لیہ کے ہنس راج وائرلیس: نیند لانے والی ٹارچ کے موجد جو ہندوستان کی آزادی کے سرخیل بنے

بی بی سی اردو  |  Dec 28, 2025

Getty Imagesفائل فوٹو

23 دسمبر1929 کی صبح دُھند شدید تھی جب دلی سے چھ میل پہلے اس خصوصی ٹرین پر بم حملہ ہوا جس میں برطانوی ہندوستان کے وائسرائے لارڈ اِروِن اور ان کی اہلیہ سوارتھے۔

اگلے روز کے اخبار ’دی سٹیٹسمین‘ کے مطابق، جنوبی ہندوستان سے آئے اِروِن کا اپنا سیلون بال بال بچا تھا لیکن وہ خود تو دھماکے کو ریلوے میں دھند کے باعث کم حد نگاہ میں دیے جانے والا انتباہی ’فوگ سگنل‘ سمجھے اور عام لوگ استقبالی توپ کے گولے کی آواز۔

یہی دھند جسے امریکی اخبار ’دی نیویارک ٹائمز‘ نے ’خدائی انتظام‘ قرار دیا اِروِن جوڑے کے بچاؤ کا ذریعہ بنی۔

’دی سٹیٹسمین‘ نے لکھا کہ پائلٹ انجن حضرت نظام الدین سٹیشن سے گزرا تو خیریت رہی۔

’تیرہ ڈبوں کی خصوصی ٹرین میں تیسرا ڈبا ڈائننگ کار تھا، یہ اور چوتھا ڈبا دھماکے میں شدید متاثر ہوئے۔ اِروِن کا سیلون اس سے دو ڈبے اورپیچھے تھا۔

دھند کی وجہ سے دھماکہ کرنے والوں کو اس سیلون کی پہچان نہ ہوئی جس میں بیٹھے وائسرائے اور لیڈی اِروِن نئے تعمیر ہونے والے وائسریگل لاج کی باتیں کررہے تھے جس کا انھیں پہلا رہائشی ہونا تھا۔‘

ٹائمز نے لکھا کہ دھند کے باعث وائسرائے کی ٹرین کی رفتار غیر معمولی طور پر کم ہو گئی اورٹرین 30 فٹ اونچے پشتے سے نیچے گر کر تباہ ہونے سے بال بال بچ گئی۔

’ایک کے بعد ایک ڈبا پٹری میں موجود دو فٹ کے خلا کو پھلانگتا ہوا گزر گیا جبکہ اس کے نیچے لکڑی کے سلیپرز ٹوٹ کر ماچس کی تیلیوں کی طرح بکھر چکے تھے۔‘

’دی سٹیٹسمین‘ نے لکھا کہ اسی دھند کے باعث ان افراد کا علم بھی نہ ہو پایا تھا جنھوں نے نہایت مہارت اور احتیاط سے ٹریک میں بم رکھ کر ا سے ایک زیرِزمین تار سے 200 گز دور بیٹری سے جوڑا تھا۔

ٹائمز کے مطابق پولیس کو یقین تھا کہ یہ کارروائی سائنسی علم اور مہارت سے لیس افراد کی نہایت محتاط منصوبہ بندی کا نتیجہ تھی۔

Getty Imagesبرطانوی ہندوستان کے وائسرائے لارڈ اِروِن

ڈاکٹر در محمد پٹھان کے مطابق 1922 کی ابتدا میں موہن داس گاندھی نے عدم تعاون تحریک اچانک ختم کر دی تو کانگریس سے ایک انقلابی دھڑے نے جنم لیا، ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن۔ یہ ایسوسی ایشن 1928 میں لفظ ’سوشلسٹ‘ کے اضافے سے مختصراً ایچ آر ایس اے کہلائی۔

اس تنظیم کا منشور’فلسفۂ بم‘ بھگوتی چرن وہرا نے لکھا جبکہ چندر شیکھر آزاد، بھگت سنگھ، سکھ دیو، بسمل، اشفاق اللہ خان اور دیگر نمایاں انقلابی اس سے وابستہ تھے۔

