پہلگام حملہ: کیا انڈین حکومت کو اپنی سکیورٹی حکمت عملی تبدیل کرنا ہو گی؟

بی بی سی اردو  |  Apr 25, 2025

Getty Images

منگل کو جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر سیاح تھے۔

اگر ہم مرنے والوں کی فہرست دیکھیں تو اس میں کشمیر سے لے کر کیرالہ اور گجرات سے لے کر آسام تک کے لوگ شامل ہیں۔ اس حملے کے بعد سکیورٹی کے حوالے سے کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

اخبار ’دی انڈین ایکسپریس‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق وہاں موجود ایک شخص نے بتایا کہ حملہ تقریباً 20 منٹ تک جاری رہا۔ ’جب تک سکیورٹی فورسز وہاں پہنچیں حملہ آور وہاں سے فرار ہو چکے تھے۔‘

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق پونے کی رہنے والی اساواری نے بتایا کہ جب حملہ ہوا تو وہ اپنے والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ تھیں۔ اس حملے میں ان کے والد اور ایک رشتہ دار مارے گئے۔

اساواری نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ ’وہاں ہماری مدد کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ حملے کے بعد، ہمیں وہاں سے نکلنے میں ان ہی خچروں کے مالکان نے مدد کی جو ہمیں وہاں لائے تھے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ حملے کے بیس منٹ بعد سکیورٹی فورسز موقع پر پہنچیں۔

Getty Images’لاکھوں اہلکار تعینات کر کے بھی کچھ کوتاہیاں ہوں گی‘

لیفٹیننٹ جنرل کے جے ایس ڈھلون (ریٹائرڈ) سرینگر میں قائم انڈین فوج کی 15ویں کور کے کمانڈر رہ چکے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی میں یہ کہوں گا کہ ہاں، کشمیر میں سکیورٹی گرڈ متحرک انداز میں کام کرتا ہے، اس کا باقاعدگی سے جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔ میں نے میڈیا رپورٹس میں دیکھا کہ وادی بیسران میں سکیورٹی فورسز موجود نہیں تھیں۔ ایک ایسے علاقے میں جہاں سیاحوں کی اتنی زیادہ نقل و حرکت ہے، وہاں سکیورٹی فورسز کی موجودگی ہونی چاہیے تھی۔‘

یشوردھن آزاد ایک ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر ہیں۔ وہ انٹیلیجنس بیورو میں خصوصی ڈائریکٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں اور جموں و کشمیر سے واقف ہیں۔

بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ اس پیمانے پر اس طرح کے حملے ہوں گے، خاص طور پر سیاحوں پر۔ حملے کے لیے پہلگام کا انتخاب بھی ایک سٹریٹیجک فیصلہ تھا۔ یہ علاقہ پرامن رہا ہے۔ وہاں کے لوگ سیاحت سے اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ وہ کبھی بھی ایسی سرگرمیوں کی حمایت نہیں کریں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں جو معلومات مل رہی ہیں، ان کے مطابق ان حملہ آوروں کے بارے میں انٹیلیجنس معلومات موجود تھیں۔ پھر بھی یہ اپنا کام انجام دینے میں کامیاب رہے، یہ ایک ایسا پہلو ہے جس کا صحیح تجزیہ کرنے اور اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ان حملہ آوروں کو کسی قسم کی مقامی حمایت حاصل تھی؟ تو کیا یہ انٹیلیجنس یا انٹیلیجنس نظام کی ناکامی تھی؟ آپ ایسا کہہ سکتے ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ ایک جگہ پر لاکھوں سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جا سکتے ہیں لیکن کچھ کوتاہیاں پھر بھی سامنے آئیں گی۔‘

Getty Images’جموں و کشمیر میں حکمت عملی پر نظرثانی کی ضرورت‘

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 میں 34 لاکھ سے زائد سیاحوں نے جموں و کشمیر کا سفر کیا جبکہ سال 2023 کے آخر تک یہ تعداد دو کروڑ گیارہ لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ جون 2024 میں سیاحوں کی یہ تعداد ایک کروڑ آٹھ لاکھ سے تجاوز کر گئی۔

جموں و کشمیر کی جی ڈی پی میں سیاحت کا حصہ 2019-20 میں 7.84 فیصد تھا جو 2022-23 میں بڑھ کر 8.47 فیصد ہو گیا۔ 2021 سے جموں و کشمیر میں سیاحت کے شعبے کی اوسط سالانہ شرح نمو 15.13 فیصد رہی۔

اس کے بعد پچھلے سال ہوئے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں لوگوں نے جوش و خروش سے حصہ لیا۔

حکومت کے بیانات میں جموں و کشمیر کے تناظر میں ’زیرو ٹیرر‘ (صفر دہشتگردی) جیسے الفاظ بھی سامنے آنے لگے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ’جموں و کشمیر سے دہشت گردی کا ایکو سسٹم تقریباً ختم ہو چکا ہے۔‘

ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق 2012 میں جموں و کشمیر میں انتہا پسندانہ تشدد میں 19 شہری مارے گئے۔ اسی سال 18 سکیورٹی اہلکار اور 84 عسکریت پسند مارے گئے۔

بعد ازاں تشدد پھر بھڑک اٹھا، جیسا کہ 2018 میں، جس میں 86 شہری، 95 سکیورٹیاہلکار اور 271 عسکریت پسند مارے گئے۔

اس کے مقابلے میں سال 2023 میں 12 شہری ہلاک ہوئے، یہی نہیں بلکہ 33 سکیورٹی اہلکار اور 87 عسکریت پسند مارے گئے۔

گذشتہ سال 2024 میں 31 شہری، 26 سکیورٹی اہلکار اور 69 عسکریت پسند مارے گئے۔

اس کا مطلب ہے کہ تشدد کی شرح پوری طرح کم نہیں ہوئی تھی۔ تو کیا انتظامیہ کو بڑے اعلانات کرنے سے پہلے حالات کو مزید کنٹرول کرنے کی ضرورت تھی؟

ایک ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ حکومت کو جموں و کشمیر میں اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے انڈین ایئرلائنز کو کتنا نقصان ہو گا؟پہلگام حملہ: انڈین میڈیا میں کشمیری عسکریت پسند گروپ ’دا ریزسٹنس فرنٹ‘ کا نام اور شکوک و شبہاتشملہ اور جوہری و عسکری نوعیت کے سمجھوتے: پاکستان اور انڈیا کے درمیان اہم معاہدے کون سے ہیں اور اُن کی معطلی کا کیا مطلب ہو گا؟پاک انڈیا ’ورکنگ دشمنی‘ پر کسی کو اعتراض نہیں’سیاحوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت‘

فوج میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (DGMO) کے طور پر خدمات انجام دینے والے ایک سابق جنرل نے (نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر) ہم سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ پہلگام حملے کے بعد حکومت کو سیاحت کے حوالے سے کچھ ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ ’سیاح ہمیشہ سے ہی ایک سافٹ ٹارگٹ رہے ہیں۔ چونکہ ان پر ایسے حملے نہیں ہوئے، اس لیے یہ خیال کیا گیا کہ مستقبل میں ایسے حملے نہیں ہوں گے۔ ہم ہر سال امرناتھ یاترا کا اہتمام کرتے ہیں، ہم اس علاقے میں اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس لیے میرا ماننا ہے کہ حکومت کو سیاحت کے بارے میں بھی اسی طرح سوچنے کی ضرورت ہے۔ سیاحت کی اجازت دیں لیکن کنٹرولڈ انداز میں۔‘

جنرل ڈھلون بتاتے ہیں کہ ’خاص طور پر سیاحوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے، سکیورٹیفورسز کے لیے کسی کو تکلیف پہنچائے بغیر ہر ایک پر نظر رکھنا واقعی مشکل ہے۔ انڈین اور غیر ملکی سیاحوں کے علاوہ، ایسی جگہوں پر مقامی لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ جیسے کہ ٹورسٹ گائیڈ، عارضی ڈھابہ اور ریسٹورنٹ کا عملہ، ٹیکسی ڈرائیور وغیرہ۔‘

انسٹیٹیوٹ فار کنفلکٹ منیجمنٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر اجے ساہنی نے کہا کہ ’اگرچہ یہ عارضی ہے، اس طرح کے اقدامات کرنے ہوں گے۔ ورنہ سیاحوں میں خوف، جو جائز ہے، جموں و کشمیر میں سیاحت کو برباد کر سکتا ہے۔‘

سال 2019 میں آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کے بعد انڈین حکومت نے جموں و کشمیر میں سیاحت اور مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ ان معاملات میں حکومت کا موقف بدلتا ہے یا نہیں۔

Getty Images’یہ حملہ انڈیا کو براہ راست نقصان پہنچانے کے لیے کیا گیا‘

انڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بدھ کو اپنے بیان میں واضح کیا کہ اس حملے کے پیچھے جو لوگ ہیں ان کے خلاف جلد ہی جوابی کارروائی کی جائے گی تاہم یہ واضح نہیں کہ کارروائی کس شکل میں اور کب کی جائے گی۔

یشوردھن آزاد کہتے ہیں کہ ’اب بڑی تعداد میں انڈین اور بین الاقوامی سیاح جموں و کشمیر آرہے ہیں۔ انڈیا پر اس قسم کا حملہ بین الاقوامی سطح پر انڈیا کو براہ راست نقصان پہنچانے کے مقصد سے کیا گیا۔‘

ان کے بقول ’انڈیا کو اس موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ ہم مجرموں کو زندہ پکڑ سکتے ہیں۔ ان کے کردار اور پاکستان کے مبینہ کردار کو دستاویزی شکل دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد انڈیا جو بھی مناسب سمجھے کارروائی کرے۔‘

یشوردھن آزاد کہتے ہیں کہ ’میں نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کی حمایت کی۔ ساتھ ہی، میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ انڈیا اس بات کا جائزہ لے کہ آیا پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی جاری رکھنا مناسب ہے یا نہیں۔‘

پاک انڈیا ’ورکنگ دشمنی‘ پر کسی کو اعتراض نہیںشملہ اور جوہری و عسکری نوعیت کے سمجھوتے: پاکستان اور انڈیا کے درمیان اہم معاہدے کون سے ہیں اور اُن کی معطلی کا کیا مطلب ہو گا؟سرجیکل سٹرائیک، میزائل حملہ یا کچھ اور: پہلگام حملے کے بعد کیا انڈیا پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کر سکتا ہے؟پہلگام حملہ: انڈین میڈیا میں کشمیری عسکریت پسند گروپ ’دا ریزسٹنس فرنٹ‘ کا نام اور شکوک و شبہات’یہ ہمارا سات اکتوبر ہے‘: پہلگام حملے کے بعد انڈین میڈیا میں ’جنگ کے نعرے‘، پاکستان میں فالس فلیگ آپریشن کی گونجپاکستانی فضائی حدود کی بندش سے انڈین ایئرلائنز کو کتنا نقصان ہو گا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More