اسلام آباد سے موصول ہونے والے ایک سوال میں بتایا گیا ہے کہ دو سگی بہنوں کے بچے، یعنی خالہ زاد بہن بھائی، آپس میں قریبی رابطے میں تھے۔ لڑکی نے اپنے والدین کو اطلاع دیے بغیر لڑکے کے گھر جا کر اس کے ساتھ نکاح کر لیا۔ نکاح میں لڑکے کے والدین شامل تھے لیکن لڑکی کے والدین لاعلم رہے، جس پر وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور اس نکاح کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔
اسلامی نقطہ نظر سے اگر نکاح شرعی تقاضوں کے مطابق ہو تو وہ معتبر اور جائز سمجھا جاتا ہے۔ نکاح کے لیے بنیادی شرائط میں شامل ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں ایجاب و قبول کریں اور نکاح کی مجلس میں دو مسلمان، عاقل، بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی موجود ہو۔ اس شرط کی وضاحت "ہدایہ" (جلد 3، صفحہ 3) اور "فتح القدیر مع ہدایہ" (جلد 3، صفحہ 190) میں کی گئی ہے۔ ان حوالوں کے مطابق، جب تک یہ گواہ موجود نہ ہوں، نکاح شرعاً معتبر نہیں ہوتا۔
اس معاملے میں لڑکے کے والدین نکاح کے وقت موجود تھے، اور اگر دیگر شرائط جیسے ایجاب و قبول اور گواہوں کی موجودگی پوری ہوئی ہے، تو یہ نکاح شرعی طور پر درست ہے۔ صرف اتنا ہے کہ لڑکی نے اپنے والدین کو لاعلم رکھا، اس لیے اسے ’خفیہ‘ نکاح نہیں بلکہ والدین سے ’چھپا ہوا‘ نکاح کہا جا سکتا ہے۔
والدین کی رضامندی ضرور مستحسن ہے اور اولاد کے لیے سعادت کا باعث ہوتی ہے، لیکن فقہ حنفی کے مطابق اگر کوئی عاقلہ بالغہ لڑکی اپنے ہم پلہ (کفو) لڑکے سے نکاح کرے تو وہ نکاح والدین کی رضامندی کے بغیر بھی منعقد ہو جاتا ہے۔ کفو سے مراد وہ ہم مرتبہ خاندان ہے جو حسب، نسب، دین داری اور معاشرتی معیار میں برابر ہو۔ چونکہ یہ لڑکا اور لڑکی خالہ زاد ہیں، اس لیے بادی النظر میں یہ نکاح کفو میں ہی شمار ہوتا ہے۔
"البحر الرائق" (جلد 3، صفحہ 118)، "تبیین الحقائق" (جلد 2، صفحہ 117) اور "فتاویٰ عالمگیری" (جلد 1، صفحہ 293) میں یہی بات واضح کی گئی ہے کہ اگر نکاح غیر کفو میں ہو اور اولیاء (سرپرست) اس پر راضی نہ ہوں، تو نکاح منسوخ کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر کفو میں ہو تو نکاح نافذ ہو جاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر نکاح شرعی اصولوں کے مطابق ہوا ہے تو وہ درست ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ ایسی حساس معاملات میں والدین کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ گھریلو تعلقات خراب نہ ہوں۔ اب بھی یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ دونوں خاندان بیٹھ کر صلح کی راہ نکالیں اور اس رشتے کو بگاڑ کے بجائے سنوارنے کی کوشش کریں۔
واللہ اعلم بالصواب۔