محلوں میں رہنے والی ننگے پیر بھٹک رہی تھیں ۔۔ صدام حسین کے بعد عیش و آرام میں رہنے والی بیٹیوں کے ساتھ کیا ہوا؟ دیکھیے

ہماری ویب  |  Nov 26, 2022

عراق کے 5 ویں صدر اور سیاستدان صدام حسین کا شمار اُن چند شخصیات میں ہوتا تھا جو کہ سب کی توجہ حاصل کر لیتے تھے، تاہم ان کی شخصیت نے مسلم دنیا میں بھی سب کی توجہ حاصل کر لی تھی۔

ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو ان کی دونوں بیٹیوں کے بارے میں بتائیں گے۔

صدام حسین نے بطور والد اپنی دونوں بیٹیوں کی پرورش کچھ اس طرح کی تھی کہ کبھی انہیں کوئی تنگی یا پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔

ایک اندازے کے مطابق صدام حسین نے اپنے تقریبا 80 سے 100 محل تعمیر کرائے تھے، جس پر کروڑوں روپے سمیت سونے اور چاندی سے بھی کام کیا گیا تھا۔

رغاد، رانا اور حالا صدام حسین، اپنی تینوں بیٹیوں کی صدام حسین نے کچھ اس طرح پرورش کی تھی کہ عالیشان محل سے باہر جانے کے لیے بھی انہیں ہر چیز میسر ہوتی تھی۔

سولش میڈیا پر موجود اطلاعات کے مطابق صدام حسین کی بیٹیوں کے لیے فرانس سے جوتے آتے تھے، جبکہ میک اپ کا سامان برطانیہ سے منگوایا جاتا تھا۔ دوسری جانب بیٹیاں جس محل میں رہائش اختیار کیے ہوئے تھیں اس کا خرچہ بھی کروڑوں میں تھا۔

تاہم صدام حسین کے بعد ان کی حالت کچھ یوں تھی کہ ان کے پاس جوتے بھی نہ تھے، جبکہ لوگ جو ان پر پھول نچھاور کرتے تھے باتیں کس رہے تھے۔

صدام حسین کی بیٹیوں کے محل ہی اتنے بڑے تھے کہ ان میں آنے والا انسان کھو سا جاتا تھا، جبکہ یہاں موجود عالیشان گاڑیاں بھی سب کی توجہ حاصل کر لیتی تھی۔ صدام حسین اور ان کی بیٹیوں کے کپڑے دھونے کے لیے الگ سے لانڈری ہوا کرت تھی، تاہم اب وقت ایسا آ گیا تھا کہ جیل میں خود صدام حسین اپنے کپڑے دھو رہے تھے، والد کی حالت زار دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بیٹیاں کس حال میں ہوں گی۔

رغاد حسین اور رانا حسین نے اپنی جان بچانے کے لیے جیسے تیسے کر کے اردن میں رہائش حاصل کر لی جبکہ اُس وقت سے اب تک وہ اُردن میں ہی رہ رہی ہیں۔

اگرچہ والد کی گرفتار اور موت کے لمحات جذباتی طور پر تو مشکل تھے ہی تاہم مالی مشکلات کے حوالے سے بھی خوفناک تھے۔ لیکن دونوں بہنوں کو اردن نے سہارا دیا تھا۔ بیٹیوں کے لیے صدام حسین پریشان تو تھے تاہم وہ اس حد تک مجبور اور لاچار کے کچھ ہی نہیں کر سکے، لیکن ان کی بیٹیاں بھی والد ہی کی طرح ہر مشکل کا سامنا کرنے والی ثابت ہو رہی ہیں۔

مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More