ابھی جیت بھلے راؤ نے اپنی کتاب ’دی مین ہواوینجڈ بھگت سنگھ‘ میں تفصیل سے لکھا ہے کہ کیسے ایک شام بھگوتی نے کہا کہ ہمارے ساتھی قید میں ہیں، کئی منصوبے ناکام ہو چکے ہیں، اور عدالتی نظام کے نام پر ظلم جاری ہے۔ اس لیے ایک ایسا اقدام ضروری ہے جو برطانیہ کو بتا دے کہ وہ آگ سے کھیل رہا ہے۔

یش پال نے پوچھا کہ کیا تجویز ہے؟ بھگوتی نے کہا،’سانپ کا سر کاٹنا۔‘

آزاد نے واضح کیا کہ اس کا مطلب وائسرائے ہند، لارڈ ارون کا قتل ہے۔

ہنس راج عرف ’وائرلیس‘ کو بلایا گیا، جنھوں نے بتایا کہ وہ دور سے پھٹنے والا بم بنا سکتے ہیں۔‘

یش پال کی سوانح عمری ’یش پال لکس بیک‘ کے مطابق دھرم پال نے یش پال کو اپنے بچپن کے دوست اور ماہر الیکٹریشن ہنس راج ’وائرلیس‘ سے مدد لینے کا مشورہ دیا۔

’ہنس راج نہ صرف تعاون پر آمادہ تھے بلکہ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک چھوٹا سا آلہ تیار کر سکتے ہیں جو بم کے اندر نصب کیا جائے گا، اور ایک دوسرا چھوٹا آلہ جو بم سے نہ کسی تار کے ذریعے جڑا ہوگا اور نہ کسی اور ذریعے سے، بلکہ بم سے کافی فاصلے پر ہوگا، اس پورے نظام کو کنٹرول کرے گا۔‘

’لیکن پھر ہنس راج نے اپنا ارادہ بدل لیا اور وجہ یہ بتائی کہ حکومت کو اس پر شک ہو جائے گا، کیونکہ حکومت جانتی ہے کہ ایسا آلہ صرف وہی ایجاد کر سکتے ہیں۔ ہنس راج پُرامید، پُرجوش تھے اور بجلی کے ذریعے حیرت انگیز کرتب دکھاتے تھے۔‘

’ہنس راج وائرلیس‘

ہنس راج وائرلیس جنوبی پنجاب کے شہر لیہ سے مرکزی پنجاب کے شہر لائل پور (موجودہ فیصل آباد) اور پھر تعلیم کی خاطرپنجاب کے دارالحکومت لاہور چلے گئے۔

ہنس راج کے سکول کے ہم جماعت، مہر عبدالحق نے اپنی آپ بیتی ’جو ہم پہ گزری‘ میں لکھا ہے کہ چھٹی جماعت میں انھوں نے ایک ایسی ٹارچ ایجاد کی تھی جس کی روشنی سے وہ لوگوں کو دیکھتے دیکھتے سُلا دیتے تھے۔

آگے لکھتے ہیں کہ ’ان دنوں وائرلیس کی ایجاد ابھی عام نہیں ہوئی تھی۔ بادشاہ جارج پنجم اور وائسرائے ہند کے درمیان کچھ اہم گفتگو ہو رہی تھی۔ میرے اس ساتھی نے اپنی وائرلیس ایجاد کے ذریعے یہ گفتگو فضا ہی سے کیچ کر لی اور دوسرے دن اخبارات میں شائع کر دی۔‘

’اس دن سے وائرلیس اس کے نام کا حصہ بن گیا اور یہ ہنس راج وائرلیس کے نام سے مشہور ہوا۔‘

