گوادر احتجاج، ڈپٹی کمشنر نے صحافی سمیت 15 افراد جیل بھیج دیے

اردو نیوز  |  Jan 02, 2023

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں احتجاج ، جلاؤ گھیراؤ اور انتشار پھیلانے کے الزام میں ڈپٹی کمشنر نے صحافی سمیت 15 افراد کو ایک ماہ کے لیے جیل بھیج دیا ہے۔

حکام کے مطابق ڈپٹی کمشنر گوادر نے مینٹیننس آف پبلک آرڈر(ایم پی او ) کے سیکشن 3 اور 16 کے تحت حاصل اختیار کا استعمال کرتے ہوئے یہ اقدام اٹھایا ہے۔

گوادر میں چھ روز بعد موبائل فون سروس بحال کردی گئی ہے تاہم انٹرنیٹ سروس ابھی تک بند ہے۔

ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ گوادر میں معمولاتِ زندگی مکمل طور پر بحال ہیں۔ بازار، مارکیٹیں اور بینک کھل گئے ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں ہے۔ ان کے بقول انٹرنیٹ سروس بھی ایک دو دن میں بحال کردی جائے گی۔

ڈپٹی کمشنر گوادر عزت نذیر بلوچ نے اردو نیوز سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے متعدد گرفتار افراد کو جیل بھیجے جانے کی تصدیق کی اور بتایا کہ پولیس حکام کی سفارش پر گوادر میں نقضِ امن اور انتشار پھیلانے پر کچھ افراد کے خلاف مینٹیننس آف پبلک آرڈر کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔ تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

گوادر سے پولیس ذرائع اور مقامی صحافیوں نے بتایا ہے کہ مجموعی طور پر 15 افراد کو ایک ماہ کے لیے تربت جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان میں صحافی حاجی عبیداللہ، ’حق دو تحریک‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کے بھائی، دو بھتیجے اور حق دو تحریک کے کارکن بھی شامل ہیں۔

’حق دو تحریک‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کے خلاف پولیس اہلکار کے قتل اور جلاؤ گھیراؤ کے مقدمات درج ہیں تاہم وہ اب تک گرفتار نہیں ہو سکے ہیں۔

مولانا ہدایت الرحمان نے نامعلوم مقام سے سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ گوادر میں ’حق دو تحریک‘  کے کارکنوں کی گرفتاریوں کی وجہ سے تھانے اور سرکاری عمارتوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے۔ اب انہیں تربت منتقل کیا جا رہا ہے۔ ’حق دو تحریک‘ کے سربراہ نے اپنے ایک اور بیان میں گوادر میں دوبارہ احتجاج کا عندیہ بھی دیا ہے۔

مولانا ہدایت الرحمان نے نامعلوم مقام سے سوشل میڈیا پر پیغام جاری کیا ( فوٹو:سکرین گریب)صحافی حاجی عبیداللہ کو دو روز قبل پولیس نے تین بیٹوں سمیت گرفتار کیا تھا اور ان پر پولیس کو مطلوب ’حق دو تحریک‘ کے فعال رہنما ماجد بوہر کو پناہ دینے اور فرار میں مدد دینے کا الزام عائد کیا تھا۔ تینوں بیٹوں کو بعد ازاں رہا کرد یا گیا تھا تاہم صحافیوں کے احتجاج کے باوجود حاجی عبیداللہ کو اب تک رہا نہیں کیا گیا۔

صحافی کا نام پولیس کی جانب سے بھیجا گیا تھا: ڈپٹی کمشنر گوادرگوادر کے صحافی صداقت بلوچ کا کہنا ہے کہ حاجی عبیداللہ پر پولیس کا الزام بے بنیاد ہے، انہیں گوادر میں ’حق دو تحریک‘ کے احتجاج کی کوریج کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔

بلوچستان  یونین آف جرنلسٹس کے صدر عرفان سعید کا کہنا ہے کہ ’گوادر میں احتجاج کرنے پر حکومتی ادارے صحافیوں کو ہراساں کر رہے ہیں۔ آزادی صحافت پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔ حاجی عبیداللہ کی گرفتاری اس کی مثال ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ باعثِ افسوس ہے کہ گرفتار صحافی کو رہا کرنے کی بجائے انہیں تربت جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔

عرفان سعید کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان یونین آف جرنلسٹس نے وزیرداخلہ بلوچستان ضیاء اللہ لانگو، آئی جی پولیس اور دیگر حکومتی حکام سے رابطے کرکے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور صحافی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔‘

ڈپٹی کمشنر گوادر عزت نذیر بلوچ نے صحافی کی گرفتاری کے حوالے سے کہا کہ ان کا نام پولیس کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔ تمام گرفتار ملزمان کے خلاف شواہد موجود ہیں جن کو بنیاد بنا کر امن وامان قائم کرنے کی غرض سے اقدام اٹھایا گیا۔

انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی گوادر میں مظاہروں کے بعد گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ آزادی اظہار رائے اور لوگوں کے پرامن احتجاج کے حق کو سلب نہ کرے۔

بلوچستان بار کونسل کی ایگٹیو کمیٹی کے چیئرمین راحب بلیدی کا کہنا ہے کہ ’تھری ایم پی اور 16 ایم پی او کے تحت کسی کو جیل بھیجنا یا نظر بند کرنا ڈپٹی کمشنر کا اختیار ہے مگر اس کے لیے ٹھوس وجوہات دینا ضروری ہوتی ہیں۔‘

ان کے مطابق ’دفاع کے حق اور فیئر ٹرائل کے بغیر کوئی بھی سزا آئین کی شق آرٹیکل 10 اے کی خلاف ورزی ہے۔‘

’حکومت کی جماعت اسلامی سے بات چیت چل رہی تھی‘مولانا ہدایت الرحمان جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔

بعض اطلاعات کے مطابق بلوچستان حکومت نے جماعت اسلامی کی قیادت سے رابطہ کرکے گوادر کی صورتحال کے حوالے سے تعاون مانگا ہے۔ جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’دھرنے کے دوران حکومت سے بات چیت چل رہی تھی لیکن حکومت نے دھرنے کے شرکاء کے خلاف طاقت کا استعمال کر کے خود اس عمل کو سبوتاژ کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مولانا ہدایت الرحمان مقدمات کا سامنا کرنا چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی مقامی قیادت نے کمشنر مکران اور گوادر پولیس سے رابطہ کر کے مولانا ہدایت الرحمان کے خلاف درج مقدمات کی نقول مانگی ہیں تاکہ عدالت میں ضمانت قبل از گرفتاری  کی درخواست دائر کی جا سکے لیکن اب تک نقول فراہم نہیں کی گئیں۔‘

خیال رہے کہ گوادر میں ’حق دو تحریک‘ کی جانب سے 27 اکتوبر سے مطالبات کے حق میں دھرنا دیا جا رہا تھا۔ دو ماہ سے جاری دھرنے کے شرکاء کے خلاف حکومت نے 25 اور 26 دسمبر کی رات اس وقت اچانک کارروائی کی جب انہوں نے ایکسپریس وے  پر بیٹھ کر پاکستان بحریہ اور چینی باشندوں کی نقل و حرکت کو بھی جام کردیا تھا۔

اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم  بھی ہوئے۔ ڈپٹی کمشنر کے گھر اور ڈی آئی جی کے دفتر پر پتھراؤ کیا گیا۔ فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار کی موت ہوئی۔

پانچ دنوں تک جاری رہنے والی کشیدہ صورتحال کے باعث گوادر اور اس سے ملحقہ شہروں پسنی، اورماڑہ، جیونی اور سربندر میں دکانیں اور مارکیٹیں بند رہیں۔ حکومت نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے موبائل فون نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس بھی بند کردی تھی۔

’حق دو تحریک کے مطالبات کیا ہیں؟’حق دو تحریک‘ حکومت سے بلوچستان کے سمندر میں بڑی کشتیوں اور ممنوعہ جالوں کے ذریعے غیرقانونی ماہی گیری کو روکنے، لاپتا افراد کی بازیابی، گوادر اور مکران کے دوسرے اضلاع سے ملحقہ ایرانی سرحد پرتجارت آسان بنانے، کوسٹ گارڈ اور ایف سی سے کسٹم اختیارات واپس لینے، گوادر میں سکولوں، ہسپتالوں اور آبادیوں میں قائم سکیورٹی چیک پوسٹوں کو ختم کرنے جیسے مطالبات کر رہی ہے۔

مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت میں اس تحریک کی احتجاجی ریلیوں میں بڑی تعداد میں خواتین نے بھی شرکت کی ہے۔

بلوچستان حکومت کا الزام ہے کہ ’حق دو تحریک‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان حکومت کی جانب سے مطالبات پر عملدرآمد میں پیش رفت کے باوجود مسائل حل کرنے کی بجائے احتجاج کو طول دینا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ انتخابات کے لیے سیاسی شہرت اور فوائد حاصل کیے جائیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More