’ہم اُنھیں اپنا اصل چہرہ دکھائیں گے‘: غزہ میں حماس مخالف مسلح گروہ کے نئے رہنما کی دھمکی کیا معنی رکھتی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Dec 13, 2025

غسان دہینی نے یاسر ابو شباب کی جگہ غزہ میں حماس مخالف ملیشیا (پاپولر فورسز) کے نئے رہنما کے طور پر چارج سنبھال لیا ہے۔ یہ ملیشیا غزہ میں حماس مخالف گروپ ہے، جو غزہ کے جنوبی شہر رفح کے قریب اسرائیل کے زیر کنٹرول علاقوں میں کام کرتا ہے۔

ابو شباب کو مبینہ طور پر تین دسمبر کو غزہ میں قبائلی جھڑپ کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اسرائیلی خبر رساں ویب سائٹ ’وائی نیٹ‘ کے مطابق دہینی ابو شباب کے نائب تھے اور اس واقعے میں زخمی ہو گئے تھے اور انھیں علاج کے لیے اسرائیل کے ہسپتال لے جایا گیا تھا۔

اماراتی ویب سائٹ ’ارام نیوز‘ نے دہینی کو حماس کی ہٹ لسٹ میں شامل ’انتہائی خطرناک مطلوب شخص‘ قرار دیا۔ سائٹ نے رپورٹ کیا کہ ’وہ مسلح گروپ کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر جانے جاتے تھے، جس کی بنیاد اُنھوں نے یاسر ابو شباب کے ساتھ رکھی تھی۔‘

حماس مخالف ملیشیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسرائیل، اسے اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ فلسطینی اس پر اسرائیل کے ساتھ تعاون اور جنوبی غزہ میں داخل ہونے والی امداد لوٹنے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔

حماس سے وابستہ نیوز ویب سائٹ ’شہاب‘ نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ دہینی اور ابو شباب کے درمیان عسکریت پسند گروپ کی قیادت اور کنٹرول کے معاملے پر شدید اندرونی تنازع تھا، جس سے یہ سوال اُٹھ رہا تھا کہ ’اسرائیل ابو شباب کو قتل کر کے اُن سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔‘

پاپولر فورسز کے نئے لیڈر کو حال ہی میں ایک ویڈیو میں حماس کے متعدد جنگجوؤں سے پوچھ گچھ کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا، جنھیں رفح میں ایک سرنگ میں حراست میں لیا گیا تھا۔ اُنھوں نے حماس سے وابستہ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے اُنھیں ’مجرم قاتل‘ قرار دیا جو اُن کے بقول اس ملیشیا کے دو ارکان کے قتل میں ’ملوث‘ تھے۔

حماس نواز میڈیا آؤٹ لیٹس نے رپورٹ کیا ہے کہ چارج سنبھالنے کے بعد دہینی نے غزہ میں حماس کے خلاف زیادہ جارحانہ حکمتِ عملی اپنانے کا اعلان کیا۔

فلسطینی اتھارٹیکے سکیورٹی افسر سے لے کر حماس کے سخت دشمن تک

اماراتی ویب سائٹ ’ارام نیوز‘ کے مطابق 39 سالہ عسکریت پسند رہنما غسان دہینی کا تعلق بدو قبیلے سے ہے اور وہ اس سے قبل ابو شباب گروپ کے مسلح ونگ کی کمانڈ کر چکے ہیں جس نے رفح میں حماس کے خلاف ’خصوصی کارروائیاں‘ کیں۔

شہاب نیوز ویب سائٹ سمیت حماس سے وابستہ میڈیا آؤٹ لیٹس کے مطابق، دہینی تین اکتوبر 1987 کو رفح میں پیدا ہوئے اور اُنھوں نے ثانوی تعلیم رفح کے بیر شیبہ ہائی سکول میں مکمل کی۔

دہینی نے 2007 میں حماس کی طرف سے پٹی کا کنٹرول سنبھالنے سے قبل غزہ کی پٹی میں فلسطینی اتھارٹی کے سکیورٹی افسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ان کے والد بھی اس تنظیم کے سابق افسر تھے۔