’میرے اس دوست نے امتحان پاس کیا تو اس کے والدین نقل مکانی کر کے لائل پور چلے گئے۔ تین سال بعد وہ ایک بار پھر لیہ آیا۔ پہلے کی طرح اپنی چند ایجادوں کا مظاہرہ کیا اور چلا گیا۔‘

عائشہ سعید نے تاریخی موضوعات سے متعلق ایک ویب سائٹ کے لیے سنہ 2016 میں ہندوستان کی برطانیہ سے آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے مرزا نسیم چنگیزی کا انٹرویو لیا۔ وہ تب 106 سال کے تھے اور پرانی دلی میں رہتے تھے۔

چنگیزی نے بتایا کہ انھوں نے اپنے ساتھیوں، صلاح الدین اور ہنس راج وائرلیس، کے ساتھ مل کر لارڈ اروِن کو لے جانے والی ٹرین کے نیچے بم پھوڑا تھا۔

’ہارڈنگ برج کے قریب ریلوے لائن پر ہم نے بم نصب کیا اور جنگل میں چھپ گئے۔ اُس زمانے میں پرگتی میدان ایک جنگل ہوا کرتا تھا۔ جب لارڈ اروِن کی ٹرین وہاں سے گزری تو بم پھٹ گیا۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ وہ اس حملے میں بچ گئے تھے۔‘

تاہم کملیش موہن نے اپنی کتاب ’ملیٹنٹ نیشنلزم ان دی پنجاب‘ میں لکھا ہے کہ اندرپال اور بھاگ رام، یش پال کے ہمراہ پرانا قلعہ گئے اور 22 اور 23 دسمبر 1929 کی درمیانی رات بم اور تار وغیرہ نصب کیے۔

’اگلے روز علی الصبح، یش پال اور بھاگ رام کارروائی کی جگہ پر پہنچے۔ شدید دھند کے باعث یش پال وائسرائے کی بوگی کی آمد کے ساتھ بٹن دبانے کا وقت ہم آہنگ نہ کر سکے، تاہم ایک دھماکہ ضرور ہوا۔‘

یش پال کے مطابق ’ہمارا منصوبہ یہ تھا کہ جیسے ہی ٹرین ایک خاص مقام پر پہنچے، بم انجن کے عین سامنے پھٹ جائے۔ انجن پٹری سے اتر کر الٹتا پلٹتا چلا جائے گا۔ دھند کی وجہ سے مجھے صرف آواز کی بنیاد پر یہ اندازہ لگانا تھا کہ بیٹری کا سوئچ کب دبانا ہے۔‘

’میں نے سانس روک لی، پوری توجہ اپنے کانوں میں سمیٹ لی، ہاتھ سوئچ پر رکھے، صرف آواز سے ٹرین کی جگہ کا اندازہ لگانے کے انتظار میں۔ پھر میں نے سوئچ دبا دیا۔ ایک لمحاتی، ہولناک دھماکہ ہوا! مگر توقعات کے برخلاف ٹرین تیزی سے نئی دہلی کی طرف بڑھتی چلی گئی۔‘

موہن نے لکھا ہے کہ فوجی وردی کی بدولت یش پال پولیس کی گرفت سے بچ نکلے اور بھاگ رام ان کے اردلی کے طور پر ساتھ رہے۔

یش پال کے مطابق یہ طے پایا تھا کہ اندرپال، ہنس راج اور بھاگ رام چار بجے کی ٹرین سے لاہور واپس جائیں گے۔ لیکھ رام روہتک چلے جائیں گے اور بھگوتی غازی آباد سٹیشن پر میرا انتظار کریں گے۔

بھگوتی اخبار پڑھ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں نے سوال کیا ’کیا ہوا؟‘ میں نے ہاتھوں سے منفی اشارہ کیا کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔

بھگوتی بھائی کو شک ہوا کہ شاید ہنس راج کی بیٹری خراب تھی۔ میں نے انھیں بتایا کہ دھماکہ بہت زور دار تھا، مگر مجھے نہیں لگتا کہ ٹرین کو کوئی نقصان پہنچا ہو۔

