حکومت پاکستان نے انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طور پر ختم کرنے کے بعد جوابی ردعمل میں انڈیا سے تجارت کو مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔حکومت نے جمعرات کو یہ بھی اعلان کیا کہ دبئی اور دیگر ممالک کے ذریعے پاکستان لائی جانے والے انڈین مصنوعات پر بھی مکمل پابندی ہو گی۔خیال رہے کہ سنہ 2019 میں ہونے والی پاک انڈیا کشیدگی کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست تجارت نہ ہونے کے برابر ہے، البتہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے فارمولے کے تحت بذریعہ پاکستان، افغانستان اور انڈیا کے درمیان تجارت جاری تھی جس کو اب بند کر دیا گیا ہے۔
حکومت پاکستان کے تازہ اعلانات کے بعد اب دبئی روٹ کے ذریعے انڈین مصنوعات پاکستان میں لانے پر بھی مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔
کون کون سی مصنوعات انڈیا سے آتی ہیں؟
پاکستان میں مختلف طرح کے تاجروں سے بات کرنے کے بعد اردو نیوز نے ایک فہرست مرتب کی ہے جو ان مصنوعات سے متعلق ہے جو انڈیا سے پاکستان براہ راست یا بالواسطہ درآمد کی جاتی ہیں۔اس فہرست میں پہلے نمبر پر ادویات کا خام مال ہے۔ جو پاکستان کی فارماسوٹیکل کمپنیاں بڑی تعداد میں انڈیا سے درآمد کرتی ہیں۔ایک کمپنی کے مالک ڈاکٹر ظفر نے بتایا کہ ’ہمیں ادویات بنانے کے لیے جتنا بھی خام مال چاہیے ہوتا ہے اس میں 30 سے 40 فیصد ہم انڈیا سے درآمد کرتے ہیں۔ یہ تقریباً پوری پروڈکشن کا آدھا بن ہی جاتا ہے۔ اب پابندی لگنے کے بعد ایک دفعہ تو سپلائی چین متاثر ہو گی دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ ’پہلے ہم انڈین کمپنیوں سے براہ راست مال خریدتے رہے ہیں لیکن چونکہ ڈائریکٹ فلائٹ نہیں ہے اس لیے کبھی دبئی تو کبھی قطر کے ذریعے مال پہنچ جاتا تھا۔ اگر ہم متبادل کی بات کریں تو چین ایک متبادل ہے لیکن کچھ خام مال ایسا ہے جو صرف انڈیا میں ہی بنتا ہے۔‘دوسرے نمبر پر جو مصنوعات انڈیا سے پاکستان میں تیسرے ملک کے ذریعے منگوائی جاتی ہیں ان میں کاسمیٹیکس اور بیوٹی پراڈکٹس شامل ہیں۔ تیسرے نمبر پر کپڑے اور ٹیکسٹائل مصنوعات ہیں جبکہ چوتھے نمبر پر مصالحہ جات اور کھانے پینے سے متعلق اشیا شامل ہیں۔پاکستان کی سب سے بڑی مصالحہ جات کی خرید و فروخت کی منڈی، اکبری منڈی کے تاجروں کا بڑا انحصار انڈین مصالحہ جات پر ہوتا ہے جو دبئی کے ذریعے پاکستان میں درآمد کیے جاتے ہیں۔اکبری منڈی کے تاجر شیخ یونس نے بتایا کہ ’ہلدی، لال مرچ، خشک دھنیا، زیرہ گرم مصالحہ اورچاٹ مصالحے وغیرہ انڈیا سے آتے ہیں۔ کچھ تیار شدہ مصالحے بھی آتے ہیں۔ عام طور پر یہ سب دبئی کی ہول سیل مارکیٹ سے اٹھایا جاتا ہے۔ کچھ براہ راست بھی آرڈر ہوتے ہیں اور تاجر میڈ ان انڈیا کا سٹکر ہٹانے کے لیے ری پیکج بھی کرتے ہیں۔ کچھ ایسی آئٹمز ہیں جو ری ایکسپورٹ کرنی پڑتی ہیں اور کچھ سیدھی آ جاتی ہیں۔‘مصنوعی زیورات کی درآمد بھی انڈیا سے کی جاتی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)اس فہرست میں مزید آگے مصنوعی زیورات کی درآمد ہے جو انڈیا سے کی جاتی ہے۔ الیکٹرانکس کے پرزے اور آیورویدک مصنوعات بھی اسی لسٹ میں شامل ہیں جو انڈیا سے تھرڈ پارٹی کے ذریعے پاکستان میں آتی ہیں۔پابندی سے فرق کیا پڑے گا؟تاجروں کا کہنا ہے کہ سب سے پہلا فرق تو سپلائی چین پر پڑے گا۔ ڈاکٹر ظفر کہتے ہیں کہ ’ابھی تو ہمیں بالکل واضح نہیں ہو رہا ہے۔ ابھی کچھ آرڈرز کیے ہوئے ہیں۔ اگر وہ روک لیے جاتے ہیں تو پھر نئے سرے سے ایک سپلائی چین بنانی پڑے گی جس میں وقت لگے گا۔ تو اس سے کچھ حد تک مارکیٹ کو قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن اس کا حجم کوئی زیادہ نہیں ہو گا۔ تاہم نئی سپلائی چین بنانے میں لاگت زیادہ آئی تو قیمت پر 10 سے 15 فیصد فرق پڑ سکتا ہے۔ لیکن صورت حال آگے جا کر واضح ہو گی۔‘اکبری منڈی کے تاجروں کا کہنا ہے کہ 80 فیصد مصالحہ جات ایسے ہیں جو انڈیا سے ہٹ کر بھی بین الاقوامی مارکیٹ میں دستیاب ہیں لیکن سپلائی چین کی بحالی اور نئی لاگت کے تعین کے بعد نئی قیمتوں میں کچھ اضافہ ہو سکتا ہے۔شیخ یونس کا کہنا تھا کہ ’سری لنکا سے دار چینی، لونگ اور کالی مرچ لی جا سکتی ہے۔ اسی طرح سے ویتنام سے زیرہ اور مرچ منگوائی جا سکتی ہے۔ جائفل اور لونگ انڈونیشیا سے بھی آ سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مقامی سطح پر بھی چیزیں اگا لی جائیں تو اثرات کم ہو سکتے ہیں۔ لیکن وقتی طور پر قیمتوں میں 20 سے 30 روپے تک کا فرق پڑ سکتا ہے۔‘اکبری منڈی کے تاجر انڈین مصالحہ جات دبئی کے ذریعے پاکستان میں درآمد کرتے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)پاکستان فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے انڈیا سے سنہ 2024 اور 25 میں 45 کروڑ ڈالر کی مصنوعات درآمد کی ہیں۔ تاہم دبئی، سنگاپور اور دیگر تھرڈ پارٹی ممالک کے ذریعے ہونے والی غیررسمی تجارت کا حجم کئی گنا زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ پانچ سے 10 ارب ڈالر کے درمیان ہے۔