’لائٹ فشنگ‘: پاکستانی سمندری حدود میں ہونے والی ’تباہ کُن سرگرمی‘ کم وقت میں زیادہ شکار کا حصول کیسے ممکن بنا رہی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Dec 22, 2025

’لائٹ فشنگ سے مچھلی زیادہ ملتی ہے اور اس سے آسانی بھی بہت ہے۔۔۔‘

نواز علی دبلو کراچی کے علاقے ریڑھی گوٹھ کے رہائشی ہیں اور کئی نسلوں سے اُن کا خاندان ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ سمندر میں مچھلیوں کا ذخیرہ کم ہوتا جا رہا ہے اور اس لیے وہ لائٹ فشنگ کا طریقہ استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق اس کی بدولت وہ کم وقت میں زیادہ مچھلیاں پکڑ پاتے ہیں۔

لائٹ فشنگ سے مراد ماہی گیری کا وہ طریقہ ہے جس میں مچھلی اور دیگر سمندری انواع کو روشنی کے ذریعے متوجہ اور پھر شکار کیا جاتا ہے۔ ماہی گیروں کی کشتیوں پر بڑی بڑی بیم لائٹس لگی ہوتی ہیں، جن کا رُخ سمندر کی تہہ کی جانب ہوتا ہے۔

مچھلیوں کے وسیع جھنڈ لائٹ کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور پھر اس پورے جھنڈ کو باریک لیکن بہت بڑے جال (عموماً قطرہ جال) میں سمیٹ لیا جاتا ہے۔ یوں ایک کشتی ایک ہی وقت میں لاکھوں مچھلیوں کا شکار کر لیتی ہے۔

نواز کا کہنا ہے کہ لائٹ فشنگ کے ذریعے پکڑی جانے والی مچھلیوں میں زیادہ تر لوور، چاقو، پچک وغیرہ نسل کی ہوتی ہیں جن کا سائز دس انچ سے بڑا نہیں ہوتا، اور یہ مچھلی زیادہ تر چکن فیڈ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

’لائٹ استعمال نہ کریں تو شاید دو وقت کی روٹی بھی نہ کھا سکیں‘

لائٹ کے استعمال سے مچھلیوں کے شکار کا رحجان سندھاور بلوچستان میں تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔

ماہرین اسے تشویشناک قرار دیتے ہیں کیونکہ اُن کے مطابق یہ مچھلیوں کی نسل کشی کا سبب بن رہا ہے، لیکن نواز دبلو اور ان جیسے ماہی گیروں کا دعویٰ ہے کہ روایتی طریقوں سے مچھلی پکڑنا اب ممکن نہیں رہا کیونکہ سمندر میں مچھلیوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ دس سال پہلے صورتحال بہت اچھی تھی، کنارے پر کم مگر گہرے سمندر میں بھی بہت مچھلی مل جاتی تھی، مگر اب صورتحال ایسی نہیں ہے۔

ڈام (بلوچستان) میں ماہی گیری کرنے والے محمد امین بھی نواز علی کے ہم خیال ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’ہم ماہی گیر ہیں، ہمیں اور کوئی کام نہیں آتا۔ ہمارا گزر بسر مچھلیاں پکڑنے پر ہے لیکن مچھلیاں سمندر میں کم ہو گئی ہیں اس لیے لائٹ استعمال کرنا اب مجبوری ہے۔‘

وہ اپنے دو بیٹوں اور بھائیوں کے ساتھ مچھلی پکڑنے جاتے ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم پورا مہینہ لائٹ استعمال نہیں کرتے صرف چاند کی آخری تاریخوں میں بیم لائٹ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

’اگر ہم یہ نہ کریں تو شاید بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی نہ کِھلا سکیں۔‘

لیکن محمد اکبر جو بھیڑا ڈام کے رہائشی اور پیشہ ور ماہی گیر ہیں، ان کی رائے مختلف ہے۔

محمد اکبر کے مطابق ’یہ ٹھیک ہے کہ اب مچھلی اتنی نہیں ملتی جتنی کچھ چند سال پہلے مل جاتی تھی، لیکن پھر بھی اتنی کم نہیں ہے جتنا یہ لائٹ استعمال کرنے والے بتاتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’لائٹ فشنگ والے ایک کشتی پر دس سے بارہ بڑی بڑی لائٹس استعمال کرتے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں مچھلیاں ایک ہی بار میں پکڑ لیتے ہیں۔‘

محمد اکبر نے واضح طور پر کہا کہ ’ہم لائٹ والے نہیں۔ ہم کنارے پر شیشہ میا (مچھلی کی ایک قسم) اور کیکڑا پکڑتے ہیں۔ شیشہ میا کا سائزعموما سوا کلو سے زیادہ ہی ہوتا ہے اور کراچی میں اس کی قیمت 1400 کلو تک مل جاتی ہے۔‘

محمد اکبر کے مطابق وہ مہینے کے اوسطاً تیس ہزار روپے کما لیتے ہیں جس میں ’عزت سے گزر بسر ہو رہی ہے‘ چنانچہ انھیں ماہی گیری کے لیے غلط طریقے استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔

لائٹ بوٹس: ’سمندری وسائل کی تباہی‘

سندھ اور بلوچستان میں لگ بھگ وہ تمام کشتیاں جو چھوٹی مچھلی کا شکار (ممنوعہ قطرہ جال سے) کرتی ہیں وہ لائٹ فشنگ ہی کر رہی ہیں۔

اگرچہ اس حوالے سے سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں مگر آزاد ذرائع کے مطابق سندھ میں 1700 اور بلوچستان میں 1200 کشتیاں یہی طریقہ استعمال کر رہی ہیں۔

گوادر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی میں ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات عبدالرحیم کا کہنا ہے کہ لائٹ فشنگ اِس وقت بلوچستان اور سندھ کے ساحلوں پر تیزی سے پھیلنے والی سب سے زیادہ تباہ کن اور ماحولیاتی طور پر خطرناک سرگرمیوں میں سے ایک ہے۔

’تیز روشنیوں کے استعمال سے ماہی گیر نہ صرف تجارتی اقسام کی مچھلیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ بلاامتیاز سمندری حیات کو، چاہے وہ پانی کی سطح پر ہوں یا سمندر کی تہہ میں رہنے والی انواع، شکار کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ جب طاقتور بیم لائٹس روشن کی جاتی ہیں تو مچھلیوں کا قدرتی رویہ مکمل طور پر متاثر ہو جاتا ہے۔

’پانی کے درمیانی حصے میں رہنے والی مچھلیاں اور حتیٰ کہ تہہ میں بسنے والے جاندار بھی ایک جھوٹے خوراکی علاقے کی طرف کھنچ آتے ہیں اور جال بچھائے جانے کے بعد اُن کے لیے بچ نکلنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ زیر آب بیم لائٹس کا حالیہ استعمال اس عمل کو مزید تشویشناک بنا چکا ہے۔ یوں سمجھ لیجے کہ اِن لائٹ بوٹس نے سمندر کو ایک وسیع تجارتی جال میں تبدیل کر دیا۔‘

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر اور پاکستان میرین فشریز ڈیپارٹمنٹ کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور فش ایکسپرٹ معظم خان کے مطابق ’تقریباِ تین دہائی قبل ہم خود کوشش کر رہے تھے کہ لائٹ فشنگ کو فروغ دیا جائے تاکہ مچھلیوں کی بڑی انواع پر دباﺅ ختم ہو اور ایک نئی مارکیٹ وجود میں آئے لیکن اس وقت یہ نہیں ہو سکا۔‘

’سونے کے دل والی‘ گھول مچھلی جسے ماہی گیر لاکھوں روپے میں فروخت کرتے ہیںکروکر: ہزاروں میں بکنے والی مچھلی کی قیمت لاکھوں تک کیسے پہنچی؟بلوچستان میں نایاب آرا مچھلی پکڑ لی گئی مگر اس کا استعمال کہاں ہوتا ہے؟سمندر میں تیرنے والی شارک مچھلیوں میں کوکین کہاں سے آئی؟

’مگر اِس وقت جو لائٹ فشنگ ہو رہی ہے وہ ہمارے اُس خیال کے بالکل برعکس ہے اور یہ کسی بھی طرح ماحول دوست نہیں ہے۔‘

وہ کہتے ہیں یہ طریقہ سمندری حیات کی نسل کشی کے مترادف ہے۔ ’اس طریقے میں ہیوی مشینیں استعمال ہو رہی ہیں جو مچھلیوں سے بھرے وسیع و عریض جالوں کو کھینچتی ہیں۔ ان کشتیوں پر ٹرکوں کے انجن لگائے جاتے ہیں اور بڑے جنریٹر موجود ہوتے ہیں۔‘

’ان ہیوی مشینوں سے سمندر کے ماحولیاتی نظام پر دباﺅ بڑھتا ہے۔ اگر دو ہزار کشتیاں یہ طریقہ کار استعمال کر رہی ہیں تو سمجھ لیجیے کہ یہ چھہزار کشتیوں کا دباﺅ سمندر پر ڈالا جا رہا ہے۔‘

’اس کے علاوہ لائٹ فشنگ کے ذریعے پکڑی جانے والی مچھلی کی مقدار میں پانچ گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر ایک کشتی بغیر لائٹ کے 30 ٹن مچھلی پکڑتی ہے تو لائٹ کے ذریعے یہ 150 ٹن ہو جاتی ہے۔ صاف الفاظ میں یہ سمندری وسائل کی تباہی ہے۔‘

’غیر معیاری اور ممنوعہ جال بھی تباہی کے ذمے دار ہیں‘

یونیورسٹی آف کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر میرین سائنس ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر شعیب کیانی کے مطابق عالمی تنظیم فوڈ اینڈ ایگریکلچرآرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے ڈیٹا کے موازنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی سمندری حدود میں 40 سے 70 فیصد تک مچھلیاں کم ہو چکی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’حتیٰ کہ پورے کُھلے سمندر، کوسٹل اور انڈس ڈیلٹا کی کھاڑیوں میں بھی بڑے سائزکی مچھلی نہیں ملتی۔ خطرے کی بات یہ تھی کہ صرف مچھلیوں کی تعداد ہی نہیں بلکہ ان کی بہت سی انواع خصوصاً شارک اور پلہ مچھلی ناپید ہونے کے قریب پہنچ چکی ہیں۔‘

شعیب کیانی کا کہنا ہے کہ صرف لائٹ فشنگ ہی نہیں بلکہ غیر معیاری اور ممنوعہ جال کا استعمال بھی اس تباہی کے ذمہ دار ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’اقوام متحدہ کے میرین قوانین کے تحت کسی بھی جال کو 2.5 کلومیٹر سے زیادہ وسیع نہیں ہونا چاہیے لیکن ہمارے ماہی گیر عام طور پر 15 کلومیٹر اور کبھی کبھی تو 20 کلومیٹر تک وسیع اور طویل جال کا استعمال کرتے ہیں۔

’یہ جال سمندر میں کھڑی طویل دیوار کے مانند ہوتے ہیں جس میں ہر سائز کی مچھلی، کچھوے، وہیل مچھلی، سن فش اور شارک کی کئی انواع اور سمندری پرندے بھی پھنس جاتے ہیں۔ اب لائٹ فشنگ مزید تباہی پھیلا رہی ہے۔‘

لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر واٹر اینڈ میرین سائنسز میں اسسٹنٹ پروفیسر ظفر اللہ جتک کے مطابق سمندری حیات کے وسائل میں بتدریج کمی نہ صرف ماحولیاتی طور پر تشویشناک ہے بلکہ یہ ماہی گیروں کے رویے بھی تبدیل کر رہی ہے۔

’کم وقت میں زیادہ سے زیادہ شکار کا حصول لائٹ فشنگ جیسے نقصان دہ طریقہ کار کی جانب راغب کر رہا ہے۔‘

انھوں نے یونیورسٹی کی جانب سے حال ہی میں کرائے گئے ایک سروے کا حوالہ دیا کہ مختلف ساحلی علاقوں میں رہائش پذیر ماہی گیروں نے واضح طور پر بتایا کہ وہ اپنی اگلی نسل کو ماہی گیری کی جانب نہیں لانا چاہتے، گویا صرف سمندری وسائل ہی نہیں بلکہ یہ پوری صنعت بشمول ماہی گیر خطرے سے دوچار ہیں۔

’ایسے تمام طریقوں پر پابندی ہے جو مچھلیوں کی نسل کشی کرتے ہیں‘

بلوچستان میں فشریز سے متعلق قوانین ’بلوچستان سی فشریز ایکٹ 1971‘ کے تحت ممنوعہ طریقوں سے مچھلی پکڑنے پر پابندی عائد ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹی مچھلیوں کے شکار پر پابندی ہے جبکہ ممنوعہ جال جیسے وائر نیٹ، گِل نیٹ اور اوور سائز ٹرالرز کے استعمال پر بھی سخت سزائیں مقرر ہیں۔

لیکن ماہرین کے مطابق زمینی حقیقت یہ ہیں کہ ان قوانین پر عملدرآمد کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔

چونکہ یہ نیا عمل ہے اس لیے قانون میں ’لائٹ فشنگ‘ کا ذکر نہیں مگر تمام قوانین میں ایسے تمام طریقوں پر پابندی ہے جو مچھلیوں کی نسل کشی کرتے ہیں اور ان کے مخصوص جرمانے اور سزائیں بھی ہیں۔

عبد الرحیم کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی نئی ’سسٹین ایبل فشریز اینڈ ایکوا کلچر پالیسی‘ میں لائٹ فشنگ پر مکمل پابندی ہے۔

’یہ پالسی کابینہ سے منظور ہو چکی جبکہ بلوچستان سسٹین ایبل فشریز اینڈ ایکوا کلچر بل 2025 تیاری کے آخری مراحل میں ہے‘

بلوچستان فشریز ڈپارٹمنٹ سے بطور انسپیکٹر وابستہ کلیم اللہ کا کہنا ہے کہ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے قانون پرعملدرآمد میں سختی کی ضرورت ہے لیکن کم وسائل کے ساتھ 700 کلومیٹر ساحل اور سمندر کی مانیٹرنگ مکمل طور پر ممکن نہیں۔

’ہمارے صرف تین مانیٹرنگ سٹیشن ہنگول، گڈانی اور ڈام ہیں جہاں پر مانیٹرنگ والی کشتیاں موجود ہوتی ہیں جن میں ڈرائیور، انسپکٹر اور سب انسپیکٹر موجود ہوتا ہے، لیکن یقینا یہ کافی نہیں۔‘

کلیم اللہ کا کہنا ہے کہ وسائل میں اضافہ اور تربیت یافتہ سٹاف سے صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔

ظفر اللہ جٹک کا کہنا ہے قوانین پر سختی سے عملدرآمد ، متبادل روزگار کی فراہمی اور ایکوا کلچر کے فروغ سے ہی سمندری وسائل پر منڈلاتے اس خطرے کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

بڑے منھ والی پُراسرار مچھلی جو 100 سال تک جوان رہ سکتی ہے’سونے کے دل والی‘ گھول مچھلی جسے ماہی گیر لاکھوں روپے میں فروخت کرتے ہیںبلوچستان میں نایاب آرا مچھلی پکڑ لی گئی مگر اس کا استعمال کہاں ہوتا ہے؟سمندر میں تیرنے والی شارک مچھلیوں میں کوکین کہاں سے آئی؟کروکر: ہزاروں میں بکنے والی مچھلی کی قیمت لاکھوں تک کیسے پہنچی؟وہیل کے منھ سے زندہ بچ نکلنے والا نوجوان: ’ایک سیکنڈ میں اس نے مجھے اندر کھینچ لیا تھا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More