پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ان دنوں چنگ چی رکشوں پر ایک مرتبہ پھر پابندی لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں جاری سموگ کے کیس میں عدالت نے غیرقانونی فیکٹریوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔چیف ٹریفک آفیسر ڈاکٹر اطہر وحید(سی ٹی او) لاہور نے عدالت کو بتایا کہ فیکڑیوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سمری پنجاب حکومت کو بھیج دی گئی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کوشش پہلی مرتبہ نہیں ہو رہی۔ پاکستان میں چنگ چی رکشے کی تاریخ سنہ 2000 سے شروع ہوتی ہے جب پہلی دفعہ اس کو چین سے درآمد کیا گیا۔ اس کے بعد اس کی مینوفیکچرنگ پاکستان میں بھی شروع ہو گئی۔حکومت اس رکشے کے خلاف کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سی ٹی او لاہور ڈاکٹر اطہر وحید نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’حکومت رکشوں کے نہیں ان کی غیرقانونی پیدوار کے خلاف ہے۔ مارکیٹ میں ہزاروں رکشے ایسے چل رہے ہیں جن کی رجسٹریشن درست نہیں ہے۔ یعنی اگر موٹر سائیکل کی رجسٹریشن ہے تو اس کے پیچھے جو باڈی ہے اس کی نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسی کوئی بھی گاڑی سڑک پر لانا جرم ہے جو رجسٹرڈ نہیں ہے۔ اس لیے حکومت اس حوالے سے سنجیدہ ہے اور اس پر عدالت کی آبزرویشن بھی آ چکی ہے۔ ہم نے عدالت کو بتا دیا ہے کہ اب غیرقانونی رکشے پر مکمل پابندی لگائی جا رہی ہے اور اس حوالے سمری اس وقت وزارت داخلہ میں ہے۔ سمری کے منظور ہوتے ہی ایک بڑا کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔‘
گذشتہ 10 برس سے لاہور میں چنگ چی رکشہ چلانے والے محمد عادل نے کہا کہ ’میرا یہ دوسرا رکشہ ہے جو میں میں نے سیکنڈ ہینڈ خریدا ہے۔ میرے پیسے لگے ہوئے ہیں، جب ہم نے خریدا تو اس وقت تو کسی نے کچھ نہیں کہا کہ یہ غلط ہے۔ امیروں کی باتیں ہیں ان کو کبھی شور پسند نہیں تو کبھی کچھ اور۔ یہ نہیں دیکھتے کہ کتنے غریبوں کا چولہا جلتا ہے۔ مجھے کوئی شوق نہیں رکشہ چلانے کا۔ حکومت مجھ سے لے لے اور اس کے پیسے دے دے یا مجھے کوئی اور کام دے۔ میرے تین بچے ہیں جو اسی رکشے کی وجہ سے دو وقت کی روٹی کھا رہے ہیں۔‘ایک اور رکشہ ڈرائیور فیاض نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یہ (پابندی کی باتیں) سب سنتے ہوئے کئی برس ہو گئے ہیں، یہ کوشش کرتے ہیں لیکن پھر ان کو پتہ چلتا ہے یہ تو ہو نہیں سکتا۔ یہ ہزاروں لوگوں کو بھوکا مار دیں گے۔ یہ ہمیں کہتے ہیں کہ رجسٹرڈ کروائیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ کہاں کروائیں۔ ہمارا رکشہ پکڑیں گے تو ہم چھوڑ کے گھر چلے جائیں گے اور کیا کر سکتے ہیں۔‘پاکستان میں سنہ 2000 میں پہلی دفعہ چین سے چنگ چی رکشے درآمد کیے گئے تھے۔ (فائل فوٹو: فیس بک)حال ہی میں حکومت نے اعلان کیا تھا کہ چنگ چی ڈرائیور کے لیے ہیلمٹ پہننا لازمی ہے، تاہم اس پر عمل درآمد نہیں کروایا جا سکا۔سی ٹی او لاہور کا کہنا ہے کہ ’اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے کیمرے بھی ان کا ریکارڈ ٹریس نہیں کر سکتے۔ شہر میں ایک لاکھ کے قریب ایسے رکشے ہیں جن میں سے اکثریت رجسٹرڈ نہیں ہے۔ گذشتہ برس 25 ایسی فیکٹریاں بند کی گئی تھیں جو غیرقانونی رکشے بنا رہی تھیں۔ اب ان کی پھر بھرمار ہو گئی ہے۔ اس دفعہ لیکن یہ معاملہ سنجیدہ ہے اور اب اس اقدام کو قانونی تحفظ حاصل ہو گا۔‘