دیاعطا آباد: قدرتی آفت سے جنم لینے والی پاکستان کی مشہور جھیل جس کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہےازبکستان میں ’مقدس پھل‘ سے بھری ریشم کی وادی جو سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہےمولای ادریس: مراکش کا ’مقدس‘ قصبہ جس کے کچھ حصوں میں آج بھی غیرمسلموں کا داخلہ ممنوع ہےفطرت، یخ بستہ پانی میں غسل اور مشکلات سہنے کا فن: ’دنیا کی سب سے زیادہ خوش قوم‘ کی زندگی کا راز