حماس نے مبینہ طور پر انھیں مختلف وجوہات کی بنا پر متعدد بار گرفتار کیا، جس میں غزہ میں قائم ’جیش الاسلام‘ نامی مسلح گروپ میں شمولیت بھی شامل ہے جس کا القاعدہ سے تعلق تھا۔ حماس سے وابستہ ذرائع ابلاغ نے گرفتاری کی دیگر وجوہات بھی بتائی ہیں جن میں ڈکیتی، بھتہ خوری اور جنسی طور پر ہراساں کرنا شامل ہیں۔

’ارام نیوز‘ نے رپورٹ کیا کہ حماس نے اُنھیں کئی بار قتل کرنے کی کوشش کی تھی اور اس دوران ان کا ایک بھائی بھی مارا گیا تھا۔

اسرائیلی ویب سائٹ ’وائی نیٹ‘ نے اگست میں بتایا تھا کہ دہینی کا بھائی داعش کا رُکن تھا جسے حماس نے ہلاک کیا تھا۔

فلسطینی اور عرب میڈیا نے اسرائیلی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ دہینی نے اسرائیلی فوج کی نگرانی میں کام کیا، خاص طور پر انسانی امداد کے انتظام اور حماس کے خلاف بھرتیوں میں۔

’مکمل تباہی اور ملبے کا ڈھیر‘: جنگ کے دو سال بعد بی بی سی نے غزہ میں کیا دیکھا؟غزہ معاہدے کا پہلا مرحلہ: اب کیا ہو گا اور کن نکات پر ابہام باقی ہے؟اسرائیل سے موصول ہونے والی فلسطینیوں کی 95 مسخ شدہ نامعلوم لاشوں کا معمہ: ’بعض کو جلایا گیا، کچھ کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا‘غزہ کی پٹی: ’دنیا کی سب سے بڑی کُھلی جیل‘ جس پر سکندر اعظم سے لے کر سلطنتِ عثمانیہ تک نے حکومت کی

دہینی کا کئی بار اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے انٹرویو کیا، وہ اپنے فیس بک پیچ پر باقاعدگی سے پوسٹ کرتے ہیں۔

اسرائیل کے ’چینل 14‘ کی ایک رپورٹ میں دہینی کے حوالے سے بتایا گیا کہ ملیشیا کی قیادت سنبھالنے کے بعد پانچ دسمبر کو اپنے پہلے بیان میں اُنھوں نے اعلان کیا کہ پاپولر فورسز غزہ میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گی۔

اُنھوں نے کہا کہ ’ہم آخری دہشت گرد تک لڑائی جاری رکھیں گے۔‘

دہینی نے مزید کہا کہ ابو شباب کی ہلاکت کے بعد اُنھیں اسرائیلی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

’وائی نیٹ‘ کے مطابق دہینی نے کہا کہ پاپولر فورسز اب اپنا ’اصلی چہرہ دکھائے گی، جسے حماس کو بہت پہلے دیکھنا چاہیے تھا۔‘

اُنھوں نے مزید کہا کہ ان کے زیر کمان گروپ غزہ کے لوگوں کے لیے ’امید کا سرچشمہ‘ بنا رہے گا۔ اُنھوں نے ابو شباب کے قتل میں حماس کے کردار کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ گروپ ’ہمارے کمانڈر کو نقصان پہنچانے کے لیے بہت کمزور تھا۔‘

دہینی نے اسرائیل کے ’چینل 12‘ کی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’جب میں حماس سے لڑ رہا ہوں تو میں حماس سے کیسے ڈر سکتا ہوں؟ میں ان سے لڑتا ہوں، ان کے لوگوں کو گرفتار کرتا ہوں، میں ان کا سامان ضبط کرتا ہوں اور اُنھیں نکال دیتا ہوں، میں ان کے ساتھ وہی کرتا ہوں جس کے وہ حقدار ہیں۔‘

’ابو شباب کی موت سے دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں رُکے گی‘

دہینی نے کہا کہ حماس کے زیر حراست ارکان کی پاپولر فورسز کی طرف سے جاری کی گئی ویڈیو کا مقصد اس بات پر زور دینا تھا کہ ابو شباب کی موت سے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں رکے گی۔‘

اُنھوں نے مزید کہا کہ ان کی زیر کمان ملیشیا غزہ میں ’غیر فوجی‘ اور ’محفوظ‘ علاقوں کو تیار کرنے کے لیے کام کر رہی ہے تاکہ عام شہری وہاں آباد ہو سکیں۔

دہینی نے پانچ دسمبر کو اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’کاؤنٹر ٹیررازم سروس (رفح میں ان کے گروپ سے وابستہ) خود لوگوں اور ان کے تمام خاندانوں پر مشتمل ہے۔ وہ حماس کے دہشت گردانہ رویے سے بے گھر ہو گئے تھے اور اب سلامتی، امن، تعمیر نو اور امید کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘

20 جولائی کو ایک ویڈیو کانفرنس میں دہینی کا کہنا تھا کہ ’میرا ہتھیار اٹھانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں خود کو ایسی صورتِ حال سے دوچار کروں گا لیکن سات اکتوبر کے بعد جو کچھ ہوا وہ غزہ کے لوگوں کے لیے تباہی تھا۔‘

کیا ابو شباب کا قتل غزہ کے لیے اسرائیل کے منصوبوں کی ناکامی ہے؟

غزہ کے عسکریت پسند کمانڈر یاسر ابو شباب کی ہلاکت نے غزہ کے لیے اسرائیل کے جنگ کے بعد کے منصوبوں کے مستقبل کے بارے میں بھی بحث کو جنم دیا ہے، ایسے منصوبے جو جزوی طور پر غزہ کی پٹی کے اندر حماس مخالف عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں پر مبنی تھے۔

ابو شباب کی موت کو اسرائیل کے لیے ایک ’دردناک دھچکہ‘ اور ’شکست‘ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس سے غزہ کے لیے اس کے مستقبل کے منصوبوں پر اثر پڑے گا۔

حماس کے قریبی ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ عرب اور فلسطینی آن لائن صارفین نے غزہ میں عسکریت پسند کمانڈر کی ہلاکت کا خیر مقدم کیا۔

بہت سے انٹرنیٹ صارفین نے ابو شباب کی موت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’تمام غداروں اور دشمن کے ساتھ تعاون کرنے والوں کا یہی حشر ہو گا۔‘

لیکن سب سے اہمردِِعمل ان کے قبیلے ترابین کی طرف سے آیا جو رفح میں مقیم ہے۔

قبیلے نے چار دسمبر کو ایک بیان میں اعلان کیا کہ ابو شباب کے قتل کا مطلب ’ایک سیاہ صفحے کا خاتمہ ہے جو قبیلے کی تاریخ اور گہری جڑوں کی نمائندگی نہیں کرتا۔‘

ابو شباب کی موت اسرائیل کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟

کئی عرب میڈیا اداروں نے ابو شباب کے قتل کو اسرائیل پر منفی اثر ڈالنے والا واقعہ قرار دیا۔

قاہرہ میں قائم الغد نیٹ ورک نے کہا کہ ’قابضین نے اپنا سب سے اہم اثاثہ کھو دیا۔‘

اسرائیلی امور کے ماہر مہند مصطفیٰ نے قطری نیٹ ورک الجزیرہ کو بتایا کہ ابو شباب کی موت اسرائیل کے لیے دھچکہ ہے۔

سیاسی تجزیہ کار اکرم عطا اللہ نے الغد ٹی وی کو بتایا کہ غزہ، لبنان اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی حمایت یافتہ گروہوں کو شکست ہوئی تاہم ان کا خیال ہے کہ ’ابو شباب کی موت کے نتیجے میں اسرائیل کو زیادہ نقصان نہیں ہو گا۔‘

حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ جس سے ہلاکتیں تو رک سکتی ہیں لیکن تنازع نہیںٹرمپ کا غزہ میں جنگ بندی کا مجوزہ منصوبہ: کیا آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے؟ غزہ امن معاہدے سے جڑی اُمیدیں اور خدشات: کیا نتن یاہو یرغمالیوں کی واپسی کے بعد دوبارہ جنگ شروع کر سکتے ہیں؟غزہ معاہدے کا پہلا مرحلہ: اب کیا ہو گا اور کن نکات پر ابہام باقی ہے؟اسرائیل سے موصول ہونے والی فلسطینیوں کی 95 مسخ شدہ نامعلوم لاشوں کا معمہ: ’بعض کو جلایا گیا، کچھ کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More