بھگوتی بھائی اور میں مسافر ٹرام میں مراد آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ بھگوتی نے عام سا سوٹ پہن رکھا تھا اور میں نے فوجی لباس بدل کر سادہ کپڑے پہن لیے تھے۔ ہم دونوں ٹرام میں خاموش اور دل شکستہ بیٹھے تھے۔

جب ٹرام مراد آباد سٹیشن پہنچی تو ہم نے ایک اخبار فروش کو چیختے ہوئے سنا، ’ تازہ خبر! وائسرائے کی ٹرام کے نیچے بم دھماکہ! ریلوے لائن اڑا دی گئی! ایک ڈبا تباہ! ایک آدمی ہلاک۔‘

ڈاکٹر پٹھان کے مطابق بعد ازاں ایچ آر ایس اے کا لاہور دھڑا الگ ہو کر ہنس راج ’وائرلیس‘ کی قیادت میں آتشی چکر کے نام سے قائم ہوا۔ اس نے جون 1930 میں پنجاب بھر میں بم دھماکے کیے۔

جب بھگت سنگھ نے پھانسی کے پھندے کو چوما اور موت کو گلے لگایابرطانوی وائسرائے کے دلی میں قتل کی ’سازش‘ جس کا سراغ لاہور کے لارنس گارڈن سے ملا1857 کی ’جنگِ آزادی‘: جب دلی نے موت کو رقصاں دیکھاکالا پانی: ہندوستان کی جنگ آزادی کی وہ ’قربان گاہ‘ جہاں ہر قیدی موت کی خواہش کرتا تھا

عرفان حبیب اپنی کتاب ’ٹومیک دی ڈیف ہیئر: آئیڈیالوجی اینڈ پروگرام آف بھگت سنگھ‘ میں لکھتے ہیں کہ ہنس راج ’وائرلیس‘ اور اندرپال نے پنجاب میں آتشی چکر نام کی تنظیم بنائی تاکہ اسے ایچ آر ایس اے سے جوڑا نہ جا سکے۔ ہنس راج نے مختلف مقامات پر بیک وقت بم دھماکوں کا منصوبہ بھی تیار کیا۔

اسی حوالے سے پاکستان بننے کے بعد وائرلیس کی کہانی جانباز مرزا کی ادارت میں مجلس احرار کے ماہ نامے ’تبصرہ‘ میں 1960 کی دہائی میں قسط وار چھپتی رہی ہے۔

وائرلیس لکھتے ہیں کہ لارڈ ارون کی سپیشل ٹرین کا بم حادثہ ہو چکا تھا۔ پنجاب کے سات شہروں میں بیک وقت بم پھٹ چکے تھے۔ پنجاب کے کئی شہروں میں انقلاب پسندوں کے کئی سینٹرقائم کیے جا چکے تھے مگر برطانوی حکومت کو مطلق علم نہ تھا کہ ان سرگرمیوں کے پسِ پردہ کون کون کام کر رہا ہے۔

’کسی کو میرے انقلاب پسند پارٹی میں کام کرنے کی خبر تک نہ تھی‘

وائرلیس لکھتے ہیں کہ ان کے ایک ساتھی امریک سنگھ نے بارود کا ایک سوٹ کیس لاہورکے سید مٹھا بازار کی ایک دکان میں لسی پیتے ہوئے رکھا جو آگ قریب ہونے کی وجہ سے پھٹ گیا۔

وہ خود زخمی ہوئے اورگوالمنڈی، لاہورمیں اپنے مرکز آ گئے۔ پولیس ان کے پیچھے پیچھے وہاں پہنچ گئی۔ اس نے سارے سامان پر قبضہ کر لیا۔

’میں وہاں سے جا چکا تھا لیکن بدقسمتی سے ایک سوٹ کیس میں میرے کوٹ کی جیب میں ایک ڈائری تھی، جس میں میرا نام لکھا تھا۔ پنجاب بھر کے بم ایکشن کی مکمل فائل بھی اسی میں تھی۔ اس کے علاوہ وائسرائے کی ٹرین پر استعمال کی گئی بیٹری بھی وہیں تھی۔‘

’تمام اخبارات میں میرے فرارکا ذکر تھا۔ حکومت برطانیہ نے میری گرفتاری پر انعام بھی رکھا۔‘

اسی حوالے سے مہر عبد الحق نے لکھا کہ ’جب ایک بار گرمی کی چھٹیوں میں، میں بہاولپور سے لیہ آ رہا تھا۔ ریل گاڑی شیر شاہ ریلوے سٹیشن پر تبدیل کرنا پڑتی تھی۔ میری نظر ایک اشتہار پر جا پڑی جس پر میرے اس ہم جماعت کی تصویر چھپی تھی۔‘

’اشتہار حکومت کی طرف سے تھا کہ جو کوئی ہنس راج وائرلیس کو زندہ یا مردہ گرفتار کرے گا اسے دس ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا۔‘

وائرلیس خود لکھتے ہیں کہ انھوں نے ایک دوست کے ہاتھ گھروالوں سے ایک سوروپیہ منگوایا۔

’دوست نے بتایا کہ کیسے میرے گھروالوں کو پولیس کے ہاتھوں تکلیفیں برداشت کرنا پڑ رہی ہیں۔ میں فوراً سٹیشن کی جانب چلا گیا۔ میری داڑھی بڑھ چکی تھی۔ اور نہایت پھٹے پرانے کپڑے پہنے پلیٹ فارم کے ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گیا۔ ایک دو دفعہ کچھ پولیس والے میرے قریب آکر بیٹھ گئے، وہ میری ہی باتیں کرنے لگے۔ ان کی گفتگو سے مفید معلومات حاصل ہوئیں۔‘

اسی آپ بیتی میں وائرلیس نے بتایا ہے کہ کیسے وہ لاہور سے ملتان اور وہاں سے سندھ چلے گئے۔

ہنس راج ’وائرلیس‘ سندھ میں

ڈاکٹر در محمد پٹھان لکھتے ہیں کہ چندر شیکھر آزاد نے الفریڈ پارک میں پولیس مقابلے کے دوران خودکشی کی، جبکہ بھگت سنگھ، سکھ دیو تھاپر اور راج گرو کو مارچ 1931 میں پھانسی دے دی گئی۔

چندر شیکھر آزاد کی موت کے بعد کوئی مرکزی قیادت باقی نہ رہی، تنظیم علاقائی دھڑوں میں بٹ گئی اور بغیر مرکزی ہم آہنگی کے کارروائیاں ہونے لگیں۔

ان حالات میں ہنس راج ’وائرلیس‘ نے سندھ کو اپنے لیے محفوظ ٹھکانہ بنایا۔

’اس وقت سندھ میں ہندو اور مسلم دونوں انقلابی سرگرم تھے۔ حر تحریک عروج پر تھی اور چندر بوس کے دورے نے ہندو نوجوانوں میں جوش پیدا کیا۔ ہنس راج نے خصوصاً ہندو نوجوانوں کو تربیت دی، مگر وہ سندھ میں گرفتار ہوئے۔

سندھ میں قید اور تشدد کی کہانی بھی ان کی آپ بیتی میں ملتی ہے۔

ان کی سرگرمیوں پر سندھی زبان میں خاصا مواد موجود ہے۔ ان کی حراست اور تشدد ترک کرنے کے وعدے پر رہائی پر کئی بار سندھ لیجسلیٹو اسمبلی میں باقاعدہ بحث ہوئی۔

ایجادات کے مظاہرے

چند برس بعد وہ ایک شو مین کے طور پر اُبھرے اور ٹکٹ لگا کر اپنی ایجادات دکھانے لگے۔ ریڈیو آلات، ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی مشینیں، خودکار جوتا پالش مشین، ہاتھ کے اشارے سے جلنے بجھنے والا بلب اور آواز ریکارڈ کرنے والا آلہ (جب مقناطیسی ٹیپ عام نہ تھی)۔ 1944–45 میں لاہور میں ان کے شو نے خاصا تاثر چھوڑا۔

وائرلیس پاکستان بننے کے بعد مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر چلے گئے۔

تاریخ کی کتب سے انڈیا کے وزیر اعظم جواہرلعل نہروکے 16 جنوری 1948 کے ایک خط کا پتا چلتا ہے۔

اس خط میں نہرو نے لکھا کہ ہنس راج میں صلاحیت اور اختراعی قوت ہے،عوامی مفاد میں ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

حکومت اگر خالی ورکشاپ سنبھال کر سرکاری طور پر چلائے اور ہنس راج کو ماہر کے طور پر شامل کرے تو فائدہ ہو سکتا ہے۔ ناکامی پر نقصان کم اور کامیابی پر روزگار اور مفید پیداوار ممکن ہے۔

آزادی کے بعد انھوں نے پنجاب اور شمالی انڈیا کے میلوں میں اپنے شوز جاری رکھے۔ سنہ 1950 کی دہائی میں انھوں نے ایک ایسی ڈیوائس بھی دکھائی جس سے دور بیٹھ کر گاڑی کا انجن بند ہو جاتا تھا۔

انڈیا کے اخبار ’دی ٹربیون‘ میں ڈی ایس چیمہ لکھتے ہیں کہ وائرلیس سائیکل پر مختلف سائز کے تھیلے لادے سکولوں میں سائنسی تجربات دکھاتے۔ اسی سے روزی کماتے۔

’سنہ 1958میں، جب میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا، ہمیں قریبی کالج کے آڈیٹوریم میں ان کے پروگرام کے بارے میں بتایا گیا۔ تین سکولوں کے نویں اور دسویں جماعت کے طلبہ موجود تھے۔ ایک چھوٹے قد کے مسکراتے شخص نے ہاتھ ہلا کر سلام کیا۔ چند منٹ میں اس نے سادہ سا انتظام کیا۔‘

ان کے مطابق ’ایک میلی چادر سے عارضی کمرہ بنا کر دکھایا کہ اندر آنے جانے سے بلب جلتا بجھتا ہے۔ پھر زنگ آلود نل کے نیچے ہاتھ رکھنے سے پانی خود بہنے اور ہٹانے سے رکنے کا مظاہرہ کیا۔ یہ سب ہمارے لیے حیرت انگیز تھا۔‘

’سب سے زیادہ داد خودکار جوتا پالش مشین تھی۔ ایک طالب علم نے جوتا لکڑی کے ڈبے میں رکھا، موٹر چلی، رکی تو جوتا پالش ہو چکا تھا۔‘

ان کے مطابق ’جب پاؤں اٹک گیا تو کسی نےچونی دی۔ سکہ ڈالتے ہی پاؤں آسانی سے باہر آ گیا۔‘ ڈی ایس چیمہ کے مطابق ہنس راج وائرلیس اپنے زمانے سے آگے کے شخص تھے۔

جب بھگت سنگھ نے پھانسی کے پھندے کو چوما اور موت کو گلے لگایابھگت سنگھ کے ساتھ پھانسی پانے والا ’خاموش ہیرو‘ سکھ دیو کون تھا؟ کالا پانی: ہندوستان کی جنگ آزادی کی وہ ’قربان گاہ‘ جہاں ہر قیدی موت کی خواہش کرتا تھا1857 کی ’جنگِ آزادی‘: جب دلی نے موت کو رقصاں دیکھاانگریز راج میں دولالی صاحب اور کالے زمیندار کون تھے؟برطانوی وائسرائے کے دلی میں قتل کی ’سازش‘ جس کا سراغ لاہور کے لارنس گارڈن سے ملا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More