’پہاڑ پر چڑھ کر جانیں بچائیں‘، بلوچستان میں معمول سے زیادہ بارشوں سے ہر طرف تباہی

اردو نیوز  |  Apr 16, 2024

’مسلسل کئی گھنٹے موسلادھار بارش کے بعد گھٹنوں تک پانی جمع ہوگیا۔ پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ اس دوران سیلابی ریلوں نے بھی گاؤں کا رُخ کیا تو گاؤں کے سینکڑوں افراد بچوں اور خواتین کو لے کر قریبی پہاڑی ٹیلوں کی طرف دوڑے اور پوری رات کُھلے آسمان تلے بارش اور سردی میں گزاری۔‘یہ کہنا ہے افغانستان کی سرحد سے متصل بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے لشکرآب کے رہائشی گہرام خان کاشانی کا جن کے گاؤں کا حالیہ بارشوں اور اُس کے بعد آنے والے ریلوں نے نقشہ ہی تبدیل کردیا ہے۔

حکام کے مطابق ’چاغی کے علاقے دالبندین اور تحصیل چاغی میں کم سے کم 300 مکانات کو نقصان پہنچا ہے جبکہ سینکڑوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔‘قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پرووِنشل ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق گذشتہ ایک ہفتے کے دوران بارشوں سے چاغی، کوئٹہ، گوادر، کیچ اور پشین سمیت بلوچستان کے سات اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔بارشوں کے دوران آسمانی بجلی گرنے اور مکانات منہدم ہونے سے 9 افراد ہلاک جبکہ آٹھ زخمی ہوچکے ہیں جبکہ سیلابی ریلوں میں پھنسے ہوئے درجنوں افراد کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق ’کوئٹہ، دالبندین، چاغی، تُربت اور پسنی سمیت صوبے کے کئی علاقوں میں رواں ماہ معمول سے کئی گنا زیادہ بارشیں ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں سیلابی صورت حال پیدا ہوئی۔‘افغان سرحد سے متصل چاغی کے علاقے لشکرآب کا گل محمد نامی گاؤں دو ندیوں کے درمیان واقع ہے۔ ان میں سے ایک ندی اوور فلو ہوئی تو سیلابی ریلے نے آبادی کا رُخ کرلیا اور گاؤں کے سینکڑوں کچے مکانات کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔کلی گل محمد کے رہائشی سماجی کارکن گہرام خان کاشانی نے ٹیلی فون پر اُردو نیوز کو بتایا کہ ’اتنی موسلادھار بارش لوگوں نے گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران نہیں دیکھی تھی۔‘’دوپہر ایک بجے بارش شروع ہوئی جو رات گئے تک جاری رہی۔ نکاسی آب کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے مسلسل بارش کے بعد گھروں اور گلیوں میں پانی جمع ہونا شروع ہوگیا۔‘ان کے مطابق ’اس کے بعد رات 9 بجے قریبی پہاڑیوں سے آنے والے سیلابی ریلے ندی سے اوور فلور ہوکر آبادی کی طرف آنا شروع ہوئے تو لوگ ڈر گئے۔‘گہرام خان کاشانی نے بتایا کہ ’پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا، پانی کی سطح تیزی سے بلند ہو رہی تھی، گاؤں میں سارے مکانات کچے اور مٹی کے بنے ہوئے ہیں اس لیے پناہ لینے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔‘’لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ کر صرف اپنے بال بچوں کو لے کر قریب واقع پہاڑی ٹیلوں پر چڑھ گئے۔ کئی لوگ ریلوں میں پھنسے جنہیں نوجوانوں نے نکال کر پہاڑ تک پہنچایا۔ اگر پہاڑی ٹیلے قریب نہ ہوتے تو بہت سے لوگوں کی جانیں چلی جاتیں۔‘گہرام خان کے مطابق ’کسی کے پاس سر چُھپانے کی جگہ نہیں تھی ،سب نے پُوری رات کُھلے آسمان تلے بارش میں گزاری، سرد ہوائیں بھی چل رہی تھیں جس سے کئی بچے اور بزرگ سردی لگنے سے بیمار پڑ گئے۔‘’ہم دُور سے اپنے مکانات گرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔گاؤں کا شاید ہی کوئی مکان صحیح سلامت بچا ہو۔ گاؤں کے افراد نے حفاظتی بند کو توڑ کر پانی کا رُخ دوسری ندی کی طرف کردیا جس کے بعد پانی نکلنا شروع ہوگیا۔‘چاغی اور دالبندین کے درجنوں دیگر دیہاتوں اور کچی آبادیوں میں بھی بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں۔ کلی سردار احمد خان سنجرانی کے رہائشی مولوی ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ’ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی اس علاقے میں اتنی بارش نہیں دیکھی۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’کچھ افراد نے مسجدوں میں پناہ لی تو کسی نے پہاڑوں پر جا کر جان بچائی۔‘ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’حکومت بے گھر ہونے والوں کی فوری مدد کرے اور انہیں سر چُھپانے کی جگہ فراہم کرے۔‘چاغی کے ڈپٹی کمشنر اقبال احمد کھوسہ کے مطابق ’ضلعے میں بارش کے بعد ہونے والی تباہی کا تخمینہ لگانے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ اب تک کم سے کم 300 مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔‘انہوں نے بتایا کہ ’نقصانات کا درست تعین سروے مکمل ہونے کے بعد ہی ہوسکے گا۔ پی ڈی ایم اے کی مدد سے سو دو سو خاندانوں کو امدادی سامان فراہم کردیا گیا ہے۔‘پسنی میں گھروں سے پانی نکالنے میں دو سے تین دن لگ سکتے ہیںاُدھر بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر کی تحصیل پسنی میں بھی بارشوں کے بعد صورت حال خراب ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق ’پسنی میں 14 اپریل کو 90 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔‘پسنی کے مقامی صحافی ساجد نور نے بتایا کہ ’مسلسل چار سے پانچ گھنٹے موسلادھار بارش کے بعد ہر طرف پانی ہی پانی جمع ہوگیا ہے۔شہر میں نکاسی آب کا نظام موجود نہیں جس کی وجہ سے دکانوں اور گھروں میں پانی داخل ہوگیا ہے۔بعض علاقوں میں گھٹنوں تک پانی موجود ہے۔‘انہوں نے بتایا کہ ’وارڈ نمبر، چار، پانچ اور چھ میں آٹھ مکانات گرے ہیں۔ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول باغ بازار کی چار دیواری گر گئی۔ وارڈ نمبر پانچ کے ماہی گیر محلے میں مکان گرنے سے چار بچوں سمیت چھ افراد زخمی ہوگئے ہیں۔‘کمشنر مکران ڈویژن سعید عمرانی نے تصدیق کی کہ پسنی میں صورت حال اچھی نہیں ہے، گھروں اور گلی محلوں سے پانی نکالنے کے لیے ڈی واٹرنگ پمپس کی مدد لی جا رہی ہے۔ پانی نکالنے میں دو سے تین دن لگ سکتے ہیں۔پسنی کے رہائشی اللہ بخش نے بتایا کہ ’ڈی واٹرنگ پمپس زیادہ مددگار ثابت نہیں ہو رہے کیونکہ پائپس چھوٹے پڑ رہے ہیں، گھروں سے پانی نکال کر گلی میں پھینکنا کوئی حل نہیں۔‘چیئرمین میونسپل کمیٹی پسنی میر نور احمد کلمتی کے مطابق ’میونسپل کمیٹی کے پاس صرف پانچ واٹر پمپنگ جنریٹرز اور ایک واٹر بوزر ہے جو پہلے روز سے کام کر رہا ہے اور ہم نے ڈپٹی کمشنر گوادر سے مطالبہ کیا ہے کہ ہمیں مزید مشینری فراہم کی جائے۔‘گوادر سے متصل ضلع کیچ میں بھی بارشوں سے نقصانات ہوئے ہیں۔ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بارشوں کے نتیجے میں بلیدہ، زامران، مند، بلنگور میں سرکاری عمارتوں، کچے مکانات اور چار دیواریوں کو نقصان پہنچا ہے۔‘’نہینگ ندی میں پھنسے 10 افراد کو ریسکیو کرلیا گیا ہے۔ بلیدہ، مند، تمپ اور دشت میں سینکڑوں سولر پینلز کو نقصان پہنچا ہے جبکہ گندم کی فصل بھی متاثر ہوئی ہے۔‘مستونگ میں بارش کے بعد سنگر بائی پاس روڈ سیلابی ریلے میں بہہ گیا جس کے بعد شاہراہ کو ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا۔ موٹروے پولیس نے شہریوں کو متبادل راستہ اپنانے کی ہدایت کی ہے۔لیویز کے مطابق ’ہرنائی کو کوئٹہ، پنجاب اور سنجاوی سے ملانے والی شاہراہ تین دنوں سے بند ہے۔ہرنائی کے علاقے سپین تنگی میں ریلوے ٹریک کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے ہرنائی سبی ریلوے ٹرین سروس معطل کردی گئی۔‘ادھر کوئٹہ میں بھی موسلادھارش بارشوں کے بعد اربن فلڈنگ کی صورت حال پیدا ہوگئی۔ سڑکوں پر کئی فٹ پانی جمع ہوگیا۔ سرکی روڈ، سریاب روڈ، گاہی خان چوک ہنہ اوڑک، چشمہ اچوزئی ،نواں کلی، خروٹ آباد اور مشرقی بائی پاس میں پانی گھروں اور دکانوں میں داخل ہوگیا۔ہنہ اوڑک، نواں کلی اور چشمہ اچوزئی اگست 2022 کے سیلاب سے تباہ ہونے والی سڑکوں اور پلوں کی اب تک دوبارہ تعمیر نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے ان علاقوں کا شہر سے رابطہ منقطع رہا۔ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند نے بتایا کہ ’کوئٹہ میں ضلعی انتظامیہ، میٹرو پولیٹن کارپوریشن اور پی ڈی ایم اے نے مل کر پانی نکالنے کا کام کیا شہر میں اب صورت حال بہتر ہوگئی ہے۔‘ترجمان کے مطابق ’بلوچستان میں بارشوں سے مجموعی طور پر سات اضلاع متاثر ہوئے ہیں جن میں کوئٹہ، پشین، گوادر اور کیچ شامل ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں سوراب، ڈیرہ بگٹی اور پشین میں پانچ افراد جبکہ کیچ اور لورالائی میں چھتیں گرنے سے دو افراد کی موت ہوئی ہے۔‘پی ڈی ایم اے کے کنٹرول روم کے انچارج یونس عزیز کے مطابق ’چمن اور قلعہ سیف اللہ میں مزید دو افراد آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں ہلاک ہوئے ہیں جس کے بعد اموات کی تعداد 9 تک پہنچ گئی ہے۔‘’گوادر اور لسبیلہ میں سیلابی ریلوں کی وجہ سے مکران کوسٹل ہائی وے اور پشین میں دیہی علاقوں کی متاثر ہونے والی سڑکیں ٹریفک کے لیے بحال کردی گئی ہیں۔‘انہوں نے بتایا کہ ’کوئٹہ، پشین، کیچ اور چمن سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں درجنوں افراد کو ریسکیو کیا گیا ہے۔‘ترجمان حکومت بلوچستان کے مطابق ’صوبائی حکومت نے بارشوں سے متاثرہ اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کی ہے اور تمام افسران اور عملے کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں۔ متاثرہ اضلاع میں دو دن کے لیے سرکاری و نجی سکول بھی بند رکھے گئے ہیں۔‘کوئٹہ میں اربن فلڈنگ کی وجوہات معلوم کرنے کا فیصلہترجمان حکومت بلوچستان نے بتایا کہ ’وزیراعلٰی بلوچستان سرفراز بگٹی نے کوئٹہ میں بڑے پیمانے پر ہونے والی اربن فلڈنگ اور عوام کو پہنچے والے نقصانات کی تحقیقات سے متعلق وزیراعلٰی معائنہ ٹیم کے رکن کی سربراہی میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کردی ہے۔‘شاہد رند نے بتایا کہ ’کمیٹی اربن فلڈنگ کی وجوہات کے بارے میں تحقیقات کر کے حقائق معلوم کرے گی اور  خامیوں کی نشاندہی کرے گی جن کے باعث کوئٹہ شہر میں اربن فلڈنگ ہوئی۔‘’کمیٹی کوئٹہ شہر میں سڑکوں اور سیوریج سے متعلق ایسے تمام ترقیاتی منصوبوں کا معائنہ کرے گی جو گذشتہ تین برسوں کے دوران مکمل کیے گئے ہیں اور ڈیزائن میں خرابی کی وجہ سے مدت تکمیل سے پہلے ہی ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں یا بُری طرح خراب ہو گئے ہیں۔‘ ترجمان بلوچستان حکومت نے مزید بتایا کہ ’کمیٹی مستقبل میں کوئٹہ شہر میں اربن فلڈنگ کو روکنے کے لیے اقدامات بھی تجویز کرے گی۔‘کمشنر کوئٹہ ڈویژن حمزہ شفقات کا کہنا ہے کہ ’شہر میں برساتی نالوں پر تجاوزات کی وجہ سے پانی اوور فلو ہو کر سڑکوں اور گھروں میں داخل ہوجاتا ہے۔‘ان کے مطابق ’شہر کے 82 برساتی نالوں کی چوڑائی 40 فٹ کے بجائے صرف 20 فٹ رہ گئی ہے۔ تجاوزات کے خلاف کارروائی ہی اربن فلڈنگ سے بچنے کا واحد حل ہے۔‘معمول سے زیادہ بارشیں موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہمحکمہ موسمیات کوئٹہ مرکز کے ڈپٹی ڈائریکٹر مختار احمد مگسی کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں حالیہ بارشیں معمول سے کئی گنا زیادہ ہیں۔‘’اپریل میں کوئٹہ میں بارشوں کا اوسط 15 ملی میٹر رہتا تھا، تاہم صرف 12 سے 14 اپریل کے دوران 71 یہاں ملی میٹر بارش ہوئی جو معمول سے تین سے چار گناہ زیادہ ہے۔‘اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ان بارشوں سے زیرِزمین پانی کی سطح کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ زیادہ تر پانی سیلابی ریلوں کی صورت میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔‘مختار احمد مگسی کے مطابق ’پہلے ان مہینوں میں آہستہ آہستہ بارشیں ہوتی تھیں جو زیرِزمین پانی کو ری چارج کرتی تھیں، اب مہینہ بھر کی اوسط بارش سے زیادہ ایک دن میں ہوجاتی ہے۔ اس طرح نہ صرف سیلابی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے بلکہ فصلوں اور انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات ہیں۔‘مزید بارشوں کی پیش گوئیمحکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ ’16 اپریل کی رات سے بارشیں برسانے والا مغربی ہواؤں کا ایک اور طاقتور سلسلہ بلوچستان کے مغربی علاقوں گوادر اور کیچ میں داخل ہورہا ہے جو 17 اپریل کو بلوچستان بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لگا اور 18 اپریل تک ملک کے باقی تینوں صوبوں اور پھر گلگت اور کشمیر تک پھیل جائے گا۔‘محکمہ موسمیات نے خبردار کیا کہ ’16 سے 19 اپریل کے دوران بلوچستان کے ضلع نوشکی، خاران، چاغی، مستونگ، قلات، خضدار، آواران، کیچ، گوادر، بارکھان، کوہلو، ڈیرہ بگٹی، سبی، ہرنائی، جھل مگسی، نصیرآباد، قلعہ سیف اللہ، شیرانی، موسیٰ خیل اور زیارت میں گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارشیں متوقع ہیں جس کے نتیجے میں بعض علاقوں میں سیلابی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔‘پی ڈی ایم اے نے تمام کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو الرٹ رہنے کی ہدایات جاری کی ہیں جبکہ شہریوں کو غیر ضروری سفر کرنے سے گریز، سیلابی ریلوں اور آسمانی بجلی سے محفوظ رہنے کے لیے حفاظتی تدابیر پر عمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔محکمہ ماہی گیری نے گوادر کے ماہی گیروں کو 17 اور 18 اپریل کو گہرے سمندر  میں جانے سے گریز